رات کے ۲ بج رہے تھے۔ چاروں طرف بالکل اندھیرا تھا۔ اور ہم لوگ تمل ناڈو کے رام ناتھ پورم ضلع (جسے مقامی طور پر اکثر رام ناد کہہ کر پکارا جاتا ہے) میں ’میکنائزڈ بوٹ‘ کے نام سے مشہور مشین سے چلنے والی کشتی پر سوار ہو کر ساحل سے سمندر کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔

’میکنائزڈ بوٹ‘ بنیادی طور پر ایک خستہ حال، قدرے پرانی کشتی تھی، جس میں لے لینڈ بس کا انجن لگا ہوا تھا (بس کا یہ انجن ۱۹۶۴ میں خراب ہو گیا تھا، لیکن اس کی مرمت کرکے اسے اس کشتی میں فٹ کر دیا گیا تھا – اور یہ ۱۹۹۳ میں اس وقت بھی کام کر رہا تھا جب میں نے سمندر کا یہ دورہ کیا تھا)۔ کشتی پر سوار تمام مقامی ماہی گیروں کے برعکس، مجھے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ ہم لوگ اصل میں کہاں پر ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ شاید خلیج بنگال کے کسی مقام پر۔

ہم سمندر کے اندر پہلے ہی تقریباً ۱۶ گھنٹے گزار چکے تھے، حالانکہ یہ راستہ کافی خراب تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے پانچوں ماہی گیروں کے چہرے کی مسکان پر کوئی کمی نہیں آئی۔ ان سبھی کے عرفی نام ’فرنانڈو‘ تھے – جو کہ یہاں کی ماہی گیر برادری کے درمیان کافی عام ہے۔

’میکنائزڈ بوٹ‘ میں ایک فرنانڈو کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی مشعل کے علاوہ روشنی کا کوئی دوسرا انتظام نہیں تھا، جس نے مجھے پریشان کر دیا۔ یہ مشعل لکڑی کے ایک سرے پر بوریا لپیٹ کر اسے مٹی کے تیل میں بھگوکر جلائی گئی تھی۔ اس اندھیرے میں، میں بھلا تصویریں کیسے کھینچ پاتا؟

مچھلی نے یہ مسئلہ حل کر دیا۔

وہ فاسفورسنس (میں نہیں جانتا کہ یہ چیز اس کے علاوہ اور کیا تھی) سے چمکتی ہوئی جالوں میں پھنس گئیں اور کشتی کے اس حصے کو روشن کر دیا، جس حصے میں انہیں رکھا گیا تھا۔ ان کے اوپر کیمرے کے فلیش کا استعمال کرنے سے میرا بقیہ کام ہو گیا۔ میں نے کچھ تصویریں فلیش کا استعمال کیے بغیر بھی کھینچیں (حالانکہ مجھے فلیش کا استعمال کرنا قطعی پسند نہیں ہے)۔

اس کے تقریباً ایک گھنٹے بعد، مجھے تازہ ترین مچھلی پروسی گئی، جو میں نے پہلے کبھی نہیں کھائی تھی۔ ان مچھلیوں کو ایک بڑے پرانے ٹن کی سوراخ کے نچلے حصے کو پلٹ کر پکایا گیا تھا۔ اس ٹن کے اندر انہوں نے کسی طرح سے آگ جلائی تھی۔ ہم لوگ دو دنوں سے سمندر کے اندر تھے۔ میں نے ۱۹۹۳ میں رام ناد کے ساحل سے اس قسم کے تین سمندری سفر کیے تھے۔ ہر سفر کے دوران ماہی گیر قدیم آلات اور سخت حالات میں خوش دلی اور پوری مہارت سے کام کرتے رہے۔

Out on a two-night trip with fishermen off the coast of Ramnad district in Tamil Nadu, who toil, as they put it, 'to make someone else a millionaire'
PHOTO • P. Sainath

کوسٹ گارڈ نے ہمیں دو بار روکا اور ہمیں پوری طرح چیک کیا – وہ ایل ٹی ٹی کا دور تھا اور وہاں سے سری لنکا کی دوری چند ہی کلومیٹر تھی۔ کوسٹ گارڈ نے بخوشی و رضا میرے اس مکتوب کو قبول کر لیا جو رام ناد کے کلکٹر کی طرف سے جاری کیا گیا تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ وہ اس بات سے مطمئن ہیں کہ میں ایک تسلیم شدہ صحافی ہوں۔

سمندر کے اس ساحل پر کام کرنے والے زیادہ تر ماہی گیر قرض دار ہیں اور بہت ہی کم اجرت پر کام کرتے ہیں۔ یہ اجرت انہیں نقد اور کچھ مچھلیوں کی شکل میں ملتی ہے۔ جن لوگوں سے میں نے ملاقات کی، ان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ایک ماہی گیر کلاس ۶ تک پڑھا ہوا تھا۔ اس کام کے لیے وہ اپنی جان کو جس قدر خطرے میں ڈالتے ہیں، اس کے مقابلے انہیں بہت کم اجرت ملتی ہے، حالانکہ وہ جس جھینگے کو پکڑتے ہیں (مثال کے طور پر) جاپان میں اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کے کام میں مصروف مردوں اور روایتی غیر مشینی ماہی گیر کشتیوں یا دیسی کشتیوں پر کام کرنے والے مردوں کے درمیان طبقاتی پس منظر کا فرق بہت زیادہ نہیں ہے، جن سے ان کا ہمیشہ ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے۔

دونوں ہی غریب ہیں اور ان میں سے کچھ کے ہی پاس اپنی کشتی ہے۔ اور ’مشینی‘ کشتی تو کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔ ہم نے صبح سویرے ایک اور بار مچھلی پکڑنے کی کوشش کی – اور پھر خشکی کی طرف روانہ ہو گئے۔ سبھی فرنانڈو مسکرا رہے تھے۔ اس بار ان کی مسکراہٹ میرے حیرت زدہ چہرے کو دیکھ کر تھی، جب میں ان کے وجود کی معاشیات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اسے سمجھنا بہت ہی آسان ہے، ان میں سے ایک نے کہا: ’’ہم کسی اور کو کروڑ پتی بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘

اس مضمون کا ایک چھوٹا ورژن ۱۹ جنوری، ۱۹۹۶ کو ’دی ہندو بزنس لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique