سنتوش کھاڈے نے مہاراشٹر پبلک سول سروس کمیشن (ایم پی ایس سی) کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ نتائج کا اعلان ہونے کے کچھ گھنٹے بعد انہوں نے اپنے ایک دوست سے درخواست کی کہ وہ انہیں اپنی گاڑی سے بیڈ سے سولاپور – ۱۸۰ کلومیٹر – پہنچا دیں۔ گنّے کے ہرے بھرے کھیتوں میں پہنچنے کے بعد انہوں نے بانس، پھوس اور ترپال سے بنے اس عارضی گھر (جسے کھوپ بھی کہتے ہیں) کو ڈھونڈ نکالا۔ اس کے بعد، ۲۵ سال کے اس نوجوان نے اس جھونپڑی کو پلک جھپکتے ہی توڑ کر مٹی میں ملا دیا۔ گنّے کی کٹائی کرنے والے مزدور کے طور پر ان کے ماں باپ گزشتہ ۳۰ برسوں سے سال کے چھ مہینے اسی جھونپڑی میں گزارتے تھے۔

اپنی فیملی کے تین ایکڑ کھیت، جس میں بارش پر منحصر کھیتی ہوتی ہے، سے ملحق بڑے سے برآمدے میں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے ہوئے سنتوش کہتے ہیں، ’’میں نے این ٹی ڈی (خانہ بدوش قبائل کی ذیلی درجہ بندی) میں ٹاپ کیا تھا، لیکن اس سے زیادہ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میرے ماں باپ کو گنّا مزدوروں کی مشکل اور محنت بھری زندگی سے اب نجات مل جائے گی۔‘‘

ان کی اس کامیابی کا جشن آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے ملے جلے ماحول میں منایا گیا تھا۔ سنتوش کے مزدور والدین ہر سال خشک سالی سے متاثرہ پاٹودہ سے کام کی تلاش میں گزشتہ تین دہائیوں سے سولاپور آ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی طرح ساور گاؤں گھاٹ کے ۹۰ فیصد کنبے کٹائی کے موسم میں مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک کے گنّا کی پیداوار کرنے والے علاقوں میں مہاجرت کرتے ہیں۔

ونجاری برادری سے تعلق رکھنے والے سنتوش نے ۲۰۲۱ میں ایم پی ایس سی کا امتحان اچھے نمبرات سے پاس کیا تھا۔ جنرل لسٹ میں انہیں ۱۶واں مقام ملا تھا، جب کہ این ٹی ڈی زمرہ میں انہوں نے ٹاپ کیا تھا۔

کٹائی کے وقت گنّا مزدوروں کی زندگی کی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’یہ میرے والدین کی برسہا برس کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ وہ جانوروں جیسی زندگی جینے کو مجبور تھے۔ میرا پہلا مقصد ان کی تکلیفوں کو دور کرنا تھا۔ میں کوئی ایسی بہتر نوکری چاہتا تھا، جس سے میرے والدین کو گنا کٹائی کے وقت مہاجرت نہ کرنی پڑے۔‘‘

Khade’s family’s animals live in an open shelter right next to the house
PHOTO • Kavitha Iyer

کھاڈے فیملی کے مویشی ان کے گھر کے ٹھیک بغل میں کھلے احاطہ میں رہتے ہیں

سال ۲۰۲۰ کی نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں ۷۰۰ سے زیادہ گنّے کی پیرائی کے کارخانے ہیں، اور ہندوستانی گنّا صنعت کا سالانہ کاروبار تقریباً ۸۰ ہزار کروڑ روپے کا ہے۔

یہ کارخانے ٹھیک سے ترقی کرتے رہیں، اس کے لیے اکیلے مہاراشٹر میں گنّا کٹائی کے وقت تقریباً ۸ لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مزدور مراٹھواڑہ علاقے سے، خاص کر بیڈ ضلع سے آتے ہیں۔ انہیں موٹے طور پر پیشگی رقم ادا کرنے کا رواج ہے، جسے ’اُچل‘ (بول چال کی زبان میں ’اٹھائی‘) کہتے ہیں۔ یہ ادائیگی عموماً ایک جوڑے (میاں بیوی) کو چھ سے سات مہینے تک چلنے والے کٹائی کے سیزن کے عوض کی جاتی ہے، اور انہیں ۶۰ ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی رقم چکائی جاتی ہے۔

ان مزدوروں کو بے حد مشکل حالات میں کام کرنا اور رہنا پڑتا ہے۔ سنتوش کی ماں سرسوتی بتاتی ہیں کہ انہیں اکثر ۳ بجے صبح جاگنا پڑتا تھا، تاکہ کارخانوں میں تازہ گنّے پہنچائے جا سکیں۔ انہیں رات کا باسی کھانا کھانا پڑتا تھا۔ ان کے لیے بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں تھا، اور سالوں سال پینے کا پانی لانے کے لیے ان کو لمبی دوری طے کرنی پڑتی تھی۔ سال ۲۰۲۲ میں ریت سے لدے ٹرک سے ٹکرا جانے کی وجہ سے سرسوتی اپنی بیل گاڑی سے گر پڑی تھیں، جس سے ان کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔

سنتوش نے گنّے اور ان کے پتّوں کے بنڈل بنانے میں اپنی کئی چھٹیاں گزاری ہیں، تاکہ ان کے ماں باپ انہیں واڈا (چارے) کے طور پر بیچ سکیں اور بیلوں کو بھی کھلا سکیں۔

سنتوش کہتے ہیں، ’’کئی نوجوانوں کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ کلاس وَن افسر بنیں، ان کا دفتر شاندار ہو، ان کو اچھی تنخواہ ملے، ان کا عہدہ اونچا ہو اور ان کے پاس ایک لال بتّی والی کار ہو۔ لیکن میرا ایسا کوئی خواب نہیں تھا۔ میرے خواب بہت چھوٹے تھے۔ میں بس اپنے والدین کو ایک انسان جیسی زندگی دینا چاہتا تھا۔‘‘

سال ۲۰۱۹ میں حکومت مہاراشٹر نے گوپی ناتھ مُنڈے شوگر کٹنگ ورکرز کارپوریشن قائم کیا ۔ مالی سال ۲۳-۲۰۲۲ کے لیے حکومت نے کارپوریشن کے ذریعے انجام دی جانے والی فلاحی سرگرمیوں کے لیے ۸۵ کروڑ روپے تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔ لیکن اس کے بعد بھی مزدوروں کے کام کاج کے حالات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

*****

Santosh Khade and his mother, Saraswati, in the small farmland adjoining their home
PHOTO • Kavitha Iyer

سنتوش کھاڈے اپنے گھر کے بغل میں کھیت کے ایک چھوٹے سے حصہ پر اپنی ماں سرسوتی کے ساتھ کھڑے ہیں

جب سنتوش پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے، تب وہ، ان کی دو بہنیں اور چچیرے بھائی بہن سال کے چھ مہینے اپنے دادا دادی کی نگرانی میں رہتے تھے۔ اسکول سے لوٹنے کے بعد وہ کھیتوں میں کام کرتے تھے اور شام کو اپنی پڑھائی کرتے تھے۔

ماں باپ کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا نسلوں سے چلی آ رہی اس مشکل زندگی سے آزاد ہو کر ایک بہتر زندگی گزارے، اس لیے جب سنتوش ۵ویں جماعت میں تھے، تو ان کا داخلہ احمد نگر کی ایک آشرم شالہ میں کرا دیا گیا۔ یہ ریاستی حکومت کے ذریعے چلایا جانے والا ایک مفت رہائشی اسکول تھا، جسے سماج کے کمزور طبقوں (جس میں خانہ بدوش قبائل بھی شامل تھے) کے لیے بنایا گیا تھا۔

’’ہم غریب تھے، لیکن میرے ماں باپ نے میری پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی۔ اس لیے جب مجھے احمد نگر میں اکیلے رہنے میں پریشانی ہونے لگی، تو ۶ویں اور ۷ویں جماعت کی پڑھائی کے لیے مجھے پاٹودہ شہر کے ایک ہاسٹل میں بھیج دیا گیا۔‘‘

گھر کے تھوڑا قریب آنے کے بعد، سنتوش اختتام ہفتہ پر اور چھٹیوں میں ریستوراں میں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے یا تھوڑی مقدار میں کپاس بیچنے لگے۔ اپنی معمولی آمدنی سے وہ اپنی ضرورت کی ایسی چیزیں خریدنے لگے جن کا خرچ ان کے ماں باپ کے لیے برداشت کرنا ممکن نہیں تھا – مثلاً بیگ، کتابیں، جیومیٹری باکس وغیرہ۔

دسویں جماعت میں پڑھتے ہوئے انہوں نے اپنا ہدف طے کر لیا تھا کہ انہیں ریاستی پبلک سروس کمیشن کی نوکری کے لیے مقابلہ جاتی امتحان میں بیٹھنا ہے۔

سنتوش کہتے ہیں، ’’دراصل، میرے لیے کسی دیگر پیشہ ور کورس کا خرچ اٹھانا مشکل تھا۔ مہاجر مزدور کے طور پر میرے والدین چھ مہینے میں تقریباً ۸۰-۷۰ ہزار روپے ہی کماتے تھے، اور اگر میں کسی بھی کورس کی پڑھائی کرتا، تو ہمیں ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا خرچ اٹھانا پڑتا۔ ایم پی ایس سی کے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ مالی وجوہات کی بناپر بھی لیا گیا تھا۔ اس کے لیے آپ کو کوئی فیس نہیں دینی پڑتی ہے، اور نہ ہی الگ سے کوئی کورس کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو نہ تو کوئی رشوت دینی پڑتی ہے، اور نہ ہی کسی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ کریئر کے لحاظ سے یہ میرے لیے سب سے بہتر متبادل تھا۔ فقط آنی فقط آپلّیا محنتیچیہ جوراوَر آپن پاس ہوؤ شکتو [صرف کڑی محنت کرکے ہی کوئی کامیاب ہو سکتا ہے]۔‘‘

اپنی گریجویشن کی ڈگری کے لیے وہ بیڈ شہر چلے آئے اور ساتھ ساتھ ایم پی ایس سی کے امتحان کی تیاری بھی شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ میں اپنے گریجویشن والے سال میں ہی ایم پی ایس سی کا امتحان پاس کرنا چاہتا تھا۔‘‘

Left: Behind the pucca home where Khade now lives with his parents and cousins  is the  brick structure where his family lived for most of his childhood.
PHOTO • Kavitha Iyer
Right: Santosh Khade in the room of his home where he spent most of the lockdown period preparing for the MPSC entrance exam
PHOTO • Kavitha Iyer

بائیں: جس پکّے مکان میں سنتوش اپنے ماں باپ اور چچیرے بھائی بہنوں کے ساتھ اب رہتے ہیں، اس کے ٹھیک پیچھے اینٹوں کا ایک گھر ہے جس میں ان کی فیملی ان کے بچپن کے زیادہ تر دنوں میں رہی تھی۔

دائیں: سنتوش کھاڈے اپنے گھر کے اس کمرے میں ہیں، جس میں لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے ایم پی ایس سی کے امتحان کی تیاریاں کرتے ہوئے اپنا زیادہ تر وقت گزارا تھا

تب تک ان کی فیملی گارے سے بنے ایک خستہ حال گھر میں رہتی تھی، جس کی چھت ٹن سے بنی ہوئی تھی۔ یہ گھر سوارگاؤں گھاٹ میں بنے ان کے نئے مکان کے پیچھے پہلے کی طرح ہی کھڑا ہے۔ جب سنتوش کالج جانے لگے، تو ان کی فیملی کے لوگوں نے اسی وقت اپنے لیے ایک پختہ گھر بنانے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس بات نے انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، نوکری تلاش کرنے کی ضرورت کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کیا۔

سال ۲۰۱۹ میں گریجویشن پورا کرنے کے بعد، وہ اپنا زیادہ تر وقت لائبریریوں میں گزارنے لگے، خاص کہ پونے میں۔ وہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریاں کرنے والے دوسرے طلباء کے ساتھ پونے کے ایک ہاسٹل میں رہنے لگے تھے۔ وہاں ان کی شبیہ ایک ایسے نوجوان کے طور پر بن گئی تھی، جو دوستوں، سیر و تفریح، اور چائے پینے کے وقفہ سے پوری طرح بچ کر رہنا چاہتا تھا۔

وہ کہتے، ’’اَپُن اِدھر ٹائم پاس کرنے نہیں آئے ہیں۔‘‘

وہ پونے کے ایک پرانے رہائشی علاقہ قصبہ پیٹھ میں واقع لائبریری جانے سے پہلے اپنا فون کمرے میں ہی چھوڑ جاتے تھے۔ لائبریری میں وہ رات ایک بجے تک پڑھتے لکھتے اور پچھلے سالوں میں پوچھے گئے سوالوں کو حل کرتے تھے۔ ساتھ ہی، انٹرویو کے طور طریقوں کی باریک پڑتال کے علاوہ، وہ سوال ناموں کی سیٹنگ کرنے اور انٹرویو لینے والوں کی ذہنیت کا اندازہ لگانے کی بھی کوشش کرتے تھے۔

ایک عام دن میں، وہ اوسطاً ۶۰۰-۵۰۰ ایم سی کیو (کثیر جواب والے سوال) حل کرتے تھے۔

پہلا تحریری امتحان جو ۵ اپریل، ۲۰۲۰ کو ہونا طے تھا، کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے سبب غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گیا۔ ’’میں نے اس وقت کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ اس لیے انہوں نے سوارگاؤں گھاٹ میں تقریباً مکمل ہو چکے اپنے پکّے مکان کے ایک کمرہ کو اپنے لیے مطالعہ کے ایک کمرہ میں تبدیل کر دیا۔ ’’اگر میں گھر سے باہر نکلتا بھی تھا، تو زیادہ سے زیادہ ران (کھیت) تک جاتا تھا، جہاں میں آم کے کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھائی کرتا تھا۔ کبھی کبھی کسی ٹھنڈی شام کو میں پڑھنے کے لیے چھت پر بھی چلا جاتا تھا۔‘‘

آخرکار، جنوری ۲۰۲۱ میں وہ ایم پی ایس سی کے ابتدائی امتحان میں بیٹھے۔ انہوں نے اگلے امتحان میں شامل ہونے کے لیے ضروری کٹ آف سے ۳۳ نمبر زیادہ حاصل کیے۔ لیکن، ’مینس‘ یا بنیادی امتحان بھی وبائی مرض کی دوسری لہر کے سبب ٹال دیا گیا۔

اس درمیان سنتوش کی ذاتی زندگی میں بھی ایک حادثہ ہو گیا۔ وہ ان دنوں کی یاد میں کھو جاتے ہیں، ’’کووڈ سے میرے ۳۲ سالہ چچیرے بھائی کی موت ہو گئی۔ وہ اسپتال میں میری آنکھوں کے سامنے گزرے۔ ان کی آخری رسومات ہم نے اپنے کھیت میں ہی ادا کی۔‘‘

اس حادثہ کے بعد ۱۵ دنوں تک سب سے علیحدہ رہنے کے دوران، مایوس ہو چکے سنتوش کو یہ محسوس ہونے لگا کہ فیملی کے واحد تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کے ناطے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ اب وہ گھر پر ہی رہیں۔ وبائی مرض کے سبب لوگوں کے روزگار چھن گئے تھے اور ان کی آمدنی پر بہت برا اثر پڑا تھا۔ ان کے من میں ایم پی ایس سی کے اس سفر کو ادھورا چھوڑ دینے کا خیال آیا۔

وہ کہتے ہیں، ’’آخرکار، میرے دماغ میں یہ بات بھی آئی کہ اگر میں ابھی اپنی شکست قبول کر لیتا ہوں، تو میرے گاؤں میں گنّے کی کٹائی پر منحصر ہر انسان مستقبل میں کچھ اور حاصل کرنے کی اپنی امید کھو بیٹھے گا۔‘‘

*****

Santosh Khade with one of the family’s four bullocks. As a boy, Khade learnt to tend to the animals while his parents worked
PHOTO • Kavitha Iyer

فیملی کے چار میں سے ایک بیل کے ساتھ کھڑے سنتوش۔ جب ان کے والدین مزدوری کرنے باہر جاتے، تب ان کی غیر موجودگی میں سنتوش مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا سیکھ گئے تھے

دسمبر ۲۰۲۱ میں ہوئی مینس کے امتحان میں سنتوش انٹریو کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ تحریری امتحان میں اپنی کامیابی سے پرجوش ہو کر انہوں نے اپنے والدین سے یہ کہنے میں تھوڑی بھی دیری نہیں کی کہ سال ۲۰۲۲ میں انہیں گنّا کاٹنے کے لیے نہیں جانا پڑے گا۔

حالانکہ، گھبراہٹ اور الجھن کی وجہ سے وہ اپنے پہلے انٹرویو میں فیل ہو گئے۔ ’’مجھے جن سوالوں کے جواب آتے تھے ان میں بھی میں ’ساری‘ (نہیں آتا، معاف کریں) کہہ دے رہا تھا۔ وہ صرف ۷۵ء۰ نمبر سے کٹ آف پار نہیں کر سکے تھے، اور ۲۰۲۲ کا ’مینس‘ امتحان ہونے میں دس دن سے بھی کم وقت بچا تھا۔ ’’میں سُنّ ہو گیا۔ میرے والدین مجھ سے دور گنّے کے کھیتوں میں مزدوری کر رہے تھے۔ مایوس ہو کر میں نے باپو [والد] کو فون کیا اور ان سے کہا کہ میں ان دونوں سے کیے گئے اپنے وعدے کو پورا نہیں کر پایا۔‘‘

اس کے بعد جو ہوا، اس کا ذکر کرتے ہوئے سنتوش جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ان کو لگا تھا کہ پولیو میں مبتلا ان کے والد، جو ناخواندہ اور ایم پی ایس سی کے امتحانات کے عمل اور کڑے مقابلہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں، ان کی اس ناکامی پر ان کو برا بھلا کہیں گے۔

’’لیکن میرے والد نے مجھ سے کہا، ’ بھاوڈیا [سنتوش کے ماں باپ انہیں اسی نام سے بلاتے ہیں]، تمہارے لیے میں اگلے پانچ سال اور گنّے کاٹ سکتا ہوں‘۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے کوشش کرتے رہنا چاہیے، تاکہ میں ایک سرکاری افسر بن سکوں۔ اس کے بعد مجھے کسی دوسرے حوصلہ کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی۔‘‘

اِدھر پونے میں سنتوش نے اپنا فون بند کر دیا اور لائبریری میں لوٹ آئے۔ پچھلی کوشش میں ملے ۴۱۷ نمبر کے مقابلے، انہیں اپنی دوسری کوشش میں ۷۰۰ میں سے ۴۶۱ نمبر حاصل ہوئے تھے۔ اب انہیں پاس ہونے کے لیے انٹرویو میں ۱۰۰ میں سے صرف ۴۰-۳۰ نمبرات کی ہی ضرورت تھی۔

چونکہ اگست ۲۰۲۲ میں متعینہ انٹرویو بار بار ملتوی ہوتا رہا، ایسے میں ان کے والدین نے اگلے سال کا ’اُچل‘ (پیشگی رقم کی ادائیگی) لینے کا فیصلہ کیا۔ ’’میں نے اسی دن خود سے یہ وعدہ کیا کہ اگلی بار میں ان سے کچھ بن کر ہی ملوں گا۔‘‘

جنوری ۲۰۲۳ میں جب سنتوش کا انٹرویو ہوا، تب وہ اپنی کامیابی کے بارے میں پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنے والد کو فون لگایا اور ان سے کہا کہ انہیں اب درانتی اٹھانے کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی۔ انہوں نے پیشگی ادائیگی کی رقم چکانے کے لیے قرض لیا اور فوراً سولاپور پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے ماں باپ کا سامان اور ان کے دو بیلوں کو ایک پک اَپ ٹرک میں لاد کر گھر روانہ کر دیا۔

’’والدین جس دن کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے، وہ میرے لیے سب سے منحوس دن تھا۔ جس دن میں نے دونوں کو گھر واپس بھیجا، وہ میری زندگی کا سب سے خوشحال دن بن گیا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Iyer

Kavitha Iyer has been a journalist for 20 years. She is the author of ‘Landscapes Of Loss: The Story Of An Indian Drought’ (HarperCollins, 2021).

Other stories by Kavitha Iyer
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique