’’ہماری نسل کے لوگوں کے لیے بھیڑ بکری چرانا مشکل ہے،‘‘ نوجوان بکروال طالب کسانا کہتے ہیں، جو بھورتھائیں گاؤں سے اوپر، پہلی نام کی ایک دور افتادہ بستی میں رہتے ہیں۔ وہ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کی پڑھائی کر رہے ہیں۔

بکروال ایک خانہ بدوش برادری ہے۔ یہ لوگ اپنے مویشیوں کے لیے چراگاہوں کی تلاش میں بڑے بڑے گروپوں میں ہمالیائی علاقوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ طالب مزید کہتے ہیں، ’’گاؤوں میں رہنے اور بھیڑ بکریاں چرانے کی بجائے جب ہم پڑھائی کرنا شروع کرتے ہیں، تو ہم دوسری چیزوں کے بھی عادی ہو جاتے ہیں…ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بند باتھ روم ہو یا ہم کسی ایک جگہ پر اپنی پڑھائی کر پائیں۔‘‘

طالب، جموں کے کٹھوعہ ضلع میں بکروالوں کی ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر مستقل رہائش کی جگہ نہیں ہے، اور یہاں رہنے والوں کے پاس زمین کا مالکانہ حق بھی نہیں ہے۔

پچھلی دہائی میں، اس نیم خانہ بدوش برادری کے کئی نوجوان اپنی روایتی چرواہے کی زندگی کو چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم کی طرف رخ کرتے رہے ہیں۔ پیسہ ہونے پر وہ میڈیسن یا انجینئرنگ میں اپنا کریئر تلاش کرتے ہیں، یا سیاست کرنا اور سول سروس کی نوکریاں کرنا چاہتے ہیں۔

کسی بکروال فیملی میں اگر دو بیٹے ہیں، تو ان میں سے ایک بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کرے گا، اور دوسرا باہر جا کر کوئی اور نوکری تلاش کرنا چاہے گا۔ طالب کسانا اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، لیکن ان کا چھوٹا بھائی بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ بھی باہر جا کر اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ہم جیسے لوگوں کے لیے کوئی نوکری نہیں ہے۔‘‘

Left: (From left to right) Altaf Hussain, Munabbar Ali, Haneef Soud and Mohammad Talib live in a temporary Bakarwal settlement in Baira Kupai village.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: A mud house located in a Bakarwal hamlet in Kathua district
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: الطاف حسین، منور علی، حنیف سود اور محمد طالب (بائیں سے دائیں)، بیرا کوپائی گاؤں میں بکروالوں کی ایک عارضی بستی میں رہتے ہیں۔ دائیں: کٹھوعہ ضلع میں بکروالوں کی بستی میں مٹی اور پھوس سے بنا ایک گھر

Left: Nageena, who belongs to the Bakarwal community, is cooking in her house.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: 'Day after day it's becoming tough for the communities to survive based on traditional livelihoods,' says Shareef Kasana, a herder
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: بکروال برادری سے تعلق رکھنے والی نگینہ اپنے گھر میں کھانا پکا رہی ہیں۔ دائیں: گلہ بان شریف کسانا کہتے ہیں، ’’برادریوں کے لیے روایتی معاش کے سہارے زندگی بسر کرنا اب دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے‘

کٹھوعہ ضلع کے بیرا کوپائی گاؤں میں رہنے والے منور علی بھی ایک بکروال ہیں اور ان کے جذبات بھی طالب جیسے ہی ہیں۔ منور کہتے ہیں، ’’میری بیٹی نے ۱۲ویں کلاس پاس کر لیا ہے۔ اب وہ گھر پر بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘

منور علی پیشہ سے ایک کارپینٹر (بڑھئی) ہیں اور اپنی بیٹی کے مستقبل کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ ’’ہمارے بچے گریجویٹ کی ڈگریاں حاصل کر لیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں کوئی بڑا عہدہ نہیں مل پاتا ہے۔‘‘

اس کے باوجود، بکروال لوگ تعلیم پر پیسے خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ محمد حنیف جاٹلا، جموں ضلع کے سندھی گاؤں میں ایک بکروال فیملی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے ماں باپ کی ۶ویں اولاد تھے، اور انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی کچھ سال بھیڑ، بکریوں اور گھوڑے کے درمیان ہی رہ کر گزارے۔ ایک دن جب ان کی ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، تو گھر والوں نے ان کے دادا کی بچت کے پیسے سے ان کا داخلہ اسکول میں کرا دیا۔

حنیف جب کالج میں پڑھتے تھے تو، ’’میرے والد نے دو کنال [صفر اعشایہ ۲۵ ایکڑ] زمین کے بدلے تمام مویشیوں کو بیچ دیا۔‘‘ حنیف بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے زمین اس لیے خریدی تھی تاکہ ان کی فیملی ایک مستحکم زندگی گزار سکے، اور ان کے بچے پڑھائی کرکے کوئی نوکری تلاش کر پائیں۔ حنیف اب ایک مقامی نیوز ایجنسی کے لیے بطور رپورٹر کام کرتے ہیں۔

Left: Haneef Jatla sitting with his niece, Sania. He works as a reporter for a local news agency.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Fayaz is a college student in Jammu city. Many young Bakarwals go to college and look for government jobs
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: حنیف جاٹلا اپنی بھتیجی ثانیہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک مقامی نیوز ایجنسی کے لیے بطور رپورٹر کام کرتے ہیں۔ دائیں: فیاض، جموں شہر کے ایک کالج میں پڑھتے ہیں۔ کئی نوجوان بکروال اب کالج جاتے ہیں اور سرکاری نوکریاں تلاش کر رہے ہیں

Left: For many Bakarwal families that have houses built on disputed land, having a pukka house seems like a dream.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Many parts of grazing and agricultural land are now being fenced and diverted under CAMPA (Compensatory Afforestation Fund Management and Planning Authority) projects leading to large scale evictions
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: بہت سے بکروال خاندانوں کے لیے، جن کے مکانات متنازع زمین پر بنے ہوئے ہیں، پکے مکان کا ہونا ایک خواب جیسا لگتا ہے۔ چراگاہ اور زرعی زمین کے بہت سے حصوں پر اب باڑ لگائی جا رہی ہے اور انہیں کیمپا (کمپنسیٹری افاریسٹیشن فنڈ میجنمنٹ اینڈ پلاننگ اتھارٹی) کے پروجیکٹوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو وہاں سے بے دخل کیا جانے لگا ہے

بکروالوں کو ریاست میں درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے اور سال ۲۰۱۳ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ان کی آبادی ۱۱۳۱۹۸ ہے۔ زیادہ تر بکروالوں کے پاس خود کی اپنی زمین نہیں ہے، اور چونکہ عوام کے مشترکہ استعمال کی جگہیں سکڑنے لگی ہیں، اس لیے چراگاہوں پر ان کے حقوق اور یہاں تک کہ ان کے مستقل گھروں پر بھی خطرہ منڈلانے لگا ہے۔

جموں ضلع میں بجالتا قصبہ کے قریب واقع بستیوں میں رہنے والے پرویز چودھری کہتے ہیں کہ ایک ہی جگہ پر گزشتہ کئی دہائیوں سے رہائش پذیر ہونے کے باوجود، ان کی برادری کے لوگوں کے پاس اپنی زمین کا کوئی کاغذ یا مالکانہ حق نہیں ہے۔ چراگاہ اور زرعی زمین کے بہت سے حصوں پر اب باڑ لگائی جا رہی ہے اور انہیں کیمپا (کمپنسیٹری افاریسٹیشن فنڈ میجنمنٹ اینڈ پلاننگ اتھارٹی) کے پروجیکٹوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو وہاں سے بے دخل کیا جانے لگا ہے۔

وجے پور کے قریب بکروال کالونی میں رہنے والے تقریباً ۳۰ سالہ محمد یوسف اور فردوس احمد کہتے ہیں، ’’زیادہ تر بکروال یا تو ریاستی زمین پر رہتے ہیں یا جنگلات کی زمین پر۔ اگر یہ زمین ہم سے چھین لی گئی، تو ہم کہاں جائیں گے؟‘‘

ان کی بستی میں یا بیرا کوپائی میں جہاں طالب رہتے ہیں، وہاں بھی شہریوں کے لیے کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ محکمہ جنگلات کی طرف سے بے دخلی کی مسلسل دھمکیوں کی وجہ سے یہ لوگ اپنے عارضی مکانات کو پختہ مکانوں میں تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ، ان کی بستیوں میں اور ارد گرد کوئی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے بھی انہیں کافی پریشانی ہوتی ہے۔ ’’اگر کوئی بیمار پڑ جائے، تو اسے اسپتال لے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

Left : Women from the community carry water for three to four kilometres as most hamlets don't have drinking water.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Noor Mohammed is in his mid-forties and recovering from sepsis. He was admitted in a private hospital in Pathankot for knee surgery. Their family says that they have spent all their savings on the hospital bills, and are in debt
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: زیادہ تر بستیوں میں پینے کے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے کمیونٹی کی عورتوں کو تین یا چار کلومیٹر دور سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ دائیں: نور محمد تقریباً ۴۵ سال کے ہیں، جن کا سیپس کا علاج چل رہا ہے۔ گھٹنے کی سرجری کے لیے انہیں پٹھان کوٹ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بچت کے تمام پیسے اسپتال کی فیس بھرنے پر خرچ کر دیے، اور اب مقروض ہیں

Left: Mohammad Talib and Haneef Soud talking about the challenges they face during migration.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Right: Mohammad Akram is a lawyer who works for the Bakarwal community
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: محمد طالب اور حنیف سود مہاجرت کے دوران انہیں پیش آنے والے چیلنجز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ دائیں: محمد اکرم ایک وکیل ہیں، جو بکروال برادری کے لیے کام کرتے ہیں

جب ہم ان سے بات کر رہے تھے، تو عورتیں سروں پر پانی کے بھاری برتن اٹھائے پہاڑ پر چڑھتے اور اترتے ہوئے دکھائی دے رہی تھیں۔ کچھ گھنٹے بعد جب ہم وہاں سے لوٹنے لگے، تو اس وقت تک ان میں سے ہر ایک عورت اس طرح کے کئی چکر لگا چکی تھی۔

ناہیلہ، جموں میں پڑھنے والی ایک نوجوان کارکن ہیں جو بکروال کمیونٹی کے لیے قانونی، زمینی اور ثقافتی حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نوجوان بکروال اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’تعلیم تک رسائی، زمین کے حقوق اور حکومت سے بہتر سہولیات اور مدد حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی لڑائی کو آگے بھی جاری رکھیں گے۔‘‘

اپنے دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ، نوجوان بکروال یہ بھی چاہتے ہیں کہ خانہ بدوش لوگوں کی ضروریات اور بہتر ٹھکانے کے بارے میں صحیح طریقے سے سروے کرایا جانا چاہیے۔ وہ سرکاری اداروں اور کمیشنوں میں بھی قبائلی افراد کی نمائندگی چاہتے ہیں۔

ریاستی حکومت پہاڑی کمیونٹی کو ایس ٹی (درج فہرست قبائل) کا درجہ دینا چاہتی ہے – بکروالوں کو لگتا ہے کہ اس قدم سے ایس ٹی کے طور پر ملے ان کے کوٹہ کے اندر مقابلہ بڑھ جائے گا۔

روایتی پیشہ کو اپنائیں یا کوئی دوسری نوکری تلاش کریں، اس الجھن میں مبتلا پہلی کے بکروال عبدالرشید کہتے ہیں، ’’نہ یہاں کے، نہ وہاں کے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

ঋতায়ন মুখার্জি কলকাতার বাসিন্দা, আলোকচিত্রে সবিশেষ উৎসাহী। তিনি ২০১৬ সালের পারি ফেলো। তিব্বত মালভূমির যাযাবর মেষপালক রাখালিয়া জনগোষ্ঠীগুলির জীবন বিষয়ে তিনি একটি দীর্ঘমেয়াদী দস্তাবেজি প্রকল্পের সঙ্গে যুক্ত।

Other stories by Ritayan Mukherjee
Ovee Thorat

ওভি থোরাত একজন স্বতন্ত্র গবেষক। পশুপালন তথা রাজনৈতিক বাস্তুতন্ত্রের চর্চায় তিনি আগ্রহী।

Other stories by Ovee Thorat
Editor : PARI Desk

আমাদের সম্পাদকীয় বিভাগের প্রাণকেন্দ্র পারি ডেস্ক। দেশের নানান প্রান্তে কর্মরত লেখক, প্ৰতিবেদক, গবেষক, আলোকচিত্ৰী, ফিল্ম নিৰ্মাতা তথা তর্জমা কর্মীদের সঙ্গে কাজ করে পারি ডেস্ক। টেক্সক্ট, ভিডিও, অডিও এবং গবেষণামূলক রিপোর্ট ইত্যাদির নির্মাণ তথা প্রকাশনার ব্যবস্থাপনার দায়িত্ব সামলায় পারি'র এই বিভাগ।

Other stories by PARI Desk
Editor : Punam Thakur

অভিজ্ঞ প্রতিবেদক ও সম্পাদক পুনম ঠাকুর দিল্লি-কেন্দ্রিক স্বতন্ত্র সাংবাদিক।

Other stories by Punam Thakur
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique