میں نے پرولیا میں بھوانی مہتو سے پوچھا، ’’ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران جب آپ کے شوہر ویدیہ ناتھ کو ۱۳ مہینے کی جیل ہو گئی تھی، تو وہ وقت آپ کے لیے بہت مشکل بھرا رہا ہوگا؟ اتنے بڑے مشترکہ خاندان کو چلانا اور…‘‘

اس سوال کے جواب میں وہ بڑے اطمینان سے، لیکن مضبوطی سے کہتی ہیں، ’’نہیں، وہ جب گھر لوٹ کر آ گئے تب زیادہ مشکلیں جھیلنی پڑیں۔ وہ اپنے دوستوں کو  لے کر آتے یا مجھے ان کے لیے کھانا پکانا پڑتا، اور پھر وہ کھانا لے کر چلے جاتے۔ بعض دفعہ ۵، ۱۰، ۲۰ یا اس سے بھی زیادہ لوگوں کا کھانا پکانا پڑتا۔ مجھے ایک پل بھی آرام کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔‘‘

’’لیکن ظاہر ہے، آپ کا ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے ساتھ رشتہ جو تھا…‘‘

’’مجھے اس سے، یا اس جیسی کسی اور چیز سے کیا لینا دینا تھا؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ ’’میرا اس جدوجہد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، البتہ میرے شوہر ویدیہ ناتھ مہتو اس سے ضرور جڑے ہوئے تھے۔ میں تو بس ایک بڑی فیملی، اتنے سارے لوگوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی، مجھے اتنا سارا کھانا پکانا پڑتا تھا – ہر دن کھانا پکانے کا کام بڑھتا ہی چلا گیا!‘‘ بھوانی کہتی ہیں۔ ’’یاد رکھو، میں کھیتی بھی سنبھالتی تھی۔‘‘

ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔ یہ مایوسی اب ہمارے چہروں سے بھی عیاں ہونے والی تھی۔ ہم لوگ با حیات مجاہدین آزادی کی تلاش میں اتنی دوری طے کرکے مغربی بنگال کے ایک دور افتادہ علاقے میں آئے تھے۔ اور ہمیں مان بازار 1 بلاک کے چیپویا گاؤں میں جو خاتون اس رول کے لیے فٹ نظر آئیں، وہی ہم سے یہ کہہ رہی ہیں کہ ہندوستان کو آزاد کرانے والی اس تاریخی لڑائی سے ان کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔

بھوانی مہتو کی عمر ۱۰۱ سے ۱۰۴ سال کے درمیان ہوگی، پھر بھی وہ پوری وضاحت اور فیصلہ کن انداز میں باتیں کر رہی ہیں۔ دور دراز کے دیہی علاقوں میں اکثر غریب لوگوں کی عمر کو درج کرنا مشکل کام رہا ہے۔ اور ایک صدی قبل، جب وہ پیدا ہوئی تھیں، اس وقت تو یہ کام ہوتا بھی نہیں تھا۔ لیکن ہم لوگ بھوانی کی عمر کا صحیح اندازہ لگانے میں کامیاب رہے۔ ان کے آنجہانی شوہر کے ریکارڈ کی بدولت، اور ان کی لمبی چوڑی فیملی کے ممبران سے مل کر، جن میں ان کا بیٹا بھی شامل ہے، جن کی عمر ۷۰ سے ۸۰ سال کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ، پرولیا کے چند گاؤوں میں ان کے ہم عصر اور عمر میں ان سے تھوڑا چھوٹے لوگوں سے مل کر بھی ان کی عمر کا صحیح اندازہ ہو جاتا ہے۔

یہ اندازہ کم از کم اُس عمر کے مقابلے تو زیادہ قابل اعتماد ہے ہی جو یہاں پر اُن کی نسل کے لوگوں کو ناقص آدھار کارڈ سسٹم کے ذریعے زبردستی پکڑا دیا گیا ہے۔ آدھار کارڈ پر بھوانی کا سال پیدائش ۱۹۲۵ لکھا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی عمر ۹۷ سال ہوئی۔

جب کہ ان کی فیملی کا کہنا ہے کہ وہ ۱۰۴ سال کی ہیں۔

Bhabani’s age is somewhere between 101 and 104. Here she is with her son Shyam Sundar Mahato who is in his 70s
PHOTO • P. Sainath

بھوانی کی عمر ۱۰۱ سے ۱۰۴ سال کے درمیان ہے۔ یہاں پر وہ اپنے بیٹے شیام سندر مہتو کے ساتھ ہیں، جن کی عمر ۷۰ سے ۸۰ سال کے درمیان ہے

بھوانی بتاتی ہیں، ’’ہمارا ایک بڑا مشترکہ خاندان تھا۔ ان کی تمام ذمہ داریاں میرے اوپر تھیں۔ سارے کام میں ہی کرتی تھی۔ ہر ایک چیز کا خیال میں ہی رکھتی تھی۔ ہر ایک چیز کا۔ میں فیملی کا خیال رکھتی تھی۔ سال ۴۳-۱۹۴۲ میں جب یہ تمام واقعات ہوئے، تب میں ہی ہر ایک کا خیال رکھتی تھی۔‘‘ بھوانی ان ’واقعات‘ کا نام نہیں بتاتیں۔ لیکن اُن واقعات میں دیگر چیزوں کے علاوہ، ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا ہنگامہ بھی شامل تھا۔ اور ۳۰ ستمبر، ۱۹۴۲ کا وہ مشہور واقعہ بھی شامل تھا، جب مجاہدین آزادی نے ۱۲ پولیس اسٹیشنوں میں ترنگا لہرانے کی کوشش کی تھی، اور وہ بھی بنگال کے سب سے پچھڑے علاقوں میں سے ایک میں۔

ایک ایسے ضلع میں، جہاں آج بھی ایک تہائی خاندان خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور مغربی بنگال کے اس ضلع میں آج بھی سب سے زیادہ غریبی ہے۔ بھوانی کی بڑی فیملی کے پاس اُس زمانے میں بھی کچھ ایکڑ زمین تھی اور آج بھی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ لوگ دوسروں کے مقابلے کچھ بہتر حالت میں تھے۔

ان کے شوہر ویدیہ ناتھ مہتو ایک مقامی لیڈر تھے۔ وہ برطانی راج کے خلاف چلائی جا رہی تحریکوں میں سرگرمی سے جڑے ہوئے تھے۔ جیسا کہ پرولیا کے دو باحیات مجاہدین آزادی، ٹھیلو مہتو اور ’لوکھی‘ مہتو ہمیں پرڑا گاؤں میں بتاتے ہیں کہ اُس زمانے میں کوئی بھی خبر دور افتادہ علاقوں تک بہت دیر سے پہنچتی تھی۔ ٹھیلو مہتو کہتے ہیں، ’’یہاں، ہمیں ہندوستان چھوڑ دو کی کال کے بارے میں شاید ایک مہینے کے بعد پتہ چلا۔‘‘

اور اسی لیے، اس کال کے جواب میں کارروائی کا جو منصوبہ تیار ہوا، وہ ۳۰ ستمبر ۱۹۴۲ کا تھا۔ یعنی مہاتما گاندھی کے ذریعے ۸ اگست، ۱۹۴۲ کو ممبئی کے گوالیا ٹینک میدان سے انگریزوں کو ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کی کال دینے کے ٹھیک ۵۳ دنوں کے بعد۔ اس کے بعد انگریزوں کی طرف سے جو کریک ڈاؤن ہوا اس میں ویدیہ ناتھ کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر ان کے اوپر مظالم کا سلسلہ شروع ہوا۔ آزادی کے بعد وہ ایک اسکول ٹیچر بننے والے تھے۔ اس زمانے میں ٹیچروں نے سیاسی تحریک میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ آزادی کے بعد بھی کئی دہائیوں تک ٹیچر یہ رول ادا کرتے رہے۔

*****

Bhabani ran the family’s farm for decades right from preparing the soil for sowing, to supervising the labour and the harvesting. She even transported the produce back home herself
PHOTO • P. Sainath

بھوانی نے کئی دہائیوں تک فیملی کے کھیت کو سنبھالا، مٹی تیار کرنے سے لے کر بوائی، مزدوروں کی نگرانی اور فصل کی کٹائی تک۔ پیداوار کو گھر تک لانے کا کام بھی وہی کرتی تھیں

پولیس اسٹیشنوں پر قبضہ کرنے اور ان میں ترنگا لہرانے کی کوشش میں کئی طاقتیں شامل تھیں۔ برطانوی حکومت کے ظلم و استبداد سے پریشان عوام۔ اس کے علاوہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ۔ بائیں محاذ کے انقلابی اور گاندھی کے نظریہ پر عمل کرنے والے لوگ۔ اور ٹھیلو اور ’لوکھی‘ مہتو جیسے لوگ بھی اس میں شامل تھے، جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ذاتی طور پر تو گاندھیائی نظریہ کے حامل تھے، لیکن تحریک کے طور پر لیفٹسٹ تھے۔

ان کی سیاست، ان کا جنون، لیفٹ (بایاں محاذ) کے ساتھ تھا۔ ان کے اخلاقی عادات و اطوار اور طرز زندگی گاندھی سے متاثر تھی۔ یہ لوگ اکثر و بیشتر انہی دونوں راستوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ وہ اہنسا (عدم تشدد) میں تو یقین رکھتے تھے، لیکن کئی بار انہوں نے انگریزوں کا مقابلہ تشدد کے ساتھ کیا۔ وہ کہتے ہیں: ’’انہوں نے ہمارے اوپر گولیاں چلائیں۔ ظاہر ہے، جب انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دوستوں، فیملی یا کامریڈ کو گولی لگتے ہوئے دیکھا، تو وہ اس کا جواب تو دیتے ہی۔‘‘ ٹھیلو اور ’لوکھی‘ دونوں کُرمی (ذات) ہیں۔

بھوانی کی فیملی بھی کرمی ہے، مغربی بنگال کے جنگل محل علاقے میں یہ سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔

برطانی راج نے ۱۹۱۳ میں انہیں درج فہرست قبیلہ میں شامل کیا تھا۔ لیکن ۱۹۳۱ کی مردم شماری میں انہیں اس فہرست سے باہر کر دیا گیا۔ ۱۹۵۰ کے ہندوستان میں، انہیں او بی سی کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ اپنے قبائلی درجہ کی بحالی اس ریاست کے کُرمیوں کا ایک بڑا مطالبہ رہا ہے۔

یہاں کے کرمی بھی جدوجہد آزادی کی پہلی صف میں شامل تھے۔ ستمبر ۱۹۴۲ کے آخری دو دنوں میں، ۱۲ پولیس اسٹیشنوں تک نکالے گئے گئے مارچ میں انہوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا تھا۔

Baidyanath Mahato was jailed 13 months for his role in the Quit India stir
PHOTO • Courtesy: the Mahato family

ہندوستان چھوڑ دوتحریک کے دوران اپنے رول کی وجہ سے ویدیہ ناتھ مہتو کو ۱۳ مہینے کی جیل ہو گئی تھی

’’ویدیہ ناتھ نے اگلے ۱۳ مہینے جیل میں گزارے،‘‘ ان کے بیٹے شیام سندر مہتو بتاتے ہیں، جن کی عمر ۷۰ سے ۸۰ سال کے درمیان ہے۔ ’’انہیں بھاگلپور کیمپ جیل میں رکھا گیا تھا۔‘‘ یہی سن کر ہم نے بھوانی سے وہ سوال کیا تھا کہ وہ دور ان کے لیے کافی مشکل رہا ہوگا۔ اور اس کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی اصل پریشانی تب شروع ہوئی، جب وہ لوٹ کر گھر آئے تھے۔

’’اس کے بعد کافی لوگ آنے لگے۔ کافی لوگوں کو کھانا کھلانا پڑا۔ کافی لوگوں کی دیکھ بھال کرنی پڑی۔ وہ جب لوٹ کر آئے تب میں بہت روئی اور اپنے غصے کا اظہار کیا کہ ان کی تمام شہرت اور حب الوطنی کی قیمت مجھے اور فیملی کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اور ان کے لوٹنے سے، میرا کام بہت بڑھ گیا تھا۔‘‘

اتنا سننے کے بعد، ہم نے بھوانی پر دوبارہ توجہ دینی شروع کر دی۔ کیا ان کی سوچ پر گاندھی کا کوئی اثر تھا؟ ستیہ گرہ اور اہنسا کے بارے میں وہ کیسا محسوس کرتی تھیں؟

بھوانی ویسے تو پوری طرح سے مطمئن دکھائی دے رہی تھیں، لیکن اپنی باتیں پوری وضاحت اور تفصیل سے بتاتی ہیں۔ وہ ہماری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہیں، جو اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کسی ایسے نادان بچے کو اپنی باتیں بتا رہی ہیں جس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔

’’گاندھی…تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔ ’’تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں بیٹھ کر ان مسائل کے بارے میں غور کرتی؟ لوگوں کی تعداد روزانہ بڑھ رہی تھی، جنہیں مجھے کھانا کھلانا ہوتا، دیکھ بھال کرنی ہوتی، ان کے لیے کھانا پکانا پڑتا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں اور اپنی باتوں پر زور دینے کے لیے ہماری طرف اپنے بازوؤں کو بلند کرتی ہیں۔

’’سمجھنے کی کوشش کرو، جب میری شادی ہوئی تھی تب میں نو سال کی تھی۔ اتنے بڑے معاملے پر تب میں کہاں سوچ پاتی؟ اس کے بعد مجھے کئی دہائیوں تک اتنی بڑی مشترکہ فیملی کو اکیلے سنبھالنا پڑا۔ یہ بھی جان لو کہ مجھے کھیتی بھی سنبھالنی پڑتی تھی۔ مٹی کو تیار کرنے سے لے کر، بوائی کرنے، مونیش (مزدوروں) کی نگرانی، گھاس پھوس نکالنے (گُڑائی) اور فصل کی کٹائی تک…‘‘ اس کے بعد وہ کھیتوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو پکا ہوا کھانا بھی پہنچاتی تھیں۔

پھر وہ جنگلات کے کنارے موجود کھیتوں سے پیداوار کو گھر بھی لے آتی تھیں۔

اور یہ سبھی کام انہوں نے ایسے دور میں کیے جب کوئی بھی مشینی اوزار موجود نہیں تھے – بجلی سے چلنے والے اوزاروں کا تو اس زمانے میں کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ اور کھیتوں میں انہوں نے جتنی بھی جسمانی مزدوری کی، وہ سب انتہائی پرانے اوزاروں اور آلات سے انجام دیے، جنہیں تب بھی اور آج بھی بڑا، مردوں کے ہاتھوں کے موافق بنایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انتہائی خشک سالی والے علاقے میں نا برابری اور مفلسی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔

ان سے شادی کے تین دہائیوں بعد، ویدیہ ناتھ نے ایک اور شادی کر لی۔ اس بار انہوں نے خود بھوانی کی سگی بہن ارمیلا سے شادی کی، جو بھوانی سے عمر میں تقریباً ۲۰ سال چھوٹی تھیں۔ ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ کسی بڑے خاندانی بحران کی وجہ سے ایسا کیا گیا تھا۔ دونوں بہنوں کو تین تین بچے ہوئے۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

بھوانی، پرولیا ضلع کے چیپویا گاؤں میں اپنے گھر پر

لیکن آہستہ آہستہ حالات معمول پر آ گئے۔ بھوانی مہتو جو کھانا اپنی فیملی – اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے بناتی تھیں، اسے پہلے وہ کھیتوں میں بوتیں، کاٹتیں، اور پھر گھر تک لے کر آتی تھیں۔ یہ سارے کام انہوں نے ۱۹۲۰ کی دہائی کے اواخر اور ۱۹۳۰ کی دہائی میں کیے۔ اور ۱۹۴۰ کی دہائی میں بھی وہ یہ کام کرتی رہیں۔

یہ تفصیل حاصل کر پانا ذرا مشکل ہے کہ وہ کتنے ایکڑ زمین پر کام کرتی تھیں۔ ان کی فیملی جس زمین پر کھیتی کرتی تھی، اسے وہ اپنا مانتے تھے، لیکن اس کا مالکانہ حق ان کے پاس نہیں تھا۔ وہ زمیندار کی مرضی سے اس پر کام کرتے تھے۔ ۲۰ سے بھی زیادہ ممبران پر مشتمل ان کا بڑا خاندان جس زمین کے بھروسے زندگی بسر کر رہا تھا، وہ جنڑا میں واقع بھوانی کی خود اپنی فیملی اور اور چیپویا میں واقع ان کے سسرال والوں کے پاس تھی۔ دونوں گاؤوں میں ان کی کل زمین مجموعی طور پر تقریباً ۳۰ ایکڑ تھی۔

ان کے اوپر پڑنے والے کام کا یہ بوجھ ان کا سارا وقت لے لیتا تھا۔ اور اس طرح کے کام ان کے پاس بہت سارے تھے۔

تو کیا وہ صبح ۴ بجے سو کر اٹھتی تھیں؟ ’’اس سے بھی کافی پہلے،‘‘ وہ بتاتی ہیں، ’’اس سے بھی کافی پہلے۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ وہ رات میں ۲ بجے ہی بیدار ہو جاتی تھیں۔ ’’اور مجھے کبھی بھی رات میں ۱۰ بجے سے پہلے سونے کا موقع نہیں ملا۔ عموماً، اس کے بعد ہی سوتی تھی۔‘‘

ان کے پہلے بچے کی موت بہت زیادہ پیچش کی وجہ سے ہو گئی تھی۔ ’’ہم ایک فقیر و حکیم کے پاس گئے، جن کا نام کوی راج تھا۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ موت کے وقت وہ صرف ایک سال کی تھی۔‘‘

میں ایک بار پھر ان سے گاندھی اور اس تحریک کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ماں بن جانے کے بعد، مجھے چرخہ چلانے اور وہ سارے کام کرنے کا وقت نہیں مل سکا، جسے میں پہلے سے کرتی آ رہی تھی۔‘‘ وہ ہمیں دوبارہ یاد دلاتی ہیں – ’’شادی کے وقت میری عمر ۹ سال تھی۔‘‘

لیکن اس کے بعد، انہوں نے جس دور میں زندگی گزاری، جن مصیبتوں کا سامنا کیا، اسے دیکھتے ہوئے بھوانی ظاہر ہے کہ ہمیں تین بڑے تجربات کے بارے میں بتا سکتی ہیں، جس کا سامنا انہوں نے اس دور میں کیا تھا؟

’’میں ہر وقت کاموں سے گھری رہتی تھی۔ براہ کرم سمجھنے کی کوشش کریں کہ میری زندگی کیسی تھی۔ آپ کو کیا لگتا ہے، میں بیٹھ کر ان چیزوں کے بارے میں سوچتی؟ بلکہ میری ساری فکرمندی اسی بات کو لے کر تھی کہ اتنے بڑے گھر کو کیسے سنبھالا جائے، کیسے چلایا جائے۔ ویدیہ ناتھ اور دوسرے لوگ جدوجہد میں مصروف تھے۔ میں نے سب کو کھانا کھلایا۔‘‘

اتنا سارا بوجھ اور دباؤ پڑنے کے بعد وہ کیا کرتی تھیں؟ ’’میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر بہت روئی۔ یقین مانیں، ویدیہ ناتھ کے ذریعے لائے گئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے جب مجھے کھانا پکانا پڑتا تھا – تو اس وقت مجھے غصہ نہیں آتا تھا۔ بلکہ رونا آتا تھا۔‘‘

وہ ان الفاظ کو دوہراتی ہیں، اور چاہتی ہیں کہ ہم ان کی باتوں کو اچھی طرح سمجھیں – ’’مجھے غصہ نہیں آتا تھا، بلکہ رونا آتا تھا۔‘‘

*****

ویڈیو دیکھیں: پرولیا کی متذبذب مجاہدہ آزادی – بھوانی مہتو

۱۹۴۰ کی دہائی میں، بنگال میں پڑنے والے زبردست قحط کے سالوں میں ان کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ اس دور میں انہیں جتنی مشقت کرنی پڑی ہوگی، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے

اور ہم جیسے ہی وہاں سے روانہ ہونے کے لیے اپنی کرسیوں سے اٹھتے ہیں، ان کا پوتا پارتھ سارتھی مہتو جو – ویدیہ ناتھ کی طرح ہی – ایک ٹیچر ہے، ہمیں بیٹھے رہنے کے لیے کہتا ہے۔ ’پارتھ دا‘ ہم سے کچھ الفاظ کہنا چاہتے ہیں۔

اور پھر اپنی بات شروع کرتے ہیں۔

وہ لوگ آخر کون تھے، جن کے لیے وہ اپنی بڑی فیملی کے علاوہ کھانا پکاتی رہیں؟ بعض دفعہ پانچ، دس، بیس کی تعداد میں وہ لوگ کون تھے، جنہیں ویدیہ ناتھ ان کے پاس کھانا پکانے کے لیے لے کر آتے رہتے تھے؟

’’انہوں نے جن لوگوں کے لیے کھانا پکایا وہ انقلابی تھے،‘‘ پارتھ دا بتاتے ہیں۔ ’’زیر زمین ہوکر لڑنے والے لوگ، جو اکثر مفرور رہتے یا جنگل میں پناہ لیے ہوئے تھے۔‘‘

ہم لوگ وہاں کچھ دیر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ اس خاتون کی بے پناہ قربانی سے مغلوب، جنہیں ۹ سال کی عمر سے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی خود کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں ملا۔

انہوں نے ۱۹۳۰ اور پھر ۴۰ کی دہائی میں جو کچھ کیا، اگر وہ جدوجہد آزادی میں ان کی حصہ داری نہیں تھی، تو پھر کیا تھا؟

ان کا بیٹا اور دوسرے لوگ ہمیں دیکھنے لگتے ہیں، اس بات سے حیران کہ ہم نے اسے سمجھا نہیں۔ انہوں نے اس بات کو ہلکے میں لیا کہ ہمیں سب کچھ پہلے سے معلوم تھا۔

کیا بھوانی اس بات سے باخبر تھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں اور کن لوگوں کے لیے کر رہی ہیں؟

جی ہاں، بالکل۔ انہیں بس ان لوگوں کے نام معلوم نہیں تھے یا انفرادی طور پر وہ انہیں پہچانتی نہیں تھیں۔ ویدیہ ناتھ اور ان کے ساتھ موجود دوسرے باغیوں نے گاؤں کی عورتوں کے ذریعے مفرور لوگوں کے لیے پکائے گئے کھانے کو ان تک پہنچانے کا اس طرح انتظام کیا تھا، جس سے وہ دونوں ہی محفوظ رہ سکیں۔

پارتھ دا، جنہوں نے اُس دور میں پرولیا کی حالت پر تحقیق کی ہے، انہوں نے ہمیں اس کے بارے میں بعد میں بتایا: ’’گاؤں کے صرف کچھ ہی خوشحال لوگ تھے جنہیں کسی مخصوص دن، چھپے ہوئے بہت سے کارکنوں کا کھانا بنانے کی ذمہ داری دی جاتی تھی۔ اور جو عورتیں اس کام کو کر رہی تھیں، ان سے کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ پکا ہوا کھانا اپنے باورچی خانہ میں ہی چھوڑ دیں۔

’’انہیں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون آیا اور کھانا اٹھا کر لے گیا، نہ ہی وہ یہ جانتی تھیں کہ وہ کن لوگوں کے لیے کھانا پکا رہی ہیں۔ مزاحمت کے دوران کھانا پہنچانے کا کام کبھی بھی گاؤں کے لوگوں سے نہیں لیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے گاؤں میں اپنے جاسوس اور مخبر چھوڑ رکھے تھے۔ یہی کام زمیندار بھی کرتے تھے، جو انگریزوں کے معاون تھے۔ یہ مخبر جنگل میں سامان ڈھوکر لے جانے والے مقامی لوگوں کو پہچان لیتے۔ اس کی وجہ سے ان خواتین اور زیر زمین انقلابیوں، دونوں کو ہی خطرہ لاحق ہو جاتا۔ کھانا لانے کے لیے جن لوگوں کو وہ بھیجتے – شاید رات ہونے پر – انہیں پہچاننے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ عورتوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں کہ کھانا لے جانے کے لیے یہاں کون آتا ہے۔

’’اس طرح، دونوں کو ہی نمودار ہونے سے بچا لیا جاتا تھا۔ لیکن عورتیں اس بات کو جانتی تھیں کہ کیا چل رہا ہے۔ گاؤں کی زیادہ تر عورتیں ہر صبح کو تالابوں، پانی کے چشموں، ٹنکیوں کے پاس جمع ہوتیں – اور کھانا بنانے میں شامل عورتیں اپنی باتیں اور تجربات ایک دوسرے سے شیئر کرتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ کیا کر رہی ہیں اور کیوں کر رہی ہیں – لیکن کس کے لیے کر رہی ہیں، یہ بات انہیں کبھی معلوم نہیں ہو پاتی تھی۔‘‘

*****

PHOTO • P. Sainath

بھوانی اپنے موجودہ گھر کے ۱۳ ممبران کے ساتھ، جس میں (نیچے دائیں) ان کا پوتا پارتھ سارتھی مہتو بھی شامل ہے۔ تصویر لیتے وقت ان کی فیملی کے کئی ممبر وہاں موجود نہیں تھے

ان ’عورتوں‘ میں نو عمر لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ اور سبھی اپنے آپ کو سخت خطرے میں ڈال رہی تھیں۔ اگر بھوانی کے گھر پولیس پہنچ جاتی تب کیا ہوتا؟ ان کا اور جو فیملی ان کے اوپر منحصر تھی، اس کا کیا ہوتا، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ’ہر چیز‘ کے لیے انہی کے اوپر منحصر تھی؟ حالانکہ، اکثر و بیشتر انڈر گراؤنڈ پروٹوکال نے اپنا کام کیا۔

پھر بھی، جن کنبوں کے لوگ سودیشی، چرخہ، اور انگریزوں کی مزاحمت میں دوسری علامتیں اختیار کیے ہوئے تھے، ان پر ہمیشہ نگاہ رکھی جاتی تھی۔ یہ خطرہ حقیقی تھا۔

تو بھوانی چھپے ہوئے لوگوں کے لیے کیا پکاتی تھیں؟ انہوں نے پارتھ دا کو، میٹنگ کے بعد یہ ساری باتیں ہمیں بتانے کے لیے کہا۔ جونار (مکئی)، کودو، مڑوا (راگی)، اور ہر وہ سبزی جو یہ عورتیں آسانی سے حاصل کر پاتی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ، بھوانی اور ان کی سہیلیوں کی وجہ سے انہیں کھانے کو وہی سب کچھ مل جاتا تھا، جو وہ اپنے گھر پر کھایا کرتے تھے۔

کبھی کبھی انہیں بھونا ہوا چاول یا چوڑا کھانے کو مل جاتا – جسے بنگالی میں چِنڑے (پوہا) کہتے ہیں۔ یہ عورتیں کبھی کبھی انہیں پھل بھی بھیجتی تھیں۔ اس کے علاوہ  وہ جنگل میں پائے جانے والے پھل اور بیر وغیرہ بھی کھا لیتے تھے۔ پرانے زمانے کے لوگ ایک اور چیز کو یاد کرتے ہیں جس کا نام کیاند (یا تیریل ) ہے۔ ایک سے زیادہ قبائلی زبان میں، اس کا مطلب ’جنگل کا پھل‘ ہے۔

پارتھ دا بتاتے ہیں کہ ان کے دادا اچانک نمودار ہو جاتے اور بھوانی کو آرڈر دے دیتے۔ اگر یہ آرڈر جنگل کے دوستوں کے لیے ہوتا، تو اس کا صرف ایک ہی مطلب تھا کہ بہت سارے لوگوں کے لیے کھانا پکانا ہے۔

اور پریشانی صرف انگریزوں سے ہی نہیں تھی۔ ۱۹۴۰ کی دہائی میں، بنگال میں پڑنے والے زبردست قحط کے سالوں میں ان کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ اس دور میں انہیں جتنی مشقت کرنی پڑی ہوگی، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

آزادی کے بعد بھی مسائل نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ۱۹۵۰ کے عشرے میں زبردست آگ لگنے کی وجہ سے پورا محلہ ہی جل گیا جہاں یہ فیملی اب بھی رہتی ہے۔ لوگوں کے پاس اس وقت جتنا اناج تھا، وہ سب اس آگ میں جل گیا۔ تب بھوانی، جنڑا گاؤں میں موجود خود اپنی فیملی کے کھیتوں سے اناج اور دوسری فصلیں لے کر آئیں۔ اور اگلی فصل تیار ہونے تک، پوری کمیونٹی کو کئی ہفتوں تک کھانا کھلایا۔

سال ۱۹۶۴ میں، اُس وقت بہار کے جمشید پور کے پاس فرقہ وارانہ فساد ہو گیا۔ اس کی لپٹیں پرولیا کے کچھ گاؤوں تک بھی پہنچیں۔ بھوانی نے اپنے گاؤں کے کئی مسلمانوں کو خود اپنے گھر میں پناہ دی۔

دو دہائی کے بعد، پہلے سے ہی بوڑھی ہو چکی بھوانی نے اس جنگلی بلی کو مار دیا جو مقامی لوگوں کے مویشیوں کو اپنا شکار بنایا کرتی تھی۔ پارتھ دا بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ کام لکڑی کے ایک مضبوط ٹنڈے سے کیا۔ وہ دراصل ایک کھاٹاش ، یعنی چھوٹا ہندوستانی مشک بلاؤ نکلا، جو جنگل سے آتا تھا۔

*****

PHOTO • Courtesy: the Mahato family

بھوانی مہتو (درمیان میں) اپنے شوہر ویدیہ ناتھ اور بہن اُرمیلا کے ساتھ ۱۹۸۰ کی دہائی میں۔ اس سے پہلے کی فیملی کی کوئی تصویر نہیں ہے

ہمارے دل میں بھوانی مہتو کا احترام مزید بڑھ گیا۔ مجھے وہ اسٹوری یاد آ گئی جو میں نے مجاہد آزادی گن پتی یادو پر کی تھی۔ ستارا میں زیر زمین ڈاکیہ کے طور پر، وہ جنگلوں میں چھپے ہوئے مجاہدین کے لیے کھانا لے کر جایا کرتے تھے۔ میں جب ان سے ملا، تو وہ ۹۸ سال کے تھے اور اس عمر میں بھی ایک دن میں ۲۰ کلومیٹر سائیکل چلایا کرتے تھے۔ مجھے اس عظیم شخص کے اوپر اسٹوری کرنے میں بہت مزہ آیا۔ لیکن میں ان سے یہ نہیں پوچھ سکا: وہ بڑا خطرہ مول لے کر جنگلوں میں اتنا سارا کھانا لے کر جاتے تھے، لیکن ان کی بیوی کا کیا جو اسے پکانے کا کام کرتی تھیں؟

وہ اپنے رشتہ دار کے یہاں گئی ہوئی تھیں، جب میں ان سے ملنے گیا تھا۔

گن پتی تو اس دنیا سے جا چکے ہیں، لیکن بھوانی سے ملنے کے بعد میرے ذہن میں ایک خیال آ رہا ہے۔ مجھے واپس جا کر وتسلا گن پتی یادو سے ملنا چاہیے۔ اور ان کی کہانی خود ان کی زبان سے سننی چاہیے۔

بھوانی نے مجھے اڑیسہ کی خاتون مجاہد آزادی، لکشمی پانڈا کے طاقتور الفاظ بھی یاد دلا دیے، جنہوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شمولیت اختیار کی اور برما (اب میانمار) کے جنگلوں اور سنگاپور، دونوں ہی مقامات پر ان کے کیمپوں میں رہیں۔

لکشمی پانڈا کے وہ الفاظ یہ تھے، ’’چونکہ میں جیل کبھی نہیں گئی، چونکہ میں نے رائفل کی ٹریننگ تو حاصل کی لیکن کسی کے اوپر ایک گولی تک نہیں چلائی، تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں مجاہدہ آزادی نہیں ہوں؟ میں نے جنگل میں بنے آئی این اے کے صرف انہی کیمپوں میں کام کیا جو برطانوی بمباری کا نشانہ تھے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدوجہد آزادی میں میرا کوئی تعاون نہیں ہے؟ ۱۳ سال کی عمر میں، میں کیمپ کے باورچی خانہ میں ان تمام لوگوں کے لیے کھانا بنا رہی تھی جو باہر جا کر لڑائی لڑ رہے تھے، تو کیا میں اس کا حصہ نہیں تھی؟

لکشمی پانڈا، سالیہان، ہوسا بائی پاٹل اور وتسلا یادو کی طرح ہی بھوانی کو بھی کوئی اعزاز یا پہچان نہیں ملی، جس کی وہ حقدار تھیں۔ ان تمام عورتوں نے ہندوستان کی آزادی کی لڑائی لڑی، اور کسی اور کی طرح خود کو با عزت بری کرایا۔ لیکن وہ عورتیں تھیں۔ خواتین کے خلاف تعصب اور دقیانوسی خیالات میں ڈوبے معاشروں میں ان کے رول کو شاذ و نادر ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

حالانکہ، بھوانی مہتو کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ شاید انہوں نے ان اقدار کو اپنے اندر اتار لیا ہے۔ شاید یہ انہیں خود اپنے منفرد تعاون کی قدر کو کم کرنے کی جانب لے جاتا ہے؟

لیکن جب ہم وہاں سے روانہ ہونے کے لیے اٹھتے ہیں، تو وہ آخری چیز ہم سے کہتی ہیں: ’’دیکھو، میں نے کس کی آبیاری کی ہے۔ اتنی بڑی فیملی، یہ تمام نسلیں، ہمارے کھیت، سب کچھ۔ لیکن یہ نوجوان لوگ…‘‘ ان کے کئی پوتے کی بیویاں ہمارے ارد گرد پوری تندہی سے کام میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہیں۔ پھر بھی، یہی سارا کام اُس زمانے میں بھوانی اکیلے کیا کرتی تھیں۔

وہ اس کے لیے انہیں یا کسی اور کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہی ہیں۔ انہیں تو بس اس بات کا افسوس ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ’سب کچھ‘ کر سکیں۔

میں اسمیتا کھٹور کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے اس اسٹوری کو کرنے میں کافی معلومات فراہم کیں اور بھوانی مہتو سے گفتگو کے دوران پوری روانی سے ان کی باتوں کا ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ، جوشوا بودھی نیتر کا بھی ان کے بیش قیمتی اِن پُٹ کے لیے اور ان کی ریکی کے لیے شکریہ، جس کی وجہ سے ہماری بعد کی میٹنگ اور انٹرویو ممکن ہو پائے۔ اسمیتا اور جوشوا کی مدد کے بغیر، شاید اس اسٹوری کو کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique