’’چار پانچ مہینے سے جھاریا گاؤں میں میرے گھر کی بجلی کٹی ہوئی ہے۔ میں، میری بہن اور میرا بھائی ٹارچ کی روشنی میں تھوڑا بہت پڑھ لیتے ہیں، لیکن ٹارچ آدھا پونا گھنٹہ ہی کام کرتا ہے۔ پھر اسے دوبارہ چارج کروانا پڑتا ہے۔‘‘

سومواری باسکے ۱۳ سال کی سنتال آدیواسی لڑکی ہے، اور بھاٹن مڈل اسکول میں ۸ویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ وہ کسی بھی طرح اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہتی ہے: ’’میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ یہی میرا خواب ہے۔‘‘

جھاریا گاؤں، جادوگوڑا بلاک میں واقع ہے اور اس کی آبادی ۱۰۰۰ سے زیادہ ہے۔ یہاں کی شرح خواندگی ۵۹ فیصد ہے، جو ریاست جھارکھنڈ کی شرح خواندگی (۴۱ء۶۶ فیصد) سے کم ہے۔ مشرقی سنگھ بھوم کے اس گاؤں میں صرف پرائمری اسکول ہے، اس لیے سومواری کو پڑھائی کے لیے گھر سے چار کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔

جب اس نامہ نگار نے پاس کے ایک گاؤں کھڑیا کوچا کا دورہ کیا تھا، تو سومواری نے رپورٹر کے لیے سبر زبان سے ہندی میں ترجمے کا کام کیا تھا، اور جھارکھنڈ کے مشرقی سنگھ بھوم کے اس علاقے کے سبر آدیواسیوں سے بات کرنے میں نامہ نگار کی مدد کی تھی۔ خود کی مادری زبان سنتالی کے علاوہ، سومواری سبر، ہو، ہندی اور بنگالی زبان بول لیتی ہے۔

The entrance of Bhatin Middle School
PHOTO • Rahul

بھاٹن مڈل اسکول کا داخلی دروازہ

ہندی میں بات کرتے ہوئے، وہ بتاتی ہے کہ اسے ٹارچ چارج کروانے کے لیے اپنے گاؤں جھاریا سے تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع کھڑیا کوچا گاؤں آنا جانا پڑتا ہے۔

*****

’’ہمارے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی، کیوں کہ ہم بل جمع نہیں کر پائے تھے۔ بجلی والوں نے میرے دادا گڑائی باسکے کے نام ۱۶۷۴۵ روپے کا بل بھیج دیا تھا۔ ہم لوگ اتنا پیسہ کہاں سے لاتے؟

’’اس لیے، ہمارے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی تھی۔

’’میرے گاؤں کے کچھ گھروں میں بجلی آتی ہے، لیکن وہ ٹارچ اور موبائل چارج کرنے کی بات پر غصہ کرتے ہیں۔ اس لیے، مجھے ٹارچ چارج کروانے کے لیے بغل کے گاؤں کھڑیا کوچا جانا پڑتا ہے۔ وہاں کسی سبر آدیواسی فیملی کے گھر پر ٹارچ کو چارجنگ میں لگا کر میں اپنے گاؤں واپس آ جاتی ہوں۔

Sombari standing with her parents, Diwaram and Malati Baske in front of their home in Jharia village in Purbi Singhbhum district of Jharkhand
PHOTO • Rahul

جھارکھنڈ کے مشرقی سنگھ بھوم ضلع کے جھاریا گاؤں میں، والد دیوا رام اور ماں مالتی باسکے کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے کھڑی سومواری

’میری ماں مالتی باسکے گھر کے کام سنبھالتی ہیں، اور انہیں روزانہ جنگل سے لکڑی چن کر لانی پڑتی ہے، تاکہ گھر میں چولہا جل سکے اور کھانا بن سکے۔ جب وہ جنگل جاتی ہیں، تو گھر کے کام میں سنبھالتی ہوں۔ اس وجہ سے کبھی کبھی میں اسکول نہیں جا پاتی ہوں‘

’’اس کے بعد، مجھے انتظار رہتا ہے کہ کب پاپا یا چچا بازار سے آئیں، اور مجھے ان کی سائیکل مل جائے۔ ٹارچ کو پوری طرح چارج ہونے میں تین چار گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ مجھے جب سائیکل مل جاتی ہے، تو میں ٹارچ لے آتی ہوں۔ ہر صبح ہی مجھے ٹارچ چارج کروانے کی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ورنہ ہم پڑھ نہیں پائیں گے۔ میری دیدی (بہن) رتنی باسکے ۱۰ویں میں ہے، اور میرا بھائی جیتو باسکے تیسری کلاس میں پڑھتا ہے۔

’’کئی بار ہم ٹارچ چارج کرنے کے لیے کھڑیا کوچا نہیں جا پاتے ہیں۔ تب ہمیں اس کی بیٹری بچا کر خرچ کرنی ہوتی ہے یا موم بتی سے کام چلانا پڑتا ہے۔‘‘

*****

بھاٹن کے علاوہ، آس پاس کے جھاریا جیسے کئی گاؤوں کے ۲۳۴ طلباء بھاٹن مڈل اسکول میں پڑھنے آتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق آدیواسی برادریوں سے ہے۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر دنیش چندر بھگت بتاتے ہیں، ’’جس دن مڈ ڈے میل کے کھانے میں انڈا یا پھل دیا جاتا ہے، اس دن بچوں کی حاضری بڑھ جاتی ہے۔‘‘

جھارکھنڈ کی حکومت، جھارکھنڈ ایجوکیشن پروجیکٹ کونسل کے تحت سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والی سبھی لڑکیوں اور ایس سی، ایس ٹی، بی پی ایل کنبوں کے بچوں کے لیے مفت یونیفارم اسکیم چلاتی ہے۔ پہلی سے پانچویں کلاس تک کے ان بچوں کو اسکول کی یونیفارم اور جوتے موزے خریدنے کے لیے ۶۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔ کلاس چھ سے آٹھ تک کے بچوں کو یونیفارم کے لیے ۴۰۰ روپے، سوئٹر کے لیے ۲۰۰ روپے اور جوتے موزے کے لیے ۱۶۰ روپے دیے جاتے ہیں۔

Dinesh Chandra Bhagat, the headmaster of Bhatin Middle School in Jadugora block of Purbi Singhbhum district in Jharkhand.
PHOTO • Rahul
Sombari with her classmates in school
PHOTO • Rahul

بائیں: مشرقی سنگھ بھوم ضلع کے جادوگوڑا بلاک میں واقع بھاٹن مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر دنیش چندر بھگت۔ دائیں: اسکول میں اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ سومواری

یونیفارم اسکیم کے تحت ملنے والے یہ پیسے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کے ذریعے ان کے بینک اکاؤنٹ میں بھیج دیے جاتے ہیں۔ حالانکہ، ہیڈ ماسٹر کا کہنا تھا کہ اسکول کے ۶۰ فیصد بچوں کو ہی ڈریس کے لیے پیسے مل سکے ہیں۔

جھاریا گاؤں کی ۳۹ء۹۴ فیصد آبادی سنتال، منڈا، تانتی، اور لوہار برادریوں سے تعلق رکھتی ہے، اور ان میں سنتال آدیواسیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ دہاڑی مزدوری کرکے اپنا گھر چلاتے ہیں، وہیں جن کنبوں کے پاس کچھ زمین ہے وہ کھیتی کرکے خود کی کھپت کے لیے دھان اگاتے ہیں۔

’’میرے والد دیوا رام باسکے دہاڑی مزدور ہیں، اور کیبل بچھانے کے لیے گڑھا کھودتے ہیں۔ جس دن کام مل جاتا ہے، انہیں ۳۵۰-۳۰۰ روپے کی دہاڑی ملتی ہے۔ اسی سے ہمارا گھر چلتا ہے۔ میرے دادا کے نام پر تقریباً ۷ ایکڑ زمین ہے، لیکن یہ زمین کافی اوبڑ کھابڑ اور پتھریلی ہے، اس وجہ سے ہمارے کھانے کے لیے تھوڑا دھان ہی ہو پاتا ہے۔

’’میری ماں مالتی باسکے گھر کے کام سنبھالتی ہیں، اور انہیں روزانہ جنگل سے لکڑی چن کر لانی پڑتی ہے، تاکہ گھر میں چولہا جل سکے اور کھانا بن سکے۔ جب وہ جنگل جاتی ہیں، تو گھر کا کام میں سنبھالتی ہوں۔ اس وجہ سے کبھی کبھی میں اسکول نہیں جا پاتی ہوں۔ ماں، ببلو چچا کی ناشتے کی دکان کے لیے سامان بھی تیار کرتی ہیں۔ اس کام کے عوض کبھی کبھی انہیں فروخت کے حساب سے ایک دن کے ۵۰-۴۰ روپے مل جاتے ہیں۔ میرے پاپا کو بھی جس دن کام نہیں ملتا اُس دن وہ ببلو چچا کی مدد کرتے ہیں۔ چچا سے ہمارا خون کا رشتہ نہیں ہے، اور وہ ہماری ذات سے بھی نہیں ہیں، لیکن ہمارے گھر کا حصہ ہیں۔‘‘

Morning school assembly at Bhatin Middle School
PHOTO • Rahul

بھاٹن مڈل اسکول میں صبح کی دعائیہ مجلس

گلوم اِن دی کلاس روم: دی اسکولنگ کرائسس اِن جھارکھنڈ رپورٹ کے مطابق، کووڈ کے دوران ریاست کے سرکاری اسکولوں کے ۸۷ فیصد طلباء کے پاس اسمارٹ فون نہیں تھا۔ جیاں دریز نے پاری سے بات چیت میں کہا، ’’کووڈ وبائی مرض کے دوران، اسکولی نظام تعلیم نے غریب اور آدیواسی بچوں کو بے سہارا کر دیا تھا۔ سب کچھ آن لائن پڑھائی کے بھروسے چھوڑ دیا گیا تھا، جو غریب بچوں کے ساتھ نا انصافی تھی۔‘‘

*****

’’دسمبر کا مہینہ شروع ہو گیا تھا، اور میں اس بات کے لیے پریشان تھی کہ کرسمس کے موقع پر اسکول کی پکنک پر کیسے جاؤں گی۔ جمشید پور کے ڈِمنا ڈیم پر مجھے اپنی سہیلیوں کے ساتھ پکنک منانے کا بہت من تھا۔ لیکن، اس کے لیے ۲۰۰ روپے کی فیس بھرنی تھی، اور میری فیملی کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے، میں نے ماں باپ سے پیسے نہیں مانگے۔ مجھے کسی کے کھیت میں ایک دن دھان کاٹنے کے ۱۰۰ روپے مل رہے تھے۔ اس طرح، دو دن مزدوری کرکے میں نے ۲۰۰ روپے کا انتظام کر لیا، اور پکنک کا پیسہ بھر دیا۔ اسکول کی سہیلیوں کے ساتھ میں ڈِمنا ڈیم گھومنے گئی، اور وہاں مجھے بہت مزہ آیا۔

’’کورونا کے ٹائم ہمارا اسکول بند پڑا تھا، اور پچھلے سال ہی کھلا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران میں اچھی طرح پڑھائی نہیں کر پائی تھی، تو پچھلے امتحان میں میرے نمبر بہت کم آئے ہیں۔ لیکن، اس بار میں محنت کر رہی ہوں، اور اچھے نمبر لانا چاہتی ہوں۔

’’جب میرا امتحان ختم ہو جائے گا، تو آگے پڑھنے کے لیے مجھے جادوگوڑا جانا پڑے گا۔ جادوگوڑا میرے گاؤں سے سات آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ وہیں ہائی اسکول میں میرا نام لکھوایا جائے گا۔

’’میں بڑی ہو کر وکیل یا پولیس بننا چاہتی ہوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Rahul

Rahul Singh is an independent reporter based in Jharkhand. He reports on environmental issues from the eastern states of Jharkhand, Bihar and West Bengal.

Other stories by Rahul
Editor : Devesh

Devesh is a poet, journalist, filmmaker and translator. He is the Translations Editor, Hindi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Devesh
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique