تقریباً ایک سال سے زیادہ عرصے سے کولّاٹی نارائن دریائے کرشنا کے کنارے آباد جکّم پڈی گاؤں سے وجئے واڑہ شہر کے مشہور پُنّامی گھاٹ تک روزانہ چھ کلومیٹر پیدل چل کر جاتے ہیں۔ صبح تقریباً ۱۰ بجے سے شام ۵ بجے تک وہ یہاں چند دوسرے افراد کے ساتھ مل کر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور انہیں دریا کے کنارے فروخت کرتے ہیں۔

جزوی طور پر نابینا، نارائن (۲۷ سال) مزید چھ کلومیٹر پیدل چل کر واپس گھر لوٹتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں پیدل اس وجہ سے چلتا ہوں کیوں کہ میں آٹورکشہ کے کرایے پر ۴۰ روپے خرچ نہیں کر سکتا۔ میری روزانہ کی آمدنی بمشکل ۵۰ سے ۱۰۰ روپے ہوتی ہے۔‘‘ ان کی دو بیٹیاں (جن کی عمر چار سال اور دو سال ہے) بھی جزوی طور پر نابینا ہیں۔

نارائن ۱۲ کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر اس وقت مجبور ہوئے، جب ۲۰۱۶ کے  وسط میں  پُنّامی گھاٹ پر واقع ان کے مکان کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ اس مکان میں وہ اپنی پیدائش کے بعد سے رہائش پذیر تھے۔ وہ معمولی سا مکان ان کے بھائی کا تھا جنہیں نارائن کرایے کے نام پر کبھی کبھار کچھ پیسے دے دیا کرتے تھے۔ اب وہ جکّم پُڈی کی وائی ایس آر کالونی میں ۱۰۰۰ روپے کے کرایے والے مکان میں رہتے ہیں۔ (انہدام کے بعد ان کے بھائی بھی وہاں منتقل ہو گئے تھے، لیکن چھوٹی سی جگہ میں نارائن کے کنبے کے لیے گنجائش نہیں بن سکتی تھی۔)

Narayana, the visually challenged fisherman
PHOTO • Rahul Maganti
Lanke Maheshwari cleaning fish
PHOTO • Rahul Maganti

سال ۲۰۱۶ میں کولاٹی نارائن (بائیں)، جو ایک ماہی گیر ہیں (بائیں)، اور لنکے مہیشوری (دائیں)، جو مچھلی مزدور ہیں، وجے واڑہ کے پنّامی گھاٹ سے اس وقت بے گھر ہوئے تھے جب ریاست نے ہر ۱۲ سال میں ایک بار آنے والے تہوار کے لیے نیا گھاٹ بنانے کی غرض سے تقریباً ۲۰۰۰ مکانات منہدم کر دیے تھے

جون اور جولائی ۲۰۱۶ میں وجے واڑہ میں تقریباً ۲۰۰۰ مکانات منہدم کر دیے گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر مکانات ماہی گیروں اور مچھلی کے کاروبار سے جڑے مزدورں کے تھے۔ ان کی جگہ ۱۲ سال میں ایک بار آنے والے کرشنا پشکرالو تہوار کے عقیدت مندوں کے لیے ۱۸ سے زیادہ گھاٹ تعمیر کیے گئے تھے۔ زائرین اور عقیدت مندوں کے لیے پرانے پنّامی گھاٹ کے چھوٹے سے پلیٹ فارم کی توسیع کی گئی تھی۔ یہ ایک ’وی آئی پی‘ گھاٹ ہے، جو دیوی کَنک درگا کے اندرکیِلادری مندر کے بالکل قریب ہے۔

خالی کرایا گیا علاقہ وجے واڑہ – حیدرآباد قومی شاہراہ کے قریب ابراہیم پٹنم شہر سے شروع ہوکر پرکاسم بیراج تک، دریا کے ساتھ ۲۰ کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے اس تہوار پر عوامی خزانے سے ۱۰۰۰ کروڑ روپے (اخباری رپورٹس کے مطابق) خرچ کیے۔

تہوار کے ایک سال بعد گھاٹوں پر ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ وائی ایس آر کالونی میں نارائن کی پڑوسن، ۶۰ سالہ لنکے مہیشوری، جو پنّامی گھاٹ پر مچھلیوں کی صفائی کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’’یہ جگہ ۷۰ سالوں سے مچھلی بازار [اور ماہی گیر برادریوں کا ٹھکانہ] رہی ہے۔ لیکن اس دن بلڈوزر نے ہمارے گھروں کی دیواریں گرا دیں۔ اس دن ہمارے کھانے کی پلیٹوں میں اینٹیں اور مٹی کے تودے گرے۔ ہمارے پاس ایک مندر اور ایک چھوٹا سا شیڈ بھی تھا تاکہ آرام کرنے یا بارش میں بھیگنے سے بچ سکیں۔ انہوں نے سب کچھ ہٹا دیا۔‘‘

Punnami Ghat, after the houses are demolished. You could see cots and utensils still lying there
PHOTO • Rahul Maganti
Houses and flats at YSR Colony
PHOTO • Rahul Maganti

ماہی گیروں کے مکانات گرائے جانے کے بعد پنّامی گھاٹ (بائیں) کا ایک منظر۔ جَکّم پُڈی گاؤں کی وائی ایس آرکالونی (دائیں) میں ماہی گیروں کے نئے گھر

منہدم شدہ مکان مالکان میں سے بیشتر کے پاس پٹّے (ملکیت کے دستاویز) نہیں تھے، اور ریاست نے ان مکانات کو ’تجاوزات‘ کے طور پر دیکھا تھا، جنہیں معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن انہدام کے مقام پر متاثرہ کنبوں اور عوامی تنظیموں کے مسلسل احتجاج کے بعد، اور جب مظاہرین نے ملحقہ قومی شاہراہ کو بلاک کر دیا، تو ستمبر ۲۰۱۶ میں محکمہ محصولات اور کلکٹر نے ہر خاندان کو وائی ایس آر کالونی میں ایک گھر دینے کے لیے ۶۶ ہزار روپے ادا کرنے کو کہا۔ جو لوگ رقم ادا کر سکتے تھے، انہوں نے ادا کر دیے۔ جو لوگ نارائن جیسے تھے انہیں کرایہ کے مکان میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے، جس کے وہ بمشکل متحمل ہو سکتے ہیں۔

وائی ایس آر کالونی کی تعمیر ریاستی حکومت کے ذریعہ جواہر لال نہرو نیشنل اربن رینیوول مشن کے تحت کی گئی تھی۔ وجے واڑہ اور اس کے گرد و نواح کے مختلف بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والی بہت سی برادریوں کو یہاں منتقل کر دیا گیا ہے۔ تاہم، کالونی کا بنیادی ڈھانچہ ہی ناقص ہے۔ شہر کے لیے یہاں سے بمشکل کوئی بس ملتی ہے، صفائی کا ناقص انتظام ہے، اور آس پاس کوئی سرکاری ہسپتال یا اسکول بھی نہیں ہے۔

Kondaveeti Vagu Lift Irrigation Scheme under construction
PHOTO • Rahul Maganti

کرشنا ندی کے دائیں کنارے سے گزرنے والی کونڈاویتی نہر کا منصوبہ ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر سکتا ہے

جہاں تک وجے واڑہ کا سوال ہے، تو یہ دریائے کرشنا کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ یہ ندی آندھرا پردیش کے کرشنا اور گنٹور اضلاع کے درمیان سرحد قائم کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ اس کے دائیں کنارے پر بھی آباد برادریاں بے گھر ہو رہی ہیں۔ دریا کے دائیں کنارے حکومت نئی ’نمائشی‘ راجدھانی تعمیر کر رہی ہے۔ ماہی گیری کے کے لیے مختص ۱۰ بندرگاہوں کے آس پاس آباد ماہی گیروں کے تقریباً ۴۰۰۰ کنبوں کو یہاں سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ جن ۱۰ گاؤوں میں یہ بندرگاہ واقع ہیں ان میں (کیپیٹل ریجن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دستاویزات کے مطابق) کل ۵۰ ہزار کے قریب افراد آباد ہیں۔

پولکم پاڈو انہی ۱۰ بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ ۲۰۱۷ کے اوائل میں نئے ’عالمی معیار کے‘ شہر کے دروازے پر واقع اس بندرگاہ پر ماہی گیروں نے مسلسل ۱۰۸ دنوں تک ریلے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر کونڈاویتی واگو فلڈ واٹر پمپنگ اسکیم کی وجہ بے گھر ہونے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ امراوتی کے جنوب میں واقع تقریباً ۲۳۰ کروڑ روپے کی اس اسکیم کا مقصد (اسکیم کے دستاویزات کے مطابق) راجدھانی خطہ کو سیلاب سے پاک رکھنا ہے- یہ وہ خطہ ہے جو کونڈاویتی واگو (نہر) سے کرشنا کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔

Fishermen and fishermen sitting in the Polakampadu Revu as there is hardly any work
PHOTO • Rahul Maganti
Mahalakshmi
PHOTO • Rahul Maganti

سال ۲۰۱۷ میں پولکم پاڈو گاؤں (بائیں) کے ماہی گیروں، جن میں روولا مہالکشمی (دائیں) بھی شامل تھیں، نے کونڈاویتی نہر اسکیم کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے خلاف ۱۰۸ دنوں تک ریلے بھوک ہڑتال کی

پولکم پاڈو بندرگاہ پر مچھلیوں کی صفائی کرکے اپنا گزر بسر کرنے والی، ۵۵ سالہ روولا مہالکشمی کہتی ہیں، ’’یہ حکومت کی ناسمجھی ہے کہ پہلے اس نے سیلاب زدہ علاقے میں راجدھانی تعمیر کی اور پھر سیلاب کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کونڈاویتی اسکیم [لے آئی]۔‘‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’’میں ہفتے کے عام دنوں میں ۵۰ روپے اور اتوار کو ۱۵۰ روپے کما لیتی ہوں، لیکن اب [بہاؤ کی مخالف سمت میں آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کی وجہ سے] دریا میں شاید ہی کوئی مچھلی باقی رہ گئی ہے…‘‘ مہالکشمی کی دونوں بیٹیوں (ایک غیر شادی شدہ دوسری طلاق شدہ) کی بھی روزی روٹی جاتی رہی ہے۔ وہ جن کھیتوں میں مزدوری کرتی تھیں وہاں پچھلے دو سالوں میں نئی راجدھانی کے لیے اپارٹمنٹ کمپلیکس کی تعمیر ہو چکی ہے۔ مہالکشمی کہتی ہیں، ’’ہم ماضی میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مچھلیاں بانٹتے تھے۔ اب ساری مچھلیاں بیچ دیتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ہماری آمدنی ناکافی ہوتی ہے۔‘‘

پولکم پاڈو فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (جسے ۱۹۵۴ میں قائم کیا گیا تھا) کے صدر وینکٹ نارائن کہتے ہیں، ’’کونڈاویتی واگو اسکیم کے نفاذ کی اصل وجہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نہیں چاہتے کہ مزدور [اور ماہی گیر] سوٹ بوٹ والے، فینسی کاروں والے لوگوں کے لیے تعمیر شدہ ان کے عالمی معیار کے شہر کے دروازے پر رہیں۔ وہ ہمیں بھگانا چاہتے ہیں اور یہ اسکیم اس کے لیے صرف ایک بہانہ ہے۔‘‘ گنٹور ضلع کے تاڈے پلّی، اُنڈا ولّی اور سیتا نگرم گاؤوں کے تقریباً ۴۰۰ ماہی گیر کنبے اس سوسائٹی کے رکن ہیں، جو کہ علاقے میں ماہی گیری کی ایسی ۱۰ سوسائٹیوں میں سے ایک ہے۔

ماہی گیروں کی بازآباد کاری یا انہیں معاوضہ دینے کے کسی معلوم سرکاری منصوبے کے بغیر کونڈاویتی کینال اسکیم کے ایک حصے کے طور پردو ایکڑ زمین پر پھیلی بندرگاہ اور ۱۰ شیڈوں کے مارکیٹ کو جنوری میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ وہاں سے منتقل کیے گئے کنبوں کے احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے معاوضے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے مطابق، ہر کشتی کے لیے ۵۰ ہزار روپے اور ہر ایک عورت جس کی آمدنی مچھلی کی صفائی سے آتی ہے ۲۵ ہزار روپے دیے جانے ہیں، لیکن ابھی تک انہیں کوئی رقم نہیں دی گئی ہے۔

Venkata Narayana, President of the Polakampadu Fishermen Cooperative Society
PHOTO • Rahul Maganti
The recently built shed for the Polakampadu Fishermen Cooperative Society after around 10 of them are demolished for KLIS
PHOTO • Rahul Maganti

وینکٹ نارائن، پولکم پاڈو فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے صدر ہیں؛ انہدام کے ایک دور کے بعد اس سوسائٹی کے شیڈ کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا

حکومت نے پولکم پاڈو بندرگاہ اور بازار کے لیے متبادل جگہ کے طور پر ندی کی دھارا سے مخالف سمت میں تقریباً ۲۰۰ میٹر دور ایک جگہ بھی مختص کی ہے۔ لیکن اس کے ایک حصے پر ایک سیاسی رہنما کا قبضہ ہے، جس نے پلاٹ کی گھیرا بندی کر دی ہے۔ ایک عارضی شیڈ کے علاوہ ماہی گیروں کی روزمرہ زندگی اور ذریعہ معاش کے لیے نئی جگہ پر کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔

امراوتی کے لیے دیگر منصوبوں پر بھی کام چل رہا ہے، جس میں واٹر پارک اور دریا کے کنارے پر ویکینڈ گیٹ وے شامل ہیں۔ دریں اثنا، دریا میں مچھلیوں کی کمی کی وجہ سے ماہی گیروں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ پہلے ہی سے محدود ہو رہا ہے۔ وینکٹ کہتے ہیں، ’’ہماری سوسائٹی کے ۴۰۰ ماہی گیروں میں سے بمشکل ۱۰۰ مچھلی پکڑنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باقی زیادہ تر وجے واڑہ اور گنٹور میں تعمیراتی مقامات پر یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔‘‘ شاید انہی تعمیراتی مقامات پر جو ان کی زندگیوں کو کچل رہے ہیں ۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam