’’الا اللہ کی شراب نظر سے پلا دیا، میں اک
گنہگار تھا صوفی بنا دیا۔
صورت میں میرے آ گئی
صورت فقیر کی، یہ نظر میرے پیر کی…یہ نظر میرے پیر کی…‘‘
کلائی پر گنگھرو باندھے، ڈھولک کو بچے کی طرح گود میں رکھ کر بجاتے ہوئے ایک قوال پونے شہر کے قریب ایک درگاہ پر گا رہے ہیں۔
وہ مائک پر نہیں گا رہے، لیکن ان کی بلند اور صاف آواز گنبد کی میناروں کو چھو رہی ہے۔ نہ گلوکاروں کی ٹولی ان کے ساتھ ہے، نہ سامنے سننے والے کھڑے ہیں، مگر قوال اکیلے گائے جا رہے ہیں۔
ایک کے بعد ایک، قوالیوں کا دور چل رہا ہے۔ وہ صرف ظہر اور مغرب کی نماز کے دوران رکتے ہیں، کیوں کہ اس وقت گانا بجانا صحیح نہیں مانا جاتا۔ نماز پوری ہوتی ہے، اور وہ رات کو تقریباً آٹھ بجے تک گاتے رہتے ہیں۔
’’میں امجد ہوں۔ امجد مراد گونڈ۔ ہم راج گونڈ ہیں۔ آدیواسی۔‘‘ وہ اپنا تعارف کراتے ہیں۔ نام سے مسلمان اور جنم سے آدیواسی، امجد ہمیں بتاتے ہیں: ’’قوالی ہمارا پیشہ ہے!‘‘
پان چباتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’قوالی پہ کون نہیں جھومتا! قوالی ایسی چیز ہے جسے سب پسند کرتے ہیں۔‘‘ پان ان کے منہ میں گھلنے لگا ہے، اور وہ قوالی کے اپنے جنون کے بارے میں بتانے لگتے ہیں، ’’پبلک کو خوش کرنے کا…بس!‘‘
’پاؤں میں بیڑی، ہاتھوں میں کڑا رہنے دو، اس کو سرکار کی چوکھٹ پہ پڑا رہنے دو…‘ اسے سن کر مجھے ہندی فلموں کے ایک مقبول گانے کی یاد آ جاتی ہے۔
درگاہ پر زیارت کے لیے آئے لوگوں کو قوالی کے لیے بالی ووڈیا گانے کی دُھن کا استعمال کرنے سے کوئی پریشانی نہیں ہے اور ان میں سے کچھ امجد کی گلوکاری سن کر کچھ پیسے بھی دیتے ہیں۔ کوئی ۱۰ روپے دیتا ہے، تو کوئی ۲۰ روپے۔ درگاہ کی دیکھ بھال کرنے والے، چادر چڑھا کر پیر سے دعا مانگنے آئے لوگوں کو تِل گُل (تل اور گڑ کی مٹھائی) دیتے ہیں۔ ایک مجاور بری نظر سے بچانے کے لیے سوالیوں کی پیٹھ اور کندھوں کو مور کے پروں سے جھاڑتا ہے۔ پیر کو نذرانہ دیا جاتا ہے، اور قوال کو بھی تھوڑے پیسے دیے جاتے ہیں۔
امجد بتاتے ہیں، ’’اس درگاہ پہ سیٹھ لوگ [امیر] زیادہ آتے ہیں۔‘‘ مقبرہ کی طرف جانے والے راستے پر کئی چھوٹی دکانیں ہیں، جو چادریں اور چُنری بیچتی ہیں۔ عبادت گاہیں لوگوں کو روزگار بھی دیتی ہیں، کئی لوگوں کا پیٹ پالتی ہیں۔
حضرت پیر قمر علی درویش کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کرتے۔ درگاہ کی سیڑھیوں پر، ایک فقیر بھیک مانگتے مل جاتے ہیں اور کچھ معذور افراد بھی سوالیوں سے رحم دکھانے اور پیسے دینے کی فریاد کرتے ملتے ہیں۔ نو گز کی ساڑی میں لپٹی ایک بزرگ ہندو خاتون یہاں اکثر آتی ہیں اور حضرت قمر علی درویش کے اثر میں خوش نظر آتی ہیں۔ جسمانی طور سے معذور، یتیم، اور قوال – ہر کوئی یہاں ان کے رحم و کرم پر ہے۔
امجد ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ وہ فنکار ہیں۔ صبح ۱۱ بجے وہ مزار کے سامنے کی کوئی جگہ تلاش کرتے ہیں اور اپنا ’منچ‘ (اسٹیج) تیار کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ سوالی آنے لگتے ہیں۔ دوپہر تک، سنگ مرمر اور گرینائٹ کا سفید فرش گرم ہو جاتا ہے۔ جلتے پتھر سے اپنے پاؤں بچانے کے لیے لوگ اچھلتے کودتے نکلتے ہیں۔ ہندو سوالیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ نظر آتی ہے۔
عورتوں کو مزار کے قریب جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے، مسلم عورتوں سمیت تمام لوگ برآمدے میں بیٹھتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے قرآن کی آیات پڑھتے نظر آتے ہیں۔ قریب کے گاؤں کی ایک ہندو عورت بغل میں بیٹھی ہے، جسے کسی روح نے پکڑ لیا ہے۔ ’’پیراچ وار [پیرکا سایہ]،‘‘ لوگ کہتے ہیں۔
سوالیوں کا ماننا ہے کہ چراغ کا تیل سانپ کے زہر یا بچھو کے ڈنک کو بے اثر کر دیتا ہے۔ اس عقیدہ کی جڑیں اُس دور تک جاتی ہیں، جب اس قسم کے زہر کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے پاس کلینک اور علاج موجود ہے، لیکن بہت سے لوگ اس کا خرچ برداشت نہیں کر پاتے۔ یہاں کئی قسم کے مسائل سے پریشان لوگ بھی آتے ہیں – بے اولاد عورتیں، ساس یا شوہروں کی ستائی ہوئی عورتیں۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے گمشدہ رشتہ داروں کی تلاش میں ہیں۔
درگاہ میں ذہنی امراض کے مریض بھی پیر سے دعا مانگنے آتے ہیں۔ وہ ان سے دعا مانگتے ہیں اور امجد کی قوالی ان کی دعاؤں کو ترنم میں باندھتی ہے اور دُھن میں ڈال دیتی ہے۔ کسی دعا کی طرح ہی وہ ہمیں دوسری دنیا میں لے جاتی ہے۔
کیا وہ کبھی گانا بند کرتے ہیں؟ کیا ان کا گلا تھکتا ہے؟ ان کے پھیپھڑے تو ہارمونیم جیسے معلوم پڑتے ہیں۔ امجد دو گانوں کے درمیان تھوڑا رکتے ہیں اور میں انٹرویو کے لیے ان کا وقت مانگنے ان کے پاس جاتا ہوں۔ ’’میرے کو کچھ دینا پڑیں گا کیا؟‘‘ امجد انگلیوں سے پیسے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھتے ہیں۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ میں ایک بار پھر ان سے وقت مانگتا ہوں اور ان کا گانا سننے لگتا ہوں۔
قوالی روحانی غذا ہے – روح کو چھو جاتی ہے۔ صوفی روایت نے اسے خدا سے جوڑا تھا۔ رئلٹی شوز میں ہم جو سنتے ہیں وہ قوالی کی دوسری شکل ہے – رومانی یا رومانٹک۔ اور پھر اس کی تیسری شکل آتی ہے۔ ہم اسے خانہ بدوشی کہہ سکتے ہیں، جو گزر بسر کی تلاش میں بھٹکتے امجد جیسے لوگوں تک پہنچ گئی۔
امجد کی آواز ہوا میں تیرتی ہے:
تاجدارِ حرم، ہو نگاہِ کرم
ہم غریبوں کے دن بھی
سنور جائیں گے…
آپ کے در سے خالی اگر
جائیں گے
جب امجد نے اسے گایا، تو آخری لائن کے معنی اور بھی گہرے نظر آئے۔ میں اب ان سے بات کرنے کے لیے اور بھی بیتاب ہو گیا تھا۔ لیکن میں انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے میں نے ان سے اگلے دن کا وقت لیا اور پھر سے درگاہ آیا۔ اگلے روز تک میں پیر قمر علی درویش کی تاریخ کھنگالنے میں ہی لگا رہا۔
امجد گونڈ مزار کے سامنے کی کوئی جگہ تلاش کرتے ہیں اور اپنا ’منچ‘ تیار کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ سوالی آنے لگتے ہیں۔ ہندو سوالیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ نظر آتی ہے
*****
تو کہانی کچھ یوں ہے کہ حضر قمر علی، سنگھ گڑھ قلعہ کے دامن میں واقع پونے شہر سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور، ایک چھوٹے سے گاؤں کھیڑ شیواپور آئے تھے۔ ایک شیطان سے پریشان گاؤں کے لوگ حضرت قمر علی کے پاس گئے اور ان سے مدد مانگی۔ تب پیر نے شیطان کو ایک پتھر میں قید کر لیا اور اسے لعنت بھیجتے ہوئے کہا: ’’تا قیامت، میرے نام سے لوگ تجھے اٹھا اٹھا کر پٹکتے رہیں گے، تو لوگوں کو پریشان کیا کرتا تھا، اب جو سوالی میرے دربار میں آئیں گے وہ تجھے میرے نام سے پٹکیں گے۔‘‘
مقبرہ کے سامنے رکھے پتھر کا وزن ۹۰ کلو سے زیادہ ہے اور تقریباً ۱۱ لوگوں کا گروپ اسے صرف ایک انگلی سے اٹھا سکتا ہے۔ وہ اونچی آواز میں ’یا قمر علی درویش‘ کہتے ہیں اور پوری طاقت سے پتھر کو نیچے پٹکتے ہیں۔
درگاہیں کئی گاؤوں میں ہیں، لیکن بہت کم گاؤوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے جتنی یہاں کھیڑ شیواپور میں ہے۔ اس وزنی پتھر کی وجہ سے کافی لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں؛ امجد جیسوں کو بھیڑ کی وجہ سے تھوڑا زیادہ کمانے کا موقع مل جاتا ہے۔ سوالیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اولیاء بے اولادوں کو اولاد دیتے ہیں۔ امجد مجھ سے کہتے ہیں، ’’ہم جڑی بوٹی بھی دیتے ہیں اور بے اولادوں کا علاج کرتے ہیں۔‘‘
*****
اسی احاطہ میں ایک مسجد ہے اور بغل میں وضو خانہ ہے۔ امجد وہاں جاتے ہیں، خود کو اچھی طرح صاف کرتے ہیں، اپنے بالوں کو باندھتے ہیں، زعفرانی ٹوپی پہنتے ہیں اور بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ’’میں ایک دو مہینے میں سے آٹھ دس دن یہیں رہتا ہوں۔‘‘ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ یہاں آیا کرتے تھے۔ ’’میری عمر دس پندرہ رہی ہوگی، جب ابو میرے کو لے کے یہاں آئے تھے۔ اب میری عمر ہو گئی تیس کے آگے، اب میں کبھی کبھی میرے بیٹے کو یہاں لے کے آتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
درویشی برادری کے کچھ لوگ درگاہ کے تہہ خانہ میں بچھی چٹائی پر سو رہے ہیں۔ امجد نے بھی اپنا تھیلا ایک دیوار کے پاس رکھا ہوا تھا۔ وہ چٹائی نکالتے ہیں اور فرش پر بچھا دیتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا گھر جلگاؤں ضلع کے پاچورہ کی گونڈ بستی میں ہے۔
امجد خود کو ہندو یا مسلمان نہیں بتاتے۔ میں ان سے ان کی فیملی کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ ’’ابا ہے، دو ماں ہیں۔ ہم چار بھائی ہیں، میرے بعد شاہ رخ، اس کے بعد سیٹھ، پھر چار نمبر کا بابر۔ پانچ بہنوں کے بعد میرا جنم ہوا۔‘‘ میں ان کے مسلم ناموں کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ وہ جواب دیتے ہیں، ’’ہمارے گونڈ لوگوں میں ہندو اور مسلمانوں کے بھی نام رکھتے۔ ہمارا دھرم کوئی نہیں۔ ہمارے دھرم میں ذات پات نہیں مانتے۔ ہمارا کچھ الگ ہی دھرم ہے۔ رام گونڈ بولتے ہم کو۔‘‘
عوامی طور پر موجود جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً ۳۰۰ سال پہلے، راج گونڈ آدیواسیوں کے ایک گروپ نے اسلام مذہب قبول کر لیا تھا۔ وہ مسلمان/مسلم گونڈ کہے جاتے تھے۔ مہاراشٹر کے ناگپور اور جلگاؤں ضلعوں میں مسلم گونڈ برادری کے کچھ لوگ مل جاتے ہیں۔ لیکن امجد اس تاریخ سے انجان ہیں۔
’’ہمارے میں شادی مسلمان سے نہیں، گونڈ میں ہی ہوتی ہے۔ میری بیوی چاندنی گونڈ ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’میری ایک بیٹی کا نام لاجو، ایک کا نام عالیہ، اور ایک کا نام عالمہ ہے۔ یہ سب گونڈ ہی ہوئے نا؟‘‘ امجد نہیں مانتے کہ نام سے کسی کے مذہب کی پہچان کی جا سکتی ہے۔ وہ مجھے اپنی بہنوں کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’میری سب سے بڑی بہن ہے نشوری۔ اس کے بعد ریشمہ، پھر سوسال، اس کے بعد ڈیڈولی اور سب سے چھوٹی کا نام ہے میری۔ ابھی آپ دیکھو میری بہنوں کے نام گونڈ ہیں۔ لیکن سب سے چھوٹی کا نام کرشچین میں آتا ہے…ہمارے میں ایسا کچھ نہیں، جو نام اچھا لگتا وہ رکھ دیتے…‘‘ نشوری ۴۵ سال کی ہیں اور سب سے چھوٹی بہن مَیری تیس سال کی ہیں۔ ان سبھی کی شادی گونڈ مردوں سے ہوئی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی کبھی اسکول نہیں گیا۔
امجد کی بیوی چاندنی پڑھ لکھ نہیں سکتیں۔ جب ان سے ان کی بیٹیوں کی پڑھائی کے بارے میں پوچھا گیا، تو وہ کہتی ہیں، ’’میری بچیاں ابھی تو سرکاری اسکول میں جاتی ہیں، لیکن ہم لڑکیوں کو زیادہ پڑھاتے نہیں۔‘‘
’’میرے ایک بیٹے کا نام نواز، دوسرے کا غریب ہے!‘‘ خواجہ معین الدین چشتی کو غریبوں کا مسیحا، یعنی ’غریب نواز‘ کہا جاتا ہے۔ امجد نے ان پر ہی اپنے بیٹوں کا نام رکھا ہے۔ ’’نواز تو ابھی ایک سال کا بھی نہیں ہوا۔ لیکن غریب کو میں پڑھاؤں گا۔ اس کو میرے جیسا بھٹکنے نہیں دوں گا۔‘‘ غریب آٹھ سال کا ہے اور تیسری کلاس میں پڑھتا ہے۔ لیکن اپنے قوال باپ کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔
ان کی فیملی کے سبھی مردوں نے قوالی کو ہی اپنا پیشہ بنایا ہے۔
’’ہمارے گونڈ لوگ ایسے ہیں نا، مٹّی بھی اٹھا کے بیچ دیتے ہیں۔ ہم لوگ کان کا میل نکالنے کا بھی کام کرتے۔ کھجور بھی بیچتے ہیں۔ گھر سے نکل گئے، تو ہزار پانچ سو کما کیچ آتے،‘‘ امجد کہتے ہیں۔ لیکن ان کی شکایت ہے کہ ’’ہمارے لوگ پیسہ اڑا دیتے ہیں۔ جمع نہیں کرتے۔ ہمارا ایک کام ہے نہ ایک دھندہ۔ ہمارے میں بالکل بھی کسی کو نوکری نہیں ہے۔‘‘
آمدنی یا کاروبار میں استقامت کی کمی کو دیکھتے ہوئے، امجد کے والد نے قوالی کی طرف رخ کیا۔ ’’ابا، میرے دادا کی طرح گاؤں گاؤں گھومتے تھے۔ کبھی جڑی بوٹی، کبھی کھجور بیچتے تھے۔ لیکن ابا کو گانے بجانے کا شوق لگا۔ پھر وہ قوالی کی لین میں گھس گئے۔ میں بچپن سے ابا کے پیچھے پیچھے جاتا تھا، قوالی کے پروگرام میں بیٹھ بیٹھ کے ابا گانے لگے۔ ان کو دیکھ کر میں بھی سیکھ گیا۔‘‘
’’تو آپ اسکول نہیں گئے؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔
امجد چونے کی پڑیا نکالتے ہیں، انگلی کے پور پر اسے رکھتے ہیں، اور اپنی زبان سے چاٹتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں دوسری تیسری تک گیا اسکول۔ پھر گیا ہی نہیں۔ لیکن میں پڑھ لکھ سکتا۔ انگلش بھی آتا میرے کو۔ میں پڑھا رہتا، تو بہوت آگے جاتا۔ لیکن پڑھا نہیں۔ اس کی وجہ سے پیچھے ہیں ہم۔‘‘ امجد کے بھائیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ سبھی پڑھنا لکھنا سیکھنے کے لیے ہی اسکول میں داخل ہوئے تھے۔ بس۔ پھر کام نے انہیں پڑھائی سے دور کر دیا۔
’’ہمارے گاؤں میں پچاس گھر گونڈ کے ہیں۔ باقی ہندو، مسلمان، ’جے بھیم‘…سب ہیں،‘‘ امجد کہتے ہیں۔ ’’سب میں پڑھے لکھے ملیں گے۔ ہمارے میچ کوئی نہیں ہے۔ صرف میرا ایک بھانجہ پڑھا ہے۔ اس کا نام شیوا ہے۔‘‘ شیوا نے ۱۵ یا ۱۶ سال کی عمر تک پڑھائی کی اور فوج میں شامل ہونا چاہتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اب وہ پولیس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ امجد کی فیملی کا ایک نوجوان کریئر اور پڑھائی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
امجد کا بھی اپنا ایک کریئر ہے۔ ’’ہماری پارٹی ہے۔ کے جی این قوالی پارٹی۔‘‘ کے جی این کا مطلب ہے خواجہ غریب نواز۔ اس کی شروعات انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کی ہے۔ انہیں شادیوں اور دیگر تقریبات میں پرفارم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ’’آپ کتنا کماتے ہیں؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔ ’’جس کا پروگرام رہے گا اس کے حساب سے پانچ دس ہزار ملتے ہیں۔ سننے والے بھی پیسہ چھوڑتے ہیں۔ سب ملا کر پندرہ بیس ہزار کی کمائی ہو جاتی ہے، ایک پروگرام میں۔‘‘ یہ پیسہ سبھی ارکان کے درمیان تقسیم ہو جاتا ہے اور ہر کسی کو ۳-۲ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ملتا۔ شادی کا سیزن ختم ہونے کے بعد، کوئی پروگرام نہیں ہوتا اور پھر امجد پونے آ جاتے ہیں۔
یہاں کھیڑ شیوارپور میں حضرت قمر علی درویش کی درگاہ پر وہ ہمیشہ کچھ پیسے کما لیتے ہیں۔ وہ رات میں تہہ خانہ میں سو جاتے ہیں۔ ’’اوپر والا بھوکا نہیں سُلاتا!‘‘ بہت سے لوگ اپنی دعا قبول ہونے پر دعوت دیتے ہیں یا کھانا کھلاتے ہیں۔ امجد ایک ہفتہ کے لیے یہاں رہتے ہیں، قوالی گاتے ہیں اور جو کچھ بھی کماتے ہیں اس کے ساتھ گھر لوٹ جاتے ہیں۔ یہی ان کا روزمرہ کا معمول ہے۔ جب امجد سے یہاں ہونے والی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے بتایا کہ ۱۰ سے ۲۰ ہزار کے درمیان کما لیتے ہیں۔ ’’لیکن زیادہ کی بھوک اچھی نہیں۔ زیادہ پیسے رکھیں گے کہاں؟ چوری ہو گیا تو؟ اس لیے جتّا بھی ملتا ہے، سمیٹ کر چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’اتنے میں گزارہ ہو جاتا ہے؟‘‘ میں پوچھتا ہوں۔ ’’ہاں، چل جاتا ہے! پھر گاؤں جا کر بھی کام دھندہ کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ میں سوچتا وہ آخر کیا کرتے ہوں گے گاؤں میں، کیوں کہ ان کے پاس زمین یا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
امجد میرے تجسس کو خاموش کرتے ہیں، ’’ریڈیم کا کام۔ میں آر ٹی او [علاقائی ٹرانسپورٹ آفس] جاتا ہوں اور گاڑیوں کے نام اور نمبر پلیٹ پینٹ کرتا ہوں،‘‘ امجد بتاتے ہیں۔ ’’قوالی پروگرام تو ہمیشہ نہیں ملتا، تو ہم نے جھولا اٹھایا، ریڈیم خریدا، پھرتے پھرتے کوئی گاڑی ملا، تو اس کو دلہن جیسا سجا دیا۔‘‘ یہ ان کا سائیڈ بزنس ہے۔ اس ہنر میں سڑک پر کام کرنا ہوتا ہے اور کچھ روپے مل جاتے ہیں۔
معاش کے متبادل کم ہونے اور کچھ چنندہ لوگوں کے ذریعہ ہی فن کو پسند کیے جانے کے سبب، امجد کی برادری کے پاس فخر کے نام پر کچھ خاص نہیں ہے۔ لیکن حالات بدلتے ضرور ہیں۔ ہندوستانی جمہوریہ نے ان کی زندگی میں امید کی شمع روشن کی ہے۔ ’’میرے والد سرپنچ [گرام پردھان] ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ انہوں نے گاؤں کے لیے کئی اچھے کام کیے ہیں۔ پہلے چاروں طرف کیچڑ ہوتا تھا، لیکن انہوں نے سڑک بنا دی۔‘‘
مقامی سطح پر آدیواسیوں کو ملے ریزرویشن نے اسے ممکن بنایا ہے۔ حالانکہ، امجد اپنے لوگوں سے خفا بھی نظر آتے ہیں۔ ’’سرپنچ کے آگے کوئی جاتا ہے کیا؟ ہمارے لوگ سُنتیچ نہیں۔ ہاتھ میں پیسہ آیا نہیں کہ مرغی مچھلی لاتے۔ سب پیسہ اڑا ڈالتے۔ صرف موج کرتے۔ آگے کی کوئی نہیں سوچتا۔‘‘
’’آپ ووٹ کسے دیتے ہیں؟‘‘ میں پوچھتا ہوں، یہ اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ ووٹنگ ذاتی چیز ہے۔ ’’پہلے پنجا (ہاتھ) کو کرتے تھے۔ ابھی تو بی جے پی ہی چل رہا ہے۔ ذات والے جو فیصلہ کرتے ہیں اس کو ہی ووٹ کرتے۔ جو چل رہا ہے، وئیچ چل رہا ہے! ہم کو پولیٹکس سے مطلب نہیں،‘‘ وہ ٹالتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’آپ شراب پیتے ہو؟‘‘ میں پوچھتا ہوں اور وہ فوراً انکار کر دیتے ہیں۔ ’’نہیں، نہیں…بیڑی نہیں، شراب نہیں۔ ہمارے بھائی بیڑی پیتے، پڑیا کھاتے، لیکن میں نہیں۔ کوئی شوق نہیں گندا۔‘‘ میں ان سے جاننا چاہتا ہوں کہ ان عادتوں میں غلط کیا ہے۔
’’ہم بہوت الّگ لین میں ہیں۔ آدمی شراب پی کے گانے بیٹھا تو اس کا بے عزتی ہوتا نا؟ تو کائے کو ویسا کام کرنے کا؟ تو بچپن سے آپون شوق ہی نہیں کرے…،‘‘ امجد کہتے ہیں۔
آپ کو کون سی قوالی پسند ہے؟ سنسکرت میں جو قوالی رہتی نا، وہ مجھ کو بہوت اچھی لگتی۔ گانے میں بھی اچھا لگتا، سننے میں بھی اچھا لگتا۔‘‘ سنسکرت قوالی؟ ’’اسلم صابری نے گائی ہے نا ’کرپا کرو مہاراج‘، کتنا میٹھا لگتا، جو گیت دل کو چھو لیتا ہے وہی سنسکرت ہوتا ہے، قوالی بھگوان کے لیے گاؤ یا نبی کے لیے، دل کو چھو جائے بس!‘‘ وہ سمجھاتے ہیں۔
امجد کے لیے، ہندو بھگوان کی شام میں گائی قوالی ’سنسکرت‘ ہے۔ ہم ہی ہیں جو رسم الخط اور زبانوں کو لے کر لڑتے ہیں۔
دوپہر ہوتے ہوتے مجمع بڑھنے لگتا ہے۔ مردوں کا ایک گروہ مزار کے سامنے اکٹھا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ٹوپی پہنتے ہیں اور کچھ اپنے سر کو رومال سے ڈھکتے ہیں۔ ’یا…قمر علی درویش…‘ کا زوردار نعرہ گونجتا ہے اور وہ سبھی مل کر بھاری پتھر کو اپنی انگلیوں سے اٹھاتے ہیں، اور پوری طاقت سے اسے نیچے پٹک دیتے ہیں۔
دوسری طرف، امجد مراد گونڈ دیوتاؤں اور پیغمبروں کے لیے ’قول‘ گانا جاری رکھتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز