کلاس میں بیٹھے بچوں نے ایک ساتھ کہا، ’’انگریزی‘‘۔ ہم نے صرف ان سے یہی پوچھا تھا کہ اسکول میں ان کا پسندیدہ مضمون کیا ہے۔ حالانکہ، کسی بھی ہندوستانی اسکول کی کلاسوں میں پوچھا جانے والا یہ شاید سب سے بے تکا سوال ہے۔ اگر شروع کے دو بچے کھڑے ہو کر ’’انگریزی‘‘ کہیں گے تو بقیہ پوری کلاس ان دونوں کی ہی نقل کرے گی۔ لیکن اگر بچوں کو اس سوال کا جواب بغیر کسی سزا کے ڈر سے دینے کی اجازت ہوگی، تبھی آپ اسے پوچھنے کا صحیح طریقہ کہہ سکتے ہیں۔
لیکن یہ کوئی عام جگہ نہیں ہے۔ یہ ایڈالِپّارہ کا انٹیگریٹیڈ ٹرائبل ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اسکول ہے جس میں پڑھانے کے لیے صرف ایک ہی ٹیچر بحال ہیں، اور یہ کیرالہ کے دور افتادہ اور واحد آدیواسی پنچایت ایڈمال کوڈی میں واقع ہے۔ اسکول سے باہر آپ کسی کو انگریزی میں کچھ بھی بولتا ہوا نہیں سنتے ہیں۔ اسکول میں کوئی بورڈ یا پوسٹر نہیں دکھائی دیتا ہے، اور نہ انگریزی زبان میں لکھا کوئی دوسرا اشارہ ہی دستیاب ہے۔ اس کے باوجود جیسا کہ بچوں نے بتایا، انگریزی ان سب کا سب سے پسندیدہ مضمون تھا۔ بہت سارے دوسرے اسکولوں کی طرح ایڈوکّی ضلع کے اس اسکول کے ایک ہی کمرے میں پہلی جماعت سے چوتھی جماعت تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ اسکول کی پوری ذمہ داری ایک اکلوتی، لیکن واقعی میں ذمہ دار اور فرض شناس ٹیچر کے اوپر ہے، جنہیں نامواقع حالات میں بھی بہت زیادہ محنت کرنے کے باوجود اہلیت سے کہیں کم تنخواہ ملتی ہے۔ پھر بھی وہ اپنی ذمہ داریوں اور طلباء کی پڑھائی کے تئیں پوری طرح سے ایماندار ہیں۔
کلاس میں سب سے الگ سوچنے والا بھی ایک طالب علم ہے۔ پوری ہمت کے ساتھ وہ چھوٹا بچہ کھڑا ہو کر بولتا ہے، ’’میتھمیٹکس‘‘۔ ہمیں اپنا میتھ دکھاؤ، اسے کلاس کے سامنے کھڑا کر کے ہم نے مانگ کی۔ اس نے فوراً ہماری بات مان لی اور پھر ۱ سے ۱۲ تک پہاڑے سنانے لگا۔ اس نے نہ تو اپنی تعریف کی پرواہ کی اور نہ آرام کرنے کے لیے ایک لمحہ بھی رکا۔
ہم ٹیچر کے قریب والی بینچ کی طرف مڑے۔ اُس پر پانچ لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں جو بظاہرً کلاس کی سب سے با صلاحیت طالبات تھیں۔ طلباء کے کلاس میں بیٹھنے کے خاص انتظام سے یہی لگتا تھا۔ کلاس میں زیادہ سے زیادہ عمر کی لڑکی بمشکل ۱۲ سال کی رہی ہوگی۔ باقیوں کی عمر نو سال کی یا اس سے بھی کم کی رہی ہوگی۔ اُس لڑکے نے ریاضی کو اچھی طرح یاد کر رکھا تھا، یہ بات ہم جلد ہی سمجھ چکے تھے۔ اب ان طلباء کے لیے یہ ثابت کرنے کی باری تھی کہ انگریزی سچ میں ان کا پسندیدہ مضمون ہے۔ تو لڑکیوں، اب تھوڑی انگریزی سنیں!
لڑکیاں تھوڑا شرما رہی تھیں، جو کہ فطری بات تھی؛ آخر ہم آٹھ عجیب سے نظر آنے والے اجنبی ان کی کلاس میں بغیر کسی حق کے گھُس آئے تھے۔ تبھی ٹیچر ایس وجے لکشمی نے کہا: ’’بچیوں، انہیں ایک گیت سناؤ۔‘‘ اور لڑکیوں نے فوراً ان کی بات مانی۔ ہم سبھی یہ جانتے ہیں کہ آدیواسی اچھا گا سکتے ہیں۔ اُن پانچوں مُتوَن لڑکیوں نے بھی بہت خوبصورت گایا۔ وہ سبھی پوری طرح سے سُر میں تھیں۔ ان کا ایک بھی لفظ اپنی لَے سے نہیں بھٹکا تھا۔ اس کے بعد بھی وہ ابھی تک تذبذب میں مبتلا تھیں۔ ننہی سی ویدہی نے اپنی گردن جھکائے رکھی تھی اور سامعین کو دیکھنے کی بجائے اپنی ڈیسک پر آنکھیں ٹکا رکھی تھیں۔ بہرحال، انہوں نے لاجواب گایا تھا، یہ اور بات تھی کہ گیت کے بول عجیب و غریب تھے۔
یہ آلو کے بارے میں گایا گیا ایک گیت تھا۔
یہاں لوگ ایڈوکی کی پہاڑیوں میں صرف رتالو (جمی قند) پیدا کرتے ہیں، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے، ایڈالپّارہ کے ارد گرد کے سو کلومیٹر کے دائرے میں آلو کی کھیتی نہیں ہوتی ہے۔
جو بھی سچ ہو – گیت میں آپ خود بھی سن سکتے ہیں – جو کچھ ایسا ہے:
آلو، آلو
او، میرے پیارے آلو
آلو مجھے پسند ہے
آلو تجھے پسند ہے
ہم سب کو آلو پسند ہے
آلو، آلو، آلو
یہ گیت اتنی اچھی طرح گایا گیا ہے، اور انہوں نے اس معمولی سے قند کی تعریف کا اتنی خوبصورتی سے ذکر کیا ہے، جسے شاید وہ کبھی کھائیں گی بھی نہیں۔ (ہو سکتا ہے کہ ہم غلط ثابت ہوں۔ بتاتے ہیں کہ مُنّار کے قریب کے چند گاؤوں میں اب آلو کی کھیتی شروع ہو چکی ہے۔ وہ تقریباً ۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہوں گے)۔ بہرحال، گانے کے بول ہماری زبان پر چڑھ گئے اور لمبے وقت تک یاد رہے۔ ہفتوں بعد بھی ہم میں سے زیادہ لوگ اُس گانے کو گُنگناتے رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ ہم اس لذیذ کھانے کی شے کے زبردست عاشق ہیں – جو کہ ہم آٹھوں واقعی ہیں بھی – بلکہ ایسا اس لیے ہے کہ گیت کے بول ہمیں اپنے ترنم اور مستی میں باندھ لیتے ہیں۔ گانے کی پیشکش بھی بیحد جادوئی اور اثردار ہے۔
پھر سے کلاس کی طرف لوٹتے ہیں۔ کافی جوش بھرنے اور سمجھانے کے بعد ہم نے لڑکیوں کو ویڈیو کیمرہ کے سامنے گیت کو دہرانے کے لیے راضی کیا تھا، اور اب لڑکوں پر اپنی توجہ مرکوز کر دی تھی۔ لڑکیوں نے انہیں پچھاڑ دیا تھا، ہم نے اشارہ بھی کیا۔ لیکن کیا وہ گیت کے معاملے میں لڑکیوں سے مقابلہ کرنے کے قابل تھے؟ انہوں نے ہمارے چیلنج کو قبول کیا۔ لیکن ان کی پیشکش گلوکاری کی بنسبت سبق کے زیادہ قریب تھی، اور وہ گیت کی ادائیگی کے معاملے میں لڑکیوں کے سامنے ٹک پانے میں ناکام تھے۔ البتہ ان کے گیت کے بول ضرور بڑے انوکھے اور دلچسپ تھے۔
لڑکوں نے جو سنایا، وہ ایک ’ڈاکٹر کے نام درخواست‘ جیسا ایک گیت تھا۔ ایسے گیت لکھ پانا، انہیں پڑھ پانا یا انہیں گا پانا صرف ہندوستان میں ہی ممکن ہے۔ میں گیت کے تمام الفاظ بتا کر آپ کو بہکانا نہیں چاہوں گا، اور نہ ہی اس پوسٹر میں ان کے ڈاکٹر ویڈیو کو دینا چاہوں گا۔ یہ شاید ٹھیک بھی نہیں رہے گا کہ ایک ہی اسٹوری میں دو اچھی چیزیں آ جائیں۔ یہ حصہ دراصل اُن ’غیر معمولی پانچ‘ لڑکیوں: انشیلا دیوی، اوما دیوی، کلپنا، ویدیہی، اور جیسمن کے لیے ہے۔ بہرحال، میں یہ ضرور کہوں گا کہ ڈاکٹر کی درخواست میں کچھ مخصوص ہندوستانی طرز کی لائنیں ضرور تھیں، جیسے میرے پیٹ میں درد ہے، ڈاکٹر، مجھے آپریشن کی ضرورت ہے، ڈاکٹر۔ آپریشن، آپریشن، آپریشن۔‘‘
لیکن وہ ایک دوسرا گیت ہے۔ اور، اس ویڈیو کے لیے کسی اور دن کا انتظار کرنا ہوگا۔
تب تک آپ اس ’پوٹیٹو سانگ‘ کا مزہ لیجئے۔
یہ مضمون بنیادی طور پر ۲۶ جون، ۲۰۱۴ کو P.Sainath.org پر شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز