اتراکھنڈ کے پہاڑی ضلعوں میں ۱۵ فروری کو کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا فیصلہ بند کر سکتے ہیں۔ نتائج کا اعلان کل، ۱۱ مارچ کو ہوگا۔

’’بندروں نے ہماری زندگیوں کو تباہ کر رکھا ہے، لیکن سیاسی پارٹیاں صرف ووٹ مانگ رہی ہیں۔ اگر ہم ووٹ نہیں دتیے ہیں تو وہ ہم سے کہتے ہیں، ’تم نے ووٹ نہیں دیا، اس لیے تم شکایت نہیں کر سکتے‘،‘‘ پورن لال سنگھ بتاتے ہیں۔

اور اسی لیے، فروری کی ایک چمکدار صبح کو، الموڑہ ضلع کے سومیشور بلاک کے جل دھولار گاؤں میں صرف  آدھا کلومیٹر دور جب کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے یکے بعد دیگرے شور شرابے والے انتخابی مورچے نکلے، تو پورن لال اور ان کی بیوی نندی دیوی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ دونوں اپنا کام حسب معمول کرتے رہے۔


02-Nandi Devi and Puran Lal work on their land-AC-Why monkeys might tilt the poll outcome in Almora.jpg

جل دھولار گاؤں، سومیشور بلاک، الموڑہ ضلع کی نندی دیوی اور پورن لال نے اپنی سرسوں اور گندم کی زیادہ تر فصل کھو دی، اور اب وہ آلو لگانے کی کوشش کر رہے ہیں


پچھلے نومبر کو دونوں میاں بیوی، جو اپنی عمر کے ۵۰ویں سال میں ہیں، نے اپنی تین ایکڑ زمین پر گندم اور سرسوں لگائی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ مارچ۔اپریل میں ان کی کٹائی شروع ہوتی، بندروں کا ہجوم آیا اور اس نے زیادہ تر فصل کو برباد کر دیا۔ ’’چند ہی پودے بچ گئے، اور یہ ہری سرسوں کے بڑھنے کے لیے کافی نہیں تھے،‘‘ نندی دیوی کہتی ہیں، جو پوری طرح مایوس ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر آلو بونے کے لیے کھیت کو تیار کر رہے ہیں۔ ’’کم از کم ہمیں کچھ تو کھانے کو ملے گا۔۔۔‘‘ وہ کہتی ہیں۔

دو ندیاں، کوشی اور سائی، سومیشور وادی میں بہتی ہیں۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے، لیکن آبپاشی اور پمپنگ کا نظام کافی نہیں ہے۔ اوپر سے بندروں کی آفت، اور جنگلی سوروں نے بھی پہاڑی کی زراعت کو برباد کر رکھا ہے۔ گاؤوں کے لوگ کہتے ہیں کہ تقریباً ایک دہائی قبل، بندروں سے اتنا مسئلہ نہیں تھا، چند ہی کبھی کبھار اِدھر آ جاتے تھے۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، اب ان کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے، کیوں کہ محکمہ جنگلات اتراکھنڈ کے قصبوں سے پکڑے گئے بندروں کو پہاڑی ضلعوں میں لاکر چھوڑ دیتا ہے۔ ریاست میں بندروں کے ختنہ کا صرف ایک ہی مرکز ہے، چڑیاپور ریسکیو سنٹر، جسے ہریدوار کے فاریسٹ ڈویژن میں سال ۲۰۱۵ میں شروع کیا گیا تھا۔ ایسے میں، الموڑہ اور دیگر پہاڑی ضلعوں میں لاکر چھوڑے گئے بندروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کھانے کے لیے وافر کھانا نہیں ہوگا، اس لیے وہ گاؤوں کی فصلوں پر حملہ کرتے ہیں۔


03-Monkey shots-AC-Why monkeys might tilt the poll outcome in Almora.jpg

اتراکھنڈ کے پہاڑی ضلعوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بندروں کی آبادی فصلوں پر لگاتار حملے کرتی رہتی ہے اور تقریباً تمام کھیتوں کو برباد کر دیتی ہے


ان بھوکے جانوروں کے حملے اور ساتھ ہی ناکافی آبپاشی کی وجہ سے سومیشور وادی کے سینکڑوں ایکڑ میں پھیلے ہوئے کھیت اب بنجر پڑے ہوئے ہیں۔ اتراکھنڈ کے بہت سے دیگر حصوں کا بھی یہی حال ہے۔ زراعت کے مسائل کے علاوہ، پہاڑی علاقوں میں روزگار کے مواقع کی کمی، دو چار اسکول اور کمزور طبی سہولیات کے سبب بہت سے لوگوں کو میدانی علاقوں کی طرف یا پھر ریاست کے باہر ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

لہٰذا، ایک طرف جہاں ریاست میں بندروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، اتراکھنڈ کے گاؤوں دھیرے دھیرے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، الموڑہ کے ۱۰۵ گاؤوں میں اب کوئی بھی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی پوڑی گڑھوال کے ۳۳۱ گاؤوں میں رہنے والا اب کوئی بچا ہے۔ مجموعی طور پر، مردم شماری کے ریکارڈوں کے مطابق، ریاست کے کل ۱۶۷۹۳ گاؤوں میں سے ۱۰۵۳ اب پوری طرح اپنے باشندوں سے خالی ہیں، جب کہ ۴۰۵ گاؤوں کی آبادی ۱۰ سے بھی کم ہے۔


04-Locked house and barren land in Someshwar-AC-Why monkeys might tilt the poll outcome in Almora.png

سومیشور میں ایک تالا لگا گھر اور بنجر زمین: اتراکھنڈ کے تمام گاؤوں خالی ہو چکے ہیں


پوری ریاست میں لکڑی پر خوبصورت کشیدہ کاری سے سجے ہوئے متعدد کُماؤنی اسٹائل گھروں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی چھتیں دھنس چکی ہیں اور ان پر گھاس پھوس اُگ آئی ہے۔ ان کے مالکان اچھی زندگی کی تلاش میں ہلدوانی، دہرہ دون اور دہلی جیسے شہروں کی طرف کوچ کر چکے ہیں۔ الموڑہ ضلع کے کئی بلاکوں میں، اب مردوں سے زیادہ عورتیں بچی ہیں، وہ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ ان ویران گاؤوں میں زندگی بسر کر رہی ہیں، جب کہ ان کے گھروں کے مرد قصبوں اور شہروں میں کام کر رہے ہیں، جو ہر مہینے وہاں سے پیسے بھیجتے ہیں۔

الموڑہ ضلع کے بھسیا چان بلاک کے بابوریا نیال کے یہ مقفل گھر جاں فشانی اور ناامیدی کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ گاؤں میں جانے کا کوئی راستہ نہیں، کیوں کہ یہ بِنسار وائلڈ لائف سینکچوری کے اندر واقع ہے، حالانکہ اس سینکچوری میں موجود ہوٹلوں تک جانے کے لیے سڑکیں بنی ہوئی ہیں۔ گاؤں تک پہنچنے کے لیے آٹھ کلومیٹر کی بالکل سیدھی چڑھان والے راستے کو طے کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں چوتھی کلاس میں صرف دو بچے پڑھتے ہیں۔ یہی دونوں اس گاؤں کے واحد بچے ہیں۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری نے بابوریا نیال گاؤں میں ۱۳۰ لوگوں کی موجودگی کو ریکارڈ کیا، لیکن اس اسکول کے ٹیچر چمپا بشت کا اندازہ ہے، اب یہ تعداد گھٹ کر ۶۰ ہو چکی ہے۔


05-A locked house in Baburiya Nayal village-AC-Why monkeys might tilt the poll outcome in Almora.jpg

بابوریا سنیال کے مقفل گھر یہاں کی سخت زندگی اور ناامیدی کو بیان کر رہے ہیں: یہاں کے اسکول ٹیچر کا اندازہ ہے کہ گاؤں میں اب صرف ۶۰ لوگ ہی رہتے ہیں، جنہوں نے ۱۵ فروری کی پولنگ کا بائیکاٹ کر دیا


06-The route to Baburiya Nayal Village-AC-Why monkeys might tilt the poll outcome in Almora.jpg

بابوریا نیال پہنچنے کے لیے آٹھ کلومیٹر کے چڑھان والے راستے کو طے کرنا پڑتا ہے؛ یہاں پر کوئی سڑک نہیں ہے


بابوریا نیال نے ۱۵ فروری کے اسمبلی انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔ ’’الیکشن کا کیا فائدہ اگر حکومت ہمارے کسی کام کی نہیں؟‘‘ پوجا مہرا سوال کرتی ہیں، جو گاؤں کی ایک آنگن واڑی ورکر ہیں۔

انتخابات سے چند روز قبل، الموڑہ کی عورتیں جمع ہوئیں بندروں کے بارے میں شکایت کرنے کے لیے اور مطالبہ کیا کہ سیاسی پارٹیاں اور حکومت ان کی فصلوں کی حفاظت کریں۔ مہیلا ایکتا پریشد، جو الموڑہ کے ۸۰ گاؤوں کی ۴ ہزار عورتوں کا ایک پلیٹ فارم ہے، نے دو مہینوں تک گھر گھر جا کر مہم چلائی اور عورتوں سے اپیل کی کہ وہ انہی امیدواروں کو ووٹ دیں، جو ان کے مسائل کو حل کر سکیں۔

گروپ نے امیدواروں سے کہا کہ وہ ان کی فصلوں کی جنگلی جانوروں سے حفاظت کرنے کا وعدہ حلف ناموں کی شکل میں کریں۔ صرف ایک امیدوار، دواراہاٹ حلقہ انتخاب کے اتراکھنڈ کرانتی دَل کے پُشپیش ترپاٹھی نے حلف نامہ دیا اور گروپ سے وعدہ کیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کریں گے۔

’’انسان۔جانور کا تصادم ایک سماجی ایشو ہے، لیکن ہم اسے ایک سیاسی ایشو بنانا چاہتے ہیں۔ جب دن میں بندر اور رات میں جنگلی سور ہماری فصلوں کو کھاتے ہیں، تو یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ یہ پریشانی عورتوں کو جھیلنی پڑتی ہے، کیوں کہ گاؤوں کے مرد ہجرت کر چکے ہیں اور عورتیں گاؤوں میں ہی رہ گئی ہیں کھیتی کو دیکھنے کے لیے،‘‘ مدھوبالا کانڈپال کہتی ہیں، جو اس پریشد کی چیئرپرسن ہیں۔


07-Mahila Ekta Parishad conducts electoral awareness campaigns in Dwarahat-AC-Why monkeys might tilt the poll outcome in Almora.jpg

الموڑہ کے ۸۰ گاؤوں کی عورتوں نے مہیلا ایکتا پریشد کی تشکیل کی ہے: دوارہاٹ اور دیگر انتخابی حلقوں میں، انھوں نے ۱۵ فروری کی پولنگ سے پہلے انتخابی بیداری مہم چلائی


’’لوگ یہاں کیوں رہیں اور ہجرت کیوں نہ کریں؟‘‘ شنکر ورما سوال کرتے ہیں، یہ سومیشور کے ایک ریٹائرڈ فاریسٹ آفیسر ہیں۔ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ ان کے دو بیٹے دہلی اور ہلدوانی میں رہتے ہیں۔ ’’اگر انہیں شہروں میں سخت محنت والی زندگی کا سامنا کرنا بھی پڑے، تو وہاں ان کی رسائی اسکولوں، اچھے ڈاکٹروں اور نوکریوں تک ہے۔‘‘

نندی لال اور پورن لال کا بڑا بیٹا بھی سومیشور سے ۲۰۰ کلومیٹر دور، ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کرنے کے بعد، جسپور کے ایک ہوٹل میں ٹریننگ کر رہا ہے۔ ’’میرا بیٹا گھر پر ہے، شاید اس وقت ٹیلی ویژن دیکھ رہا ہو،‘‘ پورن لال کہتے ہیں، جو سومیشور کے گورنمنٹ انٹر کالج میں کم تنخواہ والے ایک ملازم ہیں، لیکن یہاں سے ان کی کچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔ ’’وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ہم اپنے کھیت پر کوئی فصل نہ اُگائیں، کیوں کہ بندر ہر چیز کو تباہ کر دیں گے۔۔۔‘‘

پھر بھی، ابتدائی مارچ میں، جب انتخاب کا شور کم ہو چکا ہے، نندی دیوی اور پورن لال آلو کی بوائی کر رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اس بات کا انتظار ہے کہ اتراکھنڈ میں ۱۱ مارچ کو اگلی حکومت کس کی بنے گی۔ ’’انتخابات آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن ہماری زندگیاں تبدیل نہیں ہوتیں، وہ بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے،‘‘ پورن لال کہتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کی فیملیز جب بندروں اور سوروں سے فصلوں کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آئیں گی، تبھی شاید ہم اپنی زندگیوں اور فصلوں کو بچا سکتے ہیں۔‘‘

Arpita Chakrabarty

Arpita Chakrabarty is a Kumaon-based freelance journalist and a 2017 PARI fellow.

Other stories by Arpita Chakrabarty
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique