دیپکا کمان کی تجربہ کار آنکھیں تقریباً ایک جیسے نظر آنے والے نر اور مادہ پتنگوں میں فرق کر سکتی ہیں۔ وہ بھورے، ہلکے پیلے رنگ کے تقریباً ۱۳ سینٹی میٹر لمبے پتنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وہ ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ایک والا دوسرے سے تھوڑا لمبا ہے۔ اور وہ نر ہے۔ جو چھوٹا اور موٹا ہے، وہ مادہ ہے۔‘‘

دیپکا، آسام کے ماجولی ضلع کے بورون چتادر چُک گاؤں میں رہتی ہیں اور انہوں نے تقریباً تین سال پہلے ایری ریشم کے کیڑے (سامیا ریکینی) پالنا شروع کیا تھا۔ انہوں نے یہ کام اپنی ماں اور دادی سے سیکھا تھا۔

ایری سِلک کی پیداوار آسام کی برہم پتر وادی اور پڑوسی ریاستوں اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں کی جاتی ہے۔ میسنگ برادری روایتی طور پر ریشم کے کیڑے پالنے اور گھریلو کھپت کے لیے ایری سِلک تیار کرتی رہی ہے، لیکن نسبتاً کاروباری فروخت کے لیے ریشم بُننا برادری کے اندر ایک نئی روایت ہے۔

دیپکا (۲۸) کہتی ہیں، ’’اب وقت بدل گیا ہے۔ آج کل تو چھوٹی لڑکیاں بھی ریشم کے کیڑے پالنے کا طریقہ سیکھنا چاہتی ہیں اور اس کی مشق کرتی ہیں۔‘‘

PHOTO • Prakash Bhuyan

دیپکا کمان ریشم کے کیڑے پالتی ہیں۔ وہ ایری ریشم کے کیڑوں کی کھانے کی پلیٹ کو صاف کر رہی ہیں، جو ارنڈی کے پتے (ایرا پات) کھاتے ہیں

ریشم کے کیڑے کو پالنا شروع کرنے کے لیے لوگ یا تو ماجولی کے ریشم پروڈکشن ڈپارٹمنٹ سے انڈے خرید سکتے ہیں – جہاں انہیں ریشم کے کیڑوں کی کچھ مخصوص انواع کے لیے تقریباً ۴۰۰ روپے فی پیکٹ خرچ کرنے پڑ سکتے ہیں – یا پھر وہ گاؤں کے ان لوگوں سے انڈے لے سکتے ہیں جو پہلے سے ہی اس کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ دیپکا اور ان کے شوہر اُدے عام طور پر دوسرا والا طریقہ استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ اس سے انہیں مفت میں انڈے مل جاتے ہیں۔ وہ دونوں ایک بار میں صرف تین جوڑی ریشم کے کیڑے پالتے ہیں، کیوں کہ اس سے زیادہ کیڑوں کو پالنے کا مطلب ہوا کہ انہیں لاروا کی غذا کے لیے زیادہ سے زیادہ ارنڈی کے پتوں کو ڈھونڈنا ہوگا۔ چونکہ ان کے پاس ارنڈی کا پودا نہیں ہے، اس لیے انہیں اس کی پتیوں کو ڈھونڈنا ہی ہوگا۔

وہ بتاتی ہیں، ’’اس کام میں بہت محنت ہے۔ اس [ارنڈی کے پتوں] کی کھیتی زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں بانس کی باڑ بنانی ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں بکریاں اسے تباہ نہ کر دیں۔‘‘

کیٹر پِلر (اِلّی) بہت زیادہ کھاتے ہیں اور جلد ہی ان کے لیے وافر مقدار میں ایرا کی پتیوں کا انتظام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’’ہمیں یہاں تک کہ رات میں جاگ کر انہیں کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ وہ جتنا زیادہ کھاتے ہیں، اتنا ہی زیادہ ریشم بناتے ہیں۔‘‘ اُدے نے یہ بھی بتایا کہ وہ کیسیرو (ہیٹیروپینکس فریگرینس) کھاتے ہیں۔ لیکن وہ ان میں سے کوئی ایک ہی کھائیں گے۔ ’’وہ اپنی پوری زندگی میں باقی سب چھوڑ کر صرف کوئی ایک ہی مخصوص پتّہ کھاتے ہیں۔‘‘

جب وہ اپنے چاروں طرف کوکون بنانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، تو پکا پلو (کیٹر پِلر) مناسب جگہ کی تلاش میں ادھر ادھر رینگنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں کیلے کے پتّوں اور گھاس پر رکھ کر ان میں تبدیلی کا انتظار کیا جاتا ہے۔ دیپکا بتاتی ہیں، ’’جب وہ دھاگے بنانا شروع کرتے ہیں، تو صرف اگلے دو یا تین دن ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے کوکون میں غائب ہو جاتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Prakash Bhuyan
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: ایری سلک کے کوکون دیپکا اور اُدے کے گھر کی دیوار سے لٹکے ہوئے ہیں۔ مادہ کیڑے کے کوکون نر کیڑے کے کوکون سے بڑے ہوتے ہیں

*****

کوکون بننے کا عمل شروع ہونے کے تقریباً ۱۰ دن بعد سِلک کے ریشے نکالنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ دیپکا کہتی ہیں، ’’اگر ہم انہیں اس سے زیادہ وقت تک رکھتے ہیں، تو کیٹر پِلر پتنگے میں بدل جاتا ہے اور اڑ جاتا ہے۔‘‘

ریشم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں: یا تو تبدیلی ہونے تک انتظار کرو، تاکہ ریشم کے کیڑے پتنگوں میں بدل کر اپنے کوکون سے نکل جائیں یا روایتی میسنگ طریقہ، جس میں کوکون کو اُبالا جاتا ہے۔

دیپکا بتاتی ہیں کہ جب تک کوکون کو اُبالا نہ جائے، ہاتھ سے ریشے کو نکالنا مشکل ہے۔ جب ریشم کے کیڑے اس میں سے نکل جاتے ہیں، تو یہ سڑ جاتا ہے۔ اُدے کہتے ہیں، ’’ابالتے ہوئے ہم لگاتار یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کیا وہ نرم ہوئے یا نہیں۔ آگ پر پکانے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔‘‘

پلو پاکا (کیٹر پلر) ایک لذیذ کھانا ہے، جسے ابلے ہوئے کوکون سے نکالنے کے بعد کھایا جاتا ہے۔ دیپکا کہتی ہیں، ’’اس کا ذائقہ گوشت جیسا ہوتا ہے۔ اسے فرائی کیا جا سکتا ہے یا پٹّ دیا (ایک ایسا کھانا جس میں کسی سبزی، گوشت یا مچھلی کو کیلے کے پتّے میں لپیٹ کر چولہے میں پکایا جاتا ہے) کی طرح کھایا جاتا ہے۔‘‘

نکالے گئے ریشے کو دھو کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر سایہ میں سُکھایا جاتا ہے۔ پھر ان ریشوں سے تاکوری یا پپی (تکلی) کے ذریعہ دھاگہ بنایا جاتا ہے۔ دیپکا کہتی ہیں، ’’۲۵۰ گرام ایری دھاگہ بنانے میں تین سے چار دن لگتے ہیں،‘‘ جو اپنے گھر کے روزمرہ کے کاموں کو نمٹانے کے بعد ریشم سے دھاگہ بناتی ہیں۔ روایتی چادر میخلا (ٹو پیس ڈریس) پوشاک بنانے میں تقریباً ایک کلوگرام دھاگے کی ضرورت ہوتی ہے۔

PHOTO • Prakash Bhuyan
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: مادہ انڈے دیتی ہے۔ جب ریشم کے کیڑے کوکون سے باہر آتے ہیں تو وہ بالغ ہوتے ہیں اور افزائش کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ دائیں: ایری سلک کوکون سے ریشم کے کیڑے باہر نکلتے ہوئے۔ ایری ریشم کے کیڑے انڈے سے نکلنے کے تقریباً ۴-۳ ہفتے بعد کوکون بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اتنے وقت میں ریشم کے کیڑے اپنے چوتھے اور آخری دھاگے بنانے کے عمل کو پورا کر لیتے ہیں اور پتنگوں کی شکل میں بدلنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران ریشم کے کیڑے اپنے چاروں طرف پروٹین سیال چھوڑتے ہیں، جو ہوا کے رابطہ میں آ کر خشک ہو جاتا ہے اور کوکون بننے لگتا ہے۔ دو سے تین دن میں کوکون بن کر تیار ہو جاتا ہے۔ ریشم کے کیڑے اگلے تین ہفتوں تک کوکون کے اندر رہتے ہیں، جس کے بعد وہ پوری طرح سے پتنگوں میں بدل جاتے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: کوکون سے ایری سلک کے دھاگے بنانے میں ان روایتی اوزاروں کا استعمال کیا جاتا ہے: تاکوری ، جس سے ایری ریشم کے دھاگے کاتے جاتے ہیں، جب کہ پپی کا استعمال کتائی کے اوزار کو وزن دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پپی کے ذریعہ ایری سلک کے کئی مہین ریشوں کو کات کر ایک دھاگے کی شکل میں پرویا جاتا ہے۔ دائیں: تلے ہوئے ریشم کے کیڑے ایک کٹوری میں۔ شمال مشرقی ہندوستان میں میسنگ برادری سمیت کئی برادریوں میں ریشم کے کیڑے کو ایک لذید پکوان تصور کیا جاتا ہے

پہلی بار کاتے جانے پر ریشم کے دھاگے سفید ہوتے ہیں، لیکن بعد میں بار بار دھونے پر ان کا رنگ ایری کیڑے کی طرح تھوڑا پیلا ہو جاتا ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’’اگر ہم صبح سے کام شروع کر کے دن بھر کام کریں، تو ایک دن میں ایک میٹر ایری ریشم بُنا جا سکتا ہے۔‘‘

ریشم کے دھاگوں کو سوتی دھاگے کے ساتھ ملا کر بھی بُنا جاتا ہے۔ دیپکا کہتی ہیں کہ ایری سلک کے کپڑوں سے آسامی عورتوں کے ذریعہ پہنی جانے والی شرٹ، ساڑی اور روایتی پوشاکیں بنائی جاتی ہیں۔ ایری سِلک سے اب تو ساڑیاں بھی بنائی جا رہی ہیں جو ایک نیا ٹرینڈ ہے۔

سِلک کے کاروبار میں آ رہے نئے رجحانوں کے باوجود اسے چلانا بہت مشکل ہے۔ دیپکا، جنہوں نے فی الحال کچھ وقت کے لیے سِلک کے کاروبار سے دوری بنا لی ہے، کہتی ہیں، ’’ریشم کے کیڑے پالنا اور پھر سُلک بُننے میں کافی وقت لگتا ہے۔‘‘ گھریلو کاموں، موسمی زرعی کاموں اور اپنے چار سال کے بچے سے متعلق ذمہ داریوں کے درمیان ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ سلک کے کاروبار کو بھی سنبھال سکیں۔

*****

چالیس سال سے زیادہ عمر کی جامنی پائینگ ہندوستانی دست کاری کونسل کے ذریعہ منظور شدہ ایک ماہر بُنکر ہیں۔ وہ تقریباً ایک دہائی سے ایری ریشم سے بنے کپڑے بُن رہی ہیں اور اس ہنر میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کی وجہ سے فکرمند ہیں۔ ’’ان دنوں، ہمارے درمیان ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کبھی ہتھ کرگھے کو چھوا تک نہیں ہے۔ وہ اصلی ایری کو نہیں پہچان پاتے۔ مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے۔‘‘

جب جامنی دسویں جماعت میں تھیں، تو انہوں نے کپڑا اور بُنائی کا کورس کیا۔ کالج میں داخلہ لینے سے پہلے کچھ سالوں تک انہوں نے اس شعبہ میں کام کیا۔ گریجویشن کے بعد وہ ایک غیر سرکاری ادارہ میں شامل ہو گئیں اور روایتی سلک بُنائی کو سمجھنے کے لیے انہوں نے ماجولی میں کئی گاؤوں کا دورہ کرنا شروع کر دیا۔

PHOTO • Prakash Bhuyan
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: جامنی پائینگ، آسام کے ماجولی میں کملا باڑی میں اپنی دکان میں ایک تصویر کے لیے پوز دیتے ہوئے۔ دائیں: ہاتھ سے بُنی ہوئی ایری ریشم کی شال

PHOTO • Prakash Bhuyan
PHOTO • Prakash Bhuyan

جامنی پائینگ کی ورکشاپ میں بُنائی کے سامان

ماجولی کی رہنے والی جامنی کہتی ہیں، ’’جو گھر ایری ریشم کے کیڑوں کو پالنے میں لگے ہوئے ہیں وہاں بچے اپنی ماؤں سے سب کچھ سیکھ رہے ہیں۔ مجھے تات باتی [بُنائی] کرنا یا بابن چلانا نہیں سکھایا گیا تھا۔ میں نے اپنی ماں کو یہ سب کرتے ہوئے دیکھ کر سیکھا تھا۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر عورتیں تب اپنے ہتھ کرگھے سے بُنے گئے ریشمی کپڑے پہنتی تھیں، کیوں کہ تب مشین سے بنے کپڑے آج کی طرح بہت زیادہ دستیاب نہیں تھے۔ عورتیں، ایری، نونی اور موگا ریشم سے بنی چادر میخلا پہنتی تھیں۔ ’’عورتیں جہاں بھی جاتی تھیں، اپنی تاکوری [ہتھ کرگھا] ساتھ لے جاتی تھیں۔‘‘

یہ سب دیکھ کر جامنی بھی اس کام کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ’’میں نے تبھی طے کر لیا تھا کہ میں بھی ایری ریشم کے کیڑے پالوں گی اور دوسروں کو بھی ایسا کرنا سکھاؤں گی۔‘‘ فی الحال، وہ ماجولی کی تقریباً ۲۵ عورتوں کو ایری سِلک کی بُنائی اور اس سے کپڑا تیار کرنے کی ٹریننگ دیتی ہیں۔ ان کے کام کی ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی نمائش کی جاتی ہے، جس میں برطانوی میوزیم میں نمائش کے طور پر رکھا گیا ایک نمونہ بھی شامل ہے۔

جامنی کہتی ہیں، ’’ایری کپڑوں کی مانگ بہت زیادہ ہے، لیکن ہم اسے روایتی طریقوں سے تیار کرتے ہیں۔ دیگر جگہوں پر ایری سِلک کے کپڑے بھی مشنیوں پر بُنے جا رہے ہیں؛ اور بہار کے بھاگل پور سے آسام کے بازاروں میں سِلک کی سپلائی کی جا رہی ہے۔

ہاتھ سے بُنے ہوئے کپڑوں کی قیمت اس بات پر منحصر ہے کہ اسے بنانے میں کس قسم کے دھاگوں کا استعمال کیا گیا ہے، ساتھ ہی بُنائی کی تکنیک اور ڈیزائن سے جڑی پیچیدگیاں بھی معنی رکھتی ہیں۔ روایتی ڈیزائنوں والے ہاتھ سے تیار ایری سلک کے دوپٹوں کی قیمت ۳۵۰۰ روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ مقامی بازاروں میں ہاتھ سے تیار سلک سے بنائی گئی چادر میخلا تقریباً ۸۰۰۰ روپے سے ۲۰-۱۵ ہزار روپے تک میں فروخت ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’پہلے آسامی لڑکیاں اپنے عاشقوں کے لیے گمچھا، رومال اور تکیے کے کور اور ہماری میسنگ لڑکیاں گلوک بُنتی تھیں۔‘‘ جامِنی کا ماننا ہے کہ اگر لوگ روایتی طریقوں کو فروغ نہیں دیں گے اور اسے اگلی نسل تک نہیں پہنچائیں گے، تو ان روایتوں سے جڑی شاندار روایت ختم ہو جائے گی۔ ’’اسی لیے میں اپنی صلاحیت کے مطابق ہر ممکن طریقے سے یہ کر رہی ہوں اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہوں۔‘‘

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Prakash Bhuyan

Prakash Bhuyan is a poet and photographer from Assam, India. He is a 2022-23 MMF-PARI Fellow covering the art and craft traditions in Majuli, Assam.

Other stories by Prakash Bhuyan
Editor : Swadesha Sharma

Swadesha Sharma is a researcher and Content Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with volunteers to curate resources for the PARI Library.

Other stories by Swadesha Sharma
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique