یہ گہرے لال رنگ سے پینٹ کیا ہوا ہے اور اس پر نام لکھا ہے: کے ایف سی۔

اس کا تعلق آنجہانی کرنل سینڈرس سے نہیں ہے جو ’کے ایف سی‘ کے مالک تھے، جس میں ’کے‘ سے مراد ہے ’کینٹکی‘۔ بلکہ اس کے مالک کولامرا کے ۳۲ سالہ بیمان داس ہیں، جو اس ایک منزلہ ریستوراں کو چلاتے ہیں۔

سرکاری طور پر نتون کولامرا چاپری کے نام سے جانا جانے والا یہ گاؤں آسام کے ماجولی میں پڑتا ہے، جو کہ ندی کے ذریعے بنا ہوا ایک جزیرہ ہے۔ اس ڈھابہ یا ہوٹل میں صرف کولامرا کے لوگ ہی نہیں آتے – جو کہ زیادہ تر کسانوں اور زرعی مزدوروں پر مشتمل ۴۸۰ لوگوں کی آبادی والا ایک گاؤں ہے (مردم شماری ۲۰۱۱) – بلکہ اس جزیرہ کا دورہ کرنے والے بہت سے سیاح بھی آتے ہیں، جنہیں بہت زیادہ بھوک لگی ہو۔ تمام ٹریول گائیڈز میں اسے سب سے اوپر رکھا گیا ہے۔

سال ۲۰۲۲ کی گرمیوں کے مئی مہینہ میں دوپہر کے وقت اپنے ریستوراں کو ڈنر (رات کے کھانے) کے لیے کھولتے وقت بیمان بتاتے ہیں، ’’میں نے اس کے ایف سی کو ۲۰۱۷ میں شروع کیا تھا، تب میں ایک ٹھیلہ پر بیچا کرتا تھا۔‘‘ دیوار کو اندر اور باہر دونوں طرف سے گہرے لال رنگ سے پینٹ کیا گیا ہے۔ باہر تیز دھوپ میں بکریاں، بطخ اور دوسرے جانور گھومتے رہتے ہیں۔

Biman Das (left) and Debajani (right), his wife and business partner at KFC, their restaurant in Natun Kulamora Chapori
PHOTO • Riya Behl

بیمان (بائیں) اور ان کی بیوی دیب جانی (دائیں)، جو کے ایف سی میں ان کی پارٹنر ہیں

بیمان نے سب سے پہلے ٹھیلہ پر چاؤمین (فرائیڈ نوڈلز) اور دو چار پکوان بیچنا شروع کیا تھا۔ دو سال بعد، یعنی ۲۰۱۹ میں انہوں نے ۱۰ سیٹوں والا ایک ریستوراں کھولا، جہاں پر فرائیڈ چکن، برگر، پیزا، پاستہ، مِلک شیک وغیرہ ملتا ہے۔

یہ کے ایف سی نہ صرف کولامرا کے مقامی باشندوں کے درمیان مشہور ہے، بلکہ ندی کے اس جزیرہ پر پوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کے درمیان بھی کافی مقبول ہے۔ ان کی وجہ سے گوگل ریویو میں اسے ۳ء۴ کی اسٹار ریٹنگ ملی ہوئی ہے، جہاں انہوں نے کے ایف سی کے ذائقہ اور اس کی تازگی کی کافی تعریف کی ہے۔

تو، اس کا نام کرشنا فرائیڈ چکن کیسے پڑا؟ بیمان اپنا فون نکال کر اس میں اپنی، اپنی بیوی دیب جانی داس اور ۷-۶ سال کے ایک لڑکے کی تصویر دکھاتے ہیں۔ بیمان مسکراتے ہوئے فخریہ لہجہ میں کہتے ہیں، ’’میں نے اس کا نام اپنے بیٹے، کرشنا کے نام پر رکھا ہے۔‘‘ بیمان بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا اسکول کے بعد روزانہ کے ایف سی میں آتا ہے اور ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کرتا ہے، جب کہ اس کے ماں باپ بھوکے گاہکوں کو کھانا پروسنے کا کام کرتے ہیں۔

دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے اور بیمان کچھ فرائیز (بھونی ہوئی چیزوں) کے ساتھ کرارے فرائیڈ چکن لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ’’میں ماجولی میں سب سے صاف ستھرا کچن (باورچی خانہ) رکھنے کی وجہ سے جانا جاتا ہوں،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک چھوٹی سی جگہ کی طرف جاتے ہیں جہاں تین کاؤنٹر، ایک فریج، چولہے اور ایک ڈیپ فرائر رکھا ہوا ہے۔ کٹی ہوئی سبزیاں انتہائی سلیقے سے رکھی ہوئی ہیں، جب کہ کیچ اپ اور دیگر چٹنیاں باورچی خانہ کی الماریوں پر لائن سے سجی ہوئی ہیں۔

Biman dredging marinated chicken in flour (left) and slicing onions (right) to prepare a burger
PHOTO • Vishaka George
Biman dredging marinated chicken in flour (left) and slicing onions (right) to prepare a burger
PHOTO • Vishaka George

بیمان، میرینیٹ کیے ہوئے چکن کو پھینٹ رہے ہیں (بائیں) اور برگر کے لیے پیاز کاٹ کر رہے ہیں (دائیں)۔ ’میں ماجولی میں سب سے صاف ستھرا کچن رکھنے کی وجہ سے جانا جاتا ہوں‘

This KFC's fried chicken (left) and burgers (right) are popular dishes among Kulamora’s locals and tourists
PHOTO • Vishaka George
This KFC's fried chicken (left) and burgers (right) are popular dishes among Kulamora’s locals and tourists
PHOTO • Vishaka George

اس کے ایف سی کا فرائیڈ چکن (بائیں) اور برگر (دائیں) کولامرا کے مقامی باشندوں اور ماجولی دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کے درمیان کافی مقبول ہے

بیمان فریج سے میرینیٹ کیا ہوا ایک باکس نکالتے ہیں، اسے آٹے کے ساتھ پھینٹتے ہیں اور پھر اسے ڈیپ فرائی کرتے (تیز آنچ پر تلتے) ہیں۔ پکاتے وقت وہ باتیں بھی کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے ۱۰ سال کی چھوٹی عمر میں انہیں اپنا خیال خود رکھنا پڑتا تھا: ’’میری ماں صبح میں کام پر نکل جاتی تھیں، اس لیے مجھے خود ہی کھانے کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔‘‘ ان کی ماں، ایلا داس، ماجولی میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی تھیں؛ جب کہ والد، دیگھل داس، مچھلیاں بیچتے تھے۔

بیمان بتاتے ہیں، ’’میں انہیں کھانا بناتے ہوئے دیکھتا تھا اور اس طرح دال، چکن اور مچھلی پکانا سیکھ گیا۔ میرے پڑوسی اور دوست گھر آتے اور کھانا کھاتے تھے کیوں کہ انہیں میرے ہاتھ کا کھانا اچھا لگتا تھا۔ یہیں سے مجھے مزید پکانے کا حوصلہ ملا۔‘‘

بیمان ۱۸ سال کی عمر میں روزی روٹی کمانے کے لیے گھر سے نکل پڑے۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ وہ ممبئی چلے گئے، تب ان کی جیب میں صرف ۱۵۰۰ روپے تھے۔ ایک رشتہ دار نے شہر کے ایک اپارٹمنٹ میں انہیں سیکورٹی گارڈ کی نوکری دلوا دی، لیکن وہ زیادہ دنوں تک اس کام کو نہیں کر پائے۔ ’’میں نوکری سے بھاگ آیا۔ مجھے یہ کام کرتے ہوئے بہت برا لگتا تھا، لہٰذا جس رشتہ دار نے مجھے یہ کام دلوایا تھا اسے ایک خط لکھ کر بتایا کہ ’براہ کرم میرے بارے میں کم تر نہ سوچیں۔ میں یہ نوکری چھوڑ رہا ہوں کیوں کہ اس سے میرا کام نہیں چلے گا۔ اس کام کو کرنے سے مجھے کوئی خوشی نہیں مل رہی ہے‘۔‘‘

اس کے بعد بیمان نے ممبئی کے مختلف ریستوراں میں کام کیا، جہاں سے انہیں الگ الگ قسم کے پکوان بنانے کا تجربہ حاصل ہوا جیسے پنجابی، گجراتی، انڈو چائنیز اور یہاں تک کہ کانٹی نینٹل فوڈ بھی۔ شروع میں وہ یہ سارے کام الگ سے کیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’شروع میں، میں پلیٹیں صاف کیا کرتا تھا اور میز کو ان کی جگہ پر لگاتا تھا۔‘‘ سال ۲۰۱۰ میں، بیمان کو حیدر آباد کے ایک فوڈ کورٹ، ایٹیکو میں کام کرنے کا موقع ملا؛ یہاں پر انہیں ترقی ملی اور ایک دن وہ یہاں کے منیجر بن گئے۔

'I'm known to have one of the cleanest kitchens in Majuli,' says Biman. Right: His young cousin often comes to help out at the eatery
PHOTO • Riya Behl
'I'm known to have one of the cleanest kitchens in Majuli,' says Biman. Right: His young cousin often comes to help out at the eatery
PHOTO • Riya Behl

بیمان کی چچیری بہنیں اکثر کچن میں آ کر ان کی اور دیب جانی کی مدد کرتی ہیں

اسی دوران انہیں پیار ہو گیا اور انہوں نے دیب جانی سے شادی کر لی – جو کے ایف سی میں اب ان کی پارٹنر ہیں۔ ان کی چھوٹی چچیری بہنیں، شیوانی اور ان کی بہن جس کا نام بھی دیب جانی ہی ہے، ریستوراں میں آ کر ان کی مدد کرتی ہیں۔

حیدر آباد کے بعد، بیمان نے ماجولی واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور شروع میں دیمو بلاک کے ایک ریستوراں میں کام کیا، جو کہ آسام کے شیو ساگر ضلع میں ہے۔ اس دوران، وہ خود اپنا ایک ریستوراں کھولنے کا خواب دیکھتے رہے۔ اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی – آج وہ اینٹ اور کنکریٹ سے بنا یہ ڈھابہ چلا رہے ہیں۔ بیمان بتاتے ہیں، ’’میں نے کچن [جو کہ ریستوراں کے پچھلے حصہ میں ہے] خود ہی بنوایا تھا، لیکن لوگوں کے بیٹھنے والی جگہ کرایے پر لے رکھی ہے، جس کے لیے مجھے ہر مہینے ۲۵۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

میں نے انہیں ۱۲۰ روپے ادا کیے اور مزے سے برگر اور فرائیز کھانے لگی اور ساتھ ہی ان کی کہانی بھی سنتی رہی۔ وہ بتاتے ہیں کہ گاہکوں کے درمیان دوسری سب سے پسندیدہ چیز پیزا ہے، جس کی قیمت ۲۷۰ روپے ہے۔ گوگل ریویو میں ان کے ریستوراں میں ملنے والے نیمبو پانی، مِلک شیک اور ویجیٹیبل رول کا بھی ذکر ہے۔

بیمان اور ان کی فیملی سینسووا میں رہتی ہے، جو کہ کولامرا سے ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہ ہر روز اپنی سوئفٹ ڈیزائر (کار) سے اپنے ریستوراں میں آتے ہیں۔ بیمان بتاتے ہیں، ’’میرے دن کی شروعات صبح ۹ بجے ہوتی ہے جب میں سبزیوں اور چکن کے لیے تمام طرح کی چیزیں کاٹنے اور انہیں تیار کرنے کا کام کرتا ہوں۔‘‘

Biman's cousin serving Nikita Chatterjee her burger
PHOTO • Vishaka George
KFC is a favourite spot in Kulamora on Majuli island
PHOTO • Riya Behl

بیمان کی چچیری بہن ریستوراں کے پچھلے حصہ (بائیں) میں نکیتا چٹرجی کو ان کا برگر دے رہی ہیں، جب کہ یہاں کا مزیدار کھانا کھانے کے بعد گاہک خوشی خوشی باہر نکل رہے ہیں (دائیں)

کبھی کبھی ان کی کمائی ایک دن میں ۱۰ ہزار روپے تک ہو جاتی ہے۔ ایسا عام طور پر اکتوبر سے دسمبر تک، سیاحوں کے سیزن میں ہوتا ہے۔ باقی دنوں میں، جیسا کہ وہ بتاتے ہیں، ایک دن میں تقریباً ۵۰۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔

تبھی، ان کی ایک باقاعدہ گاہک، نکیتا چٹرجی اپنا آرڈر دینے کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ وہ ایک سماجی کارکن ہیں، اور ابھی ایک سال بھی نہیں ہوئے جب وہ ممبئی سے یہاں ماجولی آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کے ایف سی تو ایک بڑا نام ہے۔ میں نے پہلی بار جب کرشنا فرائیڈ چکن کا نام سنا، تو لوگوں نے کہا کہ ماجولی کے معیار کے حساب سے یہ بہت اچھا ہے۔ لیکن جب میں نے یہاں آ کر کھایا، تو پتہ چلا کہ یہ کسی بھی معیار کے حساب سے بہت اچھا ہے۔‘‘

بیمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ مزید کہتی ہیں، ’’حالانکہ، میری کچھ شکایت ہے۔ آپ نے اسے دو دنوں کے لیے کیوں بند کر دیا تھا؟‘‘ ان کا اشارہ دراصل آسام کے سب سے بڑے تہوار، بیہو کی طرف تھا، جب اس پورے جزیرہ میں دکانیں دو دنوں تک بند رہتی ہیں۔

بیمان مذاقیہ لہجے میں پوچھتے ہیں، ’’پچھلے دو دنوں سے آپ نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں؟‘‘

اگر آپ کو کبھی ناتون کولامرا چاپری گاؤں جانے کا موقع ملے، تو کرشنا فرائیڈ چکن جانا نہ بھولیں۔ وہاں جا کر آپ اپنی ’انگلی چاٹتے رہ جائیں گے‘۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Photos and Text : Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Photographs : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique