’’انہیں اسکول لانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔‘‘

ہیڈ ماسٹر شوجی سنگھ یادو اپنے ۳۴ سال کے تجربے کی بنیاد پر یہ باتیں کہہ رہے ہیں۔ ڈابلی چاپری کے اس واحد اسکول کو چلانے والے یادو کو ان کے شاگرد ’ماسٹر جی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ آسام کے ماجولی ضلع میں، برہم پتر ندی کے اس جزیرہ پر کل ۶۳ خاندان آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر گھروں کے بچے اس اسکول میں پڑھنے آتے ہیں۔

دھونے کھَنا مزدور لوور پرائمری اسکول کے واحد کلاس روم میں اپنے ڈیسک پر بیٹھے ہوئے، شوجی اپنے ارد گرد موجود طلباء کو دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ وہاں بیٹھے ہوئے پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک کے ۴۱ بچے پلٹ کر انہیں دیکھتے ہیں – سبھی طالب علم ۶ سے ۱۲ سال کی عمر کے ہیں۔ شوجی کہتے ہیں، ’’چھوٹے بچوں کو پڑھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ بھاگنے میں ماہر ہیں!‘‘

ہندوستان کے تعلیمی نظام پر بات کرنے سے پہلے، وہ تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں اور کچھ بڑے بچوں کو آواز لگاتے ہیں۔ وہ انہیں ریاستی حکومت کے ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کی طرف سے آسامی اور انگریزی زبان میں بھیجی گئی کہانی کی کتابوں کا پیکٹ کھولنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نئی کتابوں کے بارے میں شاگردوں کا جوش انہیں مصروف رکھے گا اور اس طرح وہ آسانی سے ہم سے بات کر پائیں گے۔

ابتدائی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، وہ کہتے ہیں، ’’سرکار کالج کے پروفیسر کو جتنے پیسے دیتی ہے پرائمری اسکول کے ٹیچر کو بھی اتنے ہی پیسے ملنے چاہئیں؛ آخر ہم ہی لوگ تو بنیاد کھڑی کرتے ہیں۔‘‘ لیکن، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بچوں کے ماں باپ بھی پرائمری اسکول کی تعلیم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور سمجھتے ہیں کہ صرف ہائی اسکول کی ہی اہمیت ہے – اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے وہ کڑی محنت کر رہے ہیں۔

Siwjee Singh Yadav taking a lesson in the only classroom of Dhane Khana Mazdur Lower Primary School on Dabli Chapori.
PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: شوجی سنگھ یادو ڈابلی چاپری کے دھنے کھنا مزدور لوور پرائمری اسکول کے واحد کلاس روم میں بچوں کو سبق پڑھا رہے ہیں۔ دائیں: ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے ذریعے بھیجی گئی کہانی کی کتابوں پر نظر دوڑاتے ہوئے اسکول کے طلباء

Siwjee (seated on the chair) with his students Gita Devi, Srirekha Yadav and Rajeev Yadav (left to right) on the school premises
PHOTO • Riya Behl

اسکول کے احاطہ میں اپنے طالب علموں گیتا دیوی، شری ریکھا یادو اور راجیو یادو (بائیں سے دائیں) کے ساتھ شوجی (کرسی پر بیٹھے ہوئے)

تقریباً ۳۵۰ لوگوں کی آبادی والا ڈابلی چاپری این سی ریتوں کا ایک جزیرہ ہے، جس کے بارے میں شوجی کا اندازہ ہے کہ یہ تقریباً ۴۰۰ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ چاپری کی درجہ بندی بغیر پیمائش والے علاقہ کے طور پر کی جاتی ہے۔ یعنی، یہاں کی زمین کا سروے ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ پہلے یہ جورہاٹ ضلع کا حصہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب یہ ۲۰۱۶ میں شمالی جورہاٹ سے الگ کرکے بنائے گئے نئے ضلع، ماجولی کا حصہ ہے۔

اس جزیرہ پر اگر کوئی اسکول نہیں ہوتا، تو یہاں کے ۶ سے ۱۲ سال کے بچوں کو شوساگر ٹاؤن کے قریب میدانی علاقے میں واقع دِسانگ مُکھ کے اسکول جانے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت لگتا۔ تب انہیں ۲۰ منٹ سائیکل چلا کر اس جزیرہ کی جیٹی تک پہنچنا پڑتا، پھر وہاں سے انہیں کشتی کے ذریعے ندی کو پار کرنے میں ۵۰ منٹ لگتے۔

اس ریتیلے جزیرہ کے تمام گھر اسکول سے ۳-۲ کلومیٹر کے رداس میں ہیں – جو کہ ۲۱-۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران غنیمت ثابت ہوا، جب اسکول کو بند کر دیا گیا تھا۔ شوجی کے اسکول میں پڑھنے والے بچے اپنی تعلیم اس لیے جاری رکھ سکے کیوں کہ وہ گھر گھر جا کر ان سے ملتے اور انہیں چیک کرتے تھے۔ اس اسکول میں ایک اور ٹیچر کو تعینات کیا گیا ہے، لیکن وہ ندی کے دوسرے کنارے سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، گوری ساگر (جو شو ساگر ضلع میں ہے) میں رہتے ہیں۔ شوجی بتاتے ہیں، ’’میں ہفتے میں کم از کم دو بار بچوں کے پاس جاتا تھا، اور انہیں ہوم ورک دیتا اور ان کے ذریعے کیے گئے کام کو چیک کرتا تھا۔‘‘

اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی، انہیں لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ سرکار کی اس پالیسی سے ناراض ہیں کہ بچوں کو اگلی کلاس میں بھیج دیا جائے، بھلے ہی وہ اس کے لیے تیار نہ ہوں۔ اسی لیے، انہوں نے ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے عہدیداروں کو اس بابت لکھا بھی تھا۔ ’’میں نے ان سے سال معاف کرنے کو کہا تھا، اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر بچے ایک سال اور [اسی کلاس میں] رکیں گے تو انہیں فائدہ ہوگا۔‘‘

*****

آسام کا ایک بڑا رنگین نقشہ دھنے کھنا مزدور لوور پرائمری اسکول کی باہری دیوار پر ٹنگا ہوا ہے۔ ہماری توجہ اس کی طرف مبذول کراتے ہوئے، ہیڈ ماسٹر شوجی برہم پتر ندی کے اس جزیرہ پر لگے نشان پر اپنی انگلی رکھتے ہیں، اور ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’دیکھئے ذرا، نقشہ میں ہمارے چاپری [ندی کا ریت والا کنارہ] کو کہاں دکھایا گیا ہے اور اصل میں یہ کہاں پر واقع ہے؟ دونوں میں کوئی ربط نہیں ہے!‘‘

نقشہ بنانے میں کی گئی یہ غلطی شوجی کو زیادہ پریشان کرتی ہے کیوں کہ انہوں نے بیچلر کی ڈگری جغرافیہ میں حاصل کی ہے۔

برہم پتر کے لگاتار تبدیل ہوتے چاپری (ندی کے ریتیلے کنارے) اور چار (جزیرہ) پر پیدا ہوئے اور پلے بڑھے شوجی کو یہ بات دوسروں سے کہیں زیادہ اچھی طرح معلوم ہے کہ زمین کے لگاتار تبدیل ہونے کی وجہ سے اکثر پتہ بھی بدلتا رہتا ہے۔

A boat from the mainland preparing to set off for Dabli Chapori.
PHOTO • Riya Behl
Headmaster Siwjee pointing out where the sandbank island is marked on the map of Assam
PHOTO • Riya Behl

بائیں: میدانی علاقے سے آئی یہ کشتی ڈابلی چاپری سے روانہ ہونے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ دائیں: ہیڈ ماسٹر شوجی اس جگہ کو دکھا رہے ہیں جہاں آسام کے نقشہ میں اس ریتیلے جزیرہ کو دکھایا گیا ہے

The Brahmaputra riverine system, one of the largest in the world, has a catchment area of 194,413 square kilometres in India
PHOTO • Riya Behl

برہم پتر دنیا کی سب سے بڑی ندیوں میں سے ایک ہے، جس کا کل رقبہ ہندوستان میں ۱۹۴۴۱۳ مربع کلومیٹر ہے

شوجی بتاتے ہیں، ’’جب بارش بہت زیادہ ہوتی ہے، تو ہم لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اب پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ سیلاب آنے والا ہے۔ تب لوگ اپنے قیمتی سامان اور جانوروں وغیرہ کو جزیرہ کے اونچے علاقوں میں لے جانا شروع کر دیتے ہیں، جہاں انہیں یہ لگتا ہے کہ پانی نہیں پہنچے گا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسا ہر سال ہوتا ہے اور، ’’جب تک پانی کم نہ ہو جائے، اسکول چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

ہندوستان میں ۱۹۴۴۱۳ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں پھیلے برہم پتر کے طاس والے علاقے میں چونکہ ریتوں کے یہ جزیرے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں، اس لیے ان کا صحیح نقشہ نہیں بنایا جا سکتا۔

ڈابلی چاپری کے تمام گھر اونچے مچانوں پر بنے ہوئے ہیں کیوں کہ برہم پتر – جو کہ دنیا کی سب سے بڑی ندیوں میں سے ایک ہے – میں ہر سال سیلاب آتا ہے، خاص کر گرمیوں و مانسون کے مہینوں میں۔ ان مہینوں میں ہمالیہ کے گلیشیئر پگھلنے لگتے ہیں، جس سے دریاؤں میں پانی بھر جاتا ہے اور پھر وہاں سے دریا کے طاس والے علاقوں میں پہنچ جاتا ہے۔ وہیں، ماجولی کے ارد گرد کے علاقے میں سالانہ اوسطاً ۱۸۷۰ سینٹی میٹر بارش ہوتی ہے؛ جو کہ جنوب مغربی مانسون (جون سے ستمبر) کے دوران ہونے والی بارش کا تقریباً ۶۴ فیصد ہے۔

اس چاپری پر آباد خاندانوں کا تعلق اتر پردیش کی یادو برادری سے ہے۔ وہ غازی پور ضلع کو اپنا آبائی مقام بتاتے ہیں، جہاں سے یہ لوگ ۱۹۳۲ میں برہم پتر کے جزیروں پر آ کر آباد ہو گئے تھے۔ وہ زرخیز، غیر مقبوضہ زمینوں کی تلاش میں تھے، جو انہیں برہم پتر میں ہزاروں کلومیٹر مشرق میں واقع ان ریتیلے میدانوں میں ملی۔ شوجی کہتے ہیں، ’’ہم لوگ روایتی طور پر مویشی پالنے کا کام کرتے ہیں اور ہمارے اجداد یہاں چراگاہوں کی تلاش میں آئے تھے۔‘‘

شوجی بتاتے ہیں، ’’میرے دادا لوگ سب سے پہلے ۲۰-۱۵ کنبوں کے سات لوکھی چاپری میں آئے تھے۔‘‘ ان کی پیدائش دھنو کھنا چاپری میں ہوئی تھی، جہاں ۱۹۶۰ میں یادو کنبے منتقل ہو گئے تھے۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’وہ اب بھی موجود ہے، لیکن دھنو کھنا میں اب کوئی نہیں رہتا ہے۔‘‘ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے سیلاب کے دوران اکثر ان کے مال و اسباب پانی میں ڈوب جایا کرتے تھے۔

Siwjee outside his home in Dabli Chapori.
PHOTO • Riya Behl
Almost everyone on the sandbank island earns their livelihood rearing cattle and growing vegetables
PHOTO • Riya Behl

بائیں: ڈابلی چاپری میں اپنے گھر کے باہر کھڑے شوجی۔ دائیں: اس ریتیلے جزیرہ پر رہنے والے تقریباً ہر شخص اپنے ذریعہ معاش کے طور پر مویشی پالتا ہے اور سبزیوں اگاتا ہے

Dabli Chapori, seen in the distance, is one of many river islands – called chapori or char – on the Brahmaputra
PHOTO • Riya Behl

برہم پتر میں چاپری یا چار کے نام سے مشہور ندی کے جزیروں میں سے ایک، ڈابلی چاپری دور سے دکھائی دے رہا ہے

آسام میں ۹۰ سال پہلے پہنچنے کے بعد سے اب تک، یادو برادری کے یہ کنبے برہم پتر کے علاقے میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے چار بار اپنا ٹھکانہ بدل چکے ہیں۔ آخری بار انہوں نے اپنا ٹھکانہ ۱۹۸۸ میں بدلا تھا، جب وہ ڈابلی چاپری آ گئے تھے۔ اس سے پہلے وہ جن چار ریتیلے علاقوں میں رہے وہ ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھے – زیادہ سے زیادہ ۳-۲ کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ ابھی وہ جس جگہ پر مقیم ہیں اس کا نام ’ڈابلی‘ لفظ سے پڑا ہے، جس کا مطلب مقامی لوگوں کے مطابق ’ڈبل‘ یعنی دوگنا ہے، جو اس ریتیلے جزیرہ کے نسبتاً بڑے سائز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ڈابلی چاپری پر آباد سبھی کنبوں کے پاس اپنی زمین ہے، جس پر وہ چاول، گیہوں اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔ اور، اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، مویشی بھی پالتے ہیں۔ یہاں کا ہر کوئی آسامی بولتا ہے، لیکن اپنوں کے درمیان یا گھر پر یادو فیملی کے لوگ ہندی میں بات کرتے ہیں۔ شوجی بتاتے ہیں، ’’ہمارے کھانے پینے کی عادت نہیں بدلی ہے۔ لیکن ہاں، اتر پردیش میں اپنے رشتہ داروں کے مقابلے ہم لوگ یہاں زیادہ چاول کھاتے ہیں۔‘‘

اُدھر، شوجی کے شاگر ابھی تک کتابیں دیکھنے میں مصروف ہیں، اور وہاں سے ہٹے نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک شاگرد، ۱۱ سال کا راجیو یادو کہتا ہے، ’’مجھے آسامی کی کتابیں بہت زیادہ پسند ہیں۔‘‘ اس کے ماں باپ کسان ہیں اور مویشی بھی پالتے ہیں۔ دونوں نے ۷ویں کلاس کے بعد اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ ’’میں ان سے زیادہ پڑھوں گا،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آسامی میوزک کے لیجنڈ بھوپن ہزاریکا کا گانا، ’اخوم امار روپوہی دیش‘ گانے لگتا ہے۔ اس کی آواز تیز ہونے لگتی ہے، جسے دیکھ کر ٹیچر کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔

*****

جس دریا میں ہر سال سیلاب آتا ہو، اس کے بیچوں بیچ بنتے ٹوٹتے ریتیلے جزیروں پر رہنا چیلنج سے بھرا ہوا ہے۔ ہر گھر میں چپو سے کھینے والی کشتی ہے۔ اس کے علاوہ، جزیرہ پر موٹر سے چلنے والی دو کشتیاں بھی ہیں، جنہیں صرف ناگہانی حالت (ایمرجنسی) میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ گھروں کے جھرمٹ کے قریب ہینڈ پمپ موجود ہیں، جن سے یہ لوگ روزانہ کے استعمال کے لیے پانی نکالتے ہیں۔ سیلاب کے دوران، پینے کا پانی ضلع کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمہ اور این جی اوز کے ذریعے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ریاست نے ہر گھر میں ایک سولر پینل لگوایا ہے، جس سے انہیں بجلی ملتی ہے۔ راشن کی دکان گیزرا گاؤں میں ہے، جو کہ پڑوس کے ماجولی جزیرہ پر ہے۔ وہاں جانے میں انہیں تقریباً چار گھنٹے لگ جاتے ہیں – سب سے پہلے کشتی سے دِسانگ مُکھ جانا پڑتا ہے، پھر وہاں سے موٹر بوٹ سے ماجولی، پھر وہاں سے گیزرا گاؤں۔

سب سے قریبی پرائمری ہیلتھ سنٹر ماجولی جزیرہ پر واقع رتن پور میری گاؤں میں ہے، جہاں جانے میں ۳ سے ۴ گھنٹے لگتے ہیں۔ شوجی کہتے ہیں، ’’طبی مسائل پیدا ہونے پر کافی پریشانی ہوتی ہے۔ اگر کوئی بیمار پڑا، تو ہم اسے موٹر بوٹ سے اسپتال لے جا سکتے ہیں، لیکن مانسون کے دنوں میں دقت پیش آتی ہے۔‘‘ ایمبولینس والی کشتیاں ڈابلی نہیں آتیں، اس لیے یادو برادری کے لوگ کبھی کبھی ندی پار کرنے کے لیے ٹریکٹر استعمال کرتے ہیں، اس جگہ سے جہاں پانی کم ہو۔

Ranjeet Yadav and his family, outside their home: wife Chinta (right), son Manish, and sister-in-law Parvati (behind).
PHOTO • Riya Behl
Parvati Yadav with her son Rajeev
PHOTO • Riya Behl

بائیں: اپنے گھر کے باہر، رنجیت یادو اور ان کی فیملی: بیوی چنتا (دائیں)، بیٹا منیش، اور سالی پاروَتی (پیچھے)۔ دائیں: اپنے بیٹے راجیو کے ساتھ پاروَتی یادو

Ramvachan Yadav and his daughter, Puja, inside their house.
PHOTO • Riya Behl
Puja and her brother, Dipanjay (left)
PHOTO • Riya Behl

بائیں: اپنے گھر کے اندر، رام وچن یادو اور ان کی بیٹی، پوجا۔ دائیں: پوجا اور اس کا بھائی، دیپانجے (بائیں)

شوجی کہتے ہیں، ’’ہمیں یہاں پر ایک اپر پرائمری اسکول کی ضرورت ہے [۷ویں کلاس تک کے لیے] کیوں کہ یہاں سے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد چھوٹے بچوں کو ندی پار کرکے، دسانگ مکھ کے اسکول میں جانا پڑتا ہے۔ جب سیلاب نہ ہو تب تو ٹھیک ہے، لیکن سیلاب کے دنوں میں [جولائی سے ستمبر تک]، ان کے لیے اسکول بند ہو جاتا ہے۔‘‘ انہیں اپنے اسکول میں ٹیچروں کے نہ آنے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’اس اسکول میں جن ٹیچروں کی تقرری ہوئی ہے وہ یہاں پر رکنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ صرف کچھ دنوں کے لیے ہی آتے ہیں [اور واپس نہیں لوٹتے]۔ اسی لیے ہمارے بچے آگے نہیں بڑھ پاتے۔‘‘

چار سے گیارہ سال کی عمر کے تین بچوں کے والد، رام وچن یادو (۴۰) کہتے ہیں، ’’میں اپنے بچوں کو وہاں [ندی کے اُس پار] پڑھنے کے لیے بھیجوں گا۔ وہ پڑھے لکھے ہوں گے تبھی انہیں کام ملے گا۔‘‘ رام وچن کے پاس ایک ایکڑ سے تھوڑا زیادہ کا ایک پلاٹ ہے، جس پر وہ کدو یا لوکی، مولی، بینگن، مرچ اور پودینہ اُگاتے ہیں اور انہیں بیچتے ہیں۔ ان کے پاس ۲۰ گائیں بھی ہیں، جن کا دودھ وہ بیچتے ہیں۔ ان کی بیوی، کُسُم (۳۵) بھی جزیرہ پر ہی پلی بڑھی ہیں۔ انہیں چوتھی کلاس کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اُن دنوں آگے کی پڑھائی کے لیے چھوٹی لڑکیوں کو جزیرہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

رنجیت یادو اپنے چھ سال کے بیٹے کو پرائیویٹ اسکول میں بھیجتے ہیں، حالانکہ اس کے لیے اسے دن میں دو بار ندی پار کرنی پڑتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اپنی بائک سے بیٹے کو لے جاتا ہوں اور واپس لاتا ہوں۔ کبھی کبھی، میرا بھائی اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے جو کہ شو ساگر [ٹاؤن] کے ایک کالج میں پڑھتا ہے۔‘‘

ان کے بھائی کی بیوی، پاروَتی کبھی اسکول نہیں گئیں، لیکن اس بات سے خوش ہیں کہ ان کی بیٹی، ۱۶ سال کی چنتا منی، دسانگ مکھ کے ہائی اسکول میں پڑھنے جاتی ہے۔ اسکول جانے کے لیے اسے دو گھنٹے چلنا پڑتا ہے، اور سفر کے دوران ندی بھی پار کرنی پڑتی ہے۔ پاروَتی کہتی ہیں، ’’مجھے فکر لگی رہتی ہے کیوں کہ آس پاس ہاتھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ اسکول جانے کی اگلی باری ان کے دو بچوں، ۱۲ سالہ سُمن اور ۱۱ سالہ راجیو کی ہے۔

PHOTO • Riya Behl
PHOTO • Riya Behl

بائیں: دن کے آخر میں سبھی طلباء اسکول کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہیں اور قومی ترانہ گا رہے ہیں۔ دائیں: اسکول سے باہر، اپنے گھروں کی طرف جاتے ہوئے

لیکن حال ہی میں جب ڈسٹرکٹ کمشنر نے ڈابلی چاپری کے لوگوں سے پوچھا کہ کیا وہ شو ساگر ٹاؤن منتقل ہونا چاہتے ہیں، تو کوئی بھی وہاں جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ شوجی کہتے ہیں، ’’یہ ہمارا گھر ہے؛ ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘

ہیڈ ماسٹر اور ان کی بیوی، پھول متی، کو اپنے بچوں کے تعلیمی سفر پر ناز ہے۔ ان کا بڑا بیٹا بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) میں ہے؛ بیٹی ریتا (۲۶)، گریجویٹ ہے اور گیتا (۲۵)، پوسٹ گریجویٹ۔ سب سے چھوٹا بیٹا راجیش (۲۳)، وارانسی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (بی ایچ یو) میں پڑھائی کر رہا ہے۔

اسکول کی گھنٹی بج چکی ہے اور بچے اب قومی ترانہ گانے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ اس کے بعد شوجی یادو اسکول کا گیٹ کھولتے ہیں اور بچے باہر نکلنے لگتے ہیں، پہلے تو وہ دھیرے دھیرے چلتے ہیں اور پھر تیزی سے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسکول میں آج کا دن پورا ہوا۔ ہیڈ ماسٹر سامانوں کو ٹھیک کرنے کے بعد اسکول میں تالا لگانے والے ہیں۔ کہانی کی نئی کتابوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے، وہ کہتے ہیں، ’’بھلے ہی دوسرے لوگ زیادہ کما رہے ہوں، اور پڑھانے سے میری آمدنی کم ہو رہی ہو۔ لیکن میں اپنی فیملی کا خرچ چلا سکتا ہوں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کام میں، سروس میں مزہ آتا ہے…میرا گاؤں، میرا ضلع، تمام لوگ ترقی کریں گے۔ آسام ترقی کرے گا۔‘‘

مصنفہ اس اسٹوری کی رپورٹنگ میں مدد کرنے کے لیے ایانگ ٹرسٹ کے بپن دھونے اور کرشنا کانت پیگو کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Photographs : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Editor : Vinutha Mallya

Vinutha Mallya is a journalist and editor. She was formerly Editorial Chief at People's Archive of Rural India.

Other stories by Vinutha Mallya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique