ڈھیوری گاؤں کی ۲۹ سالہ کسان کرونا دیوی افسوس اور اداسی کے ساتھ کہتی ہیں، ’’اگر پان [پتے] بچ گئے ہوتے، تو اس سے مجھے [۲۰۲۳ میں] کم از کم دو لاکھ روپے مل جاتے۔‘‘ جون ۲۰۲۳ میں بہار کے نوادہ ضلع میں گرمی کی شدید لہر میں کرونا دیوی کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔ ان کا بریجا ، جو کبھی سرسبز و شاداب رہتا تھا، اس کی جالیاں مشہور مگہی پان کے چمکدار پتوں سے لدی رہتی تھیں، کنکال کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اب وہ دوسروں کے بریجا میں نوکری کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔

نوادہ ان درجن بھر اضلاع میں شامل تھا جہاں کئی دنوں تک شدید گرمی کا قہر جاری رہا تھا۔ ’’لگتا تھا کہ آسمان سے آگ برس رہی ہو اور ہم لوگ جل جائیں گے۔ دوپہر کو گاؤں بالکل ویران ہو جاتا تھا جیسے کرفیو لگا دیا گیا ہو،‘‘ وہ اس سال کی گرمی کو بیان کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں۔ ضلع کے وارث علی گنج کے موسمیاتی مرکز میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۹ء۴۵ ڈگری سیلسیس درج کیا گیا تھا اور ۱۸ جون ۲۰۲۳ کو دی ہندو میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، اس کے بعد آنے والی گرمی کی لہر (لو) کی وجہ سے بہار اور اتر پردیش میں ۱۰۰ سے زائد افراد کی جان گئی تھی۔

جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود، ’’ہم بریجا میں جاتے تھے،‘‘ کرونا دیوی کہتی ہیں۔ یہ فیملی کوئی جوکھم نہیں اٹھانا چاہتی تھی کیونکہ انہوں نے چھ کٹھا [تقریباً ۸۰۰۰ مربع فٹ] زمیں پر بنے بریجا کی کاشت کے لیے ایک لاکھ روپے کا قرض لے رکھا تھا۔

Betel leaf farmers, Karuna Devi and Sunil Chaurasia in their bareja . Their son holding a few gourds grown alongside the betel vines, and the only crop (for their own use) that survived
PHOTO • Shreya Katyayini

پان کی کاشت کرنے والے کسان کرونا دیوی اور سنیل چورسیا اپنے بریجا میں۔ ان کے بیٹے نے پان کی بیلوں کے ساتھ اگائی جانے والی لوکی کے چند پھل اٹھا رکھے ہیں، اور یہ واحد فصل ہے جو (ان کے ذاتی استعمال کے لیے) بچ گئی ہے

Newada district experienced intense heat in the summer of 2023, and many betel leaf farmers like Sunil (left) were badly hit. Karuna Devi (right) also does daily wage work in other farmers' betel fields for which she earns Rs. 200 a day
PHOTO • Shreya Katyayini
Newada district experienced intense heat in the summer of 2023, and many betel leaf farmers like Sunil (left) were badly hit. Karuna Devi (right) also does daily wage work in other farmers' betel fields for which she earns Rs. 200 a day
PHOTO • Shreya Katyayini

سال ۲۰۲۳ کے موسم گرما میں نوادہ ضلع کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور سنیل (بائیں) جیسے کئی پان کے کاشتکار بری طرح متاثر ہوئے۔ کرونا دیوی (دائیں) دوسرے کسانوں کے کھیتوں میں یومیہ اجرت پر  بھی کام کرتی ہیں، جس کے لیے انہیں ۲۰۰ روپے یومیہ ملتے ہیں

پان کے پتوں کے باغ کو بہار میں بریجا یا بریٹھا کہا جاتا ہے۔ پان کی نازک بیلیں شدید موسم کو برداشت نہیں کر سکتیں، اس لیے یہ جھونپڑی نما ڈھانچہ انہیں گرمیوں میں چلچلاتی دھوپ اور سردیوں میں تیز ہواؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ عام طور پر بانس کے لٹھوں، اور کھجور اور ناریل کے پتوں، ناریل کے ریشوں، دھان کے تنکوں اور ارہر کے ڈنٹھلوں سے بنایا گیا باڑ ہوتا ہے۔ بریجا کے اندر، زمین کو لمبی اور گہری قطاروں میں جوتا جاتا ہے۔ تنوں کو اس طرح لگایا جاتا ہے کہ پانی جڑ کے قریب جمع نہ ہو اور پودے سڑ نہ جائیں۔

کرونا دیوی کے شوہر یاد کرتے ہیں کہ پچھلے سال شدید گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے کس طرح ’’ہم دن میں صرف ۲-۳ بار پانی دے پاتے تھے کیونکہ زیادہ آب پاشی کرنے سے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا۔ لیکن موسم اتنا گرم تھا کہ فصل تباہ ہو گئی۔‘‘ سنیل چورسیا (۴۰) کہتے ہیں، ’’پودے سوکھنے لگے، اور جلد ہی بریجا خراب ہوگیا۔‘‘ ان کی پان کی پوری کاشت ضائع ہو گئی۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ قرض کی ادائیگی کیسے ہوگی،‘‘ کرونا فکر مند ہوکر کہتی ہیں۔

اس خطے کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مگدھ کے علاقے میں موسم کے انداز بدل رہے ہیں۔ ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلے موسم کا انداز باقاعدہ ہوا کرتا تھا، وہ اب کافی حد تک بے قاعدہ ہو گیا ہے۔ درجہ حرارت میں اچانک اضافہ ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک یا دو دن میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے،‘‘ ماحولیاتی سائنسداں، پروفیسر پردھان پارتھ سارتھی کہتے ہیں۔

’ہندوستان کے جنوبی بہار میں ماحولیاتی تبدیلی اور زیر زمین پانی کی تغیر پذیری‘ کے عنوان سے ۲۰۲۲ میں سائنس ڈائریکٹ جریدہ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے کہ ۱۹۵۸ اور ۲۰۱۹ کے دوران اوسط درجہ حرارت میں ۵ء۰ ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ کی دہائی کے بعد سے مانسون میں بھی بہت زیادہ بے قاعدگی دیکھی جا رہی ہے۔

Magahi paan needs fertile clay loam soil found in the Magadh region in Bihar. Water logging can be fatal to the crop, so paan farmers usually select land with proper drainage to cultivate it
PHOTO • Shreya Katyayini
Magahi paan needs fertile clay loam soil found in the Magadh region in Bihar. Water logging can be fatal to the crop, so paan farmers usually select land with proper drainage to cultivate it
PHOTO • Shreya Katyayini

مگہی پان کی کاشت کے لیے بہار کے مگدھ علاقے میں پائی جانے والی زرخیز چکنی مٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کا جماؤ فصل کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے پان کے کاشتکار عام طور پر اس کی کاشت کے لیے پانی کی مناسب نکاسی والی زمین کا انتخاب کرتے ہیں

A betel-leaf garden is called bareja in Bihar. This hut-like structure protects the delicate vines from the scorching sun in summers and harsh winds in winters. It is typically fenced with sticks of bamboo, and palm and coconut fronds, coir, paddy straws, and arhar stalks. Inside the bareja , the soil is ploughed into long and deep furrows. Stems are planted in such a way that water does not collect near the root and rot the vine
PHOTO • Shreya Katyayini
A betel-leaf garden is called bareja in Bihar. This hut-like structure protects the delicate vines from the scorching sun in summers and harsh winds in winters. It is typically fenced with sticks of bamboo, and palm and coconut fronds, coir, paddy straws, and arhar stalks. Inside the bareja , the soil is ploughed into long and deep furrows. Stems are planted in such a way that water does not collect near the root and rot the vine
PHOTO • Shreya Katyayini

پان کے پتوں کے باغ کو بہار میں بریجا کہا جاتا ہے۔ جھونپڑی نما یہ ڈھانچہ نازک بیلوں کو گرمیوں میں چلچلاتی دھوپ اور سردیوں میں تیز ہواؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کا باڑ عام طور پر بانس کے لٹھوں، اور کھجور اور ناریل کے پتوں، ناریل کے ریشوں، دھان کے تنکوں اور ارہر کے ڈنٹھلوں سے کھڑا کیا جاتا ہے۔ بریجا کے اندر مٹی کو جوت کر لمبی اور گہری نالیاں بنائی جاتی ہیں۔ تنوں کو اس طرح لگایا جاتا ہے کہ پانی جڑ کے قریب جمع نہ ہو اور بیلیں سڑ نہ جائیں

ڈھیوری گاؤں کے ایک اور کسان اجے پرساد چورسیا کہتے ہیں، ’’مگہی پان کا کھیتی جوا جیسا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بہت سے مگہی کسانوں کی نمائندگی کر رہے تھے، جن کے حالات اب دگرگوں ہیں۔ ’’ہم بہت محنت کرتے ہیں، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ پان کے پودے زندہ بچیں گے۔‘‘

سال در سال شدید موسم اس علاقے میں مگہی پان کی فصلوں کو تباہ کر رہا ہے۔ پان کے پتوں کی کھیتی روایتی طور پر بہار کے انتہائی پسماندہ طبقے [ای سی بی] سے تعلق رکھنے والے چورسیا برادری کے لوگ کرتے ہیں۔ بہار حکومت کی طرف سے کرائے گئے ذات کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، ریاست میں چھ لاکھ سے زیادہ چورسیا براداری کے لوگ رہتے ہیں۔

ڈھیوری گاؤں نوادہ کے ہسوا بلاک میں واقع ہے۔ اس کی آبادی ۱۵۴۹  ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)، جس میں نصف سے زیادہ لوگ زراعت سے منسلک ہیں۔

Betel leaf farmer Ajay Chaurasia says, ' Magahi betel leaf cultivation is as uncertain as gambling...we work very hard, but there is no guarantee that betel plants will survive'
PHOTO • Shreya Katyayini

پان کی کھیتی کرنے والے کسان اجے چورسیا کہتے ہیں، ’مگہی پان کی کاشت جوئے کی طرح غیر یقینی ہے… ہم بہت محنت کرتے ہیں، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ پان بچ جائیں گے‘

سال ۲۰۲۳ کی گرمی کی لہر سے پہلے ۲۰۲۲ میں بہت تیز بارش ہوئی تھی۔ ’’لگتا تھا جیسے پرلے [قیامت] آنے والا ہو، اندھیرا چھا جاتا تھا اور لگاتار برسا ہوتا تھا (بارش ہوتی تھی)۔ ہم لوگ بھیگ بھیگ کر کھیت میں رہتے تھے،‘‘ رنجیت چورسیا کہتے ہیں۔

اس ۵۵ سالہ کسان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہیں بخار ہو گیا تھا اور بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے گاؤں میں زیادہ تر پان کے کاشتکاروں کو اس سال نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے پانچ کٹھا [تقریباً ۶۸۰۰ مربع فٹ] میں پان کی کاشت کی تھی۔ پانی بھر جانے کی وجہ سے پان کی بیلیں سوکھ گئیں۔‘‘ اوڈیشہ میں آئے ’اسانی‘ طوفان کی وجہ سے تین چار دنوں تک شدید بارش ہوئی تھی۔

پان کے کاشتکاروں کی تنظیم ’مگہی پان اُتپادک کلیان سمیتی‘ کے صدر رنجیت کہتے ہیں، ’’گرمی کی لہریں مٹی کو خشک کر دیتی ہیں، جس سے پودوں کا نمو رک جاتا ہے اور جب اچانک بارش ہوتی ہے، تو پودے سوکھ جاتے ہیں۔ پودے نئے تھے۔ ان کی دیکھ بھال نوزائیدہ بچے کی طرح ہونی چاہیے تھی۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا، ان کی بیلیں سوکھ گئیں۔‘‘

رنجیت کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۳ میں ان کے پودے شدید گرمی کی لہر کو اس لیے برداشت کر گئے کیونکہ انہوں نے دن میں کئی مرتبہ پانی کا چھڑکاؤ کیا، ’’مجھے کئی بار پانی دینا پڑتا تھا، کبھی کبھی تو دن میں۱۰ بار تک۔‘‘

Uncertainty of weather and subsequent crop losses, has forced many farmers of Dheuri village to give up betel cultivation. 'Till 10 years ago, more than 150 farmers used to cultivate betel leaf in 10 hectares, but now their number has reduced to less than 100 and currently it is being grown in 7-8 hectares,' says Ranjit Chaurasia
PHOTO • Shreya Katyayini

موسم کی غیر یقینی صورتحال اور اس کے نتیجے میں فصلوں کو پہنچنے والے نقصان نے ڈھیوری گاؤں کے بہت سے کسانوں کو پان کی کاشت ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ رنجیت چورسیا کہتے ہیں، ’۱۰ سال پہلے تک ۱۵۰ سے زائد کسان ۱۰ ہیکٹیئر زمین پر پان کی کاشت کرتے تھے، لیکن اب کسانوں کی تعداد ۱۰۰ سے بھی کم رہ گئی ہے اور فی الحال ۷-۸ ہیکٹیئر زمین پر اس کی کھیتی ہو رہی ہے‘

مگہی پان کے ایک ساتھی کسان اور پڑوسی اجے کہتے ہیں کہ انہیں پانچ سالوں میں دو بار شدید موسمی حالات کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ سال ۲۰۱۹ میں، اس ۴۵ سالہ نوجوان نے چار کٹھا (تقریباً ۵۴۴۴ مربع فٹ) میں پان کے پودے لگائے تھے، جو سخت سردی وجہ سے خراب ہو گئے تھے۔ اکتوبر ۲۰۲۱ میں طوفان گلاب کے ہمراہ آنے والی شدید بارشوں نے پتوں کو مکمل طور پر روند ڈالا تھا۔ ’’مجھے دونوں سالوں میں تقریباً ۲ لاکھ روپے کا مجموعی نقصان اٹھانا پڑا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔

*****

اجے چورسیا پان کی بیلوں کو بانس یا سرکنڈے کے پتلے ڈنڈوں سے باندھ رہے ہیں، تاکہ انہیں ڈولنے اور گرنے سے روکا جا سکے۔ دل کی شکل کے چمکدار سبز پان کے پتے بیل پر لٹکتے ہیں؛ اور یہ چند دنوں میں توڑنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔

اس سرسبز و شاداب ڈھانچے کے اندر درجہ حرارت باہر کے مقابلے کم ہوتا ہے۔ اجے کہتے ہیں کہ انتہائی گرمی، سردی اور ضرورت سے زیادہ بارش پان کے پودوں کے لیے سب سے بڑے خطرے ہیں۔ شدید گرمیوں میں اگر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۴۰ ڈگری سیلسیس سے زیادہ بڑھ جائے تو انہیں دستی طور پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا ہوتا ہے۔ وہ پانچ لیٹر پانی کا ایک مٹی کا برتن اپنے کندھے پر اٹھا کر پانی کے بہاؤ کو پھیلانے کے لیے اپنی ہتھیلی کا استعمال کرتے ہیں، بیلوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلتے ہیں، اور چلتے چلتے پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ ’’اگر موسم بہت گرم ہو، تو ہمیں ایسا کئی بار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بارش اور سردی سے تحفظ کا کوئی طریقہ نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

’’حالانکہ ایسا کوئی مطالعہ نہیں ہے، جو یہ ظاہر کرے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے موسم کی بے قاعدگی میں کس حد تک اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن موسم کے بدلتے ہوئے انداز موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں،‘‘ سارتھی کہتے ہیں۔ وہ سنٹرل یونیورسٹی آف ساؤتھ بہار، گیا کے اسکول آف ارتھ، بائیولوجیکل اینڈ انوائرمنٹل سائنس کے ڈین ہیں۔

اجے کے پاس اپنی آٹھ کٹھا (تقریباً ۱۰ ہزار مربع فٹ) زمین ہے، لیکن یہ ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہے، اس لیے انہوں نے تین کٹھے کا ایک پلاٹ ۵۰۰۰ روپے سالانہ کے حساب سے لیز پر لیا ہے، جس پر مگہی پان کی کاشت کے لیے وہ تقریباً ۷۵۰۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک مقامی سیلف ہیلپ گروپ سے ۴۰ ہزار روپے قرض لیے ہیں، جسے اگلے آٹھ مہینوں میں ۶۰۰۰ روپے فی مہینہ کے حساب سے ادا کرنا ہے۔ ’’ابھی تک میں نے دو قسطوں میں صرف ۱۲۰۰۰ روپے جمع کرائے ہیں،‘‘ انہوں نے ستمبر ۲۰۲۳ میں ہم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا۔

Ajay is sprinkling water on betel plants. He places an earthen pot on his shoulder and puts his palm on the mouth of the pot. As he walks in the furrows the water drips onto the vines
PHOTO • Shreya Katyayini

اجے پان کے پودوں پر پانی چھڑک رہے ہیں۔ وہ مٹی کا برتن اپنے کندھے پر رکھ کراپنی ہتھیلی برتن کے منہ پر رکھتے ہیں۔ جب وہ نالیوں میں چلتے ہیں تو پانی بیلوں پر ٹپکتا ہے

Although Ajay's wife, Ganga Devi has her own bareja , losses have forced her to also seek wage work outside
PHOTO • Shreya Katyayini

اگرچہ اجے کی بیوی گنگا دیوی کا اپنا بریجا ہے، لیکن نقصانات نے انہیں باہر مزدوری کا کام کرنے پر مجبور کیا ہے

اجے کی بیوی گنگا دیوی (۴۰) کبھی کبھی کھیت میں ان کی مدد کرتی ہیں، اور دوسرے کسانوں کے کھیتوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام بھی کرتی ہیں۔ ’’یہ ایک محنت طلب کام ہے، لیکن ہمیں روزانہ صرف ۲۰۰ روپے ملتے ہیں،‘‘ وہ اپنی مزدوری کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ان کے چاروں بچے (ایک نو سال کی بیٹی اور ۱۴، ۱۳ اور ۶ سال کے بیٹے) ڈھیوری کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔

موسم کی مار کے سبب فصلوں کے نقصانات نے پان کے کسانوں کو دوسرے کسانوں کے کھیتوں میں مزدوری کرنے پر مجبور کیا ہے، کیونکہ وہ اس فصل کی کاشت میں مہارت رکھتے ہیں۔

*****

مگہی پان کی وجہ تسمیہ مگدھ ہے جہاں خصوصی طور پر اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ بہار کے مگدھ علاقے میں جنوبی بہار کے گیا، اورنگ آباد، نوادہ اور نالندہ ضلعے شامل ہیں۔ ’’کوئی نہیں جانتا کہ مگہی کے پودے کا پہلا قلم کب اور کیسے یہاں پہنچا، لیکن اس کی کاشت کئی نسلوں سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ پہلا پودا ملیشیا سے آیا تھا،‘‘ رنجیت چورسیا کہتے ہیں، جو پان کی کھیتی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے ہی مگہی پان کے پتے کے جغرافیائی نشان (جی آئی) والے ٹیگ کے لیے درخواست دی تھی۔

مگہی پان کا پتا ایک چھوٹے بچے کی ہتھیلی کے برابر (۸ سے ۱۵ سینٹی میٹر لمبا اور ۶ء۶ سے ۱۲ سینٹی میٹر چوڑا) ہوتا ہے۔ خوشبودار اور نرم پتوں میں تقریباً کوئی ریشہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ منہ میں بہت آسانی سے گھل جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسے پان کے پتوں کی دوسری اقسام سے برتر بناتی ہے۔ اس کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ توڑنے کے بعد اسے ۳-۴ ماہ تک رکھا جا سکتا ہے۔

Ajay Chaurasia is tying the plant with a stick so that it does not bend with the weight of leaves. Magahi betel leaves are fragrant and soft to the touch. There is almost no fibre in the leaf so it dissolves very easily in the mouth – a singularly outstanding quality that makes it superior to other species of betel leaf
PHOTO • Shreya Katyayini
Ajay Chaurasia is tying the plant with a stick so that it does not bend with the weight of leaves. Magahi betel leaves are fragrant and soft to the touch. There is almost no fibre in the leaf so it dissolves very easily in the mouth – a singularly outstanding quality that makes it superior to other species of betel leaf
PHOTO • Shreya Katyayini

اجے چورسیا پودے کو چھڑی سے باندھ رہے ہیں، تاکہ پتوں کی وزن سے یہ جھک نہ جائے۔ مگہی پان کے پتے خوشبودار اور نرم ہوتے ہیں۔ ان میں تقریباً کوئی ریشہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ منہ میں بہت آسانی سے گھل جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسے پان کے پتوں کی دوسری اقسام سے برتر بناتی ہے

رنجیت کہتے ہیں، ’’آپ کو انہیں گیلے کپڑے میں لپیٹ کر کسی ٹھنڈی جگہ پر رکھنا ہوتا ہے اور روزانہ چیک کرنا ہوتا ہے کہ آیا کوئی پتہ سڑ تو نہیں رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو آپ کو اسے فوری طور پر ہٹانا ہوتا ہے ورنہ یہ دوسرے پتوں میں پھیل جاتا ہے۔‘‘ ہم انہیں اپنے پکے مکان کے اندر فرش پر بیٹھ کر پان کے پتے لپیٹتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

وہ ۲۰۰ پتوں کو تلے اوپر رکھتے ہیں اور ڈنٹھل کو ہیکسا بلیڈ سے کاٹتے ہیں۔ پھر پتوں کو دھاگے سے باندھ کر بانس کی ٹوکری میں رکھتے ہیں۔

پان کے پودوں کو قلموں کے ذریعے لگایا جاتا ہے، کیونکہ ان پر پھول نہیں لگتے، اس لیے بیج نہیں ہوتے۔ رنجیت چورسیا کہتے ہیں، ’’جب کسی ساتھی کسان کی فصل ناکام ہو جاتی ہے، تو دوسرے کسان اسے اپنی فصل لگانے کے لیے اپنی فصلوں کے قلم اسے دیتے ہیں۔ ہم اس کے لیے کبھی ایک دوسرے سے پیسے نہیں لیتے،‘‘ رنجیت چورسیا کہتے ہیں۔

یہ بیلیں بریجا میں لگائی جاتی ہیں اور ایک کٹھا (تقریباً ۱۳۶۱ مربع فٹ) زمین پر بریجا بنانے کے لیے ۳۰ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں؛ جبکہ دو کٹھا کے لیے ۴۵ ہزار روپے صرف ہوتے ہیں۔ ہل کے ذریعہ لمبی اور گہری نالیاں بنائی جاتی ہیں، اور بیلوں کو نالیوں کے باندھوں پر لگایا جاتا ہے، تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک نہ پہنچ سکے، کیونکہ جڑ میں پانی جمع ہونے سے پودے سڑ جاتے ہیں۔

Ranjit Chaurasia’s mother (left) is segregating betel leaves. A single rotting leaf can damage the rest when kept together in storage for 3-4 months. 'You have to wrap them in wet cloths and keep them in a cool place, and check daily if any leaves are rotting and immediately remove them or it will spread to other leaves,' says Ranjit (right)
PHOTO • Shreya Katyayini
Ranjit Chaurasia’s mother (left) is segregating betel leaves. A single rotting leaf can damage the rest when kept together in storage for 3-4 months. 'You have to wrap them in wet cloths and keep them in a cool place, and check daily if any leaves are rotting and immediately remove them or it will spread to other leaves,' says Ranjit (right)
PHOTO • Shreya Katyayini

رنجیت چورسیا کی ماں (بائیں) پان کے پتے الگ کر رہی ہیں۔ پتوں کو ۳-۴ ماہ تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک سڑا ہوا پتہ باقی پتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ’آپ کو انہیں گیلے کپڑوں میں لپیٹ کر کسی ٹھنڈی جگہ پر رکھنا پڑتا ہے، اور روزانہ چیک کرنا ہوتا ہے کہ آیا کوئی پتہ سڑ تو نہیں رہا ہے اور ایسا ہونے پر انہیں فوراً ہٹا دیا جاتا ہے، ورنہ دوسرے پتے بھی سڑ جاتے ہیں،‘ رنجیت (دائیں) کہتے ہیں

In its one year life, a Magahi betel plant produces at least 50 leaves. A leaf is sold for a rupee or two in local markets as well as in the wholesale mandi of Banaras in Uttar Pradesh. It is a cash crop, but the Bihar government considers it as horticulture, hence farmers do not get benefits of agricultural schemes
PHOTO • Shreya Katyayini
In its one year life, a Magahi betel plant produces at least 50 leaves. A leaf is sold for a rupee or two in local markets as well as in the wholesale mandi of Banaras in Uttar Pradesh. It is a cash crop, but the Bihar government considers it as horticulture, hence farmers do not get benefits of agricultural schemes
PHOTO • Shreya Katyayini

مگہی پان کے ایک پودے کی ایک سالہ زندگی میں کم از کم ۵۰ پتے لگتے ہیں۔ مقامی بازاروں اور اتر پردیش کے بنارس کی ہول سیل منڈی میں پان کا ایک پتہ ایک یا دو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ یہ ایک نقدی فصل ہے، لیکن بہار حکومت اسے باغبانی تصور کرتی ہے، اس لیے کسانوں کو زرعی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملتا ہے

مگہی پان کی ایک بیل پر اس کی ایک سالہ زندگی میں کم از کم ۵۰ پتے لگتے ہیں۔ مقامی بازاروں اور اتر پردیش کے وارانسی کی ہول سیل منڈی (جو ملک کی سب سے بڑی پان کے پتوں کی منڈی ہے) میں ایک پتہ ایک یا دو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

مگہی پان کو ۲۰۱۷ میں جی آئی ٹیگ سے نوازا گیا تھا۔ یہ جی آئی خصوصی طور پر مگدھ کے جغرافیائی خطے کے ۴۳۹ ہیکٹیئر میں اگائے جانے والے پتوں کے لیے ہے۔ کسان جی آئی ملنے پر خوش تھے اور راحت محسوس کر رہے تھے۔ تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ’’ہمیں توقع تھی کہ حکومت مگہی کی تشہیر کرے گی، جس سے مانگ میں اضافہ ہوگا اور ہمیں اچھی قیمت ملے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،‘‘ رنجیت چورسیا نے پاری کو بتایا۔ ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ جی آئی ٹیگ کے باوجود حکومت پان کے کسانوں کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔ حکومت پان کو زراعت تصور نہیں کر رہی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

بہار میں پان کی کاشت باغبانی کے تحت آتی ہے، اور کسانوں کو فصل بیمہ جیسی زرعی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملتا ہے۔ رنجیت چورسیا کا کہنا ہے، ’’ہماری فصلوں کو خراب موسم کی وجہ سے نقصان پہنچنے پر صرف ایک ہی معاوضہ ملتا ہے، لیکن معاوضے کی رقم مضحکہ خیز حد تک کم ہے۔‘‘ ایک ہیکٹیئر (تقریباً ۷۹ کٹھا) کے نقصان کے لیے ۱۰ ہزار روپے تک کا معاوضہ ملتا ہے۔ ’’اگر اسے فی کٹھا کے حساب سے دیکھیں، تو ہر کسان کو ایک کٹھا کے نقصان پر تقریباً ۱۲۶ روپے کا معاوضہ ملتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ کسانوں کو کئی بار ضلع کے زراعتی دفتر کا چکر لگانا پڑتا ہے، اس لیے وہ عموماً معاوضے کا دعویٰ نہیں کرتے۔

*****

Left: Karuna Devi and her husband Sunil Chaurasia at their home. Karuna Devi had taken a loan of Rs. 1 lakh to cultivate Magahi betel leaves, in the hope that she would repay it from the harvest. She mortgaged some of her jewellery as well.
PHOTO • Shreya Katyayini
Right: Ajay and his wife Ganga Devi at their house in Dheuri village. The family lost a crop in 2019 to severe cold, and in October 2021 to heavy rains caused by Cyclone Gulab. 'I incurred a loss of around Rs . 2 lakh in both the years combined,' he says
PHOTO • Shreya Katyayini

بائیں: کرونا دیوی اور ان کے شوہر سنیل چورسیا اپنے گھر میں۔ کرونا دیوی نے مگہی پان کے پتوں کی کاشت کے لیے ایک لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ فصل تیار ہونے کے بعد وہ قرض واپس کر دیں گی۔ انہوں نے اپنے کچھ زیورات بھی گروی رکھے۔ دائیں: اجے اور ان کی بیوی گنگا دیوی ڈھیوری گاؤں میں اپنے گھر میں۔ سال ۲۰۱۹ میں شدید سردی اور اکتوبر ۲۰۲۱ میں طوفان گلاب کی وجہ سے ہوئی شدید بارشوں میں ان کی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ ’ان دو سالوں میں مجھے تقریباً ۲ روپے کا نقصان ہوا تھا،‘ وہ بتاتے ہیں

سال ۲۰۲۳ میں شدید گرمی میں اپنی فصل کی تباہی کے بعد سنیل اور ان کی بیوی اب دوسرے کسانوں کے بریجا میں کام کرتے ہیں۔ ’’گھر کے اخراجات کے لیے مجھے مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ بریجا میں کام کرنا میرے لیے آسان رہا ہے، کیونکہ میں کئی سالوں سے پان کی کاشت کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ دن میں ۸ سے ۱۰ گھنٹے تک کام کرکے سنیل ۳۰۰ روپے کماتے ہیں، اور ان کی بیوی کرونا دیوی ۲۰۰روپے۔ اس کمائی سے چھ افراد (۳ سال کی ایک بیٹی، اور ایک، پانچ اور سات سال کی عمر کے تین بیٹوں) پر مشتمل اس کنبے کی کفالت میں مدد ملتی ہے۔

سال ۲۰۲۰ میں، کووڈ۔۱۹ کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی انہیں نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران بازار سے لے کر گاڑیوں تک سب کچھ بند تھے۔ میرے پاس گھر میں ۵۰۰ ڈھولی [۲۰۰ پان کے پتوں کا بنڈل] پان رکھا ہوا تھا۔ میں اسے فروخت نہیں کر سکا اور وہ سڑ گئے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔

کرونا دیوی کہتی ہیں، ’’میں اکثر ان سے کہتی ہوں کہ وہ [پان کی] کاشت چھوڑ دیں۔‘‘ تاہم، سنیل ان کے خدشات کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیتے ہیں کہ ’’یہ ہمارے آباء و اجداد کی میراث ہے۔ ہم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں اور چھوڑ کر بھی کیا کریں گے؟‘‘

یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔

مترجم: شفیق عالم

Umesh Kumar Ray

Umesh Kumar Ray is a PARI Fellow (2022). A freelance journalist, he is based in Bihar and covers marginalised communities.

Other stories by Umesh Kumar Ray
Shreya Katyayini

Shreya Katyayini is a filmmaker and Senior Video Editor at the People's Archive of Rural India. She also illustrates for PARI.

Other stories by Shreya Katyayini
Photographs : Shreya Katyayini

Shreya Katyayini is a filmmaker and Senior Video Editor at the People's Archive of Rural India. She also illustrates for PARI.

Other stories by Shreya Katyayini
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam