’’میں تقریباً ۴۵۰ پرندوں کی آوازیں پہچانتا ہوں۔‘‘

میکا رائی کے لیے یہ ایک اہم مہارت ہے۔ بطور فوٹوگرافر جنگل میں نایاب پرندوں اور جانوروں کو کیمرے میں قید کرنا انتظار کا متقاضی ہوتا ہے، اور اس میں آوازوں کی شناخت کی بھی کلیدی اہمیت ہوتی ہے۔

اڑنے والے پرندوں سے لے کر سموردار جانوروں تک، میکا نے گزشتہ برسوں میں تقریباً ۳۰۰ مختلف انواع کی تصاویر اتاری ہیں۔ وہ اپنی سب سے مشکل تصاویر میں سے ایک تصویر کو یاد کرتے ہیں۔ یہ بلتھس ٹریگوپَین (ٹریگوپَین بلتھی) پرندے کی تصویر تھی، جو شاذ و نادر ہی دکھائی دیتا ہے۔

یہ اکتوبر ۲۰۲۰ کا واقعہ ہے، جب میکا نے سگما ۱۵۰ ایم ایم-۶۰۰ ایم ایم  ٹیلی فوٹو زوم لینس حاصل کیا تھا۔ اس طاقتور لینس کی مدد سے وہ ٹریگوپین کی تصویر کشی کو لے کر پرعزم تھے۔ انہوں نے پرندے کی آوازوں کا مسلسل بغیر تھکے تعاقب کیا۔ ’’کافی دنوں سے آواز تو سنائی دے رہی تھی۔‘‘ لیکن ان کی محنت بارآور ثابت نہیں ہو رہی تھی۔

مئی ۲۰۲۱ میں ایک بار پھر میکا اروناچل پردیش کی ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچری کے گھنے جنگلوں میں بلتھس ٹریگوپین کی آواز کا تعاقب کر رہے تھے۔ آخرکار اس دفعہ انہیں یہ نایاب پرندہ واضح طور پر نظر آیا۔ وہ اپنے نیکون ڈی۷۲۰۰  پر نصب سگما ۱۵۰ ایم ایم-۶۰۰ ایم ایم ٹیلی فوٹو زوم لینس کے ساتھ تیار تھے۔ لیکن گھبراہٹ ان پر حاوی ہو گئی۔ ’’میں ایک دھندلی تصویر نکال سکا، جس کا کوئی مصرف نہیں تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔

دو سال بعد مغربی کمینگ کے بومپو کیمپ کے قریب اب تک نظر نہ آنے والا یہ سرخی مائل بھورے رنگ کا چمکدار پرندہ جس کی پیٹھ پر چھوٹے چھوٹے سفید نقطے ہوتے ہیں، ایک بار پھر نظر آیا۔ اس بار یہ جزوی طور پر پتوں سے چھپا ہوا تھا۔ اس بار میکا نے کوئی غلطی نہیں کی۔ انہوں نے ۳۰ سے ۴۰ تصویریں اتاریں۔ اس دفعہ وہ ایک دو اچھی تصاویر حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ پہلی بار پاری میں، خطرے کو بھانپ کر مسکن بدلتے اروناچل کے پرندے عنوان کے تحت شائع ہوا تھا۔

In Arunachal Pradesh’s Eaglenest Wildlife Sanctuary, Micah managed to photograph a rare sighting of Blyth’s tragopan (left) .
PHOTO • Micah Rai
Seen here (right) with his friend’s Canon 80D camera and 150-600mm Sigma lens in Triund, Himachal Pradesh
PHOTO • Dambar Kumar Pradhan

اروناچل پردیش کی ایگل نیسٹ وائلڈ لائف سینکچری میں، شاذ و نادر نظر آنے والے پرندے بلتھس ٹریگوپین (بائیں) کی میکا نے ایک نادر تصویر اتاری تھی۔ ہماچل پردیش کے تِریونڈ میں اپنے دوست کے کینن ڈی ۸۰ کیمرے اور ۱۵۰-۶۰۰ ایم ایم سگما لینس کے ساتھ (دائیں) یہاں نظر آ رہے ہیں

میکا ان مقامی افراد پر مشتمل ایک ٹیم کا حصہ ہیں جو اروناچل پردیش کے مغربی کمینگ ضلع کے مشرقی ہمالیائی پہاڑوں میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطالعہ کرنے والے بنگلورو میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (آئی آئی ایس سی) کے سائنسدانوں کی مدد کرتی ہے۔

’’میکا جیسے لوگ ایگل نیسٹ میں ہمارے اس کام کا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ فیلڈ میں کام کرنا اور جس طرح کا ڈیٹا ہمیں چاہیے اسے اکٹھا کرنا ان کے بغیر ناممکن ہوتا،‘‘ ماہرِ علم طیور (آرنیتھولوجسٹ) ڈاکٹر امیش سری نواسن کہتے ہیں۔

پرندوں کے لیے میکا کا جوش سائنس سے بالاتر ہے۔ وہ بلیسنگ برڈ سے متعلق ایک نیپالی کہانی سناتے ہیں۔ ’’سوتیلی ماں کے ظلم سے عاجز ایک شخص ایک جنگل میں پناہ لیتا ہے، اور جنگلی کیلوں پر گزارہ کرتے ہوئے ایک پرندے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ رات میں نظر آنے والا یہ رنگین پرندہ نیپالی روایت میں انسانوں اور قدرتی دنیا کے درمیان ایک پائیدار اساطیری بندھن کی علامت ہے۔ میکا کا کہنا ہے کہ یہ پرندہ کوئی اور نہیں بلکہ ماؤنٹین اسکوپس الّو ہے، جس سے متعلق بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بلیسنگ برڈ کی تجسیم ہے۔ اس کا نایاب ہونا کہانی کا اساطیری جوہر ہے۔

اس جنگل میں پرندوں کا تعاقب کرتے ہوئے، میکا اور دوسرے لوگوں کا مڈبھیڑ چوپائے جانوروں کے ساتھ بھی ہو جاتا ہے، خاص طور پر دنیا کی سب سے بڑی، سب سے لمبی اور سب سے بھاری بھرکم گاوی نوع (بوائین نوع)، جنگلی گور (بوس گورس) سے، جسے ہندوستانی بائسن بھی کہا جاتا ہے۔

میکا اور ان کے دو دوست رات کی بارش کے بعد سڑک پر جمع ملبے کو صاف کرنے آئے تھے۔ تینوں دوستوں نے ایک شہ زور بائسن کو محض ۲۰ میٹر کی دوری پر دیکھا۔ ’’میں نے چیخ ماری اور متھن [گور] پوری رفتار سے ہماری طرف لپکا!‘‘ میکا اپنے دوست کی کہانی سناتے ہوئے ہنستے ہیں۔ ان کے دوست گور کے حملے کے بعد کافی سرعت سے ایک درخت پر چڑھ گئے تھے۔ جبکہ میکا اور ان کے دوسرے دوست محفوظ مقام کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایگل نیسٹ کے جنگلات میں پانے جانے والے جانوروں میں ان کا سب سے پسندیدہ جانور درمیانی جسامت کی جنگلی بلی ہے، جسے ایشیائی سنہری بلی ( کیٹوپوما ٹمینکی) کہا جاتا ہے۔ انہوں نے شام کے وقت بمپو کیمپ واپس لوٹتے ہوئے اس بلی کو دیکھا تھا۔ ’’میرے پاس کیمرہ [نکون ڈی ۷۲۰۰] تھا اور میں نے شاٹ لے لی،‘‘ وہ خوشی سے کہتے ہیں۔ ’’لیکن میں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

From winged creatures to furry mammals, Micah has photographed roughly 300 different species over the years. His images of a Mountain Scops Owl (left) and the Asian Golden Cat (right)
PHOTO • Micah Rai
From winged creatures to furry mammals, Micah has photographed roughly 300 different species over the years. His images of a Mountain Scops Owl (left) and the Asian Golden Cat (right)
PHOTO • Micah Rai

پروں والے جانداروں سے لے کر سموردار جانوروں تک، میکا نے گزشتہ برسوں میں تقریباً ۳۰۰ مختلف انواع کی تصاویر اتاری ہیں۔ ان کی اتاری ہوئی ماؤنٹین اسکوپس الّو (بائیں) اور ایشیائی سنہری بلی (دائیں) کی تصاویر

The Indian Bison seen here in Kanha N ational P ark , Madhya Pradesh (pic for representational purposes) . Micah is part of a team of locals who assist scientists from the Indian Institute of Science (IISc) in Bengaluru , in their study of the impact of climate change on birds in the eastern Himalayan mountains of West Kameng district, Arunachal Pradesh. (From left to right) Dambar Kumar Pradhan , Micah Rai, Umesh Srinivasan and Aiti Thapa having a discussion during their tea break
PHOTO • Binaifer Bharucha
The Indian Bison seen here in Kanha N ational P ark , Madhya Pradesh (pic for representational purposes) . Micah is part of a team of locals who assist scientists from the Indian Institute of Science (IISc) in Bengaluru , in their study of the impact of climate change on birds in the eastern Himalayan mountains of West Kameng district, Arunachal Pradesh. (From left to right) Dambar Kumar Pradhan , Micah Rai, Umesh Srinivasan and Aiti Thapa having a discussion during their tea break
PHOTO • Binaifer Bharucha

مدھیہ پردیش کے کانہا نیشنل پارک میں دیکھا گیا ہندوستانی بائسن (علامتی تصویر)۔ میکا ان مقامی افراد پر مشتمل ٹیم کا حصہ ہیں جو اروناچل پردیش کے مغربی کمینگ ضلع کے مشرقی ہمالیائی پہاڑوں میں پرندوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے  بنگلورو میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (آئی آئی ایس سی) کے سائنسدانوں کی مدد کرتی ہے۔ (بائیں سے دائیں) دمبر کمار پردھان، میکا رائی، امیش سری نواسن اورآیتی تھاپا چائے کے وقفہ کے دوران محو گفتگو ہیں

*****

میکا کی پیدائش مغربی کمینگ کے دیرانگ میں ہوئی تھی، لیکن وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسی ضلع کے رام لنگم گاؤں میں منتقل ہو گئے تھے۔ ’’ہر شخص مجھے میکا رائی کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ انسٹاگرام اور فیس بک پر میرا نام میکاہ رائی ہے۔ دستاویزات میں میرا نام  ’شمبو رائی‘ ہے،‘‘ پانچویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ دینے والے ۲۰ سالہ نوجوان  کہتے ہیں، ’’پیسے کا مسئلہ تھا اور میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی پڑھنا تھا۔‘‘

اگلے چند سال سخت محنت کے سائے میں گزرے۔ انہوں نے دیرانگ میں سڑک کی تعمیر میں بطور مزدور کام کیا اور ایگل نیسٹ سینکچری کے بومپو کیمپ اور سِنگچُنگ بَگون ولیج کمیونٹی ریزرو (ایس بی وی سی آر) کے لاما کیمپ کے باورچی خانہ کے عملے میں شامل رہے۔

اپنی نوعمری کے وسط میں میکا رام لنگم واپس لوٹ آئے۔ ’’میں اپنے والدین کے ساتھ گھر پر تھا اور کھیتوں میں ان کی مدد کر رہا تھا۔‘‘ ان کا کنبہ نیپالی نژاد ہے اور بگون برادری سے ۴ سے ۵ بیگھہ زمین لیز پر لے کر اس میں گوبھی اور آلو اگاتا ہے، اور سڑک سے چار گھنٹے کا سفر طے کر کے آسام کے تیز پور میں اسے فروخت کرتا ہے۔

جب ماہر علم طیور اور بنگلورو میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (آئی آئی ایس سی) کے سنٹر فار ایکولوجیکل سائنسز میں ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امیش سری نواسن پرندوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے رام لنگم آئے تو انہوں نے دو تین نوجوان لڑکوں سے فیلڈ اسٹاف کے طور پر کام کرنے کے لیے پوچھا۔ میکا نے مستقل آمدنی حاصل کرنے کے اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے لپک لیا۔ جنوری ۲۰۱۱ میں ۱۶سالہ میکا نے سری نواسن کی ٹیم کے ساتھ فیلڈ اسٹاف کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔

Left: Micah's favourite bird is the Sikkim Wedge-billed-Babbler, rare and much sought-after. It is one of Eaglenest’s 'big six' species and was seen in 1873 and then not sighted for over a century.
PHOTO • Micah Rai
Right: White-rumped Shama
PHOTO • Micah Rai

بائیں: میکا کا پسندیدہ پرندہ سکم ویج-بِلڈ-بَبلر ہے، جو نایاب ہے اور جس کی بہت زیادہ تلاش رہتی ہے۔ یہ ایگل نیسٹ کی ’چھ بڑی‘ انواع میں سے ایک اس پرندے کو ۱۸۷۳ میں دیکھا گیا تھا اور پھر یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک دکھائی نہیں دیا تھا۔ دائیں: سفید پیٹ والا شاما پرندہ

وہ اس بات کو خوشی خوشی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی اصل تعلیم اروناچل پردیش کے جنگلات میں شروع ہوئی۔ ’’میں مغربی کمینگ ضلع میں پرندوں کی آوازوں کو بہت آسانی سے پہچانتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ پرندہ ’’سکم ویج بلڈ بَبلر‘‘ ہے۔ یہ زیادہ جاذب نظر نہیں ہے، لیکن مجھے اس کا انداز پسند ہے،‘‘ وہ پرندے کی انوکھی چونچ اور اس کی آنکھوں میں سفید رنگ کے ہالے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں۔ یہ ایک نایاب پرندہ ہے اور بہت کم مقامات پر دیکھا جاتا ہے۔ اروناچل پردیش، نیپال کا مشرق بعید کا علاقہ، سکم اور مشرقی بھوٹان ایسے مقامات میں شامل ہیں۔

’’حال ہی میں، میں نے ۲۰۰۰ میٹر سے بھی زیادہ کی بلندی پر سفید پٹھے والے  شاما [کوپسیکس مالاباریکس] کی تصویر اتاری تھی۔ اس میں تعجب کی بات یہ تھی کہ یہ پرندہ عام طور پر ۹۰۰ میٹر اور اس سے کم بلندی پر رہتا ہے۔ گرمی کی وجہ سے یہ اپنا مقام بدل رہا ہے،‘‘ میکا کہتے ہیں۔

سائنس دان سری نواسن کہتے ہیں، ’’مشرقی ہمالیہ کرہ ارض کا دوسرا سب سے زیادہ متنوع حیاتیاتی خطہ ہے۔ یہاں پائی جانے والی بہت سی انواع درجہ حرارت کے تئیں انتہائی حساس ہیں۔ لہذا موسمیاتی تبدیلی یہاں کرہ ارض کی انواع کے ایک اہم حصے کو خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص بلندی پر رہنے والے پرندے اب آہستہ آہستہ اپنی حدود کو مزید بلندیوں پر منتقل کر رہے ہیں۔ پڑھیں: خطرے کو بھانپ کر مسکن بدلتے اروناچل کے پرندے

موسمیاتی تبدیلی میں دلچسپی رکھنے والے ایک ساتھی فوٹوگرافر کے طور پر میں بڑے انہماک سے میکا کے فون میں موجود تصویروں کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ سوائپ کر کے مجھے پرندوں کی تصویریں دکھا رہے ہیں جنہیں انہوں نے کئی سالوں میں اتاری ہیں۔ وہ انہیں بہت آسان بنا کر دکھا رہے ہیں، لیکن میرا اپنا تجربہ ہے کہ یہاں صحیح بصری زاویہ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت، لگن اور کبھی کبھی انتہائی صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

The White-crested Laughingthrush (left) and Silver-breasted-Broadbill (right) are low-elevation species and likely to be disproportionately impacted by climate change
PHOTO • Micah Rai
The White-crested Laughingthrush (left) and Silver-breasted-Broadbill (right) are low-elevation species and likely to be disproportionately impacted by climate change
PHOTO • Micah Rai

سفید کلغی والا لافنگ تھرش (بائیں) اور سلور بریسٹڈ براڈ بل (دائیں) کم اونچائی پر پائے جانے والے پرندوں کی انواع ہیں اور موسمیاتی تبدیلی سے ان کے شدید طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے

*****

ٹیم کا کیمپ ایگل نیسٹ سینکچری کے اندر بومپو کیمپ میں واقع ہے، جو پرندوں میں دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے شائقین کے لیے ایک ہاٹ اسپاٹ ہے۔ یہ لکڑی کی جالیوں اور ترپال سے بنا ایک عارضی ٹھکانہ ہے جسے کنکریٹ کے ٹوٹے ہوئے ڈھانچے کے گرد مضبوطی سے کھڑا کیا گیا ہے۔ تحقیقی ٹیم میں سائنسدانوں کے علاوہ، ایک انٹرن اور مغربی کامینگ ضلع کے فیلڈ اسٹاف شامل ہیں۔ ڈاکٹر امیش سری نواسن کی سربراہی والے اس عملہ کا ایک لازمی جزو میکا بھی ہیں۔

میکا اور میں ریسرچ کیمپ کے باہر کھڑے ہیں اور ہوا ہمیں چھوتی ہوئی گزر رہی ہے۔ آس پاس کی چوٹیاں سرمئی بادل کے گھنے چادوروں کے نیچے سے جھانک رہی  ہیں۔ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ان کے تجربات انہیں کی زبانی سننے کا خواہشمند ہوں۔

’’اگر کم بلندی پر شدید گرمی پڑ رہی ہو، تو یہ پہاڑی علاقوں میں تیزی سے زور پکٹرتی ہے۔ یہاں پہاڑوں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مانسون بے ترتیب ہو گیا ہے،‘‘ وہ مجھے بتاتے ہیں۔ ’’پہلے لوگ موسم کے انداز کو سمجھتے تھے۔ بوڑھے لوگوں کو یاد ہے کہ فروری کا مہینہ سرد اور ابر آلود ہوتا تھا۔‘‘ اب فروری میں بے وقت بارش کسانوں اور ان کی فصلوں کے لیے بڑی پریشانی کا سبب بنتی ہے۔

ایگل نیسٹ سینکچری کے سرسبز جنگلات میں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا تصور کرنا مشکل ہے، جو پرندوں کی خوش الحانی میں ڈبوبا، بڑے بڑے ایلڈر (بید)، میپل اور بلوط کے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ ہندوستان کے اس مشرقی خطہ میں سورج جلد طلوع ہوتا ہے اور عملہ صبح ۳:۳۰ بجے سے بیدار ہو کر چمکدار نیلے آسمان کے نیچے کام کر رہا ہے۔ سفید بادلوں کے بڑے بڑے ٹکڑے آہستہ آہستہ اوپر سے گزر رہے ہیں۔

سری نواسن کی رہنمائی میں میکا نے ’مسٹ نٹنگ‘ (دھند کی جالی) لگانا سیکھ لیا ہے - یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں بانس کے دو کھمبوں کے درمیان نایلان یا پالیسٹر سے بنی انتہائی باریک جالی کو پھیلا کر پرندوں کو پکڑا جاتا ہے۔ پرندوں کو پکڑنے کے بعد انہیں ایک تھیلی میں رکھا جاتا ہے۔ میکا ایسی ہی سبز تھیلی سے بڑی آہستگی کے ساتھ ایک پرندے کو نکال کر سری نواسن کے حوالے کر دیتے ہیں۔

Fog envelopes the hills and forest at Sessni in Eaglenest . Micah (right) checking the mist-netting he has set up to catch birds
PHOTO • Binaifer Bharucha
Fog envelopes the hills and forest at Sessni in Eaglenest . Micah (right) checking the mist-netting he has set up to catch birds
PHOTO • Vishaka George

ایگل نیسٹ میں سیسنی کے مقام پر پہاڑیوں اور جنگلوں نے کہرے کی چادر اوڑھ لی ہے۔ میکا (دائیں) پرندہ پکڑنے والی مسٹ نٹنگ کی جانچ کر رہے ہیں

Left: Srinivasan (left) and Kaling Dangen (right) sitting and tagging birds and noting data. Micah holds the green pouches, filled with birds he has collected from the mist netting. Micah i nspecting (right) an identification ring for the birds
PHOTO • Binaifer Bharucha
Left: Srinivasan (left) and Kaling Dangen (right) sitting and tagging birds and noting data. Micah holds the green pouches, filled with birds he has collected from the mist netting. Micah inspecting (right) an identification ring for the birds
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: سری نواسن (بائیں) اور کلنگ دانگین (دائیں) بیٹھ کر پرندوں کی ٹیگنگ کرکے ڈیٹا نوٹ کر رہے ہیں۔ میکا کے ہاتھ میں سبز تھیلیاں ہیں، جو پرندوں سے بھری ہوئی ہیں۔ انہیں میکا نے مسٹ نٹنگ کے ذریعہ پکڑا ہے۔ میکا پرندوں کے شناختی چھلے (دائیں) کا معائنہ کر رہے ہیں

تیز رفتار سے کام کرتے ہوئے پرندے کا وزن، اس کے پروں کا پھیلاؤ، اس کی ٹانگوں کی لمبائی کی پیمائش ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کی جاتی ہے۔ شناختی چھلہ کو پرندے کی ٹانگ سے ٹیگ کرنے کے بعد اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پرندے کو مسٹ نٹنگ سے پکڑنے، اسے عارضی میز پر لانے، پیمائش کرنے اور پھر آزاد کرنے کے اس پورے عمل میں تقریباً ۱۵ سے ۲۰ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ ٹیم ہر ۲۰ منٹ سے آدھے گھنٹے میں کم از کم آٹھ گھنٹے تک (موسم کے لحاظ سے ) اس مشق سے گزرتی ہے۔ اور میکاْ تقریباً ۱۳برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔

’’جب ہم نے پہلی بار پرندوں کو پکڑنا شروع کیا تو سفید آنکھوں والی واربلر (سِیسَرکس افینیس) جیسے ناموں کا تلفظ کرنا مشکل تھا۔ یہ تلفظ اس لیے مشکل تھا کیونکہ ہمیں انگریزی میں بات کرنے کی عادت نہیں ہے۔ ہم نے یہ الفاظ کبھی نہیں سنے تھے،‘‘ میکا کہتے ہیں۔

ایگل نیسٹ سینکچری میں پرندوں کی ظاہری شناسی پر دسترس حاصل کرنے کے بعد میکا کو پڑوسی ریاست میگھالیہ جانے کا موقع ملا، جہاں ان کے مطابق جنگل کا بہت بڑا حصہ کاٹ دیا گیا ہے۔ ’’ہم نے چیراپونجی میں [۲۰۱۲ میں] ۱۰ دس دنوں تک قیام کیا، لیکن وہاں پرندوں کی ۲۰ اقسام بھی نظر نہیں آئیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں ایگل نیسٹ میں اس لیے کام کرنا چاہتا تھا، کیونکہ یہاں بہت سی انواع کے جانور تھے۔ بومپو میں قیام کے دوران ہم نے بہت سے پرندے دیکھے تھے۔‘‘

’’کیمرہ سے دلچسپی ۲۰۱۲ سے شروع ہوئی تھی‘‘ میکا بتاتے ہیں۔ انہوں نے ایک وزٹنگ سائنسدان، نندنی ویلہو، کا کیمرہ ادھار لے کر تصویریں اتارنی شروع کی تھیں: ’’سبز پونچھ والا سن برڈ (ایتھوپیگا نِپلینسس ) ایک عام پرندہ ہے۔ میں نے مشق کے طور پر اس کی تصویر اتارنا شروع کیا۔

کچھ سالوں بعد میکا پرندوں کی مہمات پر چند ایک سیاحوں کی رہنمائی کرنے لگے۔ سال ۲۰۱۸ میں ممبئی سے  بی این ایچ ایس (بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی) کا ایک گروپ یہاں آیا تھا۔ ان کی گزارش پر انہوں نے ان کی تصاویر کلک کیں۔ فوٹو شوٹ کرتے ہوئے ان کی خوشی دیکھ کر گروپ کے ایک ممبر نے انہیں نکون پی ۹۰۰۰ کیمرے کی پیشکش کی۔ ’’سر، میں ڈی ایس ایل آر (ڈیجیٹل سنگل لینس ریفلیکس) ماڈل خریدنا چاہتا ہوں۔ مجھے وہ کیمرہ نہیں چاہیے جس کی پیشکش آپ مجھے کر رہے ہیں،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اسی گروپ کے چار اراکین کے فراخدلانہ عطیات، اپنے فیلڈ ورک کی بچت اور پرندوں کی مہم کی رہنمائی سے، ’’میں نے ۵۰ ہزار روپے جمع کیے، لیکن کیمرے کی قیمت ۵۵ ہزار روپے تھی۔ پھر میرے باس [امیش] نے کہا کہ باقی پیسوں کا انتظام وہ کر دیں گے۔‘‘ اس طرح میکا نے ۲۰۱۸ میں آخرکار اپنا پہلا ڈی ایس ایل آر کیمرہ ۱۸ ایم ایم - ۵۵ ایم ایم لینس والا نکون ڈی ۷۲۰۰ خرید لیا۔

Left: Micah practiced his photography skills by often making images of the Green-tailed Sunbird .
PHOTO • Micah Rai
Right: A male Rufous-necked Hornbill is one of many images he has on his phone.
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: میکا  فوٹوگرافی کی مہارت کی مشق کے لیے اکثر سبز دم والے سن برڈ پرندے کی تصویر اتارتے تھے۔ دائیں: ان کے فون میں موجود بہت سی تصاویر میں سے سرخ گردن والے نر ہارن بل کی ایک تصویر

Micah with his camera in the jungle (left) and in the research hut (right)
PHOTO • Binaifer Bharucha
Micah with his camera in the jungle (left) and in the research hut (right)
PHOTO • Binaifer Bharucha

میکا اپنے کیمرے کے ساتھ جنگل میں (بائیں) اور ریسرچ ہٹ میں (دائیں)

’’دو سے تین سال تک ۱۸-۵۵ ایم ایم کے چھوٹے زوم لینس کے ساتھ میں گھر کے ارد گرد پھولوں کی تصاویر اتارتا رہا تھا۔‘‘ زیادہ فاصلے سے پرندوں کے کلوز اپ شاٹس لینے کے لیے بہت طویل اور طاقتور ٹیلی فوٹو لینس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’کچھ سالوں بعد میں نے سوچا کہ مجھے ۱۵۰-۶۰۰ ایم ایم کا سگما لینس خریدنا چاہیے۔‘‘ لیکن میکا کے لیے اس لینس کا استعمال مشکل ثابت ہوا۔ وہ کیمرے کے ایپرچر، شٹر اسپیڈ اور آئی ایس او کے درمیان تعلق کا پتہ لگانے سے قاصر تھے۔ ’’میں نے بے حد بری تصویریں کلک کیں،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ایک سنیماٹوگرافر اور میکا کے اچھے دوست رام الّوری  نے انہیں ڈی ایس ایل آر کیمرہ استعمال کرنے کی تکنیکی بارکیاں سکھائیں۔ ’’اس نے مجھے سیٹنگز استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا اور اب میں صرف دستی [ترتیبات] کا استعمال کرتا ہوں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

لیکن صرف پرندوں کی شاندار تصویریں کھینچنا ہی کافی نہیں تھا۔ اگلا مرحلہ فوٹوشاپ سافٹ ویئر پر تصاویر میں ترمیم کرنے کا طریقہ سیکھنے کا رہا۔ سال ۲۰۲۱ میں میکا نے پوسٹ گریجویشن کے طالب علم سدھارتھ سری نواسن کے ساتھ بیٹھ کر فوٹو شاپ پر تصاویر میں ترمیم کرنے کا طریقہ سیکھا۔

بطور فوٹوگرافر جلد ہی ان کی صلاحیتوں کو شہرت مل گئی اور ان سے کہا گیا کہ وہ ہمالیہ پر کی جانے والی کہانیوں کے لیے مختص ویب سائٹ دی ٹھرڈ پول کے لیے ایک مضمون ’لاک ڈاؤن بِرنگس ہارڈ شپ ٹو بَرڈرز پیراڈائز ان انڈیا‘ کے لیے تصاویر فراہم کرائیں۔ ’’انہوں نے اس کہانی کے لیے میری سات تصاویر منتخب کیں۔ مجھے ہر ایک تصویر کے لیے پیسے ملے اور مجھے بہت خوشی ہوئی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ فیلڈ ورک میں میکا کی ثابت قدمی کے نتیجہ میں، انہیں متعدد سائنسی مقالوں کے شریک مصنف ہونے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔

میکا بہت سی صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں۔ ایک محتاط فیلڈ اسٹاف، پرجوش فوٹوگرافر، اور پرندوں کے شائقین کا رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک گٹارسٹ بھی ہیں۔ چترے بستی (جسے ٹیسرنگ پام بھی کہا جاتا ہے) کے چرچ میں داخل ہوتے ہوئے، میں نے میکا کو ان کے موسیقار کے اوتار میں دیکھا۔ جھومتی ہوئی تین خواتین سے گھرے، وہ اپنے دوست اور مقامی پادری کی بیٹی کی شادی کی تقریب کے لیے گانے کی مشق کرتے ہوئے، آہستہ آہستہ اپنا گٹار بجا رہے تھے۔ جیسے ہی ان کی انگلیاں گٹار کے تاروں پر تیزی سے حرکت کرتی ہیں، مجھے جنگل میں مسٹ نٹنگ سے پرندوں کو آہستگی سے نکالتے ہوئے ان کی قابلیت یاد آتی ہے۔

پچھلے چار دنوں میں انہوں نے جن پرندوں کی پیمائش کی، ٹیگ کیا، اور پھر چھوڑ دیا، وہ سب موسمیاتی بحران کا نقیب بن کر پرواز کر چکے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Photographs : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Photographs : Micah Rai

Micah Rai is based in Arunachal Pradesh and works as a field coordinator with the Indian Institute of Science. He is a photographer and bird guide, and leads bird watching groups in the area.

Other stories by Micah Rai
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam