’’اگر ہم نے کام کرنا بند کر دیا، تو پورا ملک اداس ہو جائے گا۔‘‘

بابو لال کی یہ بات ان کے اگلے بیان سے سجھ میں آتی ہے، ’’کسی کو بھی کرکٹ کھیلنے کاموقع نہیں ملے گا۔‘‘

لال اور سفید رنگ کی کرکٹ بال، جسے بلے باز اور گیند باز پسند کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے بھی ہیں اور جس پر لاکھوں ناظرین اپنی نظریں گڑائے رہتے ہیں، چمڑے سے بنی ہوتی ہیں، جو اتر پردیش کے میرٹھ کی ایک بستی، شوبھا پور میں واقع چمڑے کے کارخانوں سے آتی ہے۔ یہ شہر کا واحد ایسا علاقہ ہے، جہاں چمڑے کا کام کرنے والے مزدور ایلم ٹیننگ (پھٹکری کے ذریعے چمڑے کی دباغت) کا استعمال کرکے کچی کھال کو سُکھاتے ہیں، جو کرکٹ کے گیند کی صنعت میں کچے مال کی طرح کام میں لایا جاتا ہے۔ دباغت کے ذریعے کچی کھال سے چمڑا تیار کیا جاتا ہے۔

بابو لال کہتے ہیں، ’’صرف پھٹکری سے دباغت کرنے پر ہی چمڑے کے مسام (مہین سوراخ) کھلتے ہیں اور رنگ آرام سے پاس ہو جاتا ہے۔‘‘ ان کی بات ساٹھ کی دہائی میں سنٹرل لیدر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک تحقیق سے ثابت ہوتی ہے، جس کے مطابق پھٹکری سے دباغت (ٹیننگ) کا اثر یہ ہوتا ہے کہ گیند باز کے ہاتھ کا پسینہ یا پھر تھوک (لعاب) سے گیند کو چمکانے سے گیند خراب نہیں ہوتی ہے اور گیند باز کو میچ خراب کرنے سے روکتی ہے۔

بابو لال (۶۲ سالہ) شوبھا پور میں چمڑے کے اپنے کارخانہ کے ایک کونے میں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے ہیں؛ چونے کی سفیدی سے فرش چمک رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس گاؤں میں ہمارے آباء و اجداد کم از کم دو سو سال سے یہ کام کر رہے ہیں۔‘‘

Left: Bharat Bhushan standing in the godown of his workplace, Shobhapur Tanners Cooperative Society Limited .
PHOTO • Shruti Sharma
Right: In Babu Lal’s tannery where safed ka putthas have been left to dry in the sun. These are used to make the outer cover of leather cricket balls
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: بھارت بھوشن اپنے کام کی جگہ، شوبھا پور ٹینرز کوآپریٹو سوسائٹی لمٹیڈ کے گودام میں کھڑے ہیں۔ دائیں: بابو لال کا چمڑے کا کارخانہ، جہاں سفید کے پُٹھوں کو دھوپ میں سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کرکٹ میں استعمال ہونے والی چمڑے کی گیندوں کا باہری حصہ بنانے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے

ہماری گفتگو کے دوران، ایک دوسرے دباغ (چمڑے کی صفائی و رنگائی وغیرہ کرنے والے) بھارت بھوشن وہاں آئے۔ بھارت بھوشن (۴۳ سالہ) اس صنعت میں تب سے کام کر رہے ہیں، جب وہ محض ۱۳ سال کے تھے۔ دونوں نے ’’جے بھیم‘‘ کہہ کر ایک دوسرے کا خیر مقدم کیا۔

بھارت بھوشن ایک کرسی لے کر آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ بابو لال نے دھیمی آواز میں تھوڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ مجھ سے پوچھا، ’’بدبو تو نہیں آ رہی ہے؟‘‘ ان کا اشارہ آس پاس کے گڑھوں میں پڑے چمڑے کی بھیگی کھالوں سے آ رہی تیز بو کی طرف تھا۔ دباغوں سے جڑی سماجی بدگمانی اور ان کے تئیں جارحیت پر بات کرتے ہوئے بھارت بھوشن نے کہا، ’’اصل میں کچھ لوگوں کی ناک زیادہ لمبی ہوتی ہے۔ بہت دور سے بھی ان کو چمڑے کے کام کی بدبو آ جاتی ہے۔‘‘

بھارت بھوشن کی بات سن کر بابو لال کہتے ہیں، ’’گزشتہ ۷-۵ برسوں سے، ہم اپنے کام کی وجہ سے کئی دقتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘ گزشتہ ۵۰ برسوں سے میرٹھ اور جالندھر کی سب سے بڑی کمپنیوں کے لیے بنیادی سپلائر ہونے کے باوجود، فرقہ وارانہ کشیدگی کے سبب ان کی زندگی اور ذریعہ معاش خطرے میں پڑ گیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’مصیبت آنے پر کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے۔ ہمیں اکیلے ہی سنبھالنا پڑتا ہے۔‘‘

چمڑا صنعت ہندوستان کی سب سے پرانی مینوفیکچرنگ صنعتوں میں سے ایک ہے۔ کاروبار و صنعت کی مرکزی وزارت کے تحت آنے والے کاؤنسل فار لیدر ایکسپورٹس کے مطابق ، ۲۰۲۲-۲۰۲۱ میں اس صنعت میں ۴۰ لاکھ سے زیادہ لوگ کام کرتے تھے اور دنیا کے تقریباً ۱۳ فیصد چمڑے کی پیداوار کر رہے تھے۔

شوبھا پور کے تقریباً سبھی چمڑا کارخانوں کے مالک اور ان میں کام کرنے والے مزدور جاٹو برادری (اتر پردیش میں درج فہرست ذات کے طور پر درج) سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارت بھوشن کے اندازہ کے مطابق، اس علاقے میں ۳۰۰۰ جاٹو خاندان رہتے ہیں اور ’’تقریباً ۱۰۰ خاندان فی الحال اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ شوبھا پور وارڈ نمبر ۱۲ کے اندر آتا ہے، جس کی آبادی ۱۶۹۳۱ ہے، اور وارڈ میں رہنے والی تقریباً آدھی آبادی درج فہرست ذات سے تعلق رکھتی ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔

شوبھا پور جھگی بستی میرٹھ شہر کے مغربی کنارے پر ہے، جہاں چمڑے کے کل ۸ کارخانے ہیں، جن میں سے ایک کے مالک بابو لال ہیں۔ بھارت بھوشن بتاتے ہیں، ’’ہم جو بناتے ہیں، اسے سفید کا پُٹھّا [کھال کا پچھلا حصہ] کہا جاتا ہے۔ کرکٹ کی گیند اسی سے بنائی جاتی ہے۔‘‘ کھال کی دباغت کے لیے پوٹیشیم ایلومینیم سلفیٹ یعنی پھٹکری کا استعمال کیا جاتا ہے۔

Left : Babu Lal at his tannery.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: An old photograph of tannery workers at Shobhapur Tanners Cooperative Society Limited, Meerut
PHOTO • Courtesy: Bharat Bhushan

بائیں: بابو لال اپنے کارخانہ میں۔ دائیں: میرٹھ کے شوبھا پور ٹینرز کوآپریٹو سوسائٹی لمیٹڈ میں کام کرنے والے دباغوں کی ایک پرانی تصویر

ملک کی تقسیم کے بعد، کھیل کے سامان کی صنعت پاکستان کے سیالکوٹ سے میرٹھ منتقل ہو گئی تھی۔ بابو لال شاہراہ کے دوسری طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں ۱۹۵۰ کی دہائی میں ضلع کے محکمہ صنعت کے ذریعے اسپورٹس انڈسٹری کی مدد کے لیے ایک لیدر ٹیننگ ٹریننگ سنٹر (دباغت کا تربیتی مرکز) کھولا گیا تھا۔

بھارت بھوشن کہتے ہیں کہ ’’کچھ چمڑا کاریگروں نے ۲۱ ممبران پر مشتمل شوبھا پور ٹینرز کوآپریٹو سوسائٹی لمیٹڈ قائم کیا تھا۔ ہم اس مرکز کا استعمال کرتے ہیں اور اسے چلانے کا خرچ  آپس میں مل کر اٹھاتے ہیں، کیوں کہ ہم نجی اکائیوں کو چلانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔‘‘

*****

بھارت بھوشن اپنے کارخانہ کے لیے کچا مال خریدنے کی خاطر صبح سویرے ہی اٹھ جاتے ہیں۔ وہ ایک سواری والے آٹو میں بیٹھ کر پانچ کلومیٹر دور، میرٹھ اسٹیشن جاتے ہیں اور ہاپوڑ کے لیے صبح ساڑھے پانچ بجے کی خورجہ جنکشن ایکسپریس ٹرین پکڑتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’چمڑا پینٹھ [کچا چمڑا بازار] ہاپوڑ میں اتوار کو لگتی ہے۔ یہاں پورے ملک سے ہر قسم کی کھال آتی ہے۔ ہم کچا مال وہیں سے لے کر آتے ہیں۔‘‘

ہاپوڑ ضلع میں لگنے والا یہ ہفتہ وار بازار شوبھا پور سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ہے، اور مارچ ۲۰۲۳ میں گائے کی ایک کچی کھال کی قیمت ۵۰۰ روپے سے لے کر ۱۲۰۰ روپے تک تھی، جو اس کے معیار پر منحصر ہوتی ہے۔

بابو لال بتاتے ہیں کہ جانور کے چارہ، صحت اور دیگر چیزوں کے سبب کھال کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔ ’’راجستھان کی کھال پر عموماً کیکر [ببول] کے کانٹوں کے نشان ہوتے ہیں اور ہریانہ کی کھال پر چچڑی کے نشان ہوتے ہیں۔ یہ دوئم درجے کا مال ہوتا ہے۔‘‘

سال ۲۳-۲۰۲۲ میں، لمپی اسکن ڈیزیز (جلد سے متعلق مرض) کے سبب ۸۴ء۱ لاکھ سے زیادہ جانوروں کی موت ہوئی تھی؛ اس کی وجہ سے بازار میں کھال بڑی مقدار میں دستیاب تھی۔ لیکن بھارت بھوشن کے مطابق، ’’ہم انہیں خرید نہیں سکتے تھے، کیوں کہ ان پر بڑے بڑے ہوتے تھے اور کرکٹ گیند تیار کرنے والے ان کا استعمال نہیں کرتے تھے۔‘‘

Hide of cattle infected with lumpy skin disease (left). In 2022-23, over 1.84 lakh cattle deaths were reported on account of this disease.
PHOTO • Shruti Sharma
But Bharat (right) says, 'We could not purchase them as [they had] big marks and cricket ball makers refused to use them'
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: لمپی اسکن ڈیزیز سے متاثر جانوروں کی کھال۔ دائیں: سال ۲۳-۲۰۲۲ میں اس مرض کی وجہ سے ۸۴ء۱ لاکھ سے زیادہ جانوروں کی موت ہوئی۔ لیکن بھارت بھوشن کہتے ہیں، ’ہم انہیں خرید نہیں سکتے تھے، کیوں کہ ان پر بڑے بڑے ہوتے تھے اور کرکٹ گیند تیار کرنے والے ان کا استعمال نہیں کرتے تھے‘

چمڑا صنعت سے جڑے کاریگروں کا کہنا ہے کہ مارچ ۲۰۱۷ میں ریاستی حکومت کے ذریعے غیر قانونی ذبیحہ خانوں کو بند کرنے کے حکم کی وجہ سے ان پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑا تھا۔ اس فرمان کے بعد، مرکزی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کی تھی، جس کے تحت ذبیحہ خانوں کے لیے جانوروں کے بازار میں مویشیوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ بھارت بھوشن بتاتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ’’آج، بازار پہلے کے مقابلے آدھا ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی یہ اتوار کو بھی بند رہتا ہے۔‘‘

گئو رکشکوں کی وجہ سے لوگ جانوروں اور ان کی کھالوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے سے ڈرتے ہیں۔ بابو لال کہتے ہیں، ’’یہاں تک کہ آج کل بل پر کھال لانے والے [رجسٹرڈ بین ریاستی ٹرانسپورٹر] بھی کچا مال لے جانے سے ڈرتے ہیں۔ ماحول ہی ایسا بن گیا ہے۔‘‘

سال ۲۰۱۹ میں، گئو رکشکوں کے ذریعے کیے جا رہے حملوں پر مبنی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ ’وائلینٹ کاؤ پروٹیکشن ان انڈیا‘ (ہندوستان میں پرتشدد طریقے سے گائے کی حفاظت) کے مطابق، مئی ۲۰۱۵ اور دسمبر ۲۰۱۸ کے درمیان ۱۲ ریاستوں میں کم از کم ۴۴ لوگوں (جن میں سے ۳۶ مسلمان تھے) کا قتل کر دیا گیا۔ اسی دوران، ۲۰ ریاستوں میں ۱۰۰ الگ الگ واقعات میں ۲۸۰ لوگ زخمی ہوئے۔‘‘

بابو لال کہتے ہیں، ’’ہمارا تو کام پختہ [قانونی اور رسد پر مبنی] ہے۔ پھر بھی دقت ہے ان کو۔‘‘

Left : Buffalo hides drying in the sun at the government tanning facility in Dungar village near Meerut.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: Bharat near the water pits. He says, 'the government constructed amenities for all stages of tanning here'
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: میرٹھ کے پاس ڈونگر گاؤں میں ایک سرکاری ٹیننگ سنٹر میں بھینس کی کھالیں دھوپ میں سُکھائی جا رہی ہیں۔ دائیں: پانی کے گڑھے کے پاس بھارت بھوشن کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’سرکار نے یہاں چمڑا تیار کرنے کے لیے ضروری تمام سہولیات فراہم کی ہیں‘

جنوری ۲۰۲۰ میں، شوبھا پور میں دباغوں کے سامنے ایک اور مصیبت آن پڑی۔ ان کے خلاف آلودگی کو لے کر ایک پی آئی ایل داخل کر دی گئی تھی۔ بھارت بھوشن بتاتے ہیں، ’’انہوں نے ایک اور شرط بھی رکھی ہے کہ ہائی وے (شاہراہ) سے چمڑے کا کام دکھائی نہیں دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقامی پولیس نے چمڑے کے سبھی مراکز کو بند کرنے کا نوٹس بھیجا ہے، جب کہ پی آئی ایل (مفاد عامہ کی عرضی) میں لکھا تھا کہ سرکاری مدد سے ان مراکز کو دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔

بابو لال کہتے ہیں، ’’سرکار ہمیں ویہ وستھا بنا کے دے اگر دقت ہے تو۔ جیسے ڈونگر میں بنائی ہے ۰۴-۲۰۰۳ میں [اگر حکومت کو کوئی دقت ہے تو وہ ہمارے لیے انتظامات کرے، جیسے کہ انہوں نے سال ۴-۲۰۰۳ میں ڈونگر گاؤں میں ٹیننگ سنٹر بنا کر کیا تھا]۔‘‘

بھارت بھوشن کا کہنا ہے، ’’ہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ میونسپل کارپوریشن نے نالیاں بنانے کا کام پورا نہیں کیا ہے۔‘‘ یہ علاقہ ۳۰ سالوں سے میونسپل کارپوریشن کے ماتحت ہے۔ ’’مانسون کے تحت اُن رہائشی جگہوں پر پانی جمع ہو جاتا ہے، جنہیں مسطح نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

*****

کرکٹ کی گیند بنانے میں استعمال ہونے والی سینکڑوں سفید کھالوں کی سپلائی شوبھا پور کے ۸ چمڑا مراکز سے کی جاتی ہے۔ دباغ گرد و غبار، مٹی، گندگی ہٹانے کے لیے سب سے پہلے ان کھالوں کو صاف کرتے ہیں اور ہر ایک کھال سے چمڑا بنانے پر انہیں اس کے ۳۰۰ روپے ملتے ہیں۔

بابو لال بتاتے ہیں، ’’کھال کو پانی سے اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ہم کوالٹی، خاص کر موٹائی کے حساب سے انہیں چھانٹ لیتے ہیں۔‘‘ پھٹکری سے موٹی کھالوں کی دباغت میں ۱۵ دن لگتے ہیں۔ پتلی کھالوں کی دباغت کا کام ببول کی چھال سے کیا جاتا ہے اور اس میں ۲۴ دن لگتے ہیں۔ ’’ڈھیر ساری کھالوں کی دباغت ایک ساتھ کی جاتی ہے، اس لیے ہر روز چمڑے کے بنڈل تیار ہوتے ہیں۔‘‘

Left: A leather-worker washes and removes dirt, dust and soil from the raw hide. Once clean and rehydrated, hides are soaked in a water pit with lime and sodium sulphide. 'The hides have to be vertically rotated, swirled, taken out and put back into the pit so that the mixture gets equally applied to all parts,' Bharat explains.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: Tarachand, a craftsperson, pulls out a soaked hide for fleshing
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: ایک دباغ گرد و غبار، گندگی ہٹانے کے لیے کچی کھال کی دھلائی کر رہا ہے۔ ایک بار صاف ہو جانے کے بعد ان کھالوں کو چونے اور سوڈیم سلفائیڈ کے محلول سے بھرے پانی کے گڑھے میں ڈبویا جاتا ہے۔ بھارت بھوشن بتاتے ہیں، ’ان کھالوں کو اوپر کی طرف گھمایا جاتا ہے اور باہر نکال کر دوبارہ حوض میں ڈالا جاتا ہے، تاکہ محلول پورے حصے میں مل جائے۔‘ دائیں: تارا چند ایک دباغ ہیں جو بھیگی کھالوں سے باقی ماندہ گوشت نکالتے ہیں

Left: A rafa (iron knife) is used to remove the flesh. This process is called chillai
PHOTO • Shruti Sharma
Right: A craftsperson does the sutaai (scraping) on a puttha with a khaprail ka tikka (brick tile). After this the hides will be soaked in water pits with phitkari (alum) and salt
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: ایک لوہے کے چاقو (رافا) سے گوشت کو ہٹایا جا رہا ہے۔ اسے چھلائی کہتے ہیں۔ دائیں: ایک کاریگر پُٹھّے پر کھپریل کے ٹکّے سے سُتائی کر رہا ہے۔ اس کے بعد ان کھالوں کو پھٹکری، نمک اور پانی کے محلول میں ڈبویا جائے گا

کھالوں کو چونے، سوڈیم سلفائیڈ اور پانی کے محلول میں تین دنوں کے لیے ڈبویا جاتا ہے اور پھر ہر ایک کھال کو مسطح زمین پر بچھا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، لوہے کے کند دھار والے اوزار سے اس میں سے بال نکالے جاتے ہیں، جسے سُتائی کہتے ہیں۔ بھارت بھوشن بتاتے ہیں، ’’کھال پھولنے کے بعد رُواں آرام سے نکل جاتا ہے۔‘‘ کھال کو موٹا کرنے کے لیے انہیں دوبارہ بھگویا جاتا ہے۔

بابو لال کے بنیادی کاریگر ۴۴ سالہ تارا چند ہیں، جو رافا یا چاقو کے استعمال سے کھال کے اندرونی حصے سے باقی ماندہ گوشت کو الگ کرتے ہیں۔ پھر ان کھالوں کو تین دنوں کے لیے سادہ پانی میں بھگویا جاتا ہے، تاکہ ان میں سے چونے کو پوری طرح ہٹایا جا سکے۔ اور اس کے بعد انہیں رات بھر کے لیے پانی اور ہائیڈروجن پیراکسائیڈ کے محلول میں ڈبویا جاتا ہے۔ بابو لال کہتے ہیں کہ کھال کو صاف (کیڑوں سے پاک) کرنے اور اس کی سفیدی کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ ’’ایک ایک کرکے ساری بدبو اور گندگی نکالی جاتی ہے۔‘‘

بھارت بھوشن کہتے ہیں، ’’گیند بنانے والوں کے پاس جو مال پہنچتا ہے وہ بہت صاف ہوتا ہے۔‘‘

صاف کی گئی ایک کھال (سفید کا پُٹھا) ۱۷۰۰ روپے میں کرکٹ کی گیند تیار کرنے والوں کو بیچی جاتی ہے۔ کھال کے نچلے حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھارت بھوشن کہتے ہیں، ’’سب سے اچھی کوالٹی والی ۲۴-۱۸ گیندیں کھال کے اس حصے سے بنائی جاتی ہیں، کیوں کہ یہ سب سے مضبوط حصہ ہوتا ہے۔ ان گیندوں کو ولایتی گیند کہا جاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک گیند [خوردہ بازار میں] ۲۵۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔‘‘

Left : Raw hide piled up at the Shobhapur Tanners Cooperative Society Limited
PHOTO • Shruti Sharma
Right: 'These have been soaked in water pits with boric acid, phitkari [alum] and salt. Then a karigar [craftsperson] has gone into the soaking pit and stomped the putthas with his feet,' says Babu Lal
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: شوبھا پور ٹینرز کوآپریٹو سوسائٹی میں کچی کھالوں کا بنڈل پڑا ہے۔ دائیں: بابو لال کہتے ہیں، ’انہیں بورک ایسڈ، پھٹکری، نمک اور پانی کے محلول میں بھگویا گیا ہے۔ پھر ایک کاریگر حوض کے پاس جا کر اپنے پیروں سے پٹھوں کی ملائی (کچلنا) کرتا ہے

Left: Bharat in the Cooperative Society's tanning room.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: 'Raw hide is made into a bag and bark liquor is poured into it to seep through the hair grains for vegetable-tanning. Bharat adds , 'only poorer quality cricket balls, less water-resistant and with a hard outer cover are made from this process'
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: بھارت بھوشن، کوآپریٹو سوسائٹی کے ٹیننگ روم میں کھڑے ہیں۔ دائیں: ان کچی کھالوں کا ایک بیگ بنایا جاتا ہے اور اس میں ببول کی چھال کا محلول ڈالا جاتا ہے، تاکہ یہ روئیں سے ہو کر گزریں۔ بھارت بھوشن بتاتے ہیں، ’ان سے خراب کوالٹی کی گیندیں بنتی ہیں، جو پانی کو جذب کر لیتی ہیں، اور ان کی شکل جلدی بگڑ جاتی ہے

بابو لال کہتے ہیں، ’’کھال کے دوسرے حصے کافی پتلے اور اتنے مضبوط نہیں ہوتے، اس لیے ان سے بنی ہوئی گیندیں سستی ہوتی ہیں اور انہیں بہت ہی کم اووروں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کی شکل جلدی بگڑ جاتی ہے۔‘‘ بھارت بھوشن تیزی سے حساب لگاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایک پُٹھّے سے الگ الگ کوالٹی کی کل ۱۰۰ گیندیں بنائی جاتی ہیں۔ اگر ایک گیند ۱۵۰ روپے میں بھی فروخت کی جاتی ہو، تو گیند بنانے والا ہر پٹھے سے کم از کم ۱۵۰۰۰ روپے کماتا ہے۔‘‘

بھارت بھوشن، بابو لال کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں، ’’لیکن ہمیں کیا ملتا ہے؟ انہیں ہر ایک چمڑے کے ۱۵۰ روپے ملتے ہیں۔ ہم اپنے کاریگر کی ہفتے کی مزدوری اور کچے مال پر تقریباً ۷۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں۔ جس چمڑے سے کرکٹ کی گیندیں بنائی جاتی ہیں وہ ہم اپنے ہاتھوں اور پیروں سے بناتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ گیندوں پر بڑی کمپنیوں کے نام کے علاوہ اور کیا لکھا ہوتا ہے؟ ’ایلم ٹینڈ ہائیڈ‘۔ مجھے نہیں لگتا کہ کھلاڑیوں کو اس کا مطلب بھی پتہ ہوگا۔‘‘

*****

’’آپ کو لگتا ہے کہ آلودگی، بدبو اور ہائی وے سے دکھائی دینا اس صنعت کے حقیقی مسائل ہیں؟‘‘

مغربی اتر پردیش میں گنّے کے کھیتوں کے پیچھے سورج غروب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چمڑا کاریگر اپنے کام کی جگہوں پر تیزی سے غسل کرتے ہیں، اور گھر جانے سے پہلے اپنے کپڑے بدلتے ہیں۔

The smell of raw hide and chemicals hangs over the tannery
PHOTO • Shruti Sharma
Workers take a quick bath and change out of their work clothes (left) before heading home
PHOTO • Shruti Sharma

چمڑے کے مراکز میں کچی کھالوں اور کیمیکل کی تیز بو پھیلی رہتی ہے۔ گھر جانے سے پہلے سبھی دباغ جلدی سے غسل کرکے اپنے کپڑے (بائیں) بدلتے ہیں

بھارت بھوشن کہتے ہیں، ’’میں اپنے چمڑے پر بیٹے کے نام پر ’اے بی‘ نشان لگواتا ہوں۔ میں اسے چمڑے کے کام میں نہیں لگاؤں گا۔ اگلی نسل پڑھ لکھ رہی ہے۔ وہ لوگ آگے بڑھیں گے اور چمڑے کا کام بند ہو جائے گا۔‘‘

ہائی وے کی طرف جاتے جاتے بھارت بھوشن کہنے لگتے ہیں، ’’جس طرح کوئی کرکٹ کا دیوانہ ہوتا ہے، اس طرح ہمیں چمڑے کے کام کا شوق نہیں ہے۔ اس کام سے ہمارا روزگار جڑا ہوا ہے؛ ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے، اس لیے ہم یہ کام کرتے ہیں۔‘‘

اس اسٹوری کی رپورٹر، پروین کمار اور بھارت بھوشن کا اپنا بیش قیمتی وقت دینے اور اس اسٹوری کو رپورٹ کرنے میں ہر سطح پر مدد کرنے کے لیے شکریہ ادا کرتی ہیں۔ یہ رپورٹ مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Shruti Sharma

Shruti Sharma is a MMF-PARI fellow (2022-23). She is working towards a PhD on the social history of sports goods manufacturing in India, at the Centre for Studies in Social Sciences, Calcutta.

Other stories by Shruti Sharma
Editor : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique