’کسے پتہ تھا ایمرجنسی بھیس بدل کر آئے گی
تاناشاہی نئے دور میں جمہوریت کہلائے گی‘

ایسے دور میں جب اختلاف رائے کو دبایا جا رہا ہے اور متفق نہ ہونے والے لوگوں کو یا تو خاموش کرایا جا رہا ہے یا انہیں جیل میں ڈالا جا رہا ہے یا دونوں چیزیں ایک ساتھ کی جا رہی ہیں، ایک احتجاجی گیت سے لیا گیا یہ شعر ایک بار پھر کسانوں اور مزدوروں کے جذبات کی ترجمانی کرتا نظر آیا، جب وہ سرخ، سبز اور زرد رنگ کے جھنڈوں کو لہراتے ہوئے رام لیلا میدان پہنچے۔

گزشتہ ۱۴ مارچ، ۲۰۲۴ کو سنیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کے بینر تلے منعقد کسان مزدور مہا پنچایت میں حصہ لینے اے آئی کے ایس (آل انڈیا کسان سبھا)، بی کے یو (بھارتیہ کسان یونین)، اے آئی کے کے ایم ایس (آل انڈیا کسان کھیت مزدور سنگٹھن) اور دیگر کسان تنظیمیں تاریخی رام لیلا میدان پہنچیں۔

کلاں گاؤں کی کسان پریماوتی نے پاری سے کہا، ’’تین زرعی قوانین کے ردّ ہونے کے بعد حکومت نے کچھ وعدے کیے تھے، مگر وہ ابھی تک ادھورے ہی ہیں۔ انہیں اب ان کو پورا کرنا چاہیے، ورنہ ہم لڑیں گے اور لڑتے رہیں گے۔‘‘ وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کی بات کر رہی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’’تین سال پہلے (بھی) ہم یہاں تحریک چلا رہے تھے۔‘‘ پریماوتی اتر پردیش کے شاہجہاں پور ضلع سے مہا پنچایت میں حصہ لینے آئے کسانوں میں سے ایک تھیں۔ وہ کسانوں کی تنظیم، بھارتیہ کسان یونین کے ساتھ جڑی ہیں۔ انہوں نے غصے سے کہا، ’’سرکار پھل پھول رہی ہے، مگر انہوں نے کسانوں کو برباد کر دیا ہے۔‘‘

پاری نے جن خواتین سے بات کی، وہ سبھی چھوٹی کسان تھیں جو ۵-۴ ایکڑ زمین پر کام کرتی ہیں۔ ہندوستان میں ۶۵ سے زیادہ زرعی کام خواتین کسان اور مزدور کرتی ہیں، لیکن صرف ۱۲ فیصد خواتین کسانوں کے نام پر زمین ہوتی ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: بائیں سے دائیں – اتر پردیش کے شاہجہاں پور ضلع سے بی کے یو کی پریماوتی، کرن اور جشودا۔ دائیں: ۱۴ مارچ، ۲۰۲۴ کو دہلی کے رام لیلا میدان میں پنجاب اور ہریانہ کے کسان

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: پنجاب کی خواتین کسان اور زرعی مزدور۔ دائیں: ’کسان مزدور ایکتا زندہ آباد!‘ کا نعرہ بلند کرتے پنجاب کے کسان

کسان مزدور کمیشن، نیشن فار فارمرز آندولن کی ایک پہل ہے جو خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو درج کرتی ہے۔ گزشتہ ۱۹ مارچ، ۲۰۲۴ کو نئی دہلی میں ہوئی ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کے ایم سی کی طرف سے سال ۲۰۲۴ کا ایجنڈہ جاری کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا: ’’خواتین کو کسان کے طور پر منظوری دی جائے اور انہیں زمین کا مالکانہ حق دیا جائے، پٹّہ پر دی گئی زمین پر ان کے کاشتکاری کے حقوق محفوظ کیے جائیں۔‘‘ اس میں مزید کہا گیا، ’’زرعی کام کے مقامات پر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کریچ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔‘‘

پی ایم کسان سمّان ندھی جیسی ریاستی اسکیموں میں، جو کسانوں کو ۶۰۰۰ روپے سالانہ کی آمدنی دیتی ہیں، خواتین کسانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ صرف قابل کاشت زمین کے مالکوں کے لیے ہی ہے۔ اس اسکیم میں کاشتکار کسانوں کو بھی نقصان ہوتا ہے۔

اس سال ۳۱ جنوری، ۲۰۲۴ کو بجٹ اجلاس شروع ہونے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے کہا تھا کہ حکومت نے اب تک پی ایم کسان یوجنا کے تحت ۲۵ء۲ لاکھ کروڑ روپے تقسیم کیے ہیں، جس میں سے ۵۴ ہزار کروڑ روپے خواتین کو ملے ہیں۔

اس کا موٹا موٹا مطلب ہے کہ مرد کسانوں کو ملے ہر تین روپے میں سے خواتین کسانوں کو ایک روپیہ ملا۔ مگر دیہی ہندوستان میں خواتین کے ایک بڑے حصے کی کھیتی میں حصہ داری کو دیکھیں، تو ۸۰ فیصد خواتین بغیر اجرت لیے خاندانی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ایسے میں جنسی نا انصافی مزید خطرناک ہو جاتی ہے۔

اسٹیج سے بولنے والی واحد خاتون لیڈر میدھا پاٹکر نے وہ نعرہ دہرایا، جو اکثر پہلے احتجاجی مظاہرے کے دوران سنا جاتا تھا: ’’ناری کے سہیوگ کے بنا ہر سنگھرش ادھورا ہے (خواتین کے تعاون کے بغیر ہر جدوجہد ادھوری ہے)۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: پنجاب کے سنگرور ضلع کے کپیال گاؤں کی کسان چھندر بالا (درمیان میں بیٹھی ہوئیں)۔ دائیں: ’خواتین کے تعاون کے بغیر ہر جدوجہد ادھوری ہے‘

ان کے ان الفاظ کا کئی خواتین مظاہرین نے استقبال کیا جو خواتین اور کسانوں کے بطور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ مہا پنچایت میں ایک تہائی تعداد عورتوں کی ہی تھی۔ پنجاب کے سنگرور ضلع کے کپیال گاؤں کی خاتون کسان چھندر بالا کہتی ہیں، ’’ہماری لڑائی مودی سرکار سے ہے۔ انہوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ہم سبھی کے پاس تین چار کِلّہ [ایکڑ] کے چھوٹے کھیت ہیں۔ بجلی مہنگی ہے۔ وعدہ کیا تھا، مگر انہوں نے [بجلی ترمیم] بل واپس نہیں لیا ہے۔‘‘ سال ۲۱-۲۰۲۰ میں دہلی کی سرحدوں پر ہوئے احتجاجی مظاہرے میں خواتین کسانوں اور مزدوروں کے طور پر اپنے حق اور وقار کے لیے مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہی تھیں۔

*****

مہا پنچایت صبح ۱۱ بجے شروع ہوئی اور کچھ ہی دیر میں میدان کئی ریاستوں کے کسانوں اور کارکنوں سے بھر گیا۔

پنجاب کے کئی مرد کسانوں میں سے بھٹنڈا ضلع کے سردار بلجندر سنگھ نے پاری کو بتایا، ’’ہم یہاں کسان کے طور پر اپنا حق مانگنے آئے ہیں۔ ہم یہاں نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘

کارکن میدھا پاٹکر نے اسٹیج سے کہا، ’’میں یہاں ان سبھی کو سلام کرتی ہوں جن کی روزی روٹی قدرت کے سہارے چلتی ہے – کسان، ماہی گیر، مویشی پرور، چرواہے، جنگلات کے محافظ، زرعی مزدور، آدیواسی اور دلت۔ ہم سبھی کو اپنے پانی، جنگل اور زمین کو بچانے کی ضرورت ہے۔‘‘

سنیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) میں شامل کسان تنظیموں کے ۲۵ سے زیادہ لیڈر اسٹیج پر لگی کرسیوں کی دو قطاروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مرد تھے، صرف تین خواتین پہلی قطار کے درمیان میں نمایاں طور پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ تھیں پنجاب کے بی کے یو اگراہاں کی ہرندر بندو، مدھیہ پردیش سے کسان سنگھرش سمیتی (کے ایس ایس) کی آرادھنا بھارگو اور مہاراشٹر سے نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ (این اے پی ایم) کی میدھا پاٹکر۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: کسان مزدور مہا پنچایت میں سنیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) بنانے والے کسان اور مزدور تنظیموں کے لیڈر۔ دائیں: اسٹیج پر بائیں سے دائیں – پنجاب کے بی کے یو اُگراہاں کی ہرندر بندو، مدھیہ پردیش سے کسان سنگھرش سمیتی (کے ایس ایس) کی آرادھنا بھارگو اور مہاراشٹر سے نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ (این اے پی ایم) کی میدھا پاٹکر

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: پنجاب کے ایک کسان اپنے فون کے کیمرے میں جم غفیر کی تصویریں قید کر رہے ہیں۔ دائیں: بھارتیہ کسان یونین کے کسان اور کارکن

مقررین نے ایس کے ایم کے اہم مطالبات دہرائے۔ ان میں سے سب سے اہم گارنٹی شدہ خرید کے ساتھ سبھی فصلوں کے لیے سی۲ + ۵۰ فیصد پر ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) کی قانونی گارنٹی۔ سی۲ پیداوار کی لاگت بتاتی ہے جس میں استعمال کی گئی ملکیت والی زمین کا کرایہ، پٹّے پر دی گئی زمین کا کرایہ اور خاندانی محنت کی قیمت شامل ہوتی ہے۔

فی الحال بوائی کے سیزن سے پہلے ۲۳ فصلوں کے لیے ایم ایس پی میں نہ تو زمین کا کرایہ شامل ہے اور نہ اس میں اضافی ۵۰ فیصد شامل ہے، جیسی کسانوں کے قومی کمیشن کی رپورٹ میں پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) وزن کی گئی پیداوار کی اوسط لاگت سے کم از کم ۵۰ فیصد زیادہ ہونی چاہیے۔ کسانوں کی ’اصل گھریلو آمدنی‘ نوکر شاہوں (سول سرونٹس) کی آمدنی کے برابر ہونی چاہیے۔‘‘

پاٹکر نے بیج کی پیداوار پر کارپوریٹ کے قبضے، بڑی کمپنیوں کے ذریعے افریقی ممالک میں زراعت پر کنٹرول اور وبائی مرض کے دوران بھی امیروں کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ کے ایشو اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف سبزیوں سمیت سبھی فصلوں کے لیے مناسب مزدوری کی کسانوں کی مانگ کو بھی سرکار نے پورا نہیں کیا، اور دعویٰ کیا کہ یہ مالی بوجھ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’’بے حد امیروں کی جائیداد پر دو فیصد کا چھوٹا سا ٹیکس آسانی سے سبھی فصلوں کے لیے ایم ایس پی کا احاطہ کر لے گا۔‘‘

سبھی کسانوں کے لیے پوری طرح قرض معافی کا مطالبہ طویل عرصے سے چل رہا ہے، جس کا وعدہ مرکزی حکومت نے تین زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے بعد ۹ دسمبر، ۲۰۲۱ کو ایس کے ایم کے ساتھ اپنے معاہدے میں کیا تھا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔

قرض کا جال کسانوں کو پریشان کرتا رہا ہے، جسے ان کی بڑھتی ہوئی خودکشی کی تعداد میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سال ۲۰۱۴ سے ۲۰۲۲ کے درمیان بڑھتے قرض کے بوجھ سے دبے ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی تھی۔ وہ ان سرکاری پالیسیوں کے سبب ایسا کرنے کو مجبور ہوئے، جن میں سبسڈی واپس لینا، منافع بخش آمدنی سے روکنا، اور پی ایم ایف بی وائی (پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا) کے تحت ایک ناقص اور خراب طریقے سے نافذ فصل بیمہ شروع کرنا شامل ہے۔ قرض معافی نعمت ثابت ہو سکتی تھی، مگر سرکار نے وہ بھی نہیں دی۔

ویڈیو دیکھیں: ۱۴ مارچ، ۲۰۲۴ کو نئی دہلی میں کسان مزدور مہا پنچایت میں گونجتے انقلابی نعرے اور گیت

کسان اور مزدور رام لیلا میدان میں مارچ کر رہے ہیں، اور ایک شاعر کے اشعار نعرے کی طرح گونجتے ہیں: ’کسے پتہ تھا ایمرجنسی بھیس بدل کر آئے گی، تانا شاہی نئے دور میں جمہوریت کہلائے گی‘

مہا پنچایت میں اے آئی کے ایس (آل انڈیا کسان سبھا) کے جنرل سکریٹری ویجو کرشنن نے کہا، ’’پچھلے دس سال میں ۲ء۴ لاکھ سے زیادہ کسانوں، زرعی مزدوروں اور دہاڑی مزدوروں نے خودکشی کی ہے، جو ملک میں سنگین زرعی بحران کی علامت ہے۔‘‘

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی ہندوستان میں حادثہ کے سبب ہوئی اموات اور خودکشیوں (اے ڈی ایس آئی) سے جڑی سال ۲۰۲۲ کی رپورٹ میں کل ۷ء۱ لاکھ سے زیادہ خودکشیاں درج کی گئیں۔ ان میں سے ۳۳ فیصد (۵۶۴۰۵) خودکشیاں دہاڑی اور زرعی مزدوروں اور کسانوں کی تھیں۔

ان کا موازنہ پرائیویٹ بیمہ کمپنیوں کی کمائی سے کریں، جنہوں نے ۲۰۱۶ سے ۲۰۲۱ کے درمیان ۲۴۳۵۰ کروڑ روپے کمائے۔ دس کمپنیوں (منتخب کی گئی ۱۳ میں سے) کو سرکار سے فصل بیمہ کاروبار ملا۔ ایک اور فائدے کے سودے میں کارپوریٹ گھرانوں کو ۲۰۱۵ سے ۲۰۲۳ کے درمیان قرض میں ۵۶ء۱۴ لاکھ کروڑ روپے کی چھوٹ ملی۔

مالی سال ۲۵-۲۰۲۴ کے بجٹ میں سرکار نے کھیتی کے لیے ۷۹ء۱۱۷۵۲۸ کروڑ روپے مختص کیے۔ اس میں سے ۸۳ فیصد آمدنی میں مدد دینے والی پرائیویٹ مستفیدین پر مبنی اسکیموں کے لیے ہے۔ ایک عمدہ مثال کسان سمّان ندھی یوجنا کی ہے، جس میں زمین والے کسان خاندانوں کو سالانہ ۶۰۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔ کسانوں میں سے تقریباً ۴۰ فیصد کاشتکاروں کو ان کی آمدنی میں یہ مدد نہیں ملتی اور نہ ملے گی۔ بے زمین زرعی مزدوروں اور خواتین کسان جو کھیتوں پر کام کرتی ہیں ان کے نام پر زمین نہیں ہے، انہیں بھی یہ فائدے نہیں ملیں گے۔

منریگا کے ذریعے چھوٹے اور معمولی کسانوں اور زرعی مزدوروں کے دیہی خاندانوں کو ملنے والی دوسری رقم کم کر دی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے مختص بجٹ کا حصہ ۲۴-۲۰۲۳ میں ۹۲ء۱ فیصد سے گھٹ کر ۲۵-۲۰۲۴ میں ۸ء۱ فیصد رہ گیا ہے۔

کسان یونینوں کے یہ تمام ایشوز اور مطالبات ۱۴ مارچ، ۲۰۲۴ کو رام لیلا میدان کے اسٹیج سے دہرائے گئے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: رام لیلا میدان میں میڈیکل ٹیم کے ذریعے مرگی سے متاثرہ ایک کسان کا علاج کیا جا رہا ہے۔ کسانوں کا یہ گروپ کرنال سے ایک تھکا دینے والا سفر کر کے آیا ہے۔ دائیں: جھنڈے پر لکھا ایک مشہور نعرہ، ’ہر زور ظلم کی ٹکر میں، سنگھرش ہمارا نعرہ ہے‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: لمبی دوری کے مارچ کے بعد ہریانہ کے کسان تھوڑا آرام کر رہے ہیں۔ دائیں: نئی دہلی کی اونچی عمارتوں کے پس منظر میں رام لیلا میدان میں بیٹھے پنجاب کے تین بزرگ کسان اپنے مضبوط پیروں کو آرام دے رہے ہیں

اس میدان میں رامائن کا سالانہ اسٹیج شو ہوتا ہے۔ ہر سال فنکار نوراتری اُتسو کے دوران مناظر کو پیش کرتے ہیں، جو برائی پر اچھائی اور جھوٹ پر سچ کی جیت کی علامت ہے۔ مگر اسے ’تاریخی‘ کہنے کی یہی وجہ نہیں ہے۔ تو پھر کیا ہے؟

یہیں پر عام ہندوستانیوں نے جدوجہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کو بولتے سنا تھا۔ سال ۱۹۶۵ میں ہندوستان کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اسی میدان سے ’جے جوان، جے کسان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ سال ۱۹۷۵ میں اندرا گاندھی کی بے لگام حکومت کے خلاف جے پرکاش نارائن کی ایک بڑی ریلی یہیں ہوئی تھی، جس کے بعد ۱۹۷۷ میں عام انتخابات کے فوراً بعد حکومت گر گئی تھی۔ سال ۲۰۱۱ میں انڈیا اگینسٹ کرپشن کی تحریک اسی میدان سے شروع ہوئی تھی۔ دہلی کے موجودہ وزیر اعلیٰ اروند کجریوال اسی تحریک سے لیڈر کے طور پر ابھرے تھے۔ اس اسٹوری کے شائع ہونے کے وقت انہیں ۲۰۲۴ کے عام انتخابات سے کچھ ہفتے پہلے مبینہ بدعنوانی کے الزام میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گرفتار کر لیا تھا۔

اسی رام لیلا میدان میں ۳۰ نومبر، ۲۰۱۸ کو کسان مُکتی مورچہ کے لیے ملک بھر سے کسان اور کارکن دہلی پہنچے تھے اور پارلیمنٹ اسٹریٹ تک مارچ کیا تھا، اور بی جے پی حکومت سے وہ مطالبات پورا کرنے کو کہا جن کا انہوں نے ۲۰۱۴ کے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا۔ سال ۲۰۱۸ میں حکومت نے ۲۰۲۲ تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کا ایک اور وعدہ کیا تھا۔ وہ بھی ادھورا ہے۔

تاریخی رام لیلا میدان میں سنیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کے تحت کسانوں اور زرعی مزدوروں کی کسان و مزدور مہا پنچایت نے اپنے مطالبات کے لیے جدوجہد جاری رکھنے اور مرکزی میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت کے ذریعے ۹ دسمبر، ۲۰۲۱ کو ایس کے ایم سے کیے وعدے پورا کرنے سے انکار کرنے کے خلاف احتجاج کرنے کا عزم کیا۔

پریماوتی کے الفاظ میں، ’’ہم اپنا بوریا بستر لے کر دہلی لوٹیں گے۔ دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔ ہم واپس نہیں جائیں گے، جب تک مطالبات پورے نہ ہوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Namita Waikar is a writer, translator and Managing Editor at the People's Archive of Rural India. She is the author of the novel 'The Long March', published in 2018.

Other stories by Namita Waikar
Photographs : Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique