جب ہم ملے، تو ان کی عمر تقریباً ۱۰۴ سال رہی ہوگی۔ وہ اپنے کمرے سے باہر آ رہی تھیں، اور سہارا دینے والے بڑھتے ہاتھوں کو فوراً جھڑک دے رہی تھیں۔ اپنی چھڑی کے علاوہ بھوانی مہتو نے زندگی میں کسی کا سہارا نہیں لینا چاہا، اور نہ کبھی لیا۔ اس عمر میں بھی وہ پوری طرح متحرک تھیں، اور چلتی پھرتی اور اٹھتی بیٹھتی تھیں۔ بلکہ مغربی بنگال کے پرولیا ضلع کے چیپوا گاؤں میں رہنے والے ان کے وسیع مشترکہ خاندان کی نسلیں اکثر اپنے گزارہ کے لیے اس کسان اور تنہا گھر کی تمام ذمہ داریاں سنبھالنے والی عورت پر منحصر تھیں، جو ان کی زندگیوں اور ان کے مستقبل کا محور تھیں۔
مجاہدہ آزادی بھوانی مہتو ۳۰-۲۹ اگست، ۲۰۲۴ کی نصف شب کو نیند کی آغوش میں تھیں، اور اسی حالت میں ہم سے جدا ہو گئیں۔ وہ ۱۰۶ سال کی ہو چکی تھیں۔ ان کی وفات کے ساتھ، میری کتاب ’دی لاسٹ ہیروز: ہندوستانی جدوجہد آزادی کے پیدل سپاہی‘ (پنگوئن سے نومبر ۲۰۲۲ میں شائع) میں شامل ۱۶ مجاہدین آزادی میں سے اب صرف چار انقلابی ہی زندہ رہ گئے ہیں۔ ایک معنی میں، بھوانی اُن تمام غیر معمولی مجاہدین آزادی سے الگ تھیں جن کے انٹرویو پاری کی مجاہدین آزادی کی گیلری میں درج ہیں۔ وہ اکیلی تھیں، جنہوں نے گھنٹوں چلی ہماری گفتگومیں آزادی کی عظیم جدوجہد میں اپنے کسی رول سے انکار کیا اور اپنی بات پر بضد رہیں۔ مارچ ۲۰۲۲ میں جب ہم ان سے پہلی بار ملے تھے، تو انہوں نے کہا تھا، ’’اس سے یا کسی بھی دیگر تحریک سے میرا کیا لینا دینا۔‘‘ پڑھیں: مجاہدین آزادی کو کھانا کھلانے والی بھوانی مہتو
سال ۱۹۴۰ کی دہائی میں، بنگال میں زبردست قحط پڑا تھا۔ اُس دوران بھوانی مہتو پر ذمہ داریوں کا بوجھ سب سے زیادہ تھا۔ اُس دوران انہوں نے جو مشکلیں برداشت کیں، ان کا تصور کر پانا بھی ناممکن سی بات لگتی ہے
درحقیقت، ان کی قربانی بہت بڑی تھی، یہاں تک کہ اپنے انقلابی شوہر ویدیہ ناتھ مہتو سے بھی زیادہ، جنہیں مجاہد آزادی کا درجہ ملا ہوا تھا اور ان کی عزت و شہرت بھی تھی۔ مان بازار بلاک میں واقع ان کے گھر جب ہم پہنچے، اس سے ۲۰ سال قبل ہی ویدیہ ناتھ مہتو کا انتقال ہو چکا تھا۔ میری رفیق کار اسمیتا کھٹور اور میں تب بہت مایوس ہوئے، جب انہوں نے پوری مضبوطی کے ساتھ خود کے مجاہدہ آزادی ہونے کو خارج کردیا تھا۔ اور اس کی وجہ کو سمجھنے میں ہمیں گھنٹوں لگے تھے۔
وہ ۱۹۸۰ کی ’سوسنترتا سینک سمّان یوجنا‘ کے مطابق ’سوتنترتا سینانی‘ (مجاہد آزادی) کی تعریف کے حساب سے سوچتی تھیں اور اس کے تئیں ایماندار تھیں۔ خواتین اور برطانوی سلطنت کے خلاف ان کی جدوجہد کو بڑے پیمانے پر اس تعریف سے باہر رکھا گیا؛ اور تحریک میں جیل جانے کو کافی اہمیت دی گئی – جس کی وجہ سے زیر زمین انقلابیوں کا بڑا حصہ بھی اس سے باہر ہو گیا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ تھی کہ زیر زمین انقلابیوں سے ان کے کاموں/جرائم کے ’ثبوت‘ مانگے گئے – یعنی کہ برطانوی حکومت کے کاغذوں کی بنیاد پر ہندوستانی جدوجہد آزادی کے ہیروز کی تصدیق کی جا رہی تھی!
جب ہم نے الگ نظریہ سے چیزوں پر نظر ڈالی، الگ طریقے سے ان پر گفتگو کی اور سمجھ پائے، تو بھوانی مہتو کی عظیم قربانی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پرولیا کے جنگلوں میں چھپے زیر زمین انقلابیوں کا پیٹ پالنے کے چکر میں انہوں نے بہت خطرہ اٹھایا تھا۔ وہ اکثر ۲۰ یا اس سے زیادہ انقلابیوں کے لیے کھانا بناتی تھیں اور کھلاتی تھیں – اسی زمانے میں وہ ۲۵ سے زیادہ افراد پر مشتمل خاندان کا پیٹ بھی پال رہی تھیں۔ اس کے علاوہ، ۴۳-۱۹۴۲ میں، جب بنگال کا زبردست قحط اپنے عروج پر تھا، اس وقت اناج پیدا کرنا اور کھیتی کرنا بھی ان کے ہی ذمہ تھا۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں ان کا تعاون کتنا ناقابل یقین ہے اور کتنے خطرات سے بھرا رہا ہے!
آپ کی بہت یاد آئے گی بھوانی دیدی۔
مترجم: قمر صدیقی