ناگ راج بَندن کو اپنے گھر میں پکنے والی راگی کلی کی خوشبو یاد ہے۔ جب وہ چھوٹے تھے تو انہیں ہر روز اس کا انتظار رہتا تھا۔

پانچ دہائیوں بعد اب راگی کلی (راگی کے آٹے سے بنا پکوان) میں وہ ذائقہ نہیں رہا۔ ’’اب جو راگی ہمیں ملتی ہے اس کی خوشبو یا ذائقہ پہلے کی طرح نہیں ہوتا،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مزید اضافہ کرتے ہیں کہ راگی کلی اب کبھی کبھی ہی پکائی جاتی ہے۔

ناگ راج کا تعلق ایرولا (تمل ناڈو میں درج فہرست قبائل کے طور پر درج) برادری سے ہے اور وہ نیلگیری کے بوکّاپورم بستی کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنے والدین کے ذریعہ کاشت کی جانے والی راگی اور موٹے اناج (ملیٹ) کی دیگر فصلوں  جیسے  چولم (جوار)، کمبو (باجرا) اور سمائی (چھوٹا باجرا) کے ارد گرد بڑے ہوئے تھے۔ گھر کے استعمال کے لیے ہمیشہ چند کلو الگ رکھ کر باقی بازار بھیج دیے جاتے تھے۔

بالغ ہونے کے بعد جب ناگ راج نے کھیتی سنبھالی، تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد جتنی پیداورا حاصل کرتے تھے اس کے مقابلے میں ان کی پیداوار کافی کم ہوگئی تھی: ’’اب ہم محض اپنے کھانے بھر کے لیے [راگی] اگا پاتے ہیں، اور بعض اوقات اتنا بھی نہیں ہو پاتا،‘‘ انہوں نے پاری کو بتایا۔ وہ دو ایکڑ رقبے پر راگی اگاتے ہیں اور درمیان میں بین اور بیگن جیسی سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔

دوسرے کسانوں نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ ۴۵ سالہ ماری (صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ ان کے والد راگی کی ۱۰ سے ۲۰ بوریوں کی پیداوار حاصل کرتے تھے، لیکن اب انہیں اپنی دو ایکڑ  زمین سے محض ۲ سے ۳ بوریوں کی پیداوار ملتی ہے۔

ناگ راج اور ماری کے تجربات کی غمازی سرکاری اعداد و شمار بھی کرتے ہیں۔ نیلگیری میں راگی کی کاشت ۱۹۴۸-۴۹ میں ۱۳۶۹ ہیکٹر سے کم ہوکر ۱۹۹۸-۹۹ میں ۸۶ ہیکٹر رہ گئی ہے۔

پچھلی مردم شماری (۲۰۱۱) کے مطابق ضلع میں راگی کی کاشت صرف ایک ہیکٹیئر  زمین پر ہوتی ہے۔

PHOTO • Sanviti Iyer

ماری (بائیں)، سریش (درمیان) اور ناگ راج (دائیں) جیسے کسانوں نے دیکھا ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں نیلگیری میں راگی کی کاشت میں کمی آئی ہے۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ضلع میں موٹے اناج کی کاشت صرف ایک ہیکٹیئر زمین پر ہوتی ہے

PHOTO • Sanviti Iyer
PHOTO • Sanviti Iyer

ناگ راج بندن کے کھیت (بائیں) اور ماری کے کھیت (دائیں)۔ ناگ راج کا کہنا ہے کہ ’اب جو راگی ہم پیدا کرتے ہیں اس کی خوشبو یا ذائقہ پہلے کی طرح نہیں ہے‘

’’گزشتہ سال مجھے راگی کی کوئی فصل نہیں ملی تھی،‘‘ جون ۲۰۲۳ میں جو بیج انہوں نے ڈالے تھے اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناگ راج کہتے ہیں۔ ’’میرے بیج بونے سے پہلے بارش ہوئی، لیکن بعد میں نہیں ہوئی، نتجتاً وہ بیج سوکھ گئے۔‘‘

ایرولا برادری سے تعلق رکھنے والے ایک اور کسان سریش کہتے ہیں کہ راگی کے پودے اب آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں، کیونکہ وہ نئے بیج استعمال کر رہے ہیں۔ ’’ہم اب زراعت پر انحصار نہیں کر سکتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کے دو بیٹوں نے کھیتی ترک کر دی ہے اور کوئمبٹور میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔

اب بارش کے انداز زیادہ بے ترتیب ہو گئے ہیں۔ ’’پہلے چھ مہینے [مئی کے آخر سے اکتوبر کے شروع تک] بارش ہوتی تھی۔ لیکن اب ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ بارش کب ہوگی۔ دسمبر میں بھی ہوسکتی ہے،‘‘ ناگ راج کہتے ہیں۔ وہ ناقص پیداوار کے لیے بارش کی کمی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ’’ہم بارش پر اب زیادہ انحصار نہیں کر سکتے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

نیلگیری بائیو اسفیئر ریزرو مغربی گھاٹوں کے جنوبی حصے میں واقع ہے اور اسے یونیسکو نے بھرپور حیاتیاتی تنوع کے علاقے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ لیکن یہاں پودوں کی غیرمقامی انواع کو متعارف کرانا، اونچائی والی دلدلی زمین کو باغات میں تبدیل کرنا، اور نوآبادیاتی دور میں چائے کی کاشت ’’کی قیمت خطہ کی حیاتیاتی تنوع  کو ادا کرنی پڑی ہے،‘‘ مغربی گھاٹ ایکولوجی پینل کے ۲۰۱۱ کے مقالہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا۔

نیلگیری میں پانی کے دیگر ذرائع، جیسے مویار ندی، بہت دور ہیں۔ اور چونکہ ناگ راج کی زمین بوکّاپورم (مُڈوملائی ٹائیگر ریزرو کے بفر ژون) میں واقع ہے، اس لیے جنگل کے اہلکار انہیں بورویل کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ بی سِدّن بھی بوکّا پورم کے ایک کسان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنگلاتی حقوق کے قانون، ۲۰۰۶ نافذ ہونے کے بعد بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں۔ ’’سال ۲۰۰۶ سے قبل ہم جنگل سے پانی لے سکتے تھے، لیکن اب ہمیں جنگل میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں ہے،‘‘ ۴۷ سالہ سِدّن  کہتے ہیں۔

’’اتنی گرمی میں راگی کیسے پیدا ہوگی؟،‘‘ ناگ راج پوچھتے ہیں۔

زراعت سے ہونے والے اپنے نقصان کی تلافی اور روزی کمانے کے لیے ناگ راج مسینا گوڑی کے نواح میں واقع دوسرے کسانوں کے کھیتوں میں بطور مزدور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ ’’میں کہیں بھی ایک دن میں ۴۰۰ سے ۵۰۰ [روپے] کے درمیان کما سکتا ہوں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب مجھے کام مل جائے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کی بیوی ناگی بھی یومیہ مزدور ہیں۔ وہ ضلع کی بہت سی خواتین کی طرح قریبی چائے کے باغات میں کام کرتی ہیں اور روزانہ ۳۰۰ روپے کماتی ہیں۔

PHOTO • Sanviti Iyer
PHOTO • Sanviti Iyer

سریش کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے کھیت میں راگی کے جو نئے  بیج استعمال کر رہے ہیں اس کے پودے (بائیں) آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں۔ بی سِدّن (دائیں) کہتے ہیں کہ جنگلاتی حقوق کے قانون، ۲۰۰۶ نافذ ہونے کے بعد بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں: ’سال ۲۰۰۶ سے پہلے ہم جنگل سے پانی لا سکتے تھے، لیکن اب ہمیں جنگل میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں ہے‘

*****

کسان مذاق میں کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کو راگی اتنی ہی پسند ہے جتنی انہیں پسند ہے۔ سریش کہتے ہیں، ’’راگی کی خوشبو انہیں [ہاتھیوں کو] ہمارے کھیتوں تک کھینچ لاتی ہے۔ بوکّاپورم گاؤں سیگور ہاتھی راہداری میں واقع ہے۔ یہ راہدری ہاتھیوں کی آمد و رفت کے لیے مغربی اور مشرقی گھاٹوں کو جوڑتی ہے۔

انہیں یاد نہیں ہے کہ جب وہ جوان تھے تو ہاتھی ان کے کھیتوں میں اس تواتر سے آیا کرتے تھے۔ ’’حالانکہ ہم ہاتھیوں کو قصوروار نہیں ٹھہراتے،‘‘ یہ کہتے ہوئے سریش اضافہ کرتے ہیں، ’’بارش نہیں ہوتی اس لیے جنگل سوکھ رہے ہیں۔ ہاتھی کیا کھائیں گے؟ وہ خوراک کی تلاش میں جنگل چھوڑنے پر مجبور ہیں۔‘‘ گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق، نیلگیری ضلع میں ۲۰۰۲ سے ۲۰۲۲ کے درمیان جنگلات میں ۵۱۱  ہیکٹر کی کمی واقع ہوئی ہے۔

رنگئیّا کے کھیت بوکّاپورم سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع  میلبھوت ناتھم  بستی میں ہیں، لیکن وہ سریش سے متفق ہیں۔ پچاس سال سے زیادہ کے ہوچکے رنگئیّا ایک ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس زمین کا پٹہ نہیں ہے۔ ’’میرا خاندان ۱۹۴۷ سے پہلے سے اس زمین پر کھیتی کرتا آ رہا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ سولیگا آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے  رنگئیّا اپنی زمین کے قریب ہی موجود ایک سولیگا مندر کا انتظام و انصرام دیکھتے ہیں۔

رنگئیّا نے ہاتھیوں کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں سے راگی اور دیگر موٹے اناج کی کاشت بند کر دی تھی۔ ’’وہ [ہاتھی] آتے تھے اور سب کچھ صاف کر جاتے تھے،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اضافہ کرتے ہیں، ’’ایک بار جب ہاتھی کھیت میں آتا ہے اور راگی چکھ لیتا ہے، تو وہ بار بار آتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے بہت سے کسانوں نے راگی اور دیگر موٹے اناج اگانا چھوڑ دیا ہے۔ رنگئیّا اب گوبھی اور بین جیسی سبزیاں اگانا شروع کرچکے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ کسانوں کو رات بھر رکھوالی کرنی پڑتی ہے، اور اگر وہ غلطی سے سو گئے تو ہاتھیوں سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ’’کسان راگی نہیں بوتے کیونکہ وہ ہاتھیوں سے ڈرتے ہیں۔‘‘

ان کسانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی بازار سے راگی جیسے موٹے اناج نہیں خریدے اور جو اگایا وہی کھایا۔ چنانچہ جس طرح انہوں نے اس کی کاشت بند کردی، ویسے اسے کھانا بھی چھوڑ دیا۔

PHOTO • Sanviti Iyer
PHOTO • Sanviti Iyer

میلبھوت ناتھم بستی کے رہائشی رنگئیّا سولیگا کسان ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں راگی اگانا شروع کیا تھا، جب ایک مقامی این جی او نے ان کے کھیتوں کو ہاتھیوں اور دیگر جانوروں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے انہیں اور دیگر کسانوں کو شمسی باڑ فراہم کیا تھا

PHOTO • Sanviti Iyer
PHOTO • Sanviti Iyer

رنگئیّا اپنے کھیت کے نزدیک واقع سولیگا مندر (بائیں) کا بھی انتظام و انصرام دیکھتے ہیں۔ اناکٹی گاؤں سے تعلق رکھنے والی للیتا مُکاسامی (دائیں) ایک مقامی این جی او کی ہیلتھ فیلڈ کوآرڈینیٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’جب موٹے اناج کی کاشت کم ہو گئی، تو ہمیں راشن کی دکانوں سے کھانا خریدنا پڑا، جس کے ہم عادی نہیں تھے‘

ایک مقامی این جی او نے انہیں اور دوسرے کسانوں کو ہاتھیوں اور دوسرے جانوروں سے کھیتوں کی حفاظت کے لیے شمسی باڑ فراہم کیا ہے۔ رنگئیّا نے اپنے کھیت کے آدھے حصے میں دوبارہ راگی کی کاشت شروع کر دی ہے، جبکہ دوسرے حصے میں سبزیوں کی کاشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلی فصل سے حاصل لہسن اور بین کو انہوں نے بازار میں فروخت کرکے ۷۰۰۰ روپے کی آمدنی حاصل کی تھی۔

موٹے اناج کی کاشت میں کمی کا مطلب کھانے کی عادات میں تبدیلی بھی ہے۔ ’’موٹے اناج کی کاشت کم ہونے کے بعد ہمیں راشن کی دکانوں سے کھانا خریدنا پڑتا تھا، جس کے ہم عادی نہیں تھے،‘‘ ایک مقامی این جی او کی ریزیڈنٹ اور ہیلتھ فیلڈ کوآرڈینیٹر للیتا مکاسامی کہتی ہیں اور یہ بھی اضافہ کرتی ہیں کہ راشن کی دکانیں زیادہ تر چاول اور گندم فروخت کرتی تھیں۔

’’جب میں چھوٹی تھی تو میں دن میں تین دفعہ راگی کلی کھاتی تھی، لیکن اب مشکل سے ہی کبھی کھانے کو ملتی ہے۔ ہمارے پاس اب صرف ارسی سَپت [چاول سے بنا کھانا] ہے جسے بنانا آسان ہے،‘‘ للیتا کہتی ہیں۔ ان کا تعلق ایرولا آدیواسی برادری سے ہے، اور وہ انائی کَٹّی گاؤں کی رہنے والی ہیں  اور گزشتہ ۱۹سال سے اس برادری کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کھانے کی عادات میں تبدیلی کی وجہ سے صحت کے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ملیٹس ریسرچ (آئی آئی ایم آر) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’’کچھ معلوم غذائی اجزاء، وٹامن، معدنیات، ضروری فیٹی ایسڈ غذائیت کی کمی سے ہونے والی بیماریوں کو روکنے کے علاوہ تنزلی کی بیماریوں کی روک تھام میں بھی فائدہ مند ہیں۔‘‘ تلنگانہ میں قائم یہ ادارہ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کا حصہ ہے۔

راگی اور تینئی [کنگنی] کبھی کھانے کا اہم حصہ ہوا کرتے تھے۔ ہم انہیں سرسوں کے پتوں اور کاٹ کیرئی [جنگل میں پائی جانے والی پالک] کے ساتھ کھاتے تھے،‘‘ رنگئیّا کہتے ہیں۔ انہیں یاد نہیں کہ آخری بار انہوں نے یہ کب کھایا تھا: ’’اب ہم جنگل میں جاتے ہی نہیں ہیں۔‘‘

رپورٹر اسٹوری میں تعاوں کے لیے کی اسٹون فاؤنڈیشن کے شری رام پرم سیون کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam