’’بانکا دو چیزوں کے لیے مشہور ہے – امرپور کا گڑ اور کٹوریا کا توسر ریشم،‘‘ عبدالستار انصاری بتاتے ہیں، جو کٹوریا گاؤں کے ایک بُنکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں اب زوال کے شکار ہیں۔
امرپور بلاک کا بلیکیٹا گاؤں کٹوریا سے تقریباً تین کلومیٹر دور ہے۔ اس کے مضافات میں گڑ کے مل کو ڈھونڈنا مشکل نہیں ہے – گنے کے پکائے جانے والے رس کی تیز خوشبو ’نقشہ‘ کا کام کرتی ہے۔
بہار کے بانکا ضلع کا یہ مل، تقریباً 40 سال قبل بنایا گیا تھا، راجیش کمار بتاتے ہیں، ان کے والد سادھو سرن کاپری کے ذریعے۔ یہ ایک چھوٹا مل ہے، جس میں 15-12 مزدور کام کرتے ہیں۔ وہ ایک دن کی مزدوری کا 200 روپے پاتے ہیں، ان کے کام کا وقت شروع ہوتا ہے صبح 10 بجے اور ختم ہوتا ہے غروب آفتاب کے وقت، شام کو تقریباً 6 بجے۔ یہ مل ہر سال اکتوبر سے فروری تک چلتا ہے؛ دسمبر اور جنوری میں سب سے زیادہ کام ہوتا ہے۔
![](/media/images/Image_1.width-1440.jpg)
’’امرپور میں گڑ کے تقریباً 12-10 مل ہیں، لیکن 15 سال قبل ان کی تعداد 100 سے زیادہ تھی،‘‘ اِس مل کے مالک راجیش کمار بتاتے ہیں۔ ’’یہاں کے زیادہ تر ورکر پڑوسی گاؤوں کے ہیں جیسے بلیکیٹا، باجا، بھرکو، بیدا چک اور گورگاما‘‘
![](/media/images/Image_2.width-1440.jpg)
گنے کی پیرائی کرنے والا یہ واحد مل شام کو 4 بجے بند ہو جاتا ہے، اس لیے رس کو پروسیس کرنے کا پورا وقت رہتا ہے۔ ’’یہ مشین مل جتنی ہی پرانی ہے،‘‘ کمار بتاتے ہیں۔ رس کو مشین کے دوسری طرف زمین کے نیچے کھودے گئے ایک بڑے گڑھے میں جمع کیا جاتا ہے
![](/media/images/Image_3.width-1440.jpg)
60 سال کے اکشے لال منڈل، چار فٹ گہرے گڑھے میں کود کر سطح پر جمع گنے کے باقی بچے رس کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اسے ٹن کے ڈبے میں رکھ کر مل کے دوسرے کنارے پر واقع ابالنے والے چولہے کے پاس لاتے ہیں۔ ’’میں کولکاتا میں پہلے لوہار تھا۔ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں، اس لیے اپنے گاؤں واپس چلا آیا اور یہاں پر پچھلے تین سال سے کام کر رہا ہوں،‘‘ منڈل بتاتے ہیں۔ ’’یہاں میری طرح بہت سے لوگ ہیں (میری عمر کے، جو گاؤں میں اپنی فیملی کے پاس لوٹ چکے ہیں)‘‘
![](/media/images/Image_4.width-1440.jpg)
’’رس کے گڑھے سے ابالنے والے گڑھے کے درمیان آج کا یہ میرا آخری چکر ہے،‘‘ تھک چکے منڈل کہتے ہیں۔ ’’ہم اپنا کام بدلتے رہتے ہیں۔ آج میں نے دن کے پہلے نصف میں گنے کو گاڑی سے اتارنے کا کام کیا‘‘
![](/media/images/Image_5.width-1440.jpg)
گنے کے سوکھے چھلکوں کو رس کو ابالتے وقت ایندھن کے طور پر جلانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ 45 سالہ راجندر پاسوان اسے مسلسل آگ میں جھونکتے رہتے ہیں، تاکہ آگ زندہ رہے۔ ’’مل مالک کے پاس گنے کے اپنے کھیت ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’اسی لیے یہ مل اب بھی چل رہا ہے۔‘‘ راجیش کمار کے مطابق، دوسرے مالکوں نے اپنے مل اس لیے بند کر دیے، کیوں کہ مقامی طور پر گنے کی پیداوار کرنا منافع بخش نہیں رہ گیا تھا
![](/media/images/Image_6.width-1440.jpg)
اس مل میں ابالنے والے تین گڑھے ہیں۔ گنے کے رس کو پہلے اُبالا جاتا ہے، جب یہ گاڑھا ہونے لگتا ہے، تو اسے دوسرے گڑھے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہاں اسے تھوڑی دیر اور اُبالا جاتا ہے اور اس کی گندگی جو اوپری سطح پر آکر تیرنے لگتی ہے، اسے لوہے کی ایک بڑی کفگیر سے چھان کر پاس کے ایک بڑے گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اسے جب تیسرے گڑھے میں ڈالتے ہیں تو گڑ بننا شروع ہو جاتا ہے
![](/media/images/Image_7.2.width-1440.jpg)
رسی اور لکڑی کے ایک ڈنڈے سے بندھے ٹن کے ڈبے کا استعمال کرکے چپچپے سیال کو ایک گڑھے سے دوسرے گھڑے میں منقل کر رہے آدمی
![](/media/images/Image_8.width-1440.jpg)
آخری بار اُبالنے کے بعد، جمنے والے رس کو پتھر کے چھوٹے گڑھے میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ سبودھ پوددار (دائیں) سیال سنہرے گڑ کو ایک کنٹینر میں ڈال رہے ہیں۔ ’’میں ایک کسان ہوں، لیکن مل مالک میرے گاؤں (بلیکیٹا) کا ہی ہے، جس نے مجھ سے یہاں آنے کے لیے کہا کیوں کہ یہاں مزدوروں کی کمی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
![](/media/images/Image_9.width-1440.jpg)
’’میں ٹار دیکھ رہا ہوں، جس کے بعد میں ڈبے کو سیل کر دوں گا،‘‘ رام چندر یادو کہتے ہیں؛ وہ یہاں سے تقریباً دو کلومیٹر دور کے ایک گاؤں، باجا سے مل میں آئے ہیں۔ وہ پہلے دوسرے ملوں میں کام کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اب بند ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مشکل سے یہاں کوئی کٹی (گنا) ہے، اسی لیے مل بند ہوگئے ہیں‘‘
![](/media/images/Image_10.width-1440.jpg)
شام ڈھل چکی ہے اور مل کے بند ہونے کا بھی وقت ہو چلا ہے۔ باجا گاؤں کے 38 سالہ سبھاش یادو، پاس کے کھیتوں سے گنے کی آخری کھیپ لانے کے لیے اپنی بیل گاڑی کا استعمال کر رہے ہیں۔ ’’میں ٹرانسپورٹ کا یہ کام کئی برسوں سے کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
![](/media/images/Image_11.width-1440.jpg)
مل میں جو لوگ اس بیل گاڑی کا انتظار کر رہے تھے، وہ تیزی سے گنے کو اتار کر احاطے میں رکھ رہے ہیں۔ اس کام کو ختم کرنے کے بعد یہ اپنے گاؤوں کو لوٹ جائیں گے
![](/media/images/Image_12.width-1440.jpg)
دریں اثنا، دو گائیں رس سے بھرے گنے کو آرام سے چبا رہی ہیں۔ یہ مویشی مل مالک کے ہیں – اس لیے انھیں یہ آزادی حاصل ہے
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)