سورج جتّی نے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے والد سے کہہ دیا تھا کہ وہ فوج میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے والد شنکر، جو خود فوج میں رہ چکے تھے، یہ سوچ کر فخر سے جھوم اٹھے تھے کہ ان کے بیٹے نے ان سے حوصلہ لیا ہے۔

مہاراشٹر کے سانگلی ضلع کے پلوس شہر کی ایک اکادمی میں اپنے تربیتی اجلاس کے دوران ۱۹ سالہ سورج کہتے ہیں، ’’گھر میں جیسا ماحول تھا اس حساب سے میرا بھی من فوج میں جانے کا ہوا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، میں نے کبھی کچھ اور کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘‘ شنکر اپنے بیٹے کے فیصلہ سے خوش تھے۔ ایک والد کے لیے آخر اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی تھی۔

اب ایک دہائی سے بھی کم وقت کے اندر، شنکر اپنے بیٹے کے فیصلہ کے بارے میں بے یقینیوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت جذباتی اور فخر محسوس کرنے والے شنکر حالیہ برسوں میں تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں۔ صحیح معنوں میں کہیں تو، ۱۴ جون ۲۰۲۲ سے ایسا ہوا ہے۔

اس دن وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا، ’’اگنی پتھ اسکیم کے تحت ہندوستانی نوجوانوں کو اگنی ویر کے طور پر مسلح افواج میں کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔‘‘

اسکیم کی شروعات سے پہلے، ۲۰۲۰-۲۰۱۵ کے درمیان مسلح افواج میں شامل ہونے کا پانچ سال کا اوسط ۶۱ ہزار تھا۔ سال ۲۰۲۰ میں کووڈ کی آمد کے بعد اس میں روک لگ گئی تھی۔

اگنی پتھ اسکیم کے تحت کم تعداد میں – تقریباً ۴۶ ہزار – نوجوانوں یا اگنی ویروں کی ’’نوجوان، صحت مند اور تنوع سے پُر‘‘ مسلح افواج کی تعمیر کے لیے ہندوستانی فوج میں بھرتی ہونی تھی۔ سرکاری پریس ریلیز کے مطابق، اندراج کے لیے عمر کی حد ساڑھے ۱۷ سال سے ۲۱ سال کے درمیان رکھی گئی تھی، جس سے ممکنہ طور پر مسلح افواج کی اوسط عمر ۵-۴ سال کم ہونے والی تھی۔

فوج کے تاعمر چلنے والے کریئر کے برعکس، یہ چار سال کی سروس ہے، جس کے آخر میں بیچ کے ۲۵ فیصد لوگوں کو ہی مسلح افواج کے باقاعدہ کیڈر کے طور پر نوکری دی جائے گی۔

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: سانگلی کے پلوس شہر میں واقع یش اکادمی میں آرمڈ فورسز میں بھرتی کے لیے ٹریننگ لیتے نوجوان۔ فوج کے تاعمر چلنے والے کریئر کے برعکس، یہ چار سال کی سروس ہے، جس کے آخر میں بیچ کے ۲۵ فیصد لوگوں کو ہی مسلح افواج کے باقاعدہ کیڈر کے طور پر نوکری دی جائے گی۔ دائیں: سابق فوجی اور کُنڈل میں سینِک فیڈریشن کے صدر ۶۵ سالہ شیواجی سوریہ ونشی (نیلی قمیض میں) اس اسکیم کو قومی مفاد کے خلاف مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ایک فوجی کے تیار ہونے کے لیے چار سال بہت کم ہیں‘

سابق فوجی اور کُنڈل میں سینِک فیڈریشن کے صدر ۶۵ سالہ شیواجی سوریہ ونشی (نیلی قمیض میں) اس اسکیم کو قومی مفاد کے خلاف مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک فوجی کے تیار ہونے کے لیے چار سال بہت کم ہیں۔ اگر انہیں کشمیر یا بحران زدہ کسی دوسرے علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے، تو وہ تجربے کی کمی کے سبب دوسرے تربیت یافتہ فوجیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ یہ اسکیم قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔‘‘

سوریہ ونشی کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم بھرتی ہونے والوں کے لیے بھی ذلت آمیز ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر تعیناتی کے وقت اگنی ویر مارے جاتے ہیں، تو انہیں شہید کا درجہ بھی نہیں ملتا ہے۔ یہ شرمناک ہے۔ اگر کوئی ایک مہینہ کے لیے بھی ایم ایل اے یا ایم پی رہتا ہے، تو اسے ان نمائندوں کے مساوی فائدہ ملتا ہ جو اپنی مدت کار مکمل کرتے ہیں۔ پھر فوجیوں کے ساتھ یہ تفریق کیوں کی جا رہی ہے؟‘‘

اس متنازع اسکیم کے اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے؛ بھرتی کی تیاری کر رہے نوجوانوں اور سابق فوجیوں نے اس کی ایک آواز میں مخالفت کی۔

بتایا جا رہا ہے کہ سال ۲۰۲۴ کے عام انتخابات میں مایوس کن کارکردگی کے بعد، بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت اس میں ترمیم پر غور کر رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہریانہ، پنجاب، اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں کافی نقصان اٹھانا پڑا، جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ مسلح افواج میں شامل ہوتے ہیں۔ اسکیم نافذ ہونے کے دو سال بعد، مغربی مہاراشٹر میں اس اسکیم کے خلاف صورتحال پہلے جیسی بنی ہوئی ہے۔ غور طلب ہے کہ اس علاقہ سے بھی مسلح افواج میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہاں ایسے کئی گاؤں ہیں جہاں ہر گھر سے کم از کم ایک آدمی فوج میں ہے۔

جَتّی ایسے ہی ایک گھر سے آتے ہیں۔ وہ بی اے کے آخری سال میں ہیں۔ حالانکہ، جب سے انہوں نے اگنی ویر کی تیاری کے لیے اکادمی میں داخلہ لیا ہے، تب سے ان کی تعلیم متاثر ہونے لگی ہے۔

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

اکادمی کی جسمانی ٹریننگ میں کافی ورزش شامل ہے: دوڑنا، پُش اَپ لگانا، فرش پر گھسٹنا (کرالنگ) اور یہاں تک کہ دوڑتے وقت کسی آدمی کو پیٹھ پر اٹھا کر بھاگنا

وہ کہتے ہیں، ’’میں صبح اور شام کو تین تین گھنٹے جسمانی ٹریننگ حاصل کرنے میں گزارتا ہوں۔ بہت تھکان ہو جاتی ہے، اور پھر پڑھائی کرنے کی طاقت نہیں بچتی۔ اگر میرا انتخاب ہوگیا، تو مجھے امتحانات سے پہلے ہی جانا پڑے گا۔‘‘

ان کی ٹریننگ میں کافی ساری ورزش شامل ہے: دوڑنا، پُش اَپ لگانا، فرش پر گھسٹنا (کرالنگ) اور یہاں تک کہ دوڑتے وقت کسی آدمی کو پیٹھ پر اٹھا کر بھاگنا۔ ہر سیشن کے ختم ہوتے ہوتے ان کے کپڑے پسینے اور گرد و غبار میں ڈوب جاتے ہیں۔ وہ کچھ گھنٹوں بعد دوبارہ اسی طرح مشق کرتے ہیں۔

ایک سال کی اس محنت کے نتیجہ میں اگنی ویر کے طور پر منتخب ہونے کے بعد جتّی کو پہلے سال ۲۱ ہزار روپے ماہانہ ملیں گے۔ یہ رقم چوتھے سال تک بڑھ کر ۲۸ ہزار روپے ماہانہ ہو جائے گی۔ اگر وہ اپنے بَیچ سے منتخب کیے گئے ۲۵ فیصد لوگوں میں شامل نہیں ہو پاتے ہیں، تو اگنی پتھ اسکیم کے مطابق آخر میں ۱۱ لاکھ ۷۱ ہزار روپے کے ساتھ گھر لوٹ جائیں گے۔

تب تک وہ ۲۳ سال کے ہو جائیں گے اور نوکری کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں گے۔ امکانات کو بہتر بنانے کے لیے ان کے پاس گریجویشن کی ڈگری بھی نہیں ہوگی۔

جتّی کہتے ہیں، ’’اسی لیے پاپا میرے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوج میں جانے کی بجائے میں پولیس افسر بن جاؤں۔‘‘

حکومت ہند نے کہا تھا کہ ۲۰۲۲ میں اسکیم کے افتتاحی سال میں ۴۶ ہزار اگنی ویروں کی بھرتی کی جائے گی۔ یعنی کہ ان میں سے ۷۵ فیصد یا ۳۴ ہزار ۵۰۰ نوجوان سال ۲۰۲۶ میں جب گھر لوٹیں گے، تو انہیں مواقع کے دروازے بند ملیں گے اور دوبارہ صفر سے شروعات کرنی پڑے گی۔

سال ۲۰۲۶ تک ایک لاکھ ۷۵ ہزار کے قریب نوجوانوں کی بھرتی ہونی ہے۔ پانچویں سال میں بھرتیوں کو بڑھا کر ۹۰ ہزار کیا جائے گا اور اس کے بھی اگلے سال سے اس کی تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار تک کرنے کا ہدف ہے۔

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: اگنی پتھ اسکیم کے اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے؛ بھرتی کی تیاری کر رہے نوجوانوں اور سابق فوجیوں نے اس کی ایک آواز میں مخالفت کی۔ دائیں: پرکاش بھورے، پلوس میں یش اکادمی چلاتے ہیں؛ ان کا ماننا ہے کہ اس اسکیم کی وجہ سے دیہی ہندوستان میں روزگار کا بحران بڑھ جائے گا، کیوں کہ اسے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ زیادہ تر نوجوانوں کو گریجویشن کی پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے ہی تعیناتی کے لیے جانا پڑتا ہے

فوج میں جانے والے زیادہ تر نوجوان زرعی بحران کے شکار کسانوں کے بچے ہیں۔ بڑھتے قرض، فصل کی گھٹتی قیمتوں، قرض کی عدم دستیابی اور ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کے سبب ہزاروں کسان اپنی جان لے چکے ہیں۔ ایسے میں، کسان خاندانوں کے بچوں کے لیے لمبی مدت کے لیے مستقل آمدنی والی نوکری حاصل کرنا اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔

پلوس میں یَش اکادمی چلانے والے پرکاش بھورے کا ماننا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے دیہی ہندوستان میں روزگار کا بحران بڑھ جائے گا، کیوں کہ اسے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ زیادہ تر نوجوانوں کو گریجویشن کی پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے ہی تعیناتی کے لیے جانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’روزگار کی حالت پہلے سے ہی بدتر ہے۔ ڈگری نہ ہونے سے بچوں کے لیے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ فوج میں چار سال گزارنے کے بعد، وہ کسی سوسائٹی یا اے ٹی ایم کے باہر سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ کوئی اگنی ویروں سے شادی بھی نہیں کرنا چاہے گا۔ ’’دلہن کے گھر والے صاف صاف پوچھتے ہیں کہ لڑکا مستقل نوکری میں ہے یا ’چار سال والا فوجی‘ ہے۔ اس حالت کا تصور کیجئے، جب مایوس اور پریشان نوجوانوں کا ایک بڑا گروہ، جو اسلحوں کا استعمال کرنے میں ماہر ہے، خالی بیٹھا ہوگا اور ان کے پاس کرنے کو کچھ ہوگا نہیں۔ میں زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا، لیکن یہ خوفناک بات ہے۔‘‘

فوج میں ۱۷ سال گزار چکے میجر ہمت اوہوال، جو ۲۰۰۹ سے سانگلی میں ایک ٹریننگ اکیڈمی چلا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ اس اسکیم نے نوجوانوں کی فوج میں جانے کے تئیں ہمت توڑی ہے۔ ان کے مطابق، ’’سال ۲۰۰۹ سے ہر سال ہماری اکیڈمی میں ۲۰۰۰-۱۵۰۰ بچے آتے تھے۔ اگنی ویر اسکیم آنے کے بعد، یہ تعداد گھٹ کر ۱۰۰ ہو گئی ہے۔ بہت زیادہ گراوٹ ہے۔‘‘

ایسے حالات میں، جو نوجوان اب بھی فوج میں جانا چاہتے ہیں، وہ جتّی کی طرح اس امید میں ہیں کہ اپنے بَیچ کے ۲۵ فیصد لوگوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ یا پھر ریا بیلدار کی طرح ان کے پاس فوج میں جانے کی کوئی جذباتی وجہ ہے۔

ریا، سانگلی کے ایک چھوٹے سے شہر میرج کے ایک معمولی کسان خاندان کی بیٹی ہیں۔ وہ بچپن سے ہی اپنے چچا کے بہت قریب رہی ہیں اور ان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ فوج میں جانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے ذریعہ اپنے خواب کو پورا کریں۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

فوج میں جانے کی خواہش رکھنے والی لڑکیوں کو لوگوں کے الٹے سیدھے تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریا بیلدار کہتی ہیں، ’میں واپس آ کر لڑکیوں کے لیے ایک اکادمی شروع کرنا چاہتی ہوں۔‘ وہ سانگلی کے ایک چھوٹے سے شہر میرج کے ایک معمولی کسان خاندان کی بیٹی ہیں اور اکادمی سے ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں

ہمت اوہوال سے ٹریننگ حاصل کر رہیں ریا کو اپنے پڑوسیوں کے الٹے سیدھے تبصروں کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیوں کہ وہ لڑکی ہونے کے باوجود فوج میں جانے کی خواہش رکھتی تھیں۔ ریا نے انہیں نظر انداز کیا، لیکن لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے ہیں اور ان پر ہنستے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن میں نے ان پر دھیان نہیں دیا، کیوں کہ میرے والدین میرے ساتھ تھے۔‘‘

ریا (۱۹) مانتی ہیں کہ اگنی پتھ اسکیم ان کے لیے صحیح نہیں ہے۔ ’’آپ دن رات ٹریننگ حاصل کرتے ہیں، مذاق کا سبب بنتے ہیں، اپنی پڑھائی کو خطرے میں ڈالتے ہیں، پھر وردی پہنتے ہیں۔ اور صرف چار سال میں یہ سب آپ سے چھین لیا جاتا ہے۔ آپ کے سامنے کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ یہ کتنی نا انصافی ہے۔‘‘

حالانکہ، انہوں نے چار سال فوج میں گزارنے کے بعد کے لیے اپنے منصوبے بنا لیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں واپس آ کر لڑکیوں کے لیے ایک اکادمی شروع کرنا چاہتی ہوں۔ ساتھ میں، گنے کی کھیتی کروں گی۔ بھلے ہی چار سال پورا کرنے کے بعد مستقل بھرتی نہ ملے، پھر بھی کہہ پاؤں گی کہ میں فوج میں تھی اور اپنے چچا کے خواب کو پورا کر دیا۔‘‘

ان کی ہی اکادمی میں ٹریننگ حاصل کر رہے کولہاپور کے ۱۹ سالہ اوم وبھوتے نے زیادہ عملی راستہ منتخب کیا ہے۔ وہ اگنی پتھ اسکیم کے اعلان سے دو سال پہلے، ملک کی خدمت کی امید میں اوہوال کی اکادمی میں آئے تھے۔ اب انہوں نے اپنی راہ بدل لی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اب پولیس افسر بننا چاہتا ہوں۔ اس میں آپ ۵۸ سال کی عمر تک نوکری کر سکتے ہیں اور اس پر عدم تحفظ کی تلوار بھی نہیں لٹک رہی ہوتی۔ اس کے علاوہ، پولیس کا کام بھی قومی مفاد میں آتا ہے۔ میں فوجی بننا چاہتا تھا، لیکن اگنی پتھ اسکیم نے میرا ارادہ بدل دیا۔‘‘

وبھوتے کا کہنا ہے کہ چار سال میں سروس ختم ہونے اور گھر لوٹنے کے خیال نے انہیں بیحد فکرمند کر دیا تھا۔ ’’واپس لوٹنے کے بعد میں کیا کروں گا؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ’’کون مجھے قاعدے کی نوکری دے گا؟ حقیقت کو ذہن میں رکھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہی پڑتا ہے۔‘‘

فوج کی سروس کر چکے سوریہ ونشی کے مطابق، اگنی پتھ اسکیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے فوج میں جانے کا خواب دیکھ رہے نوجوانوں کے من میں قومیت کے جذبہ کو کمزور کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے ایسی تمام خبریں ملتی رہتی ہیں جو پریشان کرنے والی ہیں۔ جب بچوں کو احساس ہوتا ہے کہ شاید وہ ۲۵ فیصد لوگوں میں جگہ نہیں بنا پائیں گے، تو محنت کرنا بند کر دیتے ہیں اور اپنے سینئرز کی بات نہیں سنتے۔ میں انہیں قصوروار نہیں ٹھہراتا۔ آپ اُس کام کے لیے اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالیں گے، اپنا خون پسینہ کیوں بہائیں گے جس سے چار سال بعد آپ کو نکال دیا جانا ہے؟ اس اسکیم نے فوجیوں کو بندھوا مزدور میں تبدیل کر دیا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

২০১৭ সালের পারি ফেলো পার্থ এম. এন. বর্তমানে স্বতন্ত্র সাংবাদিক হিসেবে ভারতের বিভিন্ন অনলাইন সংবাদ পোর্টালের জন্য প্রতিবেদন লেখেন। ক্রিকেট এবং ভ্রমণ - এই দুটো তাঁর খুব পছন্দের বিষয়।

Other stories by Parth M.N.
Editor : Priti David

প্রীতি ডেভিড পারি-র কার্যনির্বাহী সম্পাদক। তিনি জঙ্গল, আদিবাসী জীবন, এবং জীবিকাসন্ধান বিষয়ে লেখেন। প্রীতি পারি-র শিক্ষা বিভাগের পুরোভাগে আছেন, এবং নানা স্কুল-কলেজের সঙ্গে যৌথ উদ্যোগে শ্রেণিকক্ষ ও পাঠক্রমে গ্রামীণ জীবন ও সমস্যা তুলে আনার কাজ করেন।

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique