صبح کے ۷ بجے ہیں اور ڈالٹن گنج قصبہ کے صدیق منزل چوک پر پہلے ہی سے کافی گہما گہمی ہے۔ گرج دار آواز کے ساتھ ٹرک گزر رہے ہیں، دکانوں کے شٹر اُٹھ رہے ہیں اور قریب ہی کے ایک مندر سے ریکارڈ شدہ ہنومان چالیسہ کا پاٹھ سنائی دے رہا ہے۔

ایک دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھے رشی مشرا سگریٹ کا کش لیتے ہوئے وہاں جمع لوگوں سے اونچی آواز میں گفتگو کر رہے ہیں۔ آج صبح ان کی بحث کا مرکز حال ہی میں مکمل ہونے والے عام انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل کے ارد گرد ہے۔ اپنی ہتھیلی پر کھینی (تمباکو) رگڑتے ہوئے اپنے آس پاس موجود لوگوں کی بحث سن کر نذرالدین احمد بھی مداخلت کرتے ہیں، ’’آپ کیوں بحث کر رہے ہیں؟ حکومت کون بناتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، ہمیں اپنی روزی روٹی کمانا ہے۔‘‘

رشی اور نذرالدین ان متعدد دہاڑی مزدوروں میں شامل ہیں جو روازنہ صبح اس مقام پر جمع ہوتے ہیں۔ اس جگہ کو ’لیبر چوک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پلامو کے آس پاس کے گاؤوں میں کوئی کام نہیں ہے۔ یہاں صدیق منزل کے لیبر چوک پر تقریباً ۲۵-۳۰ مزدور یومیہ اجرت کے کام کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ شہر کے ایسے پانچ چوراہوں میں سے ایک ہے جہاں جھارکھنڈ کے اس علاقے کے آس پاس کے گاؤوں کے لوگ روزانہ صبح کام کی تلاش میں جمع ہوتے ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

پلامو ضلع کے سنگراہا کلاں گاؤں سے تعلق رکھنے والے رشی مشرا (بائیں) اور نیورا گاؤں کے نذرالدین (دائیں) ان متعدد دہاڑی مزدوروں میں شامل ہیں جو روزانہ صبح کام کی تلاش میں ڈالٹن گنج کی صدیق منزل میں جمع ہوتے ہیں۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ گاؤوں میں کوئی کام نہیں ہے

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

صدیق منزل، جسے ’لیبر چوک‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ڈالٹن گنج کے ایسے ہی پانچ چوراہوں میں سے ایک ہے۔ ’یہاں روزانہ ۵۰۰ افراد جمع ہوتے ہیں۔ لیکن صرف ۱۰ کو ہی کام ملتا ہے، باقی خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں،‘ نذر الدین کہتے ہیں

’’آٹھ بجے تک انتظار کیجیے۔ یہاں اتنے لوگ جمع ہو جائیں گے کہ کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملے گی،‘‘ رشی اپنے موبائل فون پر وقت دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔

رشی نے ۲۰۱۴ میں اپنی آئی ٹی آئی کی تربیت مکمل کی تھی اور ڈرلنگ مشین چلانا سیکھا تھا۔ آج وہ ایسا ہی کوئی کام حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں۔ ’’ہم نے نوکریوں کی امید میں اس حکومت کو ووٹ دیا۔ [نریندر] مودی ۱۰ سال سے اقتدار میں ہیں۔ کتنی آسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے اور کتنی نوکریاں دی گئی ہیں؟‘‘ سنگراہا کلاں گاؤں کے رہنے والے یہ ۲۸ سالہ نوجوان پوچھتے ہیں۔ ’’اگر یہی حکومت مزید پانچ سال رہتی ہے، تو ہمیں ان سے کوئی امید نہیں ہے۔‘‘

نذرالدین (۴۵) بھی کچھ ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ نیورا گاؤں سے تعلق رکھنے والے نذرالدین راج مستری کا کام کرتے ہیں اور اپنی سات رکنی فیملی کی کفالت کرنے والے واحد فرد ہیں۔ ’’غریبوں اور کسانوں کی فکر کس کو ہے؟‘‘ نذر الدین پوچھتے ہیں۔  ’’روزانہ ۵۰۰ لوگ یہاں آتے ہیں۔ ان میں صرف ۱۰ کو کام ملتا ہے، باقی خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

سڑک کے دونوں طرف مزدور مرد اور عورتیں قطار میں کھڑے ہیں۔ جیسے ہی کوئی آجر نمودار ہوتا ہے، کام ملنے کی امید میں اس کے ارد گرد ایک بھیڑ جمع ہو جاتی ہے

ایک موٹر سائیکل سوار کے آتے ہی گفتگو میں خلل پڑ جاتا ہے۔ کام ملنے کی امید میں لوگ بھاگ کر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ اجرت کے تعین کے بعد ایک نوجوان کو کام مل جاتا ہے، اور اسے پیچھے بیٹھا کر موٹر سائیکل چلی جاتی ہے۔

رشی اور ان کے ساتھی مزدور اپنی اپنی جگہوں پر واپس لوٹ آتے ہیں۔ ’’یہ تماشہ [سرکس] دیکھیں۔ ایک آتا ہے اور ہر شخص دوڑ کر وہاں پہنچ جاتا ہے،‘‘ رشی زبردستی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔

اپنی جگہ پر واپس بیٹھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’حکومت کسی کی بھی بنے اس کا فائدہ غریبوں کو ملنا چاہیے۔ مہنگائی میں کمی آنی چاہیے۔ کیا مندر بنا لینے سے غریبوں کا پیٹ بھر جائے گا؟‘‘

مترجم: شفیق عالم

Ashwini Kumar Shukla

Ashwini Kumar Shukla is a freelance journalist based in Jharkhand and a graduate of the Indian Institute of Mass Communication (2018-2019), New Delhi. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam