’’یہ مندر نہ تو [۱۹۹۴ کے] طاعون میں، نہ ہی [۲۰۰۶ کے] چکن گُنیا کے دوران، یہاں تک کہ [۱۹۹۳ کے] زلزلہ کے دوران بھی بند نہیں ہوا تھا۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہے جب ہم ایسا دیکھ رہے ہیں،‘‘ سنجے پینڈے کہتے ہیں، جو پوری طرح سے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ وہ جنوبی مہاراشٹر کے تُلجاپور شہر میں واقع دیوی تُلجا بھوانی کے مندر کے اہم پجاریوں میں سے ایک ہیں۔

اس مندر نے اپنے دروازے، ۱۷ مارچ کو عقیدت مندوں کے لیے تب بند کر دیے، جب ریاستی حکومت نے کووِڈ-۱۹ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن (تالا بندی) کا اعلان کیا تھا۔ یہاں کے لوگوں کو اس پر یقین نہیں ہوا۔ ’’یہ کس قسم کی بیماری ہے؟ ریاست کے باہر سے عقیدت مند یہاں آ رہے ہیں، لیکن انہیں مندر کے باہر سے ہی درشن کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ بھی پولس سے لڑنے کے بعد،‘‘ ۳۸ سالہ پینڈے کہتے ہیں۔ ان کی تشویش کا ایک سبب روزانہ کی ۱۰-۱۵ مخصوص پوجا سے ہونے والی ان کی کمائی کا بند ہو جانا ہے۔ پینڈے کا اندازہ ہے کہ تُلجاپور میں ۵۰۰۰ سے زیادہ پجاری ہیں جو مندر سے وابستہ سرگرمیوں سے ہونے والی کمائی پر منحصر ہیں۔

مراٹھواڑہ علاقہ کے عثمان آباد ضلع میں ۳۴ ہزار لوگوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے اس شہر کی اقتصادیات ایک پہاڑی کے اوپر واقع، اور لوگوں کے عقیدہ کے مطابق ۱۲ویں صدی میں بنے اس مندر سے جڑی ہوئی ہے۔ تُلجا بھوانی کو مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں کے بہت سے لوگ اپنی فیملی کی دیوی مانتے ہیں، اور یہ ریاست کے تیرتھ مارگ کے ساتھ دیوی-دیوتاؤں کو وقف اہم مندروں میں سے ایک ہے۔

'It is first time in the history that we are witnessing this', says Sanjay Pende (left), a priest at the Tulja Bhavani temple, which usually sees a throng of devotees (right)
PHOTO • Medha Kale
'It is first time in the history that we are witnessing this', says Sanjay Pende (left), a priest at the Tulja Bhavani temple, which usually sees a throng of devotees (right)
PHOTO • Medha Kale

’تاریخ میں یہ پہلی بار ہے جب ہم ایسا دیکھ رہے ہیں‘، تُلجا بھوانی مندر کے ایک پجاری، سنجے پینڈے (بائیں) کہتے ہیں۔ اس مندر میں عقیدت مندوں کی ہمیشہ بھیڑ رہتی ہے (دائیں)

لیکن، یہ شہر ۱۷ مارچ سے ایک طرح سے رک سا گیا ہے۔ مندر کی طرف جانے والی تنگ گلیاں سنسان ہیں۔ مندر سے لگی سڑک کے اس پار چپلوں کے اسٹینڈ اور تھیلے و دیگر سامان رکھنے والے کمرے خالی پڑے ہیں۔

پورے مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں سے عقیدت مندوں کو لانے لے جانے والی پرائیویٹ کاروں، مشترکہ ٹیکسیوں، ’کُلزرس‘ [لینڈ کروزر]، اور آٹو رکشہ کی عام ہلچل اور بھیڑ بھاڑ کے بجائے، یہاں پر ایک خطرناک سناٹا پھیلا رہتا ہے۔

تقریباً دو کلومیٹر دور واقع بس اسٹینڈ بھی خاموش ہے – جب کہ اس سے پہلے ہر ایک دو منٹ میں بسیں یہاں لگاتار آنے والے عقیدت مندوں اور مہمانوں کو لیکر اندر باہر آتی جاتی رہتی تھیں۔ تلجاپور ریاستی ٹرانسپورٹ کی بسوں کا ایک مرکزی پڑاؤ ہے، جو ریاست کے تمام اہم شہروں اور قصبوں کے ساتھ ساتھ پڑوسی ریاست کرناٹک اور آندھرا پردیش بھی آتی جاتی رہتی ہیں۔

اس شہر کے ’مندر کی اقتصادیات‘ عقیدت مندوں، سیاحوں، ٹرانسپورٹ ایجنسیوں، مہمان خانوں اور ان چھوٹی چھوٹی دکانوں پر منحصر ہے اور بدلے میں انہیں بھی ذریعہ معاش فراہم کرتی ہے جو پوجا کے سامان، پرساد، دیوی کو چڑھائی جانے والی ساڑی، ہلدی کم کم، کوڑی، فوٹو فریم، بھکتی کے گانوں کی سی ڈی، چوڑیاں وغیرہ بیچتی ہیں۔ یہاں کے دکانداروں کا اندازہ ہے کہ مندر کے دو کلومیٹر کے دائرے میں کم از کم ۵۵۰-۶۰۰ دکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ گلیوں میں گھوم کر سامان بیچنے والے لوگ ہیں، جن کا وجود پوری طرح سے عقیدت مندوں کو فروخت کی جانے والی چیزوں سے ہونے والی ان کی یومیہ آمدنی پر مبنی ہے۔

گزشتہ ۲۰ مارچ کو، دوپہر تک تقریباً آدھی دکانوں نے اپنے شٹر گرا دیے تھے، جب کہ دیگر بند ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ گلیوں میں سامان بیچنے والے سبھی جا چکے تھے۔

The chappal stand and cloak room opposite the temple are empty (left), the weekly market is silent (middle) and the narrow lanes leading to the temple are all deserted
PHOTO • Medha Kale
The chappal stand and cloak room opposite the temple are empty (left), the weekly market is silent (middle) and the narrow lanes leading to the temple are all deserted
PHOTO • Medha Kale
The chappal stand and cloak room opposite the temple are empty (left), the weekly market is silent (middle) and the narrow lanes leading to the temple are all deserted
PHOTO • Medha Kale

مندر کے سامنے والے چپل اسٹینڈ اور سامان رکھنے کے کمرے (بائیں) خالی پڑے ہیں، ہفتہ واری بازار (بیچ میں) خاموش ہے اور مندر کی طرف جانے والی تنگ گلیاں بھی سنسان ہیں

’’یہ کس قسم کی بیماری ہے؟‘‘ ایک بند پڑی دکان کے سامنے بیٹھی، شاید ۶۰ سال کی بزرگ عورت پوچھتی ہیں۔ ’’سب کچھ بند ہو گیا ہے۔ منگل سے بہت کم لوگ پہنچے ہیں۔ وہ [مندر ٹرسٹ کے عہدیدار اور پولس] ہمیں یہاں بیٹھنے نہیں دے رہے ہیں۔ لیکن کیا ہمیں اپنے پیٹ کے لیے کچھ نہیں چاہیے؟‘‘ (وہ اتنی ناراض ہو گئی تھیں کہ انہوں نے مجھے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا اور مجھے اپنی تصویر کھینچنے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے ان سے ایک درجن کانچ کی چوڑیاں خریدی تھیں۔ یہی ۲۰ روپے، دوپہر کو اپنے گھر جانے کا فیصلہ کرنے سے قبل، ان کی اُس دن کی واحد کمائی تھی۔)

جہاں پر وہ بیٹھی ہیں اس سے کچھ ہی دور، ۶۰ سالہ سریش سوریہ ونشی کہتے ہیں، ’’ہم لوگ مارچ سے مئی تک کے گرمیوں کے مہینوں کا انتظار کر رہے تھے۔ پڑوا [گڑی پڑا، ہندو کیلنڈر کا پہلا دن] اور چیتر پورنیما [۸ اپریل] کو چیتر یاترا شروع ہونے کے بعد یہاں ایک دن میں اوسطاً ۳۰ سے ۴۰ ہزار عقیدت مند آتے ہیں۔ سوریہ ونشی کی دکان مندر کے داخلی دروازہ کے پاس ہے، اور وہ پیڑا اور پرساد کی دیگر اشیاء جیسے چاول کے مرمرے اور بھنا ہوا چنا فروخت کرتے ہیں۔ ’’[یاترا کے دوران] ہفتہ کے آخری دنوں میں [عقیدت مندوں اور مہمانوں کی] تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اب ہم سن رہے ہیں کہ یاترا ردّ ہو گئی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

ان کی دکان کے بغل میں انل سولاپورے کی دھات کی مورتیوں، فریم اور دیگر سجاوٹی اشیاء کی دکان ہے جسے مندر میں رات دن آنے والے صارفین کو فروخت کرکے وہ ماہانہ ۳۰ سے ۴۰ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ لیکن اس دن، دوپہر تک، وہ ایک بھی سامان نہیں بیچ پائے۔ ’’میں ۳۸ سال سے اس دکان میں کام کر رہا ہوں۔ میں یہاں روزانہ آتا ہوں۔ میں گھر پر کیسے بیٹھ سکتا ہوں؟‘‘ وہ آنسو ٹپکاتے ہوئے کہتے ہیں۔

Left: Suresh Suryavanshi says the temple has been closed for the first time in history. Right: 'How can I just sit at home?' asks Anil Solapure, in tears
PHOTO • Medha Kale
Left: Suresh Suryavanshi says the temple has been closed for the first time in history. Right: 'How can I just sit at home?' asks Anil Solapure, in tears
PHOTO • Medha Kale

بائیں: سریش سوریہ ونشی کہتے ہیں کہ تاریخ میں پہلی بار مندر کو بند کیا گیا ہے۔ دائیں: ’میں گھر پر کیسے بیٹھ سکتا ہوں؟‘ انل سولاپورے آنسو ٹپکاتے ہوئے کہتے ہیں

لاک ڈاؤن نے تقریباً ۶۰ سال کی ناگُر بائی گائکواڑ کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ ابھی بھی جوگوا کے لیے کچھ مانگ کر کمانے کی کوشش کر رہی ہیں ( جوگوا ایک ایسی روایت ہے جس میں پوجا کرنے والے، زیادہ تر عورتیں، ہر منگل اور جمعہ کو بھیک مانگتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے، پوری طرح سے اسی پر منحصر ہوکر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں – وہ آٹا اور نمک، اور پیسے بھی مانگتے ہیں)۔ بجلی کے ایک جھٹکے نے ناگُربائی کی بائیں ہتھیلی کو برسوں قبل بیکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ یومیہ مزدور کے طور پر کام کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ ’’چیتر یاترا سے میرا کام چلتا رہتا۔ لیکن اب، اگر کوئی مجھے ایک کپ چائے بھی دے دیتا ہے، تو میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

مندر سے تھوڑی ہی دوری پر، منگل کو لگنے والا ہفتہ واری بازار تلجا پور شہر کے ارد گرد کے گاؤوں کے ۴۵۰-۶۰۰ سے زیادہ کسانوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ یہ بازار اب بند ہو چکا ہے، اور کسان، جن میں سے کئی عورتیں ہیں، اپنی تازہ اور خراب ہونے لائق پیداوار بیچنے سے معذور ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان میں سے کچھ کو اپنے گاؤوں میں فروخت کر لیں، لیکن اس سے ان کا کام نہیں چل پائے گا۔

سریش روکڑے، جو کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تعلیمی درسگاہ کے لیے گاڑی چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ مراٹھواڑہ میں انگور کا موسم ہے، لیکن دو دنوں سے انگور توڑنے کا کام بند پڑا ہے کیوں کہ بازار بند ہیں۔ ’’مجھے امید ہے کہ وہ پیر [۲۳ مارچ] کو کھل جائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ (حالانکہ اس دن ریاستی حکومت کے ذریعے اور زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔) کلمب جیسے پڑوسی بلاکوں اور مراٹھواڑہ کے دیگر ضلعوں میں ۱۷-۱۸ مارچ کو ہونے والی ژالہ باری نے تشویش کو مزید بڑھا دیا ہے۔

تلجاپور میں ابھی تک کووِڈ- ۱۹ کی جانچ کی کوئی سہولت نہیں ہے، اس لیے یہاں اگر کوئی پازیٹو ہوا، یا کسی کو اس کا قوی امکان ہوا، تو اس کا پتہ نہیں چل پائے گا۔ خبروں کے مطابق، ریاست کے محکمہ قومی بہبود کے ذریعے چلائے جا رہے ایک ہوسٹل کو ۸۰ کمروں والے ایک علیحدگی مرکز (آئیسولیشن سنٹر) میں بدل دیا گیا ہے۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Medha Kale

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Marathi Translations Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique