اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ بکریاں ہمیشہ جنگل میں رہتی تھیں۔ چاہے وہ اصلی باشندہ تھیں یا دورِ قدیم سے رہتی آئی تھیں؛ بھیڑیوں اور باگھوں کے آنے سے کافی پہلے سے؛ یا ایک ایسی آبادی کا حصہ تھیں جو کہیں اور پیدا ہوئی، لیکن یہاں پناہ کی تلاش میں آئی، اس بات سے بہت کم فرق پڑا۔ آخر، وہ جنگلی تھیں۔

جنگلاتی زمین کے محدود وسائل کو لے کر مقامی حیوانات کے ساتھ خطرناک مقابلہ آرائی جاری تھی، دیگر پودوں اور جاندار انواع کی بقا کے لیے خطرہ بڑھ رہا تھا، قدیم مناظر کو آلودہ اور برباد کیا جا رہا تھا۔ وہ بیماری پھیلانے والے تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی پوری روایت ہی مشکوک تھی، ان کے حسب و نسب کا کوئی مستند اور تحریری ثبوت نہیں تھا، اور اس زمین پر ان کا کوئی حقیقی دعویٰ نہیں تھا جس پر وہ صدیوں سے قبضہ کرتے آئے تھے۔ انہیں اب جنگل کی سرحد سے باہر کھدیڑنا پڑا۔ انہیں اقلیتی بستی میں ڈالنا ہی کافی نہیں تھا، انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا ضروری تھا۔ انہیں تاریخ کے صفحات سے مٹا دینا ہی کافی نہیں تھا، انہیں زبردستی بے دخل کرنا پڑا اور ان جگہوں پر واپس بھیجنا پڑا جہاں سے وہ آئے تھے۔ فہرستیں تیار کرنی پڑی تھیں، ہر جنگلی جانور کو اس کے چھپنے کی جگہ سے باہر نکالنا پڑا تھا، ممیا رہے جھنڈ کو پھر در بدر کرنا پڑا اور خاموش کرایا گیا۔ مستقبل کے تمام دراندازوں سے جنگلوں کو محفوظ کرنے کی ضرورت تھی۔

جنگل کی نئی حکومت، جو خار دار تاروں سے زمین کے چاروں طرف باڑ لگانے کے لیے پر عزم تھی، جنگی سطح پر آگے بڑھ رہی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں، اسٹیل کے بنے پھندوں کی قطاریں، نفرت سے بھری ہوا کو چیرتی ہوئی آگے بڑھیں اور جنگل کی سرحد متعین کر دی۔ اسٹیل کے خار دار تاروں سے لٹکے حیوانوں کی ’مے...مے‘ کی چیخ سنی جا سکتی تھی، جیسے ’گھر واپسی‘ کے لیے التجا کر رہے ہوں؛ سیاہ آسمان میں ڈوبتے سورج کا زعفرانی رنگ گھل گیا ہو جیسے۔

انشو مالیہ کی آواز میں ہندی میں یہ نظم سنیں

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں انگریزی میں یہ نظم سنیں

घर वापसी के लिये अर्जी

मेरे घर वापस पहुँचने का इंतजाम कर दें
हे मौलिक राष्ट्रवादी!

जिसे भी घर या मूल कहते हों आप
मूल धर्म, मूल राष्ट्र,
मूल संस्कृति, मूल योनि...
अपनी जड़ों तक पहुँचने का हक़ है हमारा
और आपका फर्ज़ कि लोग जड़ों तक पहुँचें l

हे विष्णु ! हे ब्रह्मा !!
अस्तित्व के इस जगमगाते ज्योर्तिलिंग का
आप मूल खोजें
आप खोजें अन्त,
मुझे भी मेरा घर दिखा दें
हे जड़राष्ट्रवादी !

वैसे ही जैसे
'वसुधैव कुटुम्बकम्' की हाँक लगाते
रोहिंग्याओं को म्यानमार तक छोड़कर आएँगे आप
जैसे बांग्लादेशी जायेंगे बांग्लादेश
जैसे सारे मुसलमान जायेंगे पाकिस्तान
सारे अल्जीरियाई जैसे छोड़ेंगे फ्रांस
सारे रोमां जर्मनी से वापस अपने घर भेजे जायेंगे
जैसे सारे गोरे अमरीका छोड़ कर जायेंगे यूरोप
जैसे सारे हिन्दु मॉरीशस और सूरीनाम से लौटेंगे
पुण्य भू पर
जैसे आदिमाता की तलाश में हम सब जाएँगे अफ्रीका
जैसे वापस लौटेंगे 'भइया' बम्बई और अहमदाबाद से
जैसे गुजराती दिल्ली छोड़कर जाएँगे
जैसे आदिवासी जायेंगे जंगल (माफ कीजिये जंगल की जरूरत तो सरकार को है! )
मुझे मेरा घर वापस दिला दें ।

और मैं ही क्यों, आप भी चलें – हम सब चलें
वापस पीछे.. बहुत पीछे.. अपने घर की तलाश में
हाथों को जमीन पर टेक दें
पेड़ों पर चढ़ जायें, मिट्टी में धंस जायें,
पानियों  में उतर जायें
केचुओं की तरह आत्मसंभोग करें
मछलियों की तरह गलफड़ों से सांस लें।

मौलिकता के महासमुद्र में चेतना के आदि स्तर पर
एक कोशकीय कीड़े बनकर चरें बिचरें…

ईश्वर के सीधे सानिध्य में
शरीर के पर्दे को हटाकर – एकाकार हों।
अधिभौतिक डी.एन.ए. की खोज में
मूल की ओर लौटता ये महाजुलूस, आदि घर, आदि उत्स की ओर
यह आध्यात्मिक महाप्रयोग,
यह फहराती धर्मध्वजाएँ, यह बाजार की दुंदुभी
यह शोर, यह महाशोर
चलें उस ब्लैक होल में चलें;
महानाद के साथ अन्त हो मानवता का
आदि के साथ पुनर्मिलन।
एक सामूहिक मौलिक आत्मघात की ओर चलें
हे अधिराष्ट्रवादी!

گھر واپسی کے لیے عرضی

میرے گھر واپس پہنچنے کا انتظام کر دیں
اے اصلی قوم پرست!

جسے بھی گھر یا آبائی وطن کہتے ہوں آپ
اصلی مذہب، اصلی قوم،
اصلی ثقافت، اصلی بنیاد، حمل...
اپنی جڑوں تک پہنچنے کا حق ہے ہمارا
اور آپ کا فرض کہ لوگ جڑوں تک پہنچیں۔

اے وشنو! اے برہما!!
وجود کے اس جگمگاتے جیوتِرلنگ کی
آپ بنیاد تلاش کریں
آپ تلاش کریں اس کا آخری سرا
مجھے بھی میرا گھر دکھا دیں
اے اصلی قوم پرست!

ویسے ہی جیسے
’وسودھیو کٹمبکم‘ کی ڈینگ ہانکتے
روہنگیاؤں کو میانمار تک چھوڑ کر آئیں گے آپ
جیسے بنگلہ دیشی جائیں گے بنگلہ دیش
جیسے سارے مسلمان جائیں گے پاکستان
سارے الجیریائی جیسے چھوڑیں گے فرانس
سارے روما جرمنی سے واپس اپنے گھر بھیجے جائیں گے
جیسے سارے گورے امریکہ چھوڑ کر جائیں گے یوروپ
جیسے سارے ہندو ماریشس اور سورینام سے لوٹیں گے
مقدس سرزمین پر
جیسے آدی ماتا کی تلاش میں ہم سب جائیں گے افریقہ
جیسے واپس لوٹیں گے ’بھیا‘ بمبئی اور احمد آباد سے
جیسے گجراتی دہلی چھوڑ کر جائیں گے
جیسے آدیواسی جائیں گے جنگل (معاف کیجئے جنگل کی ضرورت تو سرکار کو ہے!)
مجھے میرا گھر واپس دلا دیں۔

اور میں ہی کیوں، آپ بھی چلیں – ہم سب چلیں
واپس پیچھے.. بہت پیچھے.. اپنے گھر کی تلاش میں
ہاتھوں کو زمین پر ٹکا دیں
پیڑوں پر چڑھ جائیں، مٹی میں دھنس جائیں،
پانیوں میں اتر جائیں
کیچوؤں کی طرح باہم مباشرت کریں
مچھلیوں کی طرح گلپھڑوں سے سانس لیں۔

اصلیت کے بے پناہ سمندر میں شعور کی آخری سطح پر
یک خلوی کیڑے بن کر گھومیں پھریں...

ایشور کے بالکل روبرو
جسم کے پردے کو ہٹا کر – یک جان ہوں۔
مابعد الطبیعاتی ڈی این اے کی تلاش میں
اصل کی جانب لوٹتا یہ عظیم جلوس، قدیمی گھر، اصلی بنیاد کی طرف
یہ روحانی عظیم تجربہ،
یہ لہراتے مذہبی پرچم، یہ بازار کا جنگی بگل
یہ شور، یہ چیخ
چلیں اُس بلیک ہول میں چلیں؛
تیز آواز کے ساتھ خاتمہ ہو انسانیت کا
اصلیت کے ساتھ دوبارہ ملن۔
ایک مجموعی اصلی خودکشی کی جانب چلیں
اے اصلی قوم پرست!

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Anshu Malviya

Anshu Malviya is a Hindi poet with three published collections of poems. He is based in Allahabad and is also a social and cultural activist, who works with the urban poor and informal sector workers, and on composite heritage.

Other stories by Anshu Malviya
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique