نلّمّا (۳۵) دو پکّے مکانوں کے درمیان، جس کے کنارے جلانے والی لکڑیوں کا ڈھیر رکھا ہوا ہے، دھول بھرے راستے سے گزر کر ایک گندے نالے کو پار کرتی ہیں۔ وہ پھولوں سے بھری نیلے رنگ کی شیفان ساڑی پہنے لمبے لمبے قدم رکھ رہی ہیں۔ ان کے ننگے پیروں سے اس راستے میں نشان بنتے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس راستے کو اکثر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ہم ایک کھلی جگہ پر پہنچتے ہیں، جو جھاڑیوں، خشک گھاس اور کچرے سے بھری ہوئی ہے۔ گوڈیکل گاؤں کے جن مکانوں کو ہم نے ابھی پار کیا ہے، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نلما کہتی ہیں، ’’جہاں بھی جگہ ہوتی ہے، ہم [رفع حاجت کے لیے] بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ حتمی طور پر کہتی ہیں، ’’ہمارے گھروں میں کہیں بھی بیت الخلاء نہیں ہے۔ سی سیکشن [آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش]، حمل یا حیض کے دوران بھی ہمیں یہیں آنا پڑتا ہے۔‘‘

گزشتہ کئی برسوں سے، اِنتی وینوکا [گھر کے پیچھے] کھلے میں رفع حاجت کے لیے مخصوص جگہ مانی جاتی رہی ہے۔ نلّمّا بتاتی ہیں، ’’میری گلی میں رہنے والی ہر عورت یہیں آتی ہے۔ مردوں کے لیے بھی گلی کے دوسری طرف ایسی ہی ایک جگہ ہے۔‘‘

کرنول ضلع کے یمّیگنور بلاک کے گوڈیکل گاؤں کی مجموعی آبادی ۱۱۲۱۳ افراد پر مشتمل ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ اسے مرکزی حکومت اور بعد میں ریاستی حکومت نے سال ۲۰۱۹ میں ’’کھلے میں رفع حاجت سے پاک‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن گوڈیکل کا تیسرا وارڈ – جہاں نلما رہتی ہیں – یقینی طور پر کھلے میں رفع حاجت سے پاک نہیں ہے، ایسا وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے۔ بلکہ، نلمّا کا کہنا ہے کہ یہاں کے آٹھ وارڈوں میں سے چھ میں بیت الخلاء نہیں ہے۔ (سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ یہاں پر کل ۲۰ وارڈ ہیں، لیکن مقامی سیکرٹریٹ اور اس کے اسسٹنٹ سمیت مقامی سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ وارڈوں کی تعداد آٹھ ہے۔)

گوڈیکل میں تقریباً ۲۵ فیصد گھروں کے لوگ عارضی طور پر مل جانے والے دستی مزدوری کے کام کرتے ہیں (سماجی و اقتصادی اور ذات کی مردم شماری ۲۰۱۱)، جب کہ ۵۳ فیصد گھروں کے لوگوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ کاشتکاری ہے۔ زیادہ تر کسان مرچ اور کپاس جیسی تجارتی فصلیں اگاتے ہیں۔ خطہ میں پانی کی ہمیشہ سے قلت رہی ہے، اس لیے یہاں کی زراعت بنیادی طور پر بارش پر منحصر ہے۔ آبپاشی والی کل زمین میں سے تقریباً ۱۴۲۰ ہیکٹیئر زمین کی سینچائی بارش کے پانی سے ہوتی ہے۔

نلّمّا چار جنگلی سؤروں کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جو ایک پرانے جَمّی (پروسوپس سینیریریا) کے درخت کے سائے میں آرام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں عام طور پر ’’سفید سارس اور سانپوں‘‘ کے ساتھ سؤر بھی نظر آتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’جب ہم صبح کو یہاں آتے ہیں، تو اس وقت کافی اندھیرا رہتا ہے۔ ابھی تک تو کچھ ہوا نہیں ہے، لیکن ڈر ہمیشہ لگا رہتا ہے۔‘‘

The area where the residents of Gudikal use to defecate (left) and an open sewer (right) in Gudikal’s ward three
PHOTO • Kruti Nakum
The area where the residents of Gudikal use to defecate (left) and an open sewer (right) in Gudikal’s ward three
PHOTO • Kruti Nakum

وہ جگہ جسے گوڈیکل کے لوگ رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے ہیں (بائیں) اور گوڈیکل کے وارڈ نمبر تین کا ایک کھلا گٹر (دائیں)

نلّمّا تین بچوں کی ماں ہیں اور صبح کے وقت اپنے گھریلو کام کو نمٹانے میں مصروف رہتی ہیں۔ پھر بھی، جب وہ یہاں صبح کے تقریباً ۴ بجے پہنچتی ہیں، تو اس وقت بھی اندھیرا ہی رہتا ہے۔ اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ رفع حاجت کے لیے اسی وقت گھر سے نکلتے ہیں۔ نلّمّا ایک دہاڑی مزدور ہیں اور تقریباً تین کلومیٹر دور واقع یمّیگنور شہر میں تعمیراتی مقامات پر کام تلاش کرنے کے لیے صبح ۸ بجے گھر سے نکل جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جن تعمیراتی مقامات پر میں کام کرتی ہوں، وہاں بھی بیت الخلاء نہیں ہے۔ وہاں بھی، ہمیں عام طور پر کسی درخت کے ارد گرد یا کھلی جگہ جانا پڑتا ہے۔‘‘

*****

آس پاس رہنے والی مختلف برادریوں کے لوگوں کے بارے میں بتاتے ہوئے جنکمّا کہتی ہیں، ’’مالا، مڈیگا، چکلی، نیتکنی، بویا، پدمسالی – ہر کوئی الگ الگ جگہوں پر جاتا ہے۔‘‘ آندھرا پردیش میں یہ برادریاں بنیادی طور پر درج فہرست ذات (ایس سی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے طور پر درج ہیں۔ ’’مرد اور عورتیں الگ الگ جگہوں پر جاتے ہیں؛ نوجوان اور بوڑھے کسی اور جگہ جاتے ہیں۔ تقریباً ۶۰ سال کی جنکمّا، گوڈیکل کے پانچویں وارڈ میں رہتی ہیں، اور ان کا تعلق بویا برادری سے ہے، جو او بی سی کے طور پر درج ہے۔

بہت سے رہائشیوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے اور وہ کچے مکانوں میں رہتے ہیں۔ ’’بڑھاپے میں، ہم کسی سنسان جگہ کی تلاش میں چٹانوں یا پہاڑیوں پر نہیں چڑھ سکتے۔ اسی لیے ہمیں کسی قریب کی جگہ پر جانا پڑتا ہے۔‘‘ وہ وارڈ نمبر پانچ کے ایک کمیونٹی ہال میں ساٹھ سال کی دیگر خواتین – انجمّا، یلّمّا کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔

اس بویا بستی میں ہنومان پہاڑی ہمارے اوپر ایک ٹیلہ کی طرح کھڑی ہے۔ چند مہینے پہلے تک یہ لوگ کھلے میں رفع حاجت کے لیے گوڈیکل کی چیروو (جھیل) کے کنارے جایا کرتے تھے، لیکن اب اس زمین کو اونچی ذات کے کسی آدمی نے خرید لیا ہے۔ مایوسی بھری آواز میں رمنمّا کہتی ہیں، ’’اب ہم کھیتوں کے قریب ہی اپنی جھونپڑیاں بنا لیتے ہیں۔‘‘

Left: Roughly 53 per cent of Gudikal’s residents earned their primary source of income from cultivation.
PHOTO • Kota Adarsh Venkat
Right: The banks of the village lake was an open defecation space until a few months ago, when someone from a dominant caste bought this land and it became inaccessible for others
PHOTO • Kruti Nakum

بائیں: گوڈیکل کے تقریباً ۵۳ فیصد باشندوں کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ کاشتکاری ہے۔ دائیں: گاؤں کی جھیل کا کنارہ چند ماہ پہلے تک کھلے میں رفع حاجت کی جگہ تھی، لیکن اونچی ذات کے کسی آدمی نے یہ زمین خرید لی ہے اور اب یہ دوسروں کے لیے ناقابل رسائی ہو گئی ہے

ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے یلّمّا مزید کہتی ہیں، ’’چٹان پر چڑھ کر اس کے پیچھے چلے جانا یا پہاڑی پر چڑھ جانا جیسا کہ ہم پہلے کرتے تھے، میری عمر کے کسی فرد کے لیے خطرہ بن جاتا ہے، اس لیے میں رازداری کو زیادہ ترجیح نہیں دیتی۔‘‘

ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر، چھٹے وارڈ میں رہنے والی پروَتمّا کہتی ہیں، ’’اس ایس سی کالونی میں کوئی بیت الخلا نہیں ہے۔ ایک نالہ تک نہیں ہے۔ کھلے نالوں کی بدبو سے بعض اوقات [ہمارا کھانا] کھانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

یہ ۳۸ سالہ خاتون یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے دیگر خواتین کے ساتھ مل کر نہ جانے کتنی بار انتخابات کے دوران گاؤں میں پرچار کرنے والے سیاسی رہنماؤں سے اس مسئلے پر بات کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شکایت ہے کہ عورتوں کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے: ’’آس پاس کے مرد ہمیں بولنے نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘

پروتمّا کو مقامی نظام حکومت، بنیادی طور پر گرام وارڈ سچیوالیَم یا ولیج وارڈ سیکریٹریٹ (ہندوستانی ریاست آندھرا پردیش میں تمام سرکاری محکموں کی خدمات اور فلاحی خدمات کو ایک جگہ دستیاب کر کے انتظامیہ کو غیر مرکوز کرنے کے لیے قائم کردہ سیکریٹریٹ) میں بہت کم اعتماد ہے۔ گوڈیکل میں ۵۱ سچیوالیَم رضاکار ہیں، جنہیں ۳ سچیوالیم میں تقسیم کیا گیا ہے؛ ان میں سے ہر ایک رضاکار ۵۰ گھروں پر نظر رکھتا ہے۔

نرسمّا (۴۹) بتاتی ہیں، ’’تین سال پہلے، سچیوالیم کے لوگ آئے اور گوڈیکل کے کچھ گھروں میں بیت الخلاء بنانے کے لیے جگہ کی نشاندہی کی۔ انہوں نے ہمارے گھروں کو نشان زد کیا، لیکن اس کے بعد پھر کبھی نہیں آئے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ’’حالانکہ رضاکاروں کی تعداد کافی ہے، لیکن وہ پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ وَلّکی کومّولو مولیچئی [ان پر اقتدار کا نشہ سوار ہے]۔

گوڈیکل کی پنچایت سکریٹری اور اس علاقے کے تمام سچیوالیم کی سربراہ ۴۳ سالہ غلام جمیلہ بی، بیت الخلاء بنوانے کی اہلیت سے متعلق شرائط گنواتی ہیں: ’’کوئی لیٹرین، گھر کی ملکیت، بی پی ایل کارڈ (خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے) اور آدھار کارڈ کا نہ ہونا۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ان دستاویزات کی بنیاد پر گاؤں کا ریونیو آفیسر (وی آر او) ایک فہرست بناتا ہے اور ’سووچھ آندھرا مشن‘ اسکیم کے تحت بیت الخلاء کی مفت فراہمی کو منظوری دیتا ہے۔

Narsamma indicates the spot marked with rocks (left), where a toilet was to be built three years ago by local officials, but nothing has happened. 'There are no toilets in this SC colony, not even a drain’
PHOTO • Kruti Nakum
Narsamma indicates the spot marked with rocks (left), where a toilet was to be built three years ago by local officials, but nothing has happened. 'There are no toilets in this SC colony, not even a drain’
PHOTO • Kruti Nakum

نرسمّا پتھروں سے نشان زد کی گئی وہ جگہ (بائیں) دکھاتی ہیں، جہاں تین سال قبل مقامی حکام کے ذریعے بیت الخلاء کی تعمیر کی جانی تھی، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ’اس ایس سی کالونی میں نہ تو کوئی بیت الخلاء ہے، نہ ہی کوئی نالہ‘

غلام جمیلہ کہتی ہیں کہ گوڈیکل کے زیادہ تر گھر بیت الخلاء بنوانے کے لیے اہل ہیں، پھر بھی صرف نو گھروں میں ہی اس کی تعمیر کی گئی ہے۔ وہ ہمیں وائی ایس آر سی پی (یُواجن شرمک رعیتو کانگریس پارٹی) کا سال ۲۰۱۹ کا انتخابی منشور دکھاتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’یہ تمام اسکیمیں ہیں جن کو لاگو کرنے کے لیے جگن [وزیراعلیٰ] نے منصوبہ بنایا تھا، اس پمفلٹ میں بیت الخلاء کہیں نہیں ہے۔‘‘

نرسمّا، جن کے گھر کو سال ۲۰۱۹ میں بیت الخلاء بنوانے کے لیے منظوری دی گئی تھی، چوتھے وارڈ کے آخری سرے پر رہتی ہیں – جو کہ ایک نشیبی علاقہ ہے، جہاں مانسون کے مہینوں میں جون سے اکتوبر تک پانی بھرنے اور سیلاب سے بچنے کے لیے تمام گھروں کو دو فٹ اونچا کر دیا جاتا ہے۔

وہ مربع شکل میں بنائی گئی ایک چار بائی چار فٹ کی جگہ کے پاس کھڑی ہیں، جسے پتھروں سے گھیر کر نشان زد کیا گیا ہے۔ اس جگہ پر تین سال قبل بیت الخلاء بنایا جانا تھا، لیکن وہ کہتی ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

نرسمّا کے گھر کے دوسری طرف ۵۱ سالہ بھدرمّا رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ برسات کے دنوں میں گوڈیکل کے مختلف حصوں سے پانی کے ذریعے اکٹھا ہونے والا کوڑا ان کی سڑک پر بہنے لگتا ہے اور راستے کو بند کر دیتا ہے؛ اس کے اندر ناقابل برداشت بدبو بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’یہ وہی جگہ ہے جہاں گرمیوں میں جاترا [مذہبی اجتماع] ہوتی ہے،‘‘ وہ اپنی گلی کے آخر میں واقع مندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’پورے گاؤں کے لوگ جشن منانے کے لیے [اس راستے سے] جلوس نکالتے ہیں، لیکن کسی کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ برسات کے دنوں میں یہاں کیا ہوتا ہے۔‘‘

رمالکشمی (۲۱) ایک کنکریٹ کے گھر میں رہتی ہیں، جس کے داخلی دروازے کے قریب باتھ روم کا شیڈ ہے، لیکن اس کے اندر کوئی بیت الخلاء نہیں ہے۔ وہ تین سال قبل، شادی کرنے کے بعد گوڈیکل آئی تھیں۔ ’’میرے سسرال والے، میرے شوہر اور میں اس جگہ کو [کھلے میں رفع حاجت کے لیے] استعمال کرتے ہیں۔‘‘ ان کے دو چھوٹے بچوں کو اس کے لیے اپنے گھر کے قریب کی جگہ چاہیے ہوتی ہے۔

گوڈیکل گاؤں کی پنچایت سکریٹری، غلام جمیلہ بی کو چھوڑ کر اس کہانی میں جن خواتین کا حوالہ دیا گیا ہے، انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے تجربات شیئر کیے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Kasturi Kandalam

Kasturi Kandalam is a first year Masters student in Economics at Azim Premji University, Bengaluru.

Other stories by Kasturi Kandalam
Student Reporter : Kruti Nakum

Kruti Nakum is a first year Masters student in Economics at Azim Premji University, Bengaluru.

Other stories by Kruti Nakum
Editor : Riya Behl

Riya Behl is a multimedia journalist writing on gender and education. A former Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI), Riya also worked closely with students and educators to bring PARI into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique