’’کیا فرق پڑتا ہے کہ کون جیت رہا ہے؟ یا آئی پی ایل چل رہا ہے یا ورلڈ کپ؟‘‘

جس ملک میں کرکٹ کو مذہب مانا جاتا ہو، وہاں مدن کا یہ سوال اسے ناپاک کرنے والا ہے۔

حالانکہ، وہ اسے آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کوئی بھی جیتے، ہمیں کام مل جاتا ہے۔‘‘ مدن (۵۱ سالہ) کرکٹ کی گیندیں بناتے ہیں، اور میرٹھ شہر میں چمکدار لال اور سفید گیند بنانے والی ڈھیروں اکائیوں میں سے ایک کے مالک ہیں۔

مارچ کا مہینہ چل رہا ہے، اور ان کے چاروں طرف تقریباً ۱۰۰ باکس رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں چھ چمڑے سے بنی گیندیں ہیں، جو مردوں کے کرکٹ کے اس مصروف ترین کیلنڈر میں کھیلے جانے کو تیار ہیں۔ دو مہینے تک چلنے والی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے لیے سیزن کی پہلی گیند مارچ کے آخر میں پھینکی جانی ہے۔ اس کے بعد، جون میں آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ کا فائنل ہونا ہے۔ اکتوبر اور نومبر میں ہندوستان کو مردوں کے ایک روزہ بین الاقوامی ورلڈ کپ کی میزبانی کرنی ہے۔

مدن کہتے ہیں، ’’گیند کا استعمال کس سطح پر ہوگا، اس سے کون کھیلے گا، اس سے کتنے اوور پھینکے جائیں گے، یہ گیند کے معیار سے طے ہوگا۔‘‘

Madan (left) at his cricket-ball-making unit in Shobhapur slum of Meerut district.
PHOTO • Shruti Sharma
Dharam Singh (right) is the most experienced craftsperson at Madan’s unit. Most of the artisans are Jatavs and follow Dr. Ambedkar
PHOTO • Shruti Sharma

مدن (بائیں) میرٹھ ضلع کی شوبھا پور جھگی بستی میں کرکٹ کی گیند بنانے والی اپنی اکائی میں۔ دھرم سنگھ (دائیں) مدن کی اکائی کے سبب سے تجربہ کار کاریگر ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر کاریگر جاٹو برادری سے ہیں اور ڈاکٹر امبیڈکر کو مانتے ہیں

کرکٹ کو لے کر ملک کے جنون پر زور دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’بڑے ٹورنامنٹوں سے پہلے کھیل کے سامان کے تھوک اور خوردہ فروش پہلے ہی ہمارے پاس آ جاتے ہیں۔ دو مہینے پہلے مانگ کافی بڑھ جاتی ہے اور موقع کے حساب سے بڑے شہروں کی دکانیں گیندوں کا اسٹاک کر لینا چاہتی ہیں۔‘‘ یہ گیندیں ڈھائی سو روپے سے لے کر ساڑھے تین ہزار کے درمیان فروخت ہوتی ہیں، جو اس بات پر منحصر ہے کہ کھیل کون رہا ہے اور اس پر کتنا داؤ لگا ہے۔

مدن کو ممبئی، احمد آباد، بڑودہ، جے پور، بنگلورو اور پونے کی کرکٹ اکادمیوں، تقسیم کاروں اور خوردہ فروشوں سے سیدھے آرڈر ملتے ہیں۔ ان کی یونٹ میں بنی گیندوں کا استعمال نچلی سطح پر کھیل کی مشق اور میچوں کے لیے ہوتا ہے۔

ہم ان کی ورکشاپ میں ہیں اور ایک چھوٹے اور تھوڑی گھماؤدار ڈسپلے والے ٹی وی پر لائیو کرکٹ میچ آ رہا ہے۔ ٹی وی کی اسکرین آٹھ کاریگروں کی طرف ہے، جو خاموش تماشائی بن کر بیٹھے ہیں۔ مگر وہ اسے صرف سن ہی سکتے ہیں، ان کی نظریں اپنے کام پر ہیں۔ مدن بولتے ہیں، ’’ہمیں ابھی بالکل فرصت نہیں ہے۔‘‘

وہ اوسط معیار والی ۶۰۰ ٹو پیس کرکٹ گیندوں کے آرڈر کے لیے لوہے کے کلیمپ پر جھک کر سلائی کا مشکل کام کر رہے ہیں۔ خریدار مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر سے ہے اور انہیں تین دنوں میں یہ ڈیلیوری چاہیے۔

مدن چمکدار لال رنگ والی ایک گیند اٹھاتے ہیں، جسے بھیجا جانا ہے۔ ’’ایک گیند بنانے میں تین چیزیں لگتی ہیں – باہری حصے کے لیے پھٹکری سے گھسا گیا چمڑا، کارک سے بنا اندرونی حصہ [گولا] اور سلائی کے لیے سوتی دھاگہ۔ یہ تینوں چیزیں میرٹھ ضلع میں ہی مل جاتی ہیں، اور ’’ایک بار جب کوئی خریدار ہمیں اپنی معیار سے متعلق ضرورتیں بتاتا ہے، تب ہم اس کے مطابق چمڑے اور کارک کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘

Women are rarely formally employed here, and Samantara comes in to work only when Madan’s unit gets big orders. She is grounding alum crystals that will be used to process leather hides (on the right). These hides are soaked for three days in water mixed with baking soda, alum, and salt to make them soft and amenable to colour
PHOTO • Shruti Sharma
These hides are soaked for three days in water mixed with baking soda, alum, and salt to make them soft and amenable to colour
PHOTO • Shruti Sharma

یہاں عورتوں کو باقاعدہ طور پر شاید ہی کبھی کام پر رکھا جاتا ہے، اور سمانترا تبھی کام پر آتی ہیں، جب مدن کی اکائی کو بڑے آرڈر ملتے ہیں۔ وہ پھٹکری کے ٹکڑوں کو پیس رہی ہیں، جس کا استعمال چمڑے کی کھال (دائیں طرف) کو پروسیس کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ ان کھالوں کو نرم اور رنگنے لائق بنانے کے لیے بیکنگ سوڈا، پھٹکری اور نمک ملے پانی میں تین دنوں تک بھگویا جاتا ہے

Workers dye the leather red (left) and make cricket balls using two or four pieces of leather.
PHOTO • Shruti Sharma
Sachin, 35, (right) cuts the leather in circles for two-piece balls
PHOTO • Shruti Sharma

کاریگر چمڑے کو لال رنگ (بائیں) میں رنگتے ہیں اور چمڑے کے دو یا چار ٹکڑوں کا استعمال کرکے کرکٹ کی گیند بناتے ہیں۔ تقریباً ۳۵ سال کے سچن (دائیں) ٹو پیس گیندوں کے لیے چمڑے کو گول کاٹتے ہیں

ڈسٹرکٹ انڈسٹری پروموشن اینڈ انٹرپرینئر ڈیولپمنٹ سنٹر (ڈی آئی پی ای ڈی سی) کے مطابق، میرٹھ میں کرکٹ کی گیند بنانے والی ۳۴۷ اکائیاں ہیں۔ اس تعداد میں صنعتی علاقوں میں موجود بڑے کارخانے اور ضلع کے شہری اور دیہی رہائشی علاقوں میں واقع چھوٹی پروڈکشن اکائیاں شامل ہیں۔

حالانکہ، اس میں کئی ادھر ادھر موجود غیر منظم پیداواری مرکز اور گھریلو اکائیاں شامل نہیں ہیں، جہاں پوری گیندیں بنتی ہیں یا پھر کسی خاص کام کو کرایا جاتا ہے۔ ان میں میرٹھ ضلع کے پار موجود جنگیٹھی، گگول اور بھاون پور جیسے گاؤوں آتے ہیں۔ مدن کا کہنا ہے، ’’آج گاؤوں کے بغیر بالکل پورتی (سپلائی) نہیں ہوگی میرٹھ میں [کرکٹ کی گیندوں کی]۔‘‘

وہ بتاتے ہیں، ’’گاؤوں اور شہر کی بڑی فیکٹریوں میں زیادہ تر کاریگر جاٹو ہیں، کیوں کہ گیندیں چمڑے سے بنتی ہیں۔‘‘ سال ۱۹۰۴ کے ضلع گزیٹیئر کے مطابق، جاٹو یا چمار برادری (یوپی میں درج فہرست ذات کے طور پر درج) میرٹھ میں چمڑا صنعت میں کارکنوں کا سب سے بڑا سماجی گروپ تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’لوگوں کو کرکٹ کی گیند کی شکل میں چمڑے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر جب اس کے ساتھ کام کرنے کی بات آتی ہے، تو انہیں مسئلہ ہونے لگتا ہے۔‘‘

ان کی فیملی کے پاس شوبھا پور میں چمڑے کا کارخانہ بھی ہے۔ یہ ایک واحد علاقہ ہے، جہاں کرکٹ کی گیند کی صنعت کے لیے کچے چمڑے کو پھٹکری سے صاف کیا جاتا ہے (پڑھیں: میرٹھ کے چمڑا کاریگروں نے ابھی ہار نہیں مانی ہے )۔ وہ کہتے ہیں، ’’پھٹکری سے چمڑا صاف کرنے کی بڑھتی مانگ کو دیکھ کر مجھے لگا کہ کرکٹ کی گیندوں کی مانگ کبھی کم نہیں ہوگی۔‘‘ بازار کے اچھے حالات دیکھ کر ۲۰ سال پہلے انہوں نے ’میسرز بی ڈی اینڈ سنس‘ کی شروعات کی تھی۔ یہ علاقے میں کرکٹ کی گیند بنانے والی دو اکائیوں میں سے ایک ہے۔

مدن کہتے ہیں کہ ایک گیند بنانے میں لگنے والے گھنٹوں کا صحیح صحیح حساب لگانا مشکل ہے کیوں کہ کئی کام ساتھ چلتے ہیں۔ موسم اور چمڑے کا معیار بھی اس میں لگنے والے وقت پر اثر ڈالتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’دو ہفتے لگتے ہیں ایک گیند کو تیار ہونے میں کم از کم۔‘‘

مدن کی اکائی کے ملازم پہلے چمڑے کو پھٹکری سے صاف کرتے ہیں، لال رنگ میں رنگتے ہیں، دھوپ میں سُکھاتے ہیں، تیل یا جانوروں کی چربی سے چکنا کرتے ہیں اور پھر اسے نرم بنانے کے لیے لکڑی کے ہتھوڑے سے کچلتے ہیں۔ مدن کے مطابق، ’’سفید گیندوں کے لیے کسی رنگائی کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ پھٹکری سے صاف کی ہوئی کھال پہلے سے ہی سفید ہوتی ہے۔ ان کے لیے گائے کے دودھ سے بنے دہی کا استعمال چکنائی کے طور پر کیا جاتا ہے۔‘‘

Left: Heat-pressed hemispheres for two-piece balls are left to dry in the sun.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: Dharam uses a machine to stitch two parallel layers of seam on each of these hemispheres. Unlike a handstitched seam in the case of a four-piece ball, a machine-stitched seam is purely decorative
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: ٹو پیش گیندوں کے لیے ہیٹ پریسڈ (گرمی اور دباؤ کے ذریعے تیار کردہ) گول ٹکڑوں کو دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ دائیں: دھرم ان میں سے ہر ایک ٹکڑے پر سیم کی دو متوازی پرتوں کی سلائی کرنے کے لیے مشین کا استعمال کرتے ہیں۔ فور پیس (چار ٹکڑوں والی) گیند میں ہاتھ سے سلے گئے سیم کے برعکس، مشین سے سلا ہوا سیم سجاوٹی نظر آتا ہے

Left: Dharam puts lacquer on finished balls to protect the leather from wearing out.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: Gold and silver foil-stamped cricket balls at a sports goods retail shop in Dhobi Talao, Mumbai. These have been made in different ball-making units in Meerut
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: دھرم چمڑے کو گھسنے سے بچانے کے لیے تیار گیندوں پر لیکر کا روغن کرتے ہیں۔ دائیں: ممبئی کے دھوبی تلاؤ میں کھیل کے سامان کی خوردہ دکان میں سونے اور چاندی کی فائل مہر والی کرکٹ گیندیں۔ انہیں میرٹھ میں گیند بنانے والی الگ الگ اکائیوں میں تیار کیا گیا ہے

انہوں نے بتایا، ’’لائن سے کام ہووے ہے اور ایک کاریگر ایک ہی کام کرے ہے۔‘‘ کاریگر پھر چمڑے کو یا تو دو گول ٹکڑوں میں یا چار بیضوی ٹکڑوں میں کاٹتا ہے۔ کرکٹ کی گیندیں یا تو چمڑے کے دو ٹکڑوں سے یا پھر چار ٹکڑوں سے بنی ہوتی ہیں۔

مدن کا کہنا ہے، ’’یہ ٹکڑے یکساں موٹائی کے ہونے چاہئیں اور ان میں بالوں کے دانے بھی یکساں ہونے چاہئیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اس وقت چھانٹنے میں غلطی ہو گئی، تو سمجھ لو کہ گیند ڈی شیپ ہوگا ہی۔‘‘

گیند بنانے کے جسمانی طور پر مشقت بھرے کام میں سب سے ہنر والا کام ہے ہاتھ سے سوتی دھاگوں سے چمڑے کی سلائی کرنا، جس کے سروں پر سؤر کے بال لگے ہوتے ہیں۔ مدن کہتے ہیں، ’’سوئیوں کی جگہ سخت بالوں کا استعمال ہوتا ہے، کیوں کہ وہ لچکدار اور مضبوط ہوتے ہیں اور اتنے تیز نہیں ہوتے کہ چمڑا کٹ جائے۔ وہ لمبے ہوتے ہیں، پکڑنے میں آسان ہوتے ہیں اور سلائی کرنے والوں کی انگلیوں میں بھی سوراخ نہیں کرتے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’لیکن صرف اسی چیز کی وجہ سے ہمارے مسلمان بھائی یہ کام نہیں کر سکتے۔ ان کو سؤر سے دقت ہوتی ہے نا۔‘‘

مدن کی اکائی میں گیند بنانے کے سب سے تجربہ کار کاریگر دھرم سنگھ کے مطابق، ’’چار ٹکڑوں والی گیند کے لیے تین طرح کے ٹانکے لگانے کے ہنر میں مہارت حاصل کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔‘‘ تقریباً ۵۰ سالہ دھرم سنگھ جموں و کشمیر کے گاہک کے آرڈر والی گیندوں پر وارنش لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جیسے جیسے ایک کاریگر ایک قسم کی سلائی سے دوسری قسم کی سلائی کی طرف بڑھتا ہے، ٹکڑے کی مزدوری بھی بڑھتی جاتی ہے۔‘‘ ہر اگلی سلائی کی الگ تکنیک ہوتی ہے اور الگ طرح کا کام کرتی ہے۔

Sunil (left) beats a roll of processed leather with a hammer to make it pliable, a step locals call melli maarna
PHOTO • Shruti Sharma
For four-piece balls, leather is cut (right) into oval pieces that will make four quarters of a ball
PHOTO • Shruti Sharma

سنیل (بائیں) پروسیسڈ چمڑے کے ایک رول کو ہتھوڑے سے پیٹ کر اسے لچکدار بنا رہے ہیں۔ اس مرحلہ کو مقامی لوگ میلّی مارنا کہتے ہیں۔ فور پیس گیندوں کے لیے، چمڑے کو بیضوی ٹکڑوں (دائیں) میں کاٹا جاتا ہے، تاکہ گیند کے چار چوتھائی حصے بن جائیں

Left: Monu joins two oval pieces to make a cup or hemisphere and then makes holes using a tool called aar .
PHOTO • Shruti Sharma
Right: Vikramjeet reinforces the inside of the hemispheres with thinner, oval pieces, a process known as astar lagana . The machine on his right is used for seam-pressing, and the one on his left is the golai (rounding) machine
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: مونو دو بیضوی ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک کپ یا گولا بناتے ہیں اور پھر ’آر‘ نامی اوزار کا استعمال کرکے سوراخ کرتے ہیں۔ دائیں: وکرم جیت گولے کے اندرونی حصے کو پتلے اور بیضوی ٹکڑوں سے مضبوط کرتے ہیں – اس عمل کو ’استر لگانا‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے دائیں جانب والی مشین کا استعمال سیم کو بیٹھانے کے لیے کیا جاتا ہے، اور ان کے بائیں جانب گولائی مشین رکھی ہے

پہلے چمڑے کے دو بیضوی ٹکڑوں کو اندر سے سلائی کے ذریعے جوڑ کر ایک گولہ یا کپ بنایا جاتا ہے، جسے مقامی طور پر پیس جڑائی کہا جاتا ہے۔ پہلی سلائی عام طور پر کوئی نو آموز کرتا ہے، جسے ہر گولے کے لیے ساڑھے سات روپے ملتے ہیں۔ دھرم بتاتے ہیں، ’’پیس جڑائی کے بعد کپ کو چمڑے کے پتلے ٹکڑوں کے ساتھ مضبوطی سے جوڑتے ہیں، جنہیں لپّے کہتے ہیں۔‘‘ گدے دار چمڑے کے گولوں کو پھر گولائی مشین کی مدد سے ایک سانچے میں ڈال کر متعینہ گول شکل دی جاتی ہے۔

کاریگر دونوں گولوں کو جوڑ کر بیچ میں دبی ہوئی گول کارک کے ساتھ دونوں طرف سے ٹانکے لگا کر ایک گیند بناتے ہیں، جسے کپ جڑائی کہا جاتا ہے۔ کپ جڑائی کی مزدوری ۱۷ سے ۱۹ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ٹو پیس گیندیں بھی کپ جڑائی کے ذریعے ہاتھ کی سلائی سے نکلتی ہیں۔

دھرم کہتے ہیں، ’’دوسری سلائی کے مکمل ہونے کے بعد ہی ’بال‘ (گیند) لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلی بار چمڑا ایک گیند کی شکل لیتا ہے۔‘‘

دھرم نے تقریباً ۳۵ سال پہلے سورج کنڈ روڈ پر ایک فیکٹری میں گیند بنانے کا ہنر سیکھا تھا، جہاں ۱۹۵۰ کی دہائی میں کھیل کا سامنا بننا شروع ہوا تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد کھیل کے سامان کی صنعت سیالکوٹ (اب پاکستان میں) کے پناہ گزینوں نے قائم کی تھی، جنہیں میرٹھ میں سورج کنڈ روڈ اور وکٹوریہ پارک کے آس پاس کھیل کالونیوں میں بسایا گیا تھا۔ ’’میرٹھ کے آس پاس کے گاؤوں کے لوگ شہر گئے، ہنر سیکھا اور اسے واپس لائے۔‘‘

چار ٹکڑوں والی گیند کے لیے سلائی کا تیسرا مرحلہ سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس میں پیچیدہ طریقے سے چار متوازی قطاروں میں گیند سلائی (سیم) کی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سب سے اچھی گیندوں میں تقریباً ۸۰ ٹانکے ہوتے ہیں۔‘‘ ٹانکوں کی تعداد کی بنیاد پر ایک کاریگر کی کمائی فی گیند ۳۵ سے ۵۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ٹو پیس گیندوں کے لیے مشین سے سلائی ہوتی ہے۔

Bharat Bhushan using an aar to make insertions through the leather that protrudes between the two hemispheres, held together by an iron clamp. He places a rounded cork between the two cups and attaches pig bristles by their roots to the ends of a metre-long cotton thread for the second stage of stitching. He then inserts the two pig bristles through the same holes from opposite directions to stitch the cups into a ball
PHOTO • Shruti Sharma
Bharat Bhushan using an aar to make insertions through the leather that protrudes between the two hemispheres, held together by an iron clamp. He places a rounded cork between the two cups and attaches pig bristles by their roots to the ends of a metre-long cotton thread for the second stage of stitching. He then inserts the two pig bristles through the same holes from opposite directions to stitch the cups into a ball
PHOTO • Shruti Sharma

بھارت بھوشن لوہے کے کلیمپ کے ذریعے ایک ساتھ رکھے دونوں گولوں کے درمیان ابھرے چمڑے سے جڑائی کے لیے ’آر‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ دو کپوں کے بیچ ایک گول کارک رکھتے ہیں اور سلائی کے دوسرے مرحلہ کے لیے ایک میٹر لمبے سوتی دھاگے کے سروں پر جڑ سے سؤر کے بال جوڑتے ہیں۔ پھر وہ کپوں کو ایک گیند کی شکل میں سلنے کے لیے، مخالف سمتوں سے یکساں سوراخوں میں سؤر کے دو بال ڈالتے ہیں

A karigar only moves to seam stitching after years of mastering the other routines.
PHOTO • Shruti Sharma
Pappan, 45, (left) must estimate correctly where to poke holes and space them accurately. It takes 80 stitches to makes holes for the best quality balls, and it can take a karigar more than 30 minutes to stitch four parallel rows of seam
PHOTO • Shruti Sharma

ایک کاریگر کئی سالوں تک دیگر کاموں میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ہی سیم کی سلائی کا کام کر پاتا ہے۔ تقریباً ۴۵ سالہ پپن (بائیں) کو صحیح صحیح اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ کہاں سوراخ کرنی ہے، اور ان کے درمیان کتنی جگہ چھوڑنی ہے۔ اعلیٰ معیار والی گیندوں میں سوراخ بنانے کے لیے ۸۰ ٹانکے لگتے ہیں، اور سیم کی چار متوازی لائنوں کو سلنے میں ایک کاریگر کو ۳۰ منٹ سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے

دھرم کہتے ہیں، ’’اسپنر ہو یا تیز گیند باز، دونوں سیم کے سہارے ہی گیند پھینکتے ہیں۔‘‘ ایک بار جب سیم کے ٹانکے پورے ہو جاتے ہیں، تو گیند پر ابھری ہوئی سیم کو ہاتھ سے دبایا جاتا ہے اور پھر گیند پر وارنش اور مہر لگائی جاتی ہے۔ ’’کھلاڑی کیا پہچانتے ہیں؟ صرف چمکتی ہوئی گیند، سونے کی مہر کے ساتھ۔‘‘

مدن پوچھتے ہیں، ’’کرکٹ کی گیند کی ایک خاص بات بتائیے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’یہ واحد کھیل ہے جس کے فارمیٹ بدل گئے ہیں، لیکن گیند بنانے والا، گیند بنانے کی تکنیک، طریقہ اور چیزیں بالکل نہیں بدلیں۔‘‘

مدن کے کاریگر ایک دن میں اوسطاً ۲۰۰ گیندیں بنا سکتے ہیں۔ ایک گیند یا گیندوں کا ایک بیچ بنانے میں تقریباً دو ہفتے لگتے ہیں۔ چمڑے کی صفائی سے لے کر تیار گیند تک ’’کم از کم ۱۱ کاریگروں کا ہنر لگتا ہے، جیسے ۱۱ کرکٹر ایک ٹیم بناتے ہیں،‘‘ مدن اپنے اس موازنہ پر مسکرانے لگتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں، ’’مگر کھیل کا اصلی کاریگر تو کھلاڑی ہی ہووے ہے۔‘‘

رپورٹر اس اسٹوری میں بیش قیمتی تعاون کے لیے بھارت بھوشن کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Shruti Sharma

Shruti Sharma is a MMF-PARI fellow (2022-23). She is working towards a PhD on the social history of sports goods manufacturing in India, at the Centre for Studies in Social Sciences, Calcutta.

Other stories by Shruti Sharma
Editor : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique