گہرے نیلے رنگ کے کُرتے میں ملبوس، کڑھائی والی لنگی باندھے اور خوشبودار چمیلی کی لڑی اپنے بالوں میں لپیٹے ایم پی سیلوی – بریانی ماسٹر کرومبوکاڈئی ایم پی سیلوی – اپنے بڑے باورچی خانے میں داخل ہوتی ہیں۔ ان کے کیٹرنگ یونٹ کے عملے کی نظر ان پر پڑتی ہے، بات چیت بند ہو جاتی ہے اور ایک کارکن انہیں سلام کرتا ہے اور ان کا بیگ لے لیتا ہے۔
سیلوی یہاں ’بریانی ماسٹر‘ ہیں اور فوری طور پر ۶۰ سے زیادہ افراد پر مشتمل اس بڑے باورچی خانے کا احترام حاصل کرلیتی ہیں۔ چند منٹوں میں ہر شخص فعال ہو جاتا ہے، اور دھویں اور شعلوں سے اڑنے والی چنگاریوں سے بے پرواہ تیز رفتاری اور مؤثر طریقے سے کام میں لگ جاتا ہے۔
یہ مشہور بریانی سیلوی اور ان کے باورچیوں کے ذریعہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے تیار کی جا رہی ہے۔ یہ دم مٹن بریانی ہے، جس میں گوشت اور چاول کو ایک ساتھ پکاتے ہیں، دوسری بریانیوں کے برعکس جن میں بریانی کے ان دو اہم لوازمات کو الگ الگ پکایا جاتا ہے۔
’’میں کوئمبٹور کی دم بریانی کی ماہر ہوں،‘‘ ۵۰ سالہ ٹرانس وومین کہتی ہیں۔ ’’میں یہ سب تنہا سنبھالتی ہوں۔ میں سب کچھ ذہن میں رکھتی ہوں۔ کئی مرتبہ تو ہمیں چھ ماہ پہلے ہی بک کر لیا جاتا ہے۔‘‘
جب وہ ہم سے بات کر رہی ہیں، بریانی مصالحے سے لبریز ایک سَٹووم (بڑا چمچ) ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ سیلوی میرینیڈ کو چکھ کر سر ہلا دیتی ہیں، ’’ٹھیک ہے۔‘‘ یہ آخری اور ذائقہ کا سب سے اہم مرحلہ ہے اور جب ہیڈ شیف ڈش کی توثیق کر دیتی ہیں تو سبھی راحت محسوس کرتے ہیں۔
’’سبھی لوگ مجھے ’سیلوی امّاں‘ کہے ہیں۔ ایک ’تیروننگئی‘ [ٹرانس وومین] کے لیے ’اماں‘ کہلانا خوشی کی بات ہے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔
وہ شہر کے ایک کم آمدنی والے رہائشی علاقے پُلّوکاڈو میں واقع اپنے گھر سے کیٹرنگ سروس چلاتی ہیں، اور بشمول ۱۵ ٹرانس افراد کے ۶۵ لوگوں کو ملازمت دیتی ہیں۔ ایک ہفتے میں یہ ٹیم ۱۰۰۰ کلو تک بریانی کے آرڈر تیار کرتی ہے اور بعض اوقات اس مقدار میں چند شادیوں میں پکنے والی بریانی بھی شامل ہو جاتی ہے۔ ایک بار سیلوی نے شہر کی ایک بڑی مسجد کے لیے ۳۵۰۰ کلو بریانی تیار کی تھی، جسے تقریباً ۲۰ ہزار لوگوں کو کھلایا گیا تھا۔
’’مجھے کھانا پکانا کیوں پسند ہے؟ ایک بار بریانی کھانے کے بعد عابدین نامی ایک گاہک نے مجھے فون کیا اور کہا کہ کیا ہی ذائقہ ہے! گوشت ہڈیوں سے برف کی طرح پگھل رہے تھے۔‘‘ لیکن یہ صرف ذائقہ کا معاملہ نہیں ہے: ’’میرے گاہک ایک ٹرانس جینڈر شخص کے ہاتھوں سے بنایا ہوا کھانا کھاتے ہیں۔ یہ ایک نعمت کی طرح محسوس ہوتا ہے۔‘‘
جس دن ہم وہاں جاتے ہیں، اس دن ایک شادی کی دعوت کے لیے ۴۰۰ کلو گرام بریانی بنائی جاتی ہے۔ ’’میری مشہور بریانی میں کوئی ’سیکریٹ‘ مصالحہ نہیں ہے!‘‘ سیلوی اماں کہتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں کہ ان کا ذائقہ تفصیل پر توجہ کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ ’’میرا دماغ ہمیشہ دیگچی پر رہتا ہے۔ مجھے خود دھنیا پاؤڈر، گرم مصالحے اور الائچی جیسے مصالحے شامل کرنا پسند ہے،‘‘ ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلانے والے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں۔
شادی کی بریانی کے لوازمات ان کے دو ملازمین، تملرسن اور ایلورسن، تیار کر رہے ہیں۔ یہ دونوں بھائی ہیں اور ان کی عمریں تیس کی دہائی میں ہیں۔ وہ سبزیاں کاٹ رہے ہیں، مصالحے ملا رہے ہیں اور ایندھن کی لکڑی کی جانچ کر رہے ہیں۔ اگر کوئی بڑی تقریب ہوتی ہے تو بریانی بنانے میں پورا دن اور پوری رات لگ جاتی ہے۔
اپریل اور مئی کے چھٹیوں کے موسم میں سیلوی اماں کی مصروفیت بطور خاص بڑھ جاتی ہے۔ اس موسم میں انہیں ۲۰ آرڈر تک موصول ہو جاتے ہیں۔ ان کے باقاعدہ گاہک عموماً مسلمان ہوتے ہیں، اور وہ اکثر شادیوں اور منگنی کی تقریبات کے لیے کھانا پکاتی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’چاہے وہ کتنے ہی بڑے کروڑ پتی کیوں نہ ہوں، وہ مجھے ’اماں‘ ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔‘‘
مٹن بریانی یہاں کا مقبول ترین کھانا ہے، لیکن سیلوی چکن اور بیف بریانی کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔ ایک کلو چاول کی بریانی تقریباً چار سے چھ لوگ کھا سکتے ہیں۔ وہ ایک کلو بریانی پکانے کے لیے اجرت کے طور پر ۱۲۰ روپے وصول کرتی ہیں، جبکہ اس میں شامل لوازمات کی قیمت الگ سے ہوتی ہے۔
چار گھنٹے تک بریانی تیار کرنے کے بعد سیلوی اماں کے کپڑے بریانی میں استعمال شدہ تیلوں اور مصالحوں سے آلودہ ہو جاتے ہیں۔ کچن کی گرمی سے ان کا چہرہ پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔ ان کے پیچھے موجود خاکستری رنگ کا کمرہ بڑی دیگچیوں کے نیچے جل رہے آگ کے شعلوں سے روشن ہو رہا ہے۔
’’لوگ میرے باورچی خانے میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے ہیں۔ ہم جو کام کرتے ہیں اس کے لیے عملے کی تلاش آسان ہے،‘‘ وہ وضاحت کرتی ہیں۔ ’’ہم وزن اٹھاتے ہیں اور آگ کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ اگر وہ میرے لیے کام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ مشکل کام کرنے پڑتے ہیں۔ اور جو ایسا نہیں کرنا چاہتے وہ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘
چند گھنٹوں کے بعد سبھی ناشتے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ قریب کے ریسٹورنٹ سے پراٹھے اور بیف کا قورمہ منگایا جاتا ہے۔
سیلوی اماں کا بچپن کھانے کی کمی کے ساتھ گزرا تھا۔ ’’ہمارے کنبے کو کھانا بہت مشکل سے ملتا تھا۔ ہم صرف مکئی پر گزارہ کرتے تھے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’چاول ہمارے لیے ہر چھ ماہ میں صرف ایک بار دستیاب ہوتا تھا۔‘‘
ان کی پیدائش ۱۹۷۴ میں پُلّوکاڈو، کوئمبٹور کے زرعی مزدوروں کے ایک کنبے میں ہوئی تھی۔ جب انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک ٹرانس جینڈر ہیں (پیدائش کے وقت ان کی جنس مرد تفویض کی گئی تھی، لیکن وہ اپنی شناخت بطور عورت کرتی ہیں)، وہ حیدرآباد اور وہاں سے ممبئی اور پھر دہلی گئیں۔ ’’مجھے یہ پسند نہیں آیا، اس لیے میں کوئمبٹور واپس آگئی اور دوبارہ نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ میں کوئمبٹور میں ایک ٹرانس جینڈر خاتون کی حیثیت سے عزت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
سیلوی نے ۱۰ ٹرانس بیٹیوں کو گود لے رکھا ہے، جو ان کے ساتھ رہتی ہیں اور کام کرتی ہیں۔ ’’صرف ٹرانس خواتین ہی نہیں، بلکہ دیگر مرد اور خواتین بھی اپنی بقا کے لیے مجھ پر انحصار کرتے ہیں۔ سب کو کھانا ملنا چاہیے۔ میں سب کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
*****
ایک بزرگ ٹرانس شخص نے سیلوی اماں کو کھانا پکانا سکھایا تھا اور ۳۰ سال بعد بھی وہ اس ہنر کو نہیں بھولی ہیں۔ ’’شروعات میں، میں نے بطور ہیلپر (مددگار) کام کیا اور آخری چھ سال تک ان کی معاون رہی۔ وہ مجھے دو دن کے کام کے ۲۰ روپے دیتے تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی رقم تھی، لیکن میں خوش تھی۔‘‘
انہوں نے کھانا پکانے کے اس ہنر کو دوسروں تک منتقل کیا ہے۔ سیلوی اماں کی گود لی ہوئی بیٹی سارو نے ان سے یہ ہنر سیکھا ہے اور آج وہ خود بریانی کی استاد بن چکی ہیں، اور جیسا کہ سیلوی فخریہ لہجے میں کہتی ہیں، ’’وہ ہزاروں کلو گرام کی بریانی کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘
’’ٹرانس جینڈر برادری میں بیٹیاں اور پوتیاں بھی شامل ہیں۔ اگر ہم انہیں کوئی ہنر سکھائیں گے، تو ان کی زندگیاں سنور جائیں گی،‘‘ سیلوی کہتی ہیں جو خود انحصاری کو سب سے بڑا تحفہ سمجھتی ہیں جو وہ دوسرے ٹرانس جینڈر افراد کو منتقل سکتی ہیں، ’’ورنہ ہمیں دَھنتا [جنسی کام] یا یاسکم [گداگری] کرنی پڑے گی۔‘‘
وہ وضاحت کرتی ہیں کہ صرف ٹرانس خواتین ہی نہیں (بلکہ دیگر مرد و خواتین بھی) ان پر منحصر ہیں۔ ولّی اماں اور سندری ان کے ساتھ ۱۵ سالوں سے بھی زیادہ عرصے سے کام کر رہیں ہیں۔ ’’میں چھوٹی تھی جب میں سیلوی اماں سے ملی،‘‘ عمر میں اپنے آجر سے بڑی ولّی اماں کہتی ہیں۔ ’’میرے بچے چھوٹے تھے۔ تب یہ کمائی کا واحد ذریعہ تھا۔ اب جب کہ میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں اور کما رہے ہیں، تو وہ چاہتے ہیں کہ میں آرام کروں۔ لیکن مجھے کام کرنا پسند ہے۔ میں جو پیسہ کماتی ہوں اس سے مجھے آزادی ملتی ہے۔ میں اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکتی ہوں، کہیں گھومنے پھرنے جا سکتی ہوں!‘‘
سیلوی اماں کہتی ہیں کہ وہ اپنے ملازمین کو ایک دن کی اجرت کے طور پر ۱۲۵۰ روپے ادا کرتی ہیں۔ بعض اوقات جب آرڈرز بہت بڑے ہوتے ہیں، تو ٹیم کو ۲۴ گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ہمیں صبح کی تقریب کے لیے کھانا پکانا ہو تو ہم سوتے ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں اجرت بڑھ کر ۲۵۰۰ روپے ہو جاتی ہے۔‘‘ اور وہ زور دے کر کہتی ہیں، ’’آپ کو یہ رقم ملنی ہی چاہیے۔ یہ عام کام نہیں ہے۔ ہم آگ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘
بڑے باورچی خانے کا تقریباً ہر کونا آگ کے شعلوں سے روشن ہے۔ یہاں تک کہ ابلتی ہوئی بریانی کی دیگچی کے ڈھکن کے اوپر جلتی ہوئی لکڑیوں کے ٹکڑے رکھے جاتے ہیں۔ ’’آپ آگ سے نہیں ڈر سکتے،‘‘ سیلوی اماں کہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی زخمی نہیں ہوتا ہے۔ ’’ہمیں جلنے کے زخم بھی لگ جاتے ہیں، آپ کو محتاط رہنا پڑتا ہے،‘‘ وہ خبردار کرتی ہیں۔ ’’ہمیں اس آگ سے تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن جب آپ سوچتے ہیں کہ آپ سو روپے کما سکتے ہیں اور ایک ہفتہ خوشی سے کھا سکتے ہیں تو وہ تکلیف دور ہو جاتی ہے۔‘‘
*****
ایک شیف کا دن جلد شروع ہو جاتا ہے۔ سیلوی اماں صبح ۷ بجے بیگ ہاتھ میں لیے نکلتی ہیں، اور ۱۵ منٹ کے سفر کے لیے کرمبوکاڈئی میں اپنے گھر کے باہر ایک آٹو والے کو آواز دیتی ہیں۔ حالانکہ ان کا دن صبح ۵ بجے سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے جب وہ اپنی گایوں، بکریوں، مرغیوں اور بطخوں کو چارہ ڈالتی ہیں۔ سیلوی اماں کی گود لی ہوئی ۴۰ سالہ بیٹی مایاکا ان جانوروں کو کھانا کھلانے، ان کا دودھ نکالنے اور انڈے جمع کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ سیلوی کو اپنے جانوروں کو کھانا کھلانا پسند ہے کیونکہ ’’وہ میرے دماغ کا بوجھ کم کرنے میں مدد کرتے ہیں، خاص طور پر باورچی خانے میں میرے ہائی پریشر والے کام کے بعد کے اوقات میں۔‘‘
ماسٹر بریانی شیف کا کام گھر واپس آنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بھروسہ مند ساتھیوں – ایک ڈائری اور قلم – کی مدد سے تمام بکنگ کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ وہ اگلے دن کی دعوت کے لیے تمام اشیاء کو بھی منظم کرتی ہیں۔
’’میں صرف ان لوگوں سے کام لیتی ہوں جو مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں،‘‘ اپنا خود کا کھانا پکانے کے لیے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے سیلوی اماں کہتی ہیں۔ ’’مجھے بیکار رہنا اور صرف کھانا اور سونا پسند نہیں ہے۔‘‘
سیلوی کا کہنا ہے کہ وبائی مرض کے دوران تین سالوں تک کام نہیں تھا۔ ’’ہمارے پاس اپنی بقا کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا، اس لیے ہم نے دودھ دینے والی ایک گائے خریدی۔ اب ہمیں روزانہ تین لیٹر دودھ کی ضرورت ہوتی ہے؛ اضافی دودھ فروخت کر دیا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
ان کا گھر تمل ناڈو اربن ہیبی ٹاٹ ڈیولپمنٹ بورڈ کے کوارٹرز میں ہے۔ آس پاس کے زیادہ تر کنبوں کا تعلق درج فہرست ذاتوں سے ہے اور وہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ’’یہاں امیر لوگ نہیں رہتے ہیں۔ ہر شخص مزدور طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر کسی کو اپنے بچوں کے لیے اچھے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ میرے پاس آتا ہے۔‘‘
’’ہم یہاں ۲۵سال سے مقیم ہیں۔ حکومت نے سڑک کی تعمیر کے لیے ہماری زمین حاصل کی تھی اور [اس کے بدلے میں] ہمیں یہاں ایک گھر فراہم کیا گیا تھا،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہوئے مزید اضافہ کرتی ہیں، ’’یہاں کے لوگ ہمارا احترام کرتے ہیں۔‘‘
مترجم: شفیق عالم