پان کا پتّہ ان کی ہنسی کو رنگین بنا دیتا ہے، جب ۶۰ سالہ منورما دیوی عورتوں کے ایک گروپ میں آکر شامل ہوتی ہیں۔ قطار میں بیٹھی ان عورتوں میں سے کسی ایک نے مردوں کے بارے میں اور وہ جن سبزیوں کی مانند وہ ہوتے ہیں، ان کے بارے میں ایک جوک کہا، جسے سن کر سبھی عورتوں نے زور کا قہقہہ لگایا۔ یہ سستی بھری شام ہے، عورتیں امپھال میں بیر ٹیکندر جیت فلائی اووَر کے نیچے ایک لائن میں بیٹھی ہوئی ہیں، سڑک کے زیادہ تر حصے پر قبضہ جمائے ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے کسی گاڑی کو وہاں سے گزرنے میں دقت ہوتی ہے۔


01-IMG_3142 & IMG_3145-AB-Ima Keithel every day is women’s day.jpg

ایما کیتھل کو جب زلزلے نے بھاری نقصان پہنچایا، تو دُکانیں وہاں سے ہٹ کر بیر ٹیکندر جیت فلائی اووَر کے نیچے چلی آئیں


جنوری ۲۰۱۶ میں ریختر پیمانہ پر ۷ء۶ کا زلزلہ، ایما کیتھل کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی لے کر آیا۔ ستون جھک گئے، دیواریں ٹوٹ گئیں اور پلاسٹ اور سیمنٹ پوری طرح جھڑ گئے۔ اس کے اگلے ہی دن صنعت کا ایماؤں نے اپنے کاروبار کو باہر کی عوامی سڑک پر منتقل کر لیا۔ انھیں اپنے کام کی جگہ کے کھونے یا مستقبل کی غیر یقینی حالت کا غم تو تھا، لیکن اس غم میں دیر تک گھلتے رہنا کا وقت نہیں تھا۔

ایما کیتھل سے منورما کا رشتہ کم از کم چار نسلوں پرانا ہے۔ ’’میری ماں نے مجھے یہ دکان دی تھی؛ انھیں یہ دکان اُن کی ساس نے دی تھی، جنہیں ان کی ماں نے دیا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ اور بھی پرانی دکان ہو، مجھے معلوم نہیں۔ یہ صرف ایک پتھر یا دکان نہیں ہے۔ یہ ہماری زندگی ہے،‘‘ منورما کہتی ہیں، وہ ایک ٹاٹ کے نیچے جھانکتی ہیں، جہاں انھوں نے دن بھر کی کمائی رکھی ہوئی ہے۔

انگوم میما، منورما سے چند قدم دور بیٹھی ہوئی ہیں۔ اسکوٹر کی گڑگڑاہٹ نے دھول اڑا دی ہے۔ میما اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ نہ جانے کب تک یہاں انھیں اپنا کاروبار کرنا پڑے گا۔ ’’منی پور میں کچھ بھی ہو، اس بازار پر اس کا اثر ضرور پڑتا ہے، چاہے وہ کرفیو ہو، ہڑتال ہو، زلزلہ ہو یا کچھ بھی اور۔ کیتھل ہمارا گھر تھا، ہمارے آرام کرنے کی جگہ اور ہمارے کام کرنے کی جگہ تھا۔ ہماری زندگی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ میں گھر پر نہیں رک سکتی۔ مجھے اس کی بالکل عادت نہیں ہے، اس لیے میں یہاں آئی ہوں بھلے ہی ہمیں سڑک پر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔

ایما کیتھل یا ’ماؤں کا بازار‘، منی پور کی راجدھانی کا سب سے رنگ برنگا مقام ہے، لیکن یہ زلزلہ کے ہفتوں بعد بھی ویران پڑا ہوا ہے۔ حکومت نے ابھی تک ان عورتوں کے لیے کوئی متبادل انتظام نہیں کیا ہے۔ زلزلہ آنے سے قبل، یہ شہر کے سب سے بھیڑ بھاڑ والی جگہوں میں سے ایک تھا، جہاں عورتیں خریداروں کو ہاتھ کے بُنے ’پھانکس‘ یا پہاڑ جیسے اونچے ادرک کے ڈھیر اور دیگر سبزیوں سے بنے سامانوں کے ٹاور سے آواز لگاتی ہیں۔

اس بازار میں روزانہ ۶ سے ۷ ہزار عورتوں اپنے ساز و سامان بیچنے آتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ایشیا میں عورتوں کا سب سے بڑا بازار بن چکا ہے۔ سوکھی ہوئی مچھلیوں سے لے کر مسالے، سبزیاں، ہینڈلوم اور کاسمیٹکس تک یہاں ہر چیز ملتی ہے۔ اسی لیے ایما کیتھل میں نظاروں، آوازوں اور خوشبوؤں کی پوری دنیا آباد رہتی ہے۔ یہاں کی ہر ایک جگہ کی پوری مستعدی سے نگرانی کی جاتی ہے، جو کسی کی ماں نے اپنی بیٹی کو دی ہے یا بہو کو۔


02-IMG_1391 & IMG_1398-AB-Ima Keithel-every day is women’s day.jpg

ایما کیتھل سے ان عورتوں کا رشتہ کم از کم چار نسلوں پرانا ہے


ایما کیتھل میں جتنی عمارتیں ہیں، وہ ریاست کی تاریخ کے مختلف ادوار کو بتاتی ہیں۔ نوپی لان یا انگریزوں کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف عورتوں کی دو لڑائیاں، جو ۱۹۰۴ اور ۱۹۳۹ میں لڑی گئیں، کے زمانے سے ہی ایما بازار منی پور کے سیاسی اور سماجی معاملوں پر ایک مضبوط آواز رہا ہے۔


03-IMG_1396-AB-Ima Keithel-every day is women’s day.jpg

سامانوں کی قطاریں منی پور کی اقتصادیات میں عورتوں کے اعلیٰ مقام کی کہانی بیان کر رہی ہیں


مخالفت اور احتجاج اس بازار کی نس نس میں پیوستہ ہے۔ جب بھی کوئی بڑا موقع آیا، یہاں کی دکان والیوں نے متحد ہو کر اس کا ساتھ دیا ہے، جیسے ایروم شرمیلا کی حمایت، جو آرمڈ فورسز (اسپیشل پاورس) ایکٹ کو ختم کروانے کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی تھیں، یہ بھوک ہڑتال انھوں نے ۲۰۰۴ میں تھانگیام منورما کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شروع کی تھی۔ اسی طرح ان عورتوں نے جون ۲۰۰۱ میں مرکز اور ناگا باغی گروپ، این ایس سی این۔آئی ایم کے درمیان جنگ بندی کی چند شقوں کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کیا تھا۔

بنیادی طور پر ایما کیتھل زندگی، معاش اور شناخت کا عصبی مرکز ہے؛ اور سب سے اہم بات یہ کہ ایما کیتھل منی پور کی تاریخ اور اقتصادیات میں عورتوں کے اعلیٰ مقام کی یاد دلاتا ہے۔

اور ایسی بہت سی عورتیں ہیں، جن کا ماننا ہے کہ دو چار جھٹکوں سے ایما کیتھل کی روح اور زندگی کو ہلایا نہیں جاسکتا۔

(اس میں شامل ویڈیو زلزلہ سے پہلے بنایا گیا تھا)۔

Anubha Bhonsle & Sunzu Bachaspatimayum

Anubha Bhonsle is a 2015 PARI fellow, an independent journalist, an ICFJ Knight Fellow, and the author of “Mother, Where’s My Country?', a book about the troubled history of Manipur and the impact of the Armed Forces Special Powers Act. Sunzu Bachaspatimayum is a freelance journalist and a national award-winning filmmaker based in Imphal.

Other stories by Anubha Bhonsle & Sunzu Bachaspatimayum
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique