وَتسلا نے منی رام کی جان بچائی تھی۔

منی رام بتاتے ہیں، ’’ہم پانڈو جل پرپات گئے تھے اور وَتسلا چرنے نکل گئی تھی۔ میں اسے لانے جا رہا تھا کہ تبھی وہاں ایک شیر آ گیا۔‘‘

جب منی رام مدد کے لیے چیخے، تو ’’وہ دوڑتی ہوئی آئی اور اپنا اگلا پیر اٹھا لیا، تاکہ میں اس کی پیٹھ پر چڑھ سکوں۔ جب میں بیٹھ گیا، تو اس نے اپنے پیر پٹخے اور کئی درخت گرا ڈالے۔ شیر بھاگ گیا،‘‘ راحت محسوس کرتے ہوئے مہاوت (فیل بان) منی رام کہتے ہیں۔

پنّا ٹائیگر ریزرو کی کُل ماتا – وَتسلا کی عمر ۱۰۰ سال سے زیادہ بتائی جاتی ہے – جو اسے دنیا کی سب سے عمر دراز ہتھنی بنا دیتی ہے۔ سال ۱۹۹۶ سے وتسلا کی دیکھ بھال کر رہے گونڈ آدیواسی منی رام کہتے ہیں، ’’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ۱۱۰ سال کی ہے، کچھ کہتے ہیں کہ ۱۱۵ سال کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سچ ہے۔‘‘

وتسلا ایک ایشیائی ہاتھی (ایلیفس میکسیمس) ہے اور کیرالہ اور مدھیہ پردیش رہتی آتی ہے۔ منی رام کا کہنا ہے کہ وہ بہت نرم دل ہے، لیکن جب وہ چھوٹی تھی تو کافی غصے میں بھی آ جاتی تھی۔ اب اس کی نظر کمزور ہو گئی ہے اور سننے کی صلاحیت بھی کم ہوئی ہے، اس کے باوجود خطرے کی آہٹ ملتے ہی جھنڈ کو آگاہ کر دیتی ہے۔

منی رام بتاتے ہیں کہ وہ سونگھنے کے معاملے میں اب بھی کافی تیز ہے اور خطرناک جانوروں کی آہٹ کو بھانپ لیتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ جھنڈ کو آواز دیتی ہے اور وہ فوراً اکٹھا ہو جاتے ہیں – اور بچوں کو جھنڈ کے بیچ میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ ’’اگر جانور حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ اسے سونڈ سے پتھر، ڈنڈے اور درخت کی شاخیں اٹھا کر بھگا دیتے ہیں،‘‘ منی رام مزید کہتے ہیں۔ ’’پہلے بہت تیز تھی۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: مدھیہ پردیش کے پنّا ٹائیگر ریزرو میں وتسلا اور اس کے مہاوت منی رام۔ دائیں: وتسلا کو دنیا کی سب سے عمر دراز ہتھنی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کی عمر ۱۰۰ سال سے زیادہ ہے

PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

وتسلا ایک ایشیائی ہاتھی (ایلیفس میکسیمس) ہے۔ اس کی پیدائش کیرالہ میں ہوئی تھی اور سال ۱۹۹۳ میں اسے مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد (اب نرمدا پورم) لایا گیا تھا

منی رام کو شیر اور دیگر جنگلی جانوروں سے ڈر نہیں لگتا، جن کی پنّا ٹائیگر ریزرو میں آبادی سال ۲۰۲۲ کی اس رپورٹ کے مطابق تقریباً ۵۷ سے ۶۰ ہے۔ ’’ہاتھی کے ساتھ رہتے تھے تو شیر کا ڈر نہیں رہتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

وہ پنّا ٹائیگر ریزرو کے ہینوتا گیٹ پر ہاتھیوں کے باڑے کے پاس پاری سے گفتگو کر رہے ہیں۔ یہاں تقریباً ۱۰ ہاتھی ہیں، جن میں ایک چھوٹا بچہ بھی ہے اور وہ سبھی دن کے پہلے کھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ منی رام ہمیں اُس جگہ لے جاتے ہیں جہاں وتسلا ایک درخت کے نیچے کھڑی ہے۔ اس کے پیر زمین میں گڑے لٹھوں سے عارضی طور پر بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے قریب میں ہی کرشن کلی اپنے دو مہینے کے بچے کے ساتھ کھڑی ہے۔

وتسلا کا اپنا کوئی بچہ نہیں ہے۔ ’’لیکن وہ ہمیشہ دیگر ہاتھیوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی رہی ہے۔ دوسروں کے بچوں کو بہت چاہتی ہے،‘‘ منی رام اُداسی بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔ ’’وہ بچوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔‘‘

*****

وتسلا اور منی رام دونوں ہی مدھیہ پردیش کے شمال مشرقی علاقہ میں واقع پنّا ضلع کے لیے باہری ہیں، جہاں کا ۵۰ فیصد سے زیادہ حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ وتسلا کی پیدائش کیرالہ میں ہوئی تھی اور اسے ۱۹۹۳ میں مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد (اب نرمدا پورم) لایا گیا تھا۔ منی رام کی پیدائش وہیں کی ہے، جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔

مجھے ہاتھیوں سے بہت پیار رہا ہے،‘‘ منی رام کہتے ہیں، جو اب ۵۰ سال سے زیادہ کے ہو چکے ہیں۔ ان کی فیملی میں کبھی کسی نے جانوروں کی دیکھ بھال نہیں کی تھی۔ ان کے والد فیملی کی پانچ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے تھے، اور اب منی رام کا بیٹا بھی وہی کرتا ہے۔ ’’ہم گیہوں، چنا اور تِل اُگاتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

وتسلا کے مہاوت منی رام، جو گونڈ آدیواسی ہیں، بتاتے ہیں کہ وتسلا کی عمر ۱۰۰ سال سے زیادہ ہے اور وہ دنیا کی سب سے عمر دراز ہتھنی ہے

وتسلا کی زندگی کا ایک دن

جب وتسلا ہوشنگ آباد پہنچی تھی، تب منی رام ایک مہاوت کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’اسے ٹرک پر لکڑی چڑھانے کے کام میں لگایا گیا تھا۔‘‘ کچھ سالوں بعد وتسلا پنّا چلی گئی۔ منی رام کہتے ہیں، ’’پھر کچھ سال بعد، پنّا کا مہاوت کہیں اور چلا گیا اور اپنا عہدہ چھوڑ دیا، اس لیے انہوں نے مجھے بلایا۔‘‘ تب سے وہ پنّا ٹائیگر ریزرو میں دو کمرے کے مکان میں رہتے ہیں اور اب اس بزرگ ہو چکی ہتھنی کی دیکھ بھال کرتے آ رہے ہیں۔

حالانکہ، اپنی دوست کے برعکس منی رام محکمہ جنگلات کے مستقل ملازم نہیں ہیں۔ ’’جب انتظامیہ ریٹائر کر دے گی، تب چلے جائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ انہیں ہر مہینے ۲۱ ہزار روپے ملتے ہیں اور ہر سال ان کا ٹھیکہ آگے بڑھایا جاتا ہے۔ وہ بے یقینی سے گھرے رہتے ہیں کہ کتنے اور وقت تک یہاں کام کر پائیں گے۔

منی رام کہتے ہیں، ’’میں صبح ۵ بجے اٹھ جاتا ہوں۔ دلیا پکاتا ہوں، وتسلا کو کھلاتا ہوں اور اسے جنگل بھیج دیتا ہوں۔‘‘ جب وہ دیگر ہاتھیوں کے ساتھ وہاں چرتی ہے، جن کی تعداد منی رام کے مطابق ۲۰ سے زیادہ ہے، تب وہ اس کے باڑے کو صاف کرتے ہیں اور اس کے رات کے کھانے کے لیے ۱۰ کلو مزید دلیا پکاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے لیے دوپہر کا کھانا بناتے ہیں – روٹی یا چاول۔ ہاتھی شام چار بجے لوٹ آتے ہیں اور پھر وتسلا کو نہلانے اور رات کا کھانا کھلانے کا وقت ہو جاتا ہے، تب جا کر ان کا دن پورا ہوتا ہے۔

منی رام کہتے ہیں، ’’اسے چاول بہت پسند تھا۔ جب وہ کیرالہ میں تھی تو بس وہی کھاتی تھی۔‘‘ لیکن اس حالت میں تبدیلی تب آئی، جب ۱۵ سال پہلے رام بہادر نام کے ایک ہاتھی نے تقریباً ۹۰ سے ۱۰۰ سال کی ہو چکی وتسلا پر حملہ کر دیا۔ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں کافی چوٹیں آئی تھیں۔ ڈاکٹر کو بلانا پڑا تھا۔ منی رام کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر صاحب اور میں نے اس کی دیکھ بھال کی۔ لیکن حملہ کی وجہ سے وہ بہت کمزوری محسوس کرنے لگی تھی اور کھوئی طاقت واپس پانے کے لیے اس کی غذا میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

بائیں: فاریسٹ کیئر ٹیکر آشیش ہاتھیوں کے لیے دلیا تیار کر رہے ہیں۔ دائیں: منی رام، وتسلا کو ناشتہ کرانے لے جا رہے ہیں

PHOTO • Priti David
PHOTO • Sarbajaya Bhattacharya

پندرہ سال پہلے ایک ہاتھی نے تقریباً ۹۰ سے ۱۰۰ سال کی ہو چکی وتسلا پر حملہ کر دیا تھا۔ اس کی پیٹھ اور پیٹ میں کافی چوٹیں آئی تھیں۔ اس کے مہاوت منی رام کہتے ہیں، ’حملہ کی وجہ سے وہ بہت کمزوری محسوس کرنے لگی تھی اور کھوئی طاقت واپس پانے کے لیے اس کی غذا میں تبدیلی کی ضرورت تھی‘

اس کے بعد اسے پرانے کام سے چھٹی دے دی گئی – اور ٹرکوں پر لکڑی چڑھانے کی جگہ، اس کا کام شیروں کی آہٹ پر نظر رکھنا اور ان کی نگرانی میں مدد کرنا اورجنگل میں گشت لگانا ہو گیا۔

جب دونوں کو الگ ہونا پڑتا ہے، تو انہیں ایک دوسرے کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ منی رام کہتے ہیں، ’’جب میں گھر پر ہوتا ہوں تو اس کی یاد آتی ہے۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ وہ کیا کر رہی ہوگی، اس نے ٹھیک سے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں…‘‘ وتسلا میں بھی یہی جذبہ نظر آتا ہے – جب اس کا مہاوت ایک ہفتہ سے زیادہ وقت کے لیے چھٹی پر ہوتا ہے، تو وہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی ہے۔

منی رام کہتے ہیں، ’’اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ اب مہاوت صاحب آ گئے۔‘‘ بھلے ہی وہ چار پانچ سو میٹر دور گیٹ پر کھڑے ہوں، وہ ان کے آنے کی خبر پا کر زور زور سے چنگھاڑنے لگتی ہے۔

اتنے سالوں میں ان کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا ہے۔ ’’میری دادی جیسی لگتی ہے،‘‘ منی رام کہتے ہیں۔ وہ دانت دکھاتے ہوئے مسکرانے لگتے ہیں۔

رپورٹر اس اسٹوری کو درج کرنے میں مدد کے لیے دیو شری سومانی کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Photographs : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Photographs : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique