پاکستان کی سرحد سے تقریباً چار کلومیٹر دور شمشیر سنگھ اپنے بھائی کے گیراج میں اوزاروں سے گاڑیاں ٹھیک کر رہے ہیں۔ وہ گزشتہ تین سالوں سے اپنی مرضی کے خلاف یہاں بطور میکینک کام کر رہے ہیں۔

شمشیر کی عمر ۳۵ سال ہے۔ وہ تیسری نسل کے قلی ہیں جو کبھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واقع اٹاری-واہگہ بارڈر پر کام کرتے تھے۔ ان کے کنبے کا تعلق پرجاپتی برادری سے ہے، جو ریاست میں دیگر پس ماندہ طبقے (او بی سی) کے طور پر درج ہے۔

پاکستان سے ملحق پنجاب کی اس سرحد سے روزانہ سینکڑوں ٹرک سیمنٹ، جپسم اور خشک میوہ جات ہندوستان پہنچاتے تھے اور ٹماٹر، ادرک، لہسن، سویابین عرق، سوتی دھاگے اور دیگر اشیاء لے کر پاکستان جاتے تھے۔

شمشیر ان تقریباً ۱۵۰۰ قلیوں میں سے ایک تھے، جن کا کام ’’ان اشیاء کو سرحد پار آگے کے سفر کے لیے ٹرکوں سے اتارنا اور لوڈ کرنا تھا۔‘‘ علاقے میں کارخانوں یا صنعتوں کے فقدان میں، اٹاری-واہگہ سرحد کے ۲۰ کلومیٹر کے دائرے میں واقع گاؤوں کے بے زمین باشندے اپنی روزی روٹی کے لیے سرحد پار تجارت پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

PHOTO • Sanskriti Talwar

شمشیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اٹاری-واہگہ سرحد پر ایک قلی تھے’ لیکن پچھلے تین سالوں سے وہ اپنے بھائی کے گیراج میں کام کر رہے ہیں

لیکن ۲۰۱۹ میں پلوامہ میں ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد بہت کچھ بدل گیا۔ اس حملے میں ۴۰ ہندوستانی سیکورٹی اہلکار مارے گئے تھے، جس کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے پاکستان کو دیا گیا موسٹ فیورڈ نیشن (ایم ایف این) یعنی سب سے پسندیدہ ملک کا اپنا تجارتی درجہ واپس لے لیا، اور درآمدات پر ۲۰۰ فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی۔ ہندوستان کی جانب سے جموں و کشمیر میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد پاکستان نے بھی تجارتی پابندیوں کے ساتھ جوابی کارروائی کی۔

بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈ اکنامک فنڈامینٹلز (بریف) کے ۲۰۲۰ کے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ امرتسر ضلع کے سرحد سے ملحق گاؤوں میں رہنے والے قلی اور ۹۰۰۰ سے زیادہ خاندان بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔

امرتسر شہر میں کام کرنے کے لیے لوکل بس سے ۳۰ کلومیٹر کے سفر کے کرایے کے طور پر ۱۰۰ روپے کا اضافی خرچ ہوتا ہے۔ کام کی اجرت تقریباً ۳۰۰ روپے ہوتی ہے، لہٰذا، شمشیر کہتے ہیں، ’’روزانہ ۲۰۰ روپے گھر لانے کا کیا مطلب ہے؟‘‘

دہلی (جہاں سفارتی فیصلے لیے جاتے ہیں) سے سینکڑوں کلومیٹر دور رہنے والے ان قلیوں کو محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ان کی نہیں سن رہی ہے، لیکن برسر اقتدار پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ہونے سے ان کی آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی۔ مزید یہ  کہ رکن پارلیمنٹ سرحد کو دوبارہ کھولنے پر زور دے گا جس سے ان کی ملازمتیں بحال ہو جائیں گی۔

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

بائیں: اٹاری-واہگہ سرحد پر ہندوستان اور پاکستان کے قومی پرچم۔ دائیں: اٹاری انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ پر پاکستان سے ہر روز مختلف سامان سے لدے ٹرک ہندوستان آتے تھے اور اسی طرح ہندوستانی اشیاء پاکستان میں داخل ہوتی تھیں۔ لیکن پڑوسی ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات ۲۰۱۹ کے پلوامہ حملے کے بعد ٹوٹ گئے اور یہاں کام کرنے والے قلی بری طرح متاثر ہوئے

اب سرحد پر فصل کے لحاظ سے ہی کام دستیاب ہوتا ہے، صرف اس وقت جب افغانستان سے ٹرک پیداوار لے کر آتے ہیں۔ شمشیر کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام بوڑھے قلیوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جن کے لیے نیا کام تلاش کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

یہاں کے قلی سمجھتے ہیں کہ جوابی کارروائی کے طور پر سرحد بند کیا گیا تھا۔ شمشیر کا کہنا ہے کہ ’’پر جیڑا ایتھے ۱۵۰۰ بندے اوناں دا دے چُلہے ٹھنڈے کرن لگے سو باری سوچنا چاہیدا [لیکن انہیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیسے ان کے فیصلے نے یہاں کے کئی کنبوں کے چولہوں کو ٹھنڈا کر دیا ہے]،‘‘ شمشیر کہتے ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں سے قلیوں نے حکام کو درخواستیں دی ہیں، لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ریاست اور مرکز دونوں میں کوئی بھی حکومت ایسی نہیں ہے، جس سے گزشتہ پانچ سالوں میں ہم نے سرحد کو دوبارہ کھولنے کے لیے اپنے مانگ پتر [میمورنڈم] کے ساتھ رابطہ نہ کیا ہو۔‘‘

کاؤنکے گاؤں کے ایک دلت قلی سوچا سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’امرتسر کے موجودہ ایم پی کانگریس پارٹی کے گرجیت سنگھ اوجلا نے اکثر پارلیمنٹ میں آواز اٹھا کر مودی حکومت سے یہاں کے لوگوں کی روزی روٹی کے لیے سرحد کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، حکومت نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی، کیونکہ ان کی پارٹی مرکز میں برسراقتدار نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

بائیں: سرحد کے قریبی گاؤں کاؤنکے کے ایک قلی سوچا سنگھ اب اپنے بیٹے کے ساتھ راج مستری کا کام کرتے ہیں۔ دائیں: ہرجیت سنگھ اور ان کے پڑوسی سندیپ سنگھ دونوں قلی تھے۔ ہرجیت اب ایک باغ میں کام کرتے ہیں اور سندیپ یومیہ اجرت والے مزدور ہیں۔ وہ اٹاری میں ہرجیت کے گھر کی چھت کی مرمت کا کام کر رہے ہیں

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • Sanskriti Talwar

بائیں: بلجیت (کھڑے) اور ان کے بڑے بھائی سنجیت سنگھ (بیٹھے ہوئے) رورن والا کے رہنے والے ہیں۔ بلجیت کی سرحد پر قلی کی نوکری چلی گئی ہے۔ دائیں: ان کی سات رکنی فیملی میں آمدنی کا واحد مستحکم ذریعہ ۱۵۰۰ روپے کی بیوہ پنشن ہے جو ان کی والدہ منجیت کور کو ہر ماہ ملتی ہے

بطور قلی اپنے کام سے ہاتھ دھونے کے بعد ۵۵ سالہ دلت مذہبی سکھ اپنے بیٹے کے ساتھ راج مستری کا کام کر رہے ہیں، اور روزانہ تقریباً ۳۰۰ روپے کما رہے ہیں۔

لوک سبھا انتخابات ۲۰۲۴ سے پہلے، بی جے پی کے تئیں ایک عام اتفاق رائے ایک دلچسپ بات تھی۔ شمشیر بتاتے ہیں: ’’ہم اس انتخاب کے لیے نوٹا دبانا چاہتے تھے، لیکن ہماری روزی روٹی کا انحصار مکمل طور پر مرکزی حکومت کی منشا پر ہے۔ ہمیں بی جے پی [بھارتیہ جنتا پارٹی] کو ووٹ دینے کی کوئی خواہش نہیں ہے، لیکن یہ ایک ضرورت ہے۔‘‘

گزشتہ ۴ جون، ۲۰۲۴ کو اعلان کردہ انتخابی نتائج کے مطابق کانگریس کے امیدوار گرجیت سنگھ اوجلا نے اپنی سیٹ برقرار رکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سرحد کی سیاست کو متاثر کر پاتے یا نہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Sanskriti Talwar

Sanskriti Talwar is an independent journalist based in New Delhi, and a PARI MMF Fellow for 2023.

Other stories by Sanskriti Talwar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam