’’کڈلیلے راجَو تیمنگلم آنین کیلم نگملّے، مین پنیکّرے راجَو متیانّ

[اگر سمندر کا راجہ ڈالفن ہے، تو ہم ماہی گیروں کا راجہ آئل سارڈن ہے]۔‘‘

بابو (بدلا ہوا نام) کیرالہ کے وڈکرا شہر میں چومبالا کی ماہی بندرگاہ میں مچھلی کی ڈھلائی کرنے والے ایک قلی ہیں۔ وہ مچھلیوں، جن میں آئل سارڈن (سارڈنیلا لونگی سیپس) اہم ہے، کو اتارنے اور لادنے کا کام گزشتہ دو چار دہائیوں سے کر رہے ہیں۔

بابو صبح تقریباً سات بجے بندرگاہ پر پہنچ جاتے ہیں اور کام کے لیے الگ رکھے کپڑے – ایک نیلے رنگ کے منڈو کے علاوہ، ایک ٹی شرٹ اور چپل پہن لیتے ہیں۔ کپڑے بدلنے کے بعد ڈھلائی کرنے والا یہ قلی سمندر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ اپنی کشتی تک پہنچنے کے لیے انہیں گھُٹنے کی گہرائی تک گدلے پانی سے گزرنا ہوتا ہے۔ ’’ہم سبھی قلیوں کو اس کام کے لیے اپنی الگ چپل اور کپڑے رکھنے پڑتے ہیں، کیوں کہ اس پانی سے ایک بدبو آتی ہے۔‘‘ دیر شام کو بندرگاہ کے خالی ہو جانے کے بعد ہی وہ اپنے گھر لوٹ پاتے ہیں۔

اس رپورٹر نے بابو سے دسمبر کے نسبتاً ایک ٹھنڈے دن بات چیت کی تھی، جب وہ بندرگاہ کی گہما گہمی کے درمیان اپنا کام کرنے میں مصروف تھے۔ کشتی پر رکھی بانس کی ٹوکریوں کے ارد گرد مچھلیوں کو لے کر اڑ بھاگنے کی فراق میں لمبی گردن والے سفید پیلیکن (ماہی خور پرندہ، حواصل) منڈلا رہے تھے۔ زمین پر مچھلیوں سے بھری ہوئی جالیں رکھی ہوئی تھیں۔ سودے کا مول بھاؤ کرتے کاروباریوں کی آوازیں بندرگاہ میں گونج رہی تھیں۔

Babu is a fish loader at the Chombal Fishery Harbour. He estimates roughly 200 sellers, agents and loaders work here. He says, ' If the king of the ocean is the dolphin, our king, the fisherfolk’s king, is the oil sardine'
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.
Babu is a fish loader at the Chombal Fishery Harbour. He estimates roughly 200 sellers, agents and loaders work here. He says, ' If the king of the ocean is the dolphin, our king, the fisherfolk’s king, is the oil sardine'
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.

بابو، چومبالا ماہی بندرگاہ میں مچھلیوں کی ڈھلائی کرنے والے ایک قلی ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ یہاں تقریباً ۲۰۰ تاجر، ایجنٹ اور قلی اپنے معاش کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’اگر سمندر کا راجہ ڈالفن ہے، تو ہم ماہی گیروں کا راجہ آئل سارڈن ہے‘

بندرگاہ پر کھڑے ٹیمپوؤں پر مچھلیوں کو لادنے یا اتارنے کا کام کرنے والے بابو جیسے قلی، تاجر، خریداروں، ایجنٹوں اور دیگر لوگوں کے مجمع کے درمیان الگ الگ سائز کی کشتیوں کا بندرگاہ پر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بابو کے اندازہ کے مطابق، یہاں تقریباً ۲۰۰ لوگ اپنے معاش کے لیے کام کرتے ہیں۔

روزانہ صبح کو جب بابو بندرگاہ پہنچتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ اپنے سامانوں کو بادام کے ایک اونچے درخت کے سایہ میں رکھتے ہیں۔ ان سامانوں میں نارنجی رنگ کی ایک پلاسٹک کی ٹوکری یا کریٹ، پانی کی بوتل، چپل اور تیروا (کپڑے یا رسی کا ایک چھوٹا گول بنڈل، جو پلاسٹک شیٹ میں لپٹا ہوتا ہے) ہوتے ہیں۔ تیروا کا استعمال وہ اپنے سر پر مچھلی سے بھری ٹوکری رکھنے سے پہلے ایک گدی کے طور پر کرتے ہیں۔

آج، بابو چار لوگوں کے بیٹھنے لائق ایک آؤٹ بورڈ انجن والی کشتی سے مچھلی اتارنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ بندرگاہ پر دستیاب سب سے چھوٹی کشتیوں میں سے ایک ہے۔ وہ ہمیشہ بغیر ٹرولر والی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ کاروباری ٹرولر صرف بندرگاہ کے ارد گرد ہی مچھلی ڈھونے کے کام میں لائے جاتے ہیں۔ ’’یہ ماہی گیر بڑی کشتیوں پر ایک ہفتہ یا اس سے بھی زیادہ وقت کے لیے سمندر میں جاتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’چونکہ یہ کشتیاں بندرگاہ تک نہیں آ سکتی ہیں، اس لیے انہیں کنارے سے تھوڑے فاصلہ پر ہی لنگر کے سہارے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ماہی گیر ان بڑی کشتیوں تک پہنچنے کے لیے ان چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘

بابو چھوٹی جال والے مال (مچھلیوں کو نکالنے والی جالی) کی مدد سے مچھلیوں کو کشتی سے نکال کر اپنی ٹوکری میں اکٹھا کرتے ہیں۔ جب وہ بھری ہوئی ٹوکری کو سر پر رکھ کر بندرگاہ کی طرف جاتے ہیں، تو اس کے چھوٹے چھوٹے سوراخ سے پانی کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ ’’اس مہینہ [دسمبر ۲۰۲۲] میں ہم نے بڑی مقدار میں سارڈن پکڑی ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ایک ٹوکری مچھلی بھر کر بندرگاہ تک پہنچانے کے عوض انہیں بطور مزدوری ۴۰ روپے ملتے ہیں۔ یہ پیسے ان کشتیوں کے مالکوں یا ایجنٹوں کے ذریعے ادا کیے جاتے ہیں، جو مقامی بازاروں میں ان مچھلیوں کو بیچنے کے لیے انہیں خریدتے ہیں۔

Babu has been loading and unloading mostly oil sardine fish (right) from non-trawler boats for a few decades now
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.
Babu has been loading and unloading mostly oil sardine fish (right) from non-trawler boats for a few decades now
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.

بابو گزشتہ چند دہائیوں سے مچھلیاں، جن میں زیادہ تر آئل سارڈِن (دائیں) ہوتی ہیں، کو بغیر ٹرولر والی کشتیوں سے خالی کرنے اور لادنے کا کام کر رہے ہیں

بابو کہتے ہیں، ’’یہ بتا پانا تو مشکل ہے کہ ہم روزانہ مچھلیوں سے بھری کتنی ٹوکریاں ڈھوتے ہیں، کیوں کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کتنی مقدار میں مچھلیاں پکڑی گئی ہیں۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کسی کسی دن اپنے کام کے ذریعے ۲۰۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔ ’’میں اتنے پیسے اسی دن کما پاتا ہوں، جس دن آئل سارڈن کی آمد بھرپور مقدار میں ہوئی ہو۔‘‘

*****

مچھلی کے کاروبار میں بابو نوجوانی کی عمر سے ہی لگے ہوئے ہیں۔ شروع میں وہ مچھلیاں پکڑتے تھے، لیکن بعد کے سالوں میں انہوں نے بندرگاہ پر مچھلی کی ڈھلائی کا کام بھی شروع کر دیا۔ ان کا چوماڈو پانی یا دہاڑی پر ڈھلائی کا کام کوزی کوڈ ضلع میں بحیرہ عرب سے کشتیوں کے واپس لوٹنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔

گزشتہ دس سال میں انہوں نے آئل سارڈن کو پکڑنے کی مقدار میں کمی دیکھی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’جب ہمیں کم مقدار میں آئل سارڈن ملتی ہیں، تب ہم کوشش کرتے ہیں کہ ڈھلائی کے کام کو آپس میں بانٹ لیں۔ جب ہمارے پاس خالی کشتیاں زیادہ ہوتی ہیں، تو ہم یہ کوشش ضرور کرتے ہیں کہ سب کو کچھ نہ کچھ کام ضرور ملے۔ اس مسئلہ کو ہم آپس میں صلاح و مشورہ کرکے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

Loaders use a plastic basket and theruva , a small round shaped flat bundle of cloth or rope covered with plastic sheet, for their work of loading and unloading
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.
Loaders use a plastic basket and theruva , a small round shaped flat bundle of cloth or rope covered with plastic sheet, for their work of loading and unloading
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.

ڈھلائی کرنے والے پلاسٹک کی ٹوکریوں کے ساتھ ساتھ ایک تیروا کا استعمال کرتے ہیں، جو کپڑے یا رسی کا ایک چھوٹا گول اور چپٹا بنڈل ہوتا ہے۔ اس پر پلاسٹک شیٹ لپٹی ہوتی ہے اور یہ سر اور ٹوکری کے درمیان ایک قسم کی گدی ہوتی ہے، جو قلی کے سر پر مچھلیوں کو اٹھانے اور اتارنے کے درمیان ہمیشہ رہتی ہے

Loaders pack the fish after unloading from the boats (left) and bring them back to the harbour where they will be taken for sale
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.
Loaders pack the fish after unloading from the boats (left) and bring them back to the harbour where they will be taken for sale
PHOTO • Mufeena Nasrin M. K.

مچھلیوں کو کشتی سے اتارنے کے بعد، قلی انہیں پیک کرنے کا کام بھی کرتے ہیں (بائیں) اور انہیں بندرگاہ پر دوبارہ پہنچاتے ہیں۔ یہاں سے مچھلیاں بیچنے کے لیے بھیج دی جاتی ہیں

اپنے علاوہ، ان کی ماں، بیوی اور دو بیٹوں سمیت پانچ لوگوں کی فیملی میں بابو کمانے والے واحد شخص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مچھلیوں کی پیداوار میں غیر یقینی صورتحال اور مقدار میں آئی گراوٹ کے سبب بندرگاہ پر دہاڑی کرنے والے قلیوں کی زندگی میں مشکلیں آئی ہیں۔

سال ۲۰۲۱ میں کیرالہ میں آئل سارڈن کی پکڑ صرف ۳۲۷۹ ٹن ہی تھی، جو کوچی کے سنٹرل میرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی ایم ایف آر آئی) کے ذریعے شائع ’میرین فش لینڈنگز اِن انڈیا ۲۰۲۱‘ کے مطابق، ۱۹۹۵ کے بعد کی سب سے کم مقدار تھی۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سی ایم ایف آر آئی کے ایک سائنسداں کہتے ہیں، ’’گزشتہ دس برسوں میں ہم نے آئل سارڈن کی پیداوار میں کمی دیکھی ہے، اور ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ مچھلیاں شاید کیرالہ کے سمندری ساحلوں سے دور جا رہی ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی، آئل سارڈن کی دور پر مبنی افزائش، لا نینو اثرات اور جیلی فش کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے پیداوار کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔

ہینڈ بک آن فشریز اسٹیٹسٹکس ۲۰۲۰ کے مطابق، مچھلیوں کی پیداوار کے معاملے میں کیرالہ ۴۵ء۰ لاکھ ٹن کے ساتھ ہندوستانی مغربی ساحل کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سرفہرست ہے۔

بابو بتاتے ہیں کہ آئل سارڈن کیرالہ میں عام طور پر پائی جانے والی سب سے مقوی اور سستی مچھلیوں میں سے ایک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان مچھلیوں کی کھپت اتنی زیادہ تھی کہ کئی بار یہ سپلائی کے لیے کم پڑ جاتی تھیں۔ ان کے مطابق، اب انہیں بڑی مقدار میں پروسیسنگ کے لیے منگلورو اور ارد گرد کے علاقوں کے کارخانوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں ان کا استعمال مرغ پروری صنعت کے لیے چارہ اور تیل تیار کرنے میں ہوتا ہے۔ ’’یہاں آج بھی دوسری مچھلیوں کے مقابلے آئل سارڈن کی آمد زیادہ ہے، اس لیے ہماری ٹوکریوں کے لیے فی الحال یہ کم نہیں پڑ رہی ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Mufeena Nasrin M. K.

Mufeena Nasrin M. K. is a final year MA Development student at Azim Premji University, Bengaluru.

Other stories by Mufeena Nasrin M. K.
Editor : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique