دم-دم-دم…دم-دم-دم…!ڈھول کی یہ دلکش آواز شانتی نگر بستی کی ہر گلی میں آپ کا پیچھا کرتی ہے، جنہیں یہاں بنایا اور ٹیون کیا جاتا ہے۔ ہم ڈھول بنانے والے ۳۷ سالہ عرفان شیخ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ ہمیں ممبئی کی مہاجر مزدوروں کی اس بستی کے دیگر کاریگروں سے ملانے والے ہیں۔
یہاں کے تقریباً تمام کاریگروں کی جڑیں اتر پردیش کے بارہ بنکی ضلع سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۵۰ لوگ اس کاروبار میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’آپ جہاں بھی دیکھیں گے، ہماری برادری کے لوگ ان آلات موسیقی کو تیار کرتے ہوئے مل جائیں گے۔‘‘ وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ یہیں پر بنے ڈھول ممبئی اور ریاست کے دیگر حصوں میں جاتے ہیں۔ (برادری کا لفظی معنی ہوتا ہے ’بھائی چارہ‘، لیکن اکثر اس کا استعمال قبیلہ، جماعت یا ذات کا اظہار کرنے کے لیے کیا جاتا ہے)۔
عرفان بچپن سے ہی اس پیشہ میں ہیں۔ اوسط سائز کے ان دو سِروں والے ڈھول کو بنانے کا ہنر گزشتہ کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ اسے بنانے کا عمل کافی باریک ہے۔ عرفان اور ان کی برادری اتر پردیش سے سامان منتخب کرتی ہے، اور لکڑی سے لے کر رسی اور پینٹ سب کچھ وہیں سے لایا جاتا ہے۔ ’’ہم ہی اسے بناتے ہیں؛ ہم ہی اس کی مرمت کرتے ہیں…ہم اس کے انجینئر ہیں،‘‘ وہ خوشی سے کہتے ہیں۔
عرفان اپنے کام میں نئی نئی چیزیں اپناتے رہتے ہیں۔ انہوں نے آلہ موسیقی جیمبے کو بنانا بھی شامل کیا ہے، جسے انہوں نے پہلی بار گوا میں ایک افریقی انسان کو بجاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ’’کتنا شاندار انسٹرومنٹ تھا۔ لوگوں نے اسے یہاں نہیں دیکھا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
نئے تجربوں اور کاریگری کو کچھ دیر کے لیے الگ رکھ دیں، تو انہیں لگتا ہے کہ اس پیشہ نے انہیں وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے۔ نہ ہی اس سے کوئی بڑا فائدہ ہوا ہے۔ آج کے ممبئی میں، ڈھول بنانے والوں کو آن لائن دستیاب سستے متبادل سے کڑے مقابلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صارفین اکثر مول تول کرتے ہیں اور دباؤ ڈالتے ہیں کہ انہیں آن لائن اس سے زیادہ سستے متبادل مل جائیں گے۔
’’جو لوگ ڈھول بجاتے ہیں ان کی اپنی روایت ہوتی ہے۔ لیکن ہماری برادری میں، ہم اسے بجاتے نہیں ہیں، صرف بیچتے ہیں،‘‘ عرفان کہتے ہیں۔ مذہبی وجوہات سے کاریگروں کی یہ برادری اپنے ذریعہ بنائے گئے آلات موسیقی کو نہیں بجا سکتی۔ لیکن وہ ان صارفین کے لیے ڈھول بناتے ہیں جو گنیش مہوتسو اور درگا پوجا کے دوران انہیں بجاتے ہیں۔
بستی میں ایسی عورتیں ہیں جنہیں ڈھول بجانا اور گانا پسند ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی عورت مذہبی عقیدہ کا احترام کرتے ہوئے نہ تو ڈھول بناتی ہے، نہ بیچتی ہے اور نہ ہی پیشہ ور طریقے سے بجاتی ہے۔
’’یہ کام تو اچھا ہے، لیکن دلچسپ نہیں رہ گیا ہے، کیوں کہ دھندہ نہیں بچا ہے۔ کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ آج بھی کوئی کام نہیں ہے۔ کل بھی میں روڈ پہ تھا، آج بھی روڈ پہ ہوں،‘‘ عرفان کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز