اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں واقع جوشی مٹھ شہر کے رہنے والے اجیت راگھو ۳ جنوری، ۲۰۲۳ کی صبح کو ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس کی شروعات باورچی خانہ (کچن) سے ہوئی۔‘‘

ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے ۳۷ سالہ راگھو بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے ان کے باورچی خانہ میں بڑی دراڑیں پڑنی شروع ہوئیں اور پھر آہستہ آہستہ گھر کے دوسرے حصوں میں پھیلنے لگیں۔ ان کے اس معمولی سے دو منزلہ مکان میں صرف ایک کمرہ بچا تھا جس میں سب سے کم دراڑیں پڑی تھیں، جسے انہوں نے آناً فاناً میں عارضی باورچی خانہ بنا لیا۔ اچانک اس آٹھ رکنی فیملی کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔

راگھو بتاتے ہیں، ’’میں نے اپنی دو بیٹیوں، ایشوریہ (۱۲ سال) اور شرشٹی (۹ سال) کو اپنی بڑی بہن کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا۔‘‘ اب فیملی میں بچے دیگر لوگوں، یعنی راگھو، ان کی بیوی گوری دیوی، چھ سال کی بیٹی عائشہ اور ان کی دو بزرگ چچی – سبھی نے یہیں پر کھانا کھایا۔ لیکن رات میں سونے کے لیے انہیں قریب کے سنسکرت مہاودیالیہ اسکول جانا پڑا، جسے اس ہمالیائی شہر میں متاثرہ لوگوں کے لیے عارضی ٹھکانہ (شیلٹر) بنایا گیا ہے۔ بے گھر ہوئے تقریباً ۳۰-۲۵ کنبوں کو یہاں لا کر ٹھہرایا گیا ہے۔

چمولی کے ضلع حکام کے ذریعے ۲۱ جنوری، ۲۰۲۳ کو جاری کیے گئے بلیٹن کے مطابق، جوشی مٹھ کے نو وارڈوں میں بنے ۱۸۱ مکانوں کو غیر محفوظ قرار دے دیا گیا ہے، اور ۸۶۳ عمارتوں میں دراڑیں واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔ راگھو اپنے آس پاس کے گھروں میں پڑی دراڑیں ’پاری‘ کو دکھاتے ہیں۔ ’’یہاں کے ہر گھر میں جوشی مٹھ کی کہانی ہے،‘‘ وہ اس حالت کے لیے ذمہ دار عناصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

راگھو بتاتے ہیں کہ جوشی مٹھ کی عمارتوں کی دیواروں، چھتوں اور فرش پر دراڑیں پڑنے کا سلسلہ ۳ جنوری، ۲۰۲۳ کو شروع ہوا تھا۔ کچھ ہی دنوں کے اندر اس نے سنگین صورتحال اختیار کر لی۔ اسی وقت، ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم (اسرو) کے نیشنل ریموٹ سینسنگ سینٹر (این آر ایس سی) نے تصویریں شائع کی تھیں جس میں جوشی مٹھ میں زمین دھنسنے والے علاقہ کو دکھایا گیا تھا: دسمبر ۲۰۲۲ کے آخر سے جنوری ۲۰۲۳ کے درمیان ۴ء۵ سینٹی میٹر۔ اب یہ تصویریں این آر ایس سی کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہیں۔

راگھو، سنگھدر وارڈ میں رہتے ہیں جہاں کے ۱۳۹ مکانوں میں دراڑ کے واضح نشان دیکھے گئے ہیں؛ ان میں سے ۹۸ غیر محفوظ علاقے میں ہیں۔ ضلع کے حکام نے ان تمام گھروں پر لال رنگ سے کراس کا نشان لگا دیا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اب رہنے لائق نہیں ہیں اور غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔

The family has set up a temporary kitchen in the room with the least cracks.
PHOTO • Shadab Farooq
Clothes and other personal belongings are piled up in suitcases, ready to be moved at short notice
PHOTO • Shadab Farooq

بائیں: فیملی نے ہلکی دراڑ والے کمرے کو عارضی باورچی خانہ بنا لیا ہے۔ دائیں: کپڑے اور ذاتی استعمال کی دیگر چیزوں کو سوٹ کیس میں اکٹھا کر دیا گیا ہے، تاکہ انہیں تیزی سے باہر نکالا جا سکے

A neighbour is on her roof and talking to Gauri Devi (not seen); Raghav and his daughter, Ayesha are standing in front of their home
PHOTO • Shadab Farooq
Gauri Devi in the temporary shelter provided by the Chamoli district administration
PHOTO • Shadab Farooq

بائیں: ایک پڑوسن اپنے چھت پر کھڑی ہو کر گوری دیوی (جو دکھائی نہیں دے رہی ہیں) سے باتیں کر رہی ہے؛ راگھو اور ان کی بیٹی عائشہ، اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہیں۔ دائیں: چمولی ضلع انتظامیہ کے ذریعے فراہم کیے گئے عارضی ٹھکانہ (شیلٹر) میں گوری دیوی

راگھو جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسی جگہ پر گزاری ہے، اس بات کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے گھر پر لال کراس نہ لگایا جائے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں یہاں دوبارہ آنا چاہتا ہوں اور اپنی چھت پر دھوپ میں بیٹھ کر پہاڑوں کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ بچپن میں وہ یہاں پر اپنے والدین اور بڑے بھائی کے ساتھ رہا کرتے تھے، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

وہ مزید کہتے ہیں، ’’لال رنگ کے کراس کا مطلب ہے کہ حکام [چمولی ضلع کے عہدیدار] اس جگہ کو سیل کر دیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ اب اپنے گھروں میں لوٹ نہیں سکتے۔‘‘

رات ہو چکی ہے اور فیملی کے لوگوں نے رات کا کھانا بھی کھا لیا ہے۔ راگھو کی چچی سونے کے لیے اپنے عارضی گھر – یعنی اسکول – جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔

ان کے گھر میں سامان چاروں طرف بکھرا پڑا ہے: کپڑے ایک کھلے سوٹ کیس میں رکھے ہوئے ہیں؛ لوہے کی المیاریوں کو خالی کر دیا گیا ہے؛ فریج کو دیوار سے دور ہٹا کر رکھ دیا گیا ہے اور فیملی کے سامانوں سے بھرے چھوٹے تھیلے، اسٹیل اور پلاسٹک کے برتن اور بکسے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں، اور باہر لے جانے کے لیے تیار ہیں۔

پریشان دکھائی دے رہے راگھو کہتے ہیں، ’’میرے پاس [صرف] ۲۰۰۰ روپے کا نوٹ ہے، جس سے میں اپنے ان تمام سامانوں کے لیے ٹرک بُک نہیں کر سکتا۔‘‘

Raghav and Ayesha are examining cracks on the ground in their neighbourhood. He says, ‘My story is the story of all Joshimath.’
PHOTO • Shadab Farooq
The red cross on a house identifies those homes that have been sealed by the administration and its residents evacuated
PHOTO • Shadab Farooq

بائیں: راگھو اور عائشہ اپنے پڑوس میں زمین پر پڑی دراڑ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میری کہانی پورے جوشی مٹھ کی کہانی ہے۔‘ دائیں: لال رنگ سے کراس کا نشان ان گھروں پر لگایا گیا ہے جنہیں انتظامیہ نے سیل کر دیا ہے اور اس میں رہنے والے لوگ گھر کو خالی کرکے جا چکے ہیں

Raghav and Ayesha on the terrace of their home.  'I want to come again to sit in the sun on my roof and watch the mountains'.
PHOTO • Shadab Farooq
A view of Joshimath town and the surrounding mountains where underground drilling is ongoing
PHOTO • Shadab Farooq

بائیں: اپنے گھر کی چھت پر راگھو اور عائشہ۔ ’میں یہاں دوبارہ آنا چاہتا ہوں اور اپنی چھت پر دھوپ میں بیٹھ کر پہاڑوں کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں‘۔ دائیں: جوشی مٹھ شہر اور اس کے آس پاس کے پہاڑوں کا نظارہ، جہاں زیر زمین کھدائی کا کام جاری ہے

ان کی بیوی گوری انہیں یاد دلاتی ہیں کہ ضلع انتظامیہ کے لوگ ’’مائک [مائکروفون] سے دو دنوں کے اندر گھروں کو خالی کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔‘‘

وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں جوشی مٹھ چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ میں بھاگوں گا نہیں۔ یہ میرا احتجاج ہے، میری لڑائی ہے۔‘‘

یہ جنوری کے دوسرے ہفتہ کی بات تھی۔

*****

ایک ہفتہ بعد، ۲۰ جنوری ۲۰۲۳ کو، راگھو دو دہاڑی مزدوروں کی تلاش میں باہر نکل پڑے۔ اس سے قبل والی رات کو جوشی مٹھ میں بھاری برفباری کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے تھے، جس سے کمزور گھروں میں رہنے والے لوگوں میں نئے سرے سے بے چینی پیدا ہونے لگی۔ دوپہر کو ۱ بجے راگھو اور ان مزدوروں نے گھر سے بیڈ اور فریج جیسے بھاری سامانوں کو باہر نکالنا شروع کیا، اور پھر انہیں تنگ گلیوں سے لے جاتے ہوئے ایک ٹرک پر لادنے لگے۔

راگھو فون پر بتاتے ہیں، ’’برفباری اب رک گئی ہے، لیکن راستے بھیگے ہوئے ہیں اور ان پر پھسلن ہے۔ ہم پھسل کر گر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے سامان نکالنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔‘‘ وہ اپنی فیملی کو وہاں سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور، نند پریاگ لے کر جا رہے ہیں۔ وہاں ان کی بہن رہتی ہیں، لہٰذا وہ بھی آس پاس کوئی گھر کرایے پر لے کر رہنے کا من بنا رہے ہیں۔

جوشی مٹھ شہر میں برف کی موٹی چادر بچھ جانے کے باوجود، گہری دراڑیں ابھی بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں اور ساتھ ہی دیواروں پر لال کراس کا نشان بھی دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں کے جتنے بھی مکانوں، دکانوں اور اداروں کی بنیاد میں گہری دراڑیں پڑی ہیں، انہیں لوگوں سے خالی کرا لیا گیا ہے۔

Ranjit Singh Chouhan standing outside his house in Joshimath which has been marked with a red cross signifying that it is unsafe to live in.
PHOTO • Manish Unniyal
A house in Manoharbagh, an area of Joshimath town that has been badly affected by the sinking
PHOTO • Manish Unniyal

بائیں: جوشی مٹھ میں اپنے گھر کے باہر کھڑے رنجیت سنگھ چوہان؛ گھر پر لال رنگ سے کراس کا نشان لگا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اب یہ رہنے لائق نہیں ہے۔ دائیں: منوہر باغ میں موجود ایک گھر؛ جوشی مٹھ شہر کا یہ وہ علاقہ ہے جو دھنسنے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے

رنجیت سنگھ چوہان (۴۳ سال)، سنیل وارڈ میں برف سے گھرے اپنے دو منزلہ مکان کے باہر کھڑے ہیں، جس پر لال رنگ سے کراس کا نشان لگا دیا گیا ہے۔ انہیں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ قریب کے ایک ہوٹل میں عارضی ٹھکانہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ ان کے زیادہ تر سامان ابھی تک گھر میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ برفباری کے باوجود، رنجیت روزانہ اپنے گھر کو دیکھنے جاتے ہیں تاکہ کوئی سامان نہ چوری کر لے۔

وہ کہتے ہیں، ’’میں اپنی فیملی کو دہرہ دون یا سری نگر – جہاں بھی محفوظ جگہ ہو، وہاں لے جانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ رنجیت، بدری ناتھ میں ایک ہوٹل چلاتے ہیں، جو گرمیوں کے مہینوں میں کاروبار کے لیے کھلتا ہے۔ اب انہیں اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ مستقبل کیسا ہوگا۔ لیکن ایک بات کا بھروسہ انہیں ضرور ہے – یعنی حفاظت کے ساتھ رہنے کی ضرورت۔ دریں اثنا، وہ عبوری راحت کے طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں، جس کا اعلان اتراکھنڈ حکومت نے ۱۱ جنوری، ۲۰۲۳ کو کیا تھا۔

اس ہمالیائی شہر میں ہر جگہ، پیسے کی فراہمی بہت کم ہے۔ راگھو کو نہ صرف اپنا گھر کھونے کا غم ہے، بلکہ اس پر انہوں نے جو پیسہ لگایا تھا اس کے نقصان کا غم بھی انہیں اتنا ہی ستا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے نیا گھر بنانے کے لیے ۵ لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے ۳ لاکھ روپے کا قرض بھی لیا تھا، جسے ادا کرنا ابھی باقی ہے۔‘‘ ان کے اور بھی کئی منصوبے تھے – وہ ایک گیراج کھولنا چاہتے تھے اور گاڑی چلانے والی اپنی نوکری چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کیوں کہ ان کی بائیں آنکھ میں تکلیف ہے۔ ’’اب سارے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔‘‘

*****

اس تباہی کا ذمہ دار متعدد ترقیاتی کاموں کو ٹھہرایا جا رہا ہے، خاص طور پر حالیہ دنوں نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (این ٹی پی سی) کے ذریعے تپووَن وشنو گڑھ ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کے لیے سرنگ کی کھدائی کو سب سے زیادہ ذمہ دار بتایا جا رہا ہے۔ فی الحال، اتراکھنڈ میں تقریباً ۴۲ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کام کر رہے ہیں، اور اس قسم کے مزید کئی پروجیکٹ زیر غور ہیں۔ ہائیڈرو پاور کی وجہ سے جوشی مٹھ کی موجودہ تباہی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

شہر کے دوسرے لوگوں کی طرح، راگھو بھی مقامی تحصیل آفس کے سامنے این ٹی پی سی کے خلاف چل رہے احتجاجی دھرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے میں سب سے پہلے شامل ہونے والے لوگوں میں سے ایک، انیتا لامبا (۳۰ سال) کہتی ہیں، ’’ہمارے گھر ٹوٹ چکے ہیں، لیکن ہمارا شہر ویران نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ بطور آنگن واڑی ٹیچر وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے ’’این ٹی پی سی اور اس کے خطرناک پروجیکٹوں کو ہٹانے کے لیے لڑنے‘‘ کی اپیل کرتی ہیں۔

he people of the town are holding sit-in protests agianst the tunneling and drilling which they blame for the sinking. A poster saying 'NTPC Go Back'  pasted on the vehicle of a local delivery agent.
PHOTO • Shadab Farooq
Women from Joshimath and surrounding areas at a sit-in protest in the town
PHOTO • Shadab Farooq

بائیں: شہر کے لوگ سرنگ بنانے اور پہاڑوں کی کھدائی کے خَلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں، جسے وہ شہر کے دھنسنے کے لیے ذمہ دار بتا رہے ہیں۔ ایک مقامی ڈیلیوری ایجنٹ کی گاڑی پر چپکایا گیا ’گو بیک این ٹی پی سی (این ٹی پی سی واپس جاؤ)‘ کا پوسٹر۔ دائیں: شہر میں دھرنے پر بیٹھیں جوشی مٹھ اور آس پاس کے علاقوں کی عورتیں

The photos of gods have not been packed away. Raghav is standing on a chair in the makeshift kitchen as he prays for better times.
PHOTO • Shadab Farooq
Ayesha looks on as her mother Gauri makes chuni roti for the Chunyatyar festival
PHOTO • Shadab Farooq

بائیں: دیوی دیوتاؤں کی تصویریں ابھی پیک نہیں کی گئی ہیں، اور راگھو ایک کرسی پر کھڑے ہو کر پوجا میں مصروف ہیں۔ دائیں: چونیاتیار تہوار کے لیے چونی روٹی بنا رہیں اپنی ماں گوری کو دیکھتی عائشہ

واٹر اینڈ انرجی انٹرنیشنل میں سال ۲۰۱۷ میں ’ ہندوستانی ہمالیہ کے اتراکھنڈ علاقے میں ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ ‘ عنوان سے شائع اپنے ایک مضمون میں سنچت سرن اگروال اور ایم ایل کنسل نے اتراکھنڈ میں ہائیڈرو پاور پروجیکٹوں سے ماحولیات کے لیے پیدا ہونے والے کئی مسائل کی نشاندہی کی تھی۔ اس کے علاوہ، بارڈر روڈز آرگنائزیشن (بی آر او) کے ذریعے چار دھام پروجیکٹ اور ہیلانگ بائی پاس کی تعمیر نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔

اتل ستی نام کے ماحولیاتی کارکن نے جوشی مٹھ میں ایک اور جگہ پر دھرنے کی شروعات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بدری ناتھ دھام کو مقبول بنانے کی مہم کے سبب یہاں پر بڑی تیزی سے ہوٹل اور تجارتی عمارتیں بننے لگی ہیں، جس کی وجہ سے زمین پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بدری ناتھ مندر (ایک بڑا مذہبی مقام) جانے والے عقیدت مندوں اور ماؤنٹینئرنگ اسپورٹس کے لیے یہ شہر ایک بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے۔ سال ۲۰۲۱ میں، دونوں مقاصد سے جڑے ساڑھے تین لاکھ سیاحوں نے یہاں کا دورہ کیا، جو کہ جوشی مٹھ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) سے ۱۰ گنا زیادہ ہے۔

*****

راگھو نے تین اگربتیاں جلا کر انہیں ایک کرسی کے اوپر رکھ دیا ہے۔ اس کی خوشبو سے یہ چھوٹا سا کمرہ بھر گیا ہے۔

ان کے سبھی سامان پیک کیے جا رہے ہیں، لیکن دیوی دیوتاؤں کی تصویروں اور کھلونوں کو ابھی تک ہاتھ نہیں لگایا گیا ہے۔ اداسی اور یہاں سے روانگی کے غم کے باوجود، ان کی فیملی فصلوں کے تہوار، چونیاتیار کی تیاریوں میں مصروف ہے، جو کہ سردیوں کے ختم ہونے کا اشارہ ہوتا ہے۔ تہوار کے دوران لوگ چونی روٹی بناتے اور کھاتے ہیں۔

شام کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں عائشہ اپنے والد کا نعرہ دہراتی ہے:

’’چونی روٹی کھائیں گے، جوشی مٹھ بچائیں گے۔‘‘

منیش اونیال دہلی میں مقیم ایک فوٹوگرافر اور ویڈیوگرافر ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Shadab Farooq

Shadab Farooq is an independent journalist based in Delhi and reports from Kashmir, Uttarakhand and Uttar Pradesh. He writes on politics, culture and the environment.

Other stories by Shadab Farooq
Editor : Urvashi Sarkar

Urvashi Sarkar is an independent journalist and a 2016 PARI Fellow.

Other stories by Urvashi Sarkar
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique