کرن کھانا بناتی ہے، صاف صفائی کرتی ہے اور گھر سنبھالتی ہے۔ وہ جلاون کی لکڑیاں اکٹھا کرنے کے علاوہ، پانی بھی بھر کر گھر لے آتی ہے، اور جیسے جیسے گرمیاں بڑھتی ہیں اسے اس کام کے لیے مزید لمبا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔
وہ صرف ۱۱ سال کی ہے اور اس کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے – اس کے والدین ہر سال کام کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں اور بانس واڑہ ضلع میں واقع اس کے گاؤں (نام پوشیدہ رکھا گیا ہے) میں گھر پر اور کوئی نہیں ہوتا ہے۔ اس کا ۱۸ سالہ بھائی وکاس (بدلا ہوا نام) گاؤں میں ہی ہے، لیکن وہ کسی بھی وقت مہاجرت کر سکتا ہے، جیسا کہ وہ پہلے بھی کرتا رہا ہے۔ ان کے بقیہ تین بھائی بہن، جن کی عمر تین سے ۱۳ سال کے درمیان ہے، اپنے والدین کے ساتھ ہیں، جو گجرات کے وڈودرا میں تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں۔ وہ اسکول نہیں جا پاتے، لیکن کرن اسکول جاتی ہے۔
کرن (بدلا ہوا نام) اس رپورٹر کو اپنے روزانہ کے معمول کے بارے میں بتاتی ہے، ’’میں صبح کچھ کھانے کو بنا لیتی ہوں۔‘‘ ایک کمرے کی ان کی جھونپڑی کا تقریباً آدھا حصہ باورچی خانہ گھیر لیتا ہے اور چھت سے لٹکتی ایک فلیش لائٹ سورج ڈھلنے کے بعد روشنی کے کام آتی ہے۔
کونے میں چولہا ہے، جو لکڑیوں سے جلتا ہے؛ چولہے کے قریب ہی لکڑیاں اور ایندھن کا ایک پرانا ڈبہ رکھا ہوا ہے۔ سبزیاں، مسالے اور باقی سامان پلاسٹک کی تھیلیوں اور ڈبوں میں رکھے ہوئے ہیں، جو فرش پر ہیں اور جھونپڑی کی دیواروں سے لٹکتے ملتے ہیں – جہاں تک کرن کے چھوٹے ہاتھ آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ ’’میں شام کو اسکول سے آنے کے بعد رات کا کھانا بھی بناتی ہوں۔ پھر مرغیوں کو دیکھتی ہوں اور اس کے بعد ہم سو جاتے ہیں،‘‘ کرن بتاتی ہے۔
وہ شرماتے شرماتے اپنی کہانی بتاتی ہے، اور گھر کے کئی سارے کاموں کے بارے میں بتانا بھول جاتی ہے۔ مثلاً، قریب کی پہاڑیوں (جسے مقامی لوگ بجلیا یا داوڑا کھورا کہتے ہیں) کے نیچے جنگلات سے جلاون کی لکڑیاں اکٹھا کرنا اور گھر لے آنا۔ کرن کو وہاں جانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ پھر لکڑی کاٹنے، اکٹھا کرنے اور ڈھیر بنا کر باندھنے میں ایک گھنٹہ اور لگتا ہے۔ اس کے بعد، لکڑیوں کے کئی کلو بھاری گٹھر کو اٹھا کر گھر لوٹنے میں بھی ایک گھنٹہ لگتا ہے، جو اس پتلی دبلی بچی سے لمبا اور شاید زیادہ وزنی ہوتا ہے۔
کرن اپنے ایک اور اہم کام کے بارے میں بتاتی ہے، ’’میں پانی بھی بھر کر لاتی ہوں۔‘‘ کہاں سے؟ ’’ہینڈ پمپ سے۔‘‘ ہینڈ پمپ اس کی پڑوسن اسمیتا کے گھر میں ہے۔ اسمیتا (۲۵) کہتی ہیں، ’’ہمارے یہاں دو ہینڈ پمپ ہیں۔ گاؤں کے سبھی آٹھ گھر یہیں سے پانی بھرتے ہیں۔ جب گرمیاں آ جاتی ہیں اور ہینڈ پمپ خشک ہو جاتے ہیں، تو لوگ گڑھے [بجلیا پہاڑی کے کنارے واقع قدرتی تالاب] سے پانی بھرنے لگتے ہیں۔‘‘ گڑھا کافی دور ہے اور خاص طور پر کرن جیسی بچی کے لیے یہ فاصلہ کافی لمبا ہے۔
سردیوں کی ٹھنڈ میں شلوار قمیض اور بینگنی سویٹر پہنے کرن اپنی عمر سے کافی بڑی نظر آتی ہے۔ لیکن جب وہ بتاتی ہے، ’’ممی پاپا سے روز بات ہوتی ہے…فون پہ،‘‘ تو اس کی کم عمری کی جھلک اس کے چہرے پر اتر آتی ہے۔
جنوبی راجستھان، جہاں بانس واڑہ ضلع واقع ہے، کے زیادہ تر گھروں سے لوگ کام کی تلاش میں مہاجرت کرتے ہیں۔ اور کرن کی فیملی جیسے بھیل آدیواسی، ضلع کی آبادی میں ۹۵ فیصد سے زیادہ کی حصہ داری رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ زمین اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے بچوں کو گھر پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے بچوں کے اوپر بوجھ تو پڑتا ہی ہے، اس کے علاوہ اکیلے رہنے کی وجہ سے ان پر ایسے لوگوں کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا ہے جو انہیں کمزور دیکھ کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
جنوری کے ابتدائی دن ہیں اور یہاں کے کھیت سوکھی جھاڑیوں سے بھورے نظر آتے ہیں یا ان میں کپاس کی تیار فصل ملتی ہے، جو توڑنے کے لیے تیار ہے۔ چونکہ فی الحال سردی کی چھٹیاں چل رہی ہیں، تمام بچے گھر کی زمینوں پر کام کرنے، جلاون کی لکڑیاں اکٹھا کرنے یا مویشی چرانے میں مصروف ہیں۔
وکاس اس بار گھر پر رکا ہے، لیکن پچھلے سال اپنے ماں باپ کے ساتھ گیا تھا۔ ’’میں نے [تعمیراتی مقامات پر] ریت ملانے والی مشینوں پر کام کیا تھا،‘‘ وہ بتاتا ہے۔ وہ اس وقت کپاس چُن رہا ہے۔ وہ مزید کہتا ہے، ’’ہمیں ایک دن کے کام کے عوض ۵۰۰ روپے ملتے تھے، لیکن سڑک کے کنارے رہنا پڑتا تھا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔‘‘ اس لیے وہ دیوالی (۲۰۲۳) کے آس پاس واپس لوٹ آیا، جب تعلیمی سال پھر سے شروع ہوا تھا۔
وکاس کو امید ہے کہ وہ جلد ہی گریجویشن کی ڈگری حاصل کر لے گا۔ ’’پہلے سبھی کام پورا کرتے ہیں، پھر پڑھنے بیٹھتے ہیں،‘‘ وہ پاری کو بتاتا ہے۔
کرن بھی تیزی سے یہ بتانے میں پیچھے نہیں رہتی کہ اسے اسکول میں کیا پسند آتا ہے: ’’مجھے ہندی اور انگریزی پڑھنا پسند ہے۔ مجھے سنسکرت اور ریاضی پسند نہیں ہے۔‘‘
کرن کو مڈ ڈے میل اسکیم کے تحت اسکول میں دوپہر کا کھانا ملتا ہے: ’’کسی دن سبزی، کسی دن چاول،‘‘ وہ بتاتی ہے۔ لیکن کھانے کی بقیہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھائی بہن مل کر اپنی زمین پر پاپڑ (سیم) اُگاتے اور اکٹھا کرتے ہیں اور پتہ دار سبزیاں خریدتے ہیں۔ باقی راشن سرکار کی طرف سے مل جاتا ہے۔
وکاس کہتا ہے، ’’ہمیں ۲۵ کلو گیہوں ملتا ہے اور تیل، مرچ، ہلدی اور نمک وغیرہ بھی۔ ہمیں ۵۰۰ گرام مونگ اور چنے کی دال بھی ملتی ہے۔ اس سے ہم دونوں کا مہینہ نکل جاتا ہے۔‘‘ لیکن، جب پوری فیملی لوٹ آتی ہے، تو یہ کافی نہیں ہوتا۔
کھیتی سے ہونے والی آمدنی فیملی کے اخراجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ بھائی بہن جو مرغیاں پالتے ہیں ان سے اسکول کی فیس اور روزمرہ کے تھوڑے بہت خرچے نکل جاتے ہیں، لیکن جب یہ پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو ان کے والدین کو پیسے بھیجنے پڑتے ہیں۔
منریگا کے تحت مزدوری بڑے پیمانے پر ہر جگہ الگ الگ ہوتی ہے، لیکن راجستھان میں یومیہ اجرت – ۲۶۶ روپے – وڈودرا میں کرن اور وکاس کے ماں باپ کو پرائیویٹ ٹھیکیداروں سے ملنے والے ۵۰۰ روپے یومیہ سے تقریباً آدھی پڑتی ہے۔
یومیہ اجرت میں ایسی غیر برابری کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ کشل گڑھ شہر کے بس اڈہ پر ہمیشہ بھیڑ نظر آتی ہے۔ یہاں سے ہر دن تقریباً ۴۰ سرکاری بسیں ایک بار میں ۱۰۰-۵۰ لوگوں کو لے کر جاتی ہے: پڑھیں: بانس واڑہ کے مہاجر مزدوروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں
جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں، انہیں بھی مزدوری کے لیے اپنے ماں باپ کے ساتھ جانا پڑتا ہے، اس لیے حیرانی کی بات نہیں ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ راجستھان میں اسکول کے داخلہ میں تیز گراوٹ درج کی جاتی ہے۔ اسمیتا، جو ایک سماجی کارکن ہیں، روایتی تعلیم کی کمی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہاں زیادہ تر لوگ ۸ویں یا ۱۰ویں جماعت تک ہی پڑھ پاتے ہیں۔‘‘ وہ خود بھی مہاجرت کر کے احمد آباد اور راج کوٹ جاتی تھیں، لیکن اب گھر کے کپاس کے کھیتوں میں کام کرتی ہیں، اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری کر رہی ہیں اور دوسروں کی بھی مدد کرتی ہیں۔
دو دن بعد جب اس رپورٹر کی ملاقات کرن سے دوبارہ ہوئی، تب وہ کشل گڑھ کی ایک غیر سرکاری تنظیم، آجیوکا بیورو کی مدد سے علاقہ میں اسمیتا جیسی نوجوان خواتین رضاکاروں کے ذریعہ منعقد ایک پبلک میٹنگ میں حصہ لے رہی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو الگ الگ قسم کی تعلیم، پیشوں اور ان کے مستقبل کے بارے میں بیدار کیا جا رہا ہے۔ انہیں آرگنائزر کے ذریعہ بار بار کہا جا رہا ہے، ’’آپ جو چاہیں وہ بن سکتی ہیں۔‘‘
میٹنگ کے بعد، کرن گھر کے لیے نکل جاتی ہے۔ اسے پانی کا ایک اور برتن بھرنا ہے اور شام کا کھانا تیار کرنا ہے۔ لیکن وہ پھر سے اسکول جانے، اپنے دوستوں سے ملنے اور وہ تمام کام کرنے کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے جو چھٹیوں کے دوران نہیں کر سکی۔
مترجم: محمد قمر تبریز