ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والی عورتوں کا ایک گروپ ۲۸ نومبر، ۲۰۱۸ کو صبح ۸ بجے اپنے گھر سے روانہ ہوا۔ بس کے ذریعے یہ عورتیں شام کو چنڈی گڑھ پہنچیں، رات میں وہیں قیام کیا اور پھر اگلے دن صبح ۵ بجے دہلی کے لیے روانہ ہو گئیں، جہاں انہیں ۳۰-۲۹ نومبر، ۲۰۱۸ کو کسان مکتی مارچ میں شرکت کرنی تھی۔
وہاں ۲۹ نومبر کو انہوں نے صبح ۱۱ بجے شمالی دہلی کے مجنوں کا ٹیلہ سے پیدل چلنا شروع کیا۔ تقریباً ۱۱ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شام کو یہ عورتیں رام لیلا میدان پہنچیں – بھوکی، پیاسی اور بہت زیادہ تھکی ہوئی۔
ہماچل کی ان کسانوں میں ۴۵ سال کی سنیتا ورما بھی تھیں، جو کمہار سائیں تحصیل کے بڑا گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ گاؤں میں ان کی فیملی کے پاس ۱۵-۱۰ بیگھہ (تقریباً تین ایکڑ) کھیت ہے، جس پر وہ سال کے الگ الگ مہینوں میں گندم، مکئی، مٹر اور ٹماٹر اُگاتے ہیں۔
’’کاشتکاری اب ’ٹائم پاس‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے کیوں کہ اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے،‘‘ سنیتا کا کہنا تھا۔ اس لیے، وہ بیمہ پالیسی دلوانے اور ڈاکخانہ میں فکس ڈپازٹ کروانے میں لوگوں کی مدد کے لیے ایک ایجنسی چلاتی ہیں، تاکہ اس سے کچھ کما سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہماچل پردیش کے کسان کھیتی کے لیے عام طور پر بارش کے پانی پر منحصر ہیں۔ آبپاشی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پیداوار اور آمدنی پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ اسی لیے، وہاں کی زیادہ تر عورتیں گاؤں میں ہی رہ کر اپنے کھیتوں اور کنبوں کو سنبھالتی ہیں، جب کہ مرد پیسے کمانے کے لیے شہر چلے جاتے ہیں۔
سنیتا کے ساتھ اس گروپ میں ۶۰ سالہ سندھیا ورما بھی تھیں، جن کے فیملی کے پاس ۶-۵ بیگھہ (تقریباً ایک ایکڑ) کھیت ہے، جس پر یہ لوگ سیب اور سبزیاں اگاتے ہیں۔ تقریباً دو مہینے پہلے، انہوں نے بڑھاپے کے پنشن کے لیے اپلائی کیا تھا، لیکن انہوں نے بتایا کہ بزرگوں کو ہر مہینے صرف ۶۰۰ روپے ہی ملتے ہیں۔ ’’اتنے کم پیسے میں آپ کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
مارچ میں شامل ہونے والے ہزاروں کسانوں کی طرح، سنیتا اور سندھیا بھی یہی چاہتی تھیں کہ انہیں فصلوں کی بہتر قیمت اور کم سود پر قرض مل جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بڑھاپے کا پنشن ہر مہینے کم از کم ۴۰۰۰ روپے ہونا چاہیے۔ سنیتا نے کہا کہ اگر سرکار ان کے مطالبات کو مان لیتی ہے، تو ان کا یہ لمبا سفر با معنی ہو جائے گا۔
مترجم: محمد قمر تبریز