یہ جولائی ۲۰۲۱ کی ایک کہرے والی صبح تھی۔ کسان شیو رام گواری جب بھیما شنکر وائلڈ لائف سینکچری سے ملحق اپنے کھیت پر پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ پانچ گُنٹھے (تقریباً صفر اعشاریہ ۱۲۵ ایکڑ) سے زیادہ زمین پر لگی ان کی دھان کی فصل کو آدھا کھا لیا گیا تھا۔ بقیہ فصل روند دی گئی تھی۔
’’یہ منظر میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ان کے دماغ میں اب بھی اس منظر کی خراب یادیں تازہ ہیں۔ حملہ آور جانوروں کے پیروں کے نشان کا پیچھا کرتے ہوئے جب وہ گھنے جنگل میں پہنچے، تو اچانک ان کو گوا (بوس گورس) یا گور نظر آ گئے، جسے عام طور پر جنگلی بھینسہ بھی کہتے ہیں۔ گائے کی نسل میں سب سے لمبے چوڑے جسم کے گور، دیکھنے میں بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ نر گور چھ فٹ سے بھی زیادہ اونچے ہوتے ہیں اور ان کا وزن ۵۰۰ سے ۱۰۰۰ کلوگرام کے درمیان ہوتا ہے۔
جب ان بھاری بھرکم گوروں کا جھنڈ کھیتوں کو روندتا ہے، تو کھیتوں میں بڑے بڑے گڑھے بن جانے سے پھلوں اور پودوں کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ ’’یہ تیسرا سال ہے، جب گووں نے میری فصل پوری طرح سے برباد کر دی ہے۔ میرے پاس کھیتی چھوڑ دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا،‘‘ شیو رام کہتے ہیں۔ وہ دون گاؤں میں ٹین کی چھت والے اپنے گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جہاں گوروں کا ایک جھنڈ ۲۰۲۱ سے آ کر رہ رہا ہے۔
یہ گاؤں بھیما شنکر وائلڈ لائف سینکچری کے ارد گرد آباد بہت سے گاؤوں میں سے ایک ہے۔ اس سینکچری میں ہرن، جنگلی سؤر، سانبھر، تیندوا اور کبھی کبھی نظر آنے والے شیر رہتے ہیں۔ تقریباً ساٹھ سال کے شیو رام نے اپنی پوری زندگی امبے گاؤں میں ہی گزاری ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جنگل سے بھٹک کر آئے جانوروں سے فصلوں کو ہونے والا نقصان پہلے اتنا خوفناک کبھی نہیں رہا۔ ’’ان جانوروں کو پکڑ کر کہیں دور چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
لگاتار تیسرے سال گوروں کے ذریعہ فصلوں کو برباد کر دیے جانے کے ڈر سے انہوں نے تقریباً سال بھر پہلے اپنے کھیتوں میں فصل بونا بند کر دیا ہے۔ بہت سارے دوسرے کسانوں نے بھی اپنے کھیتوں کو پرتی ہی رہنے دیا ہے۔ گزر بسر کے لیے انہوں نے بنیادی طور پر جلاون کی لکڑی اور ہیرڈا جمع کر کے بیچنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ ہیرڈا ایک پھل ہے، جو آیورویدک دوائیں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سال ۲۰۲۳ میں جاری حکومت ہند کی ایک رپورٹ ’گائیڈ لائنس فار ہیومن-گور کانفلکٹ مٹیگیشن‘ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جنگلات کے کاٹے جانے اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں جانوروں کے لیے کھانے اور رہائش کے بحران کے سبب ارد گرد کے علاقے کی فصلوں نے ان جانوروں کو چارہ مہیا کرانے کا کام کیا۔ ان کی مسلسل بڑھتی دراندازی اور حملوں کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
*****
سال ۲۰۲۱ میں دون گاؤں کے آس پاس آ کر رہائش پذیر یہ جھنڈ نسبتاً چھوٹا تھا، جس میں صرف تین سے چار گور ہی تھے۔ سال ۲۰۲۴ میں ان کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے اور اسی تناسب میں ان کے حملے بھی بڑھے ہیں۔ پرتی پڑے کھیتوں کو دیکھ کر وہ گھومتے گھومتے گاؤوں میں پہنچ جاتے ہیں اور مقامی لوگوں کو بری طرح سے دہشت زدہ کر دیتے ہیں۔
گاؤں کے زیادہ تر کسان صرف اپنی گزر بسر کے لیے کھیتی کرتے ہیں۔ وہ پہاڑیوں کے دامن میں کھیت کے ہموار ٹکڑوں پر کھیتی کرتے ہیں، جو بمشکل کچھ ہی ایکڑ ہوں گے۔ چند کسانوں نے اپنا کنواں کھود رکھا ہے۔ جن کے پاس اپنا خود کا بورویل ہے ویسے کسانوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ اس علاقہ میں کھیتی بنیادی طور پر مانسون پر منحصر ہے۔ ایسے میں گوروں کے حملے نے ان کی سالانہ پیداواروں اور غذائی تحفظ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
بدھا گواری اپنے گھر سے لگی تین گُنٹھا زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی مانسون کے موسم میں رائی بھوگ جیسی چاول کی مقامی قسمیں اور جاڑے میں مسور اور ہربرا جیسی دالیں اُگاتے ہیں۔ ’’میں اپنے کھیت میں نئے اگائے گئے پودے روپنے والا تھا، انہوں نے میرے پودوں کو برباد کر دیا اور میری پوری پیداوار تباہ ہو گئی۔ میں نے وہی فصل گنوا دی جو میرے اہل خانہ کے پیٹ بھرنے کے کام آتی ہے۔ چاول کے بغیر پورے سال ہمیں کافی مشکل ہوگی،‘‘ ۵۴ سالہ بدھا گوار کہتے ہیں۔
بدھا کا تعلق کولی مہادیو کمیونٹی سے ہے، جو ریاست میں درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج ہے۔ ’’میں اپنی پیداوار نہیں بیچتا ہوں۔ وہ اتنی ہوتی ہی نہیں ہے کہ میں فروخت کر سکوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کے اندازہ کے مطابق، سالانہ طور پر انہیں ۳۰ سے ۴۰ ہزار روپے کی فصل ہوتی ہے اور لاگت ۱۰ سے ۱۵ ہزار روپے پڑتی ہے۔ جو بچتا ہے وہ پانچ رکنی ان کی فیملی کے سال بھر کھانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ دھان کے نقصان سے ان کی فیملی کے سامنے پیٹ بھرنے کا مسئلہ آ کھڑا ہوا ہے۔
فصلوں کے نقصان کے بعد شیو رام اور بدھا دونوں نے ہی محکمہ جنگلات سے رابطہ کیا اور وہاں پنچ نامہ (جانچ رپورٹ) داخل کیا۔ چھ مہینے سے بھی زیادہ عرصے کے بعد، شیو رام کو ۵۰۰۰ روپے اور بدھا کو ۳۰۰۰ روپے بطور معاوضہ ملے۔ یہ رقم ان کو ہونے والے نقصان کی ۱۰ فیصد رقم کے برابر تھی۔ ’’۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے تو صرف معاوضہ کے لیے الگ الگ سرکاری دفتروں کے چکر کاٹنے میں خرچ ہو گئے تھے،‘‘ بدھا کہتے ہیں۔ نائب سرپنچ سیتا رام گواری نے بتایا کہ وزارت زراعت کے ذریعہ بنائے گئے ضابطوں پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔
بدھا کے بیٹے بال کرشن گواری کہتے ہیں، ’’کمائی کے ایک اضافی ذریعہ کے طور پر منریگا کی شروعات سے ہمیں کافی فائدہ حاصل ہو سکتا تھا۔ ہم پانی جمع کرنے کے لیے کنویں جیسے آبی ذخیرہ بھی کھود سکتے تھے۔‘‘ منریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم) کے کاموں میں کمی کے سبب دون کے کسان ارد گرد کے منچر اور گھوڑے گاؤں جیسے گاؤوں میں دوسرے کے کھیتوں میں مزدوری کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ وہاں زمینیں زیادہ زرخیز ہیں اور سہیادری کی پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والے پانی کی وجہ سے سینچائی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ورئی اور ساوا جیسی روایتی فصلوں کے سبب کچھ کسان گزر بسر کے لائق اناج پیدا کر لیتے ہیں، کیوں کہ ان فصلوں کا زیادہ خیال نہیں رکھنا پڑتا ہے۔
*****
مقامی کارکن اور پونے ضلع کے آل انڈیا کسان سبھا کے صدر ڈاکٹر امول واگھمارے کہتے ہیں کہ کم ہوتے جنگلاتی علاقے، جانوروں کی بڑھتی آبادی اور ماحولیات سے جڑے غیر قدرتی واقعات کے سبب زیادہ تر جانوروں کے لیے کھانے کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ’’یہ جانور جنگل کے کسی اور علاقے سے کھانے اور پینے کے پانی کی تلاش میں آئے معلوم ہوتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ دون کے رہائشی بتاتے ہیں کہ ان گوروں کو پہلی بار ۲۰۲۱ کی گرمیوں میں دیکھا گیا تھا، جب جنگلوں میں عموماً ان کے لیے کھانے کی کمی ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر واگھمارے کہتے ہیں، ’’دون میں اور آس پاس کے علاقے میں محکمہ جنگلات کی بہت کم چوکیاں ہیں۔ محکمہ جنگلات کے زیادہ تر ملازم ۷۰-۶۰ کلومیٹر دور تعلقہ میں رہتے ہیں،‘‘ آدمی اور جنگلاتی جانوروں کے ٹکراؤ کو مٹانے میں محکمہ جنگلات کے رول کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’کئی بار تو ناگہانی صورتحال میں – مثال کے طور پر اگر کوئی تیندوا کسی دیہاتی کے گھر میں داخل ہو جائے، تو اس سے نمٹنے کے لیے ملازمین کو پہنچنے میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ رات کا وقت ہو، تب تو وہ اور نہیں آنا چاہتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
گاؤں کے نائب سرپنچ سیتا رام گواری، جو گوروں کے حملوں کا نقصان خود بھی برداشت کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اس مسئلہ کو وہ محکمہ جنگلات کے سامنے کئی بار اٹھا چکے ہیں۔ محکمہ نے گاؤں اور جنگل کے درمیان باڑ لگانے کی تجویز پیش کی تھی، تاکہ گوروں کی حرکتوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔ لیکن اس تجویز کو مقامی لوگوں نے اس لیے خارج کر دیا کہ وہ معاش کے لیے ان جنگلات پر منحصر ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
بھوکے پھرتے گور اب بھی ارد گرد ہی منڈلاتے رہتے ہیں، اس لیے شیو رام اور دیگر کسان آنے والے سیزن میں کھیتی کی تیاری نہیں کر رہے ہیں۔ ’’جان بوجھ کر ہر سال اسی بربادی کو جھیلنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں پہلے ہی بہت نقصان برداشت کر چکا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز