’’آؤ آؤ سنو اپنی بھوشیہ وانی، سنو اپنی آگے کی کہانی…‘‘ جوہو بیچ پر شام کی گہماگہمی کے درمیان ان کی آواز کسی گہرے منتر کی طرح گونجتی ہے۔ مضافاتی ممبئی کے چہل پہل سے بھرے اس سمندری ساحل پر یہ غروب آفتاب کا وقت ہے، اور ۲۷ سال کے اُدے کمار لوگوں کو ان کے مستقبل کے بارے میں سننے کے لیے مدعو کر رہے ہیں۔
وہ کوئی تربیت یافتہ نجومی نہیں ہیں، اور نہ ہی ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کے ماہر، یا گلے میں گلابی گھیرے والا طوطا لیے کوئی ٹیرو کارڈ ریڈر ہی۔ وہ تو وہاں چار فٹ اونچے فولڈ ایبل ٹیبل پر رکھے ایک چھوٹے سے تقریباً ایک فٹ کے روبوٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، جس پر آرائشی قمقمے لگے ہوئے ہیں۔ ’’اسے جیوتش کمپیوٹر لائیو اسٹوری کہتے ہیں،‘‘ وہ اس رپورٹر سے روبوٹ کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں۔
اپنی جانب ایک آدمی کو آتا ہوا دیکھ کر مشین سے جڑے ہیڈ فون کو اس متجسس گاہک کے ہاتھ میں سونپتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یہ آلہ آدمی کے لمس کا تجزہ کرنے کے قابل ہے۔ ایک چھوٹے سے وقفہ کے بعد ہندی میں بولتی ایک خاتون کی آواز اس آدمی کے مستقبل میں پوشیدہ رازوں کو اس کے سامنے ظاہر کرنے لگے گی۔ اس خدمت کے عوض کسی کو بھی صرف ۳۰ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔
اُدے اپنے چچا رام چندر سے وراثت میں ملے اس تکنیکی عجوبہ کے اکیلے وارث ہیں، جو کئی دہائی قبل بہار کے گیندھا گاؤں سے ممبئی چلے گئے تھے اور وہاں راجو کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جب جب ان کے چچا گھر لوٹتے، ان کے ساتھ شہر کی کچھ کہانیاں بھی ہوتیں۔ ’’چچا نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کے پاس ایک عجوبہ ہے جو لوگوں کو ان کا مستقبل بتا سکتا ہے، اور کیسے وہ اس عجوبہ کی مدد سے پیسے کما رہے ہیں۔ ان کی بات کو مذاق سمجھ کر لوگ ان پر ہنستے تھے۔ لیکن، یہ باتیں مجھے اپنی جانب راغب کرتی تھیں!‘‘ اُدے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ راجو نے ہی اپنے ۱۱ سالہ بھتیجے کو اس میٹروپولیٹن شہر کی حیرت انگیز دنیا اور اس مشین سے متعارف کرایا تھا۔
کچھ بیگھے کی اپنی پشتینی زمین پر ہونے والی پیداوار پر منحصر رہنے والے اُدے کے والدین کو ہمیشہ مالی تنگیوں سے گزرنا پڑا، اور یہی وجہ تھی کہ انہیں چوتھی جماعت کے بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ بہار کے ویشالی ضلع میں اپنا گاؤں چھوڑتے ہوئے یہ بات بھی ان کے ذہن میں تھی کہ فیملی کو ان کی مالی مدد کی ضرورت ہے۔ ممبئی میں اپنے چچا راجو کے پاس وہ اسی ارادے سے آئے تھے۔ تب وہ نوخیز عمر کے تھے۔ ’’وہ مشین دیکھنا تھا اور ممبئی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے ماضی کی یادوں میں ڈوب سے گئے۔
راجو کو یہ بھی یاد ہے کہ ۹۰ کی دہائی میں ممبئی لائی گئی ان کے چچا کی اُس مشین کو چنئی اور کیرالہ کے کاریگروں نے بنایا تھا۔ راجو چچا نے ان میں سے ایک کاریگر سے مل کر کرایے پر ایک مشین کا انتظام کیا تھا اور مستقبل بتانے کے اس کاروبار میں ہاتھ آزمانے کی شروعات کی تھی۔
’’اس وقت اس کام میں تقریباً ۲۵-۲۰ لوگ تھے،‘‘ اُدے بتاتے ہیں۔ ’’ان میں سے زیادہ تر لوگ جنوبی ہندوستان کی ریاستوں اور بہار اور اتر پردیش کے چند ضلعوں سے تھے۔ ان سب کے پاس ایک جیسی ہی مشینیں تھیں۔‘‘
راجو کی طرح ہی وہ سب بھی حیرت پیدا کرنے والی مشینوں کے ساتھ شہر میں یہاں وہاں گھومتے رہتے تھے، لیکن جوہو بیچ ان آوارگی کرنے والوں کا ایک خاص ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ ادے بھی اپنے چچا کے ساتھ پورے شہر میں گھومتے رہتے تھے۔ چچا کی ایک چوتھائی کمائی مشین کا کرایہ ادا کرنے میں ختم ہو جاتی تھی۔ مشین کی قیمت تقریباً ۴۰ ہزار روپے تھی۔ اُدے کے چچا راجو کے لیے شروعات میں اتنی مہنگی مشین کو خرید پانا مشکل تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے اسے خرید لیا۔
بہت کوششوں کے باوجود اُدے اس مشین کو اپنے ہاتھوں سے بنانے کی ترکیب نہیں ڈھونڈ سکے۔ مستقبل بتانے والی یہ مشین کئی سال پہلے راجو کے گزر جانے کے بعد ہی انہیں وراثت میں مل پائی۔ چونکہ اُدے اس مشین اور پیشہ کے تئیں شروع سے ہی پر اعتماد تھے، اس لیے اس روایت کو آگے بڑھانے کی صلاحیت بھی وہی رکھتے تھے۔
تقریباً دس سال پہلے لوگ اپنے مستقبل کی ایک جھلک پانے کے لیے ۲۰ روپے ادا کرتے تھے، لیکن گزشتہ چار سالوں میں یہ بڑھ کر صرف ۳۰ روپے تک ہی پہنچ پایا ہے۔ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے اس دھندے پر بہت برا اثر ڈالا۔ ’’کئی لوگوں نے یہ کام چھوڑ دیا،‘‘ اُدے کہتے ہیں۔ وبائی مرض کے بعد اس کام کو جاری رکھنے والے وہ شاید آخری شخص ہیں۔
حالانکہ، خود اُدے کے لیے بھی صرف اس مشین سے ہونے والی آمدنی پر منحصر رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان کی بیوی اور پانچ سال کا بیٹا گاؤں میں رہتے ہیں۔ انہیں امید ضرور ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ممبئی لا کر پڑھا سکیں گے۔ صبح کے وقت وہ کئی دوسرے کام کرتے ہیں – مثلاً کہیں حساب کتاب کرنے کا کام یا پرچیاں بیچنے جیسے چھوٹے موٹے کام۔ وہ اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے ان تمام کاموں کو کرنے کے خواہش مند ہیں جو انہیں مل جائے۔ ’’جب مجھے صبح کوئی کام نہیں ملتا ہے، تب میں ہمیشہ یہاں اس روبوٹ کے ساتھ کھڑا رہتا ہوں، تاکہ میں کچھ پیسے کما کر اپنی فیملی کو بھیج سکوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اُدے جوہو بیچ کے کناروں پر شام ۴ بجے تک پہنچ جاتے ہیں اور آدھی رات تک وہیں رہتے ہیں۔ انہیں ڈر لگتا ہے کہ کسی دوسری جگہ اتنی رات تک رہنے سے ان کو جرمانہ دینا پڑ سکتا ہے۔ مشین کو کہیں لے کر جانا بھی بہت آسان کام نہیں ہے۔ کمائی کے لحاظ سے ہفتے کے آخری دن ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں، جب ان کے پاس عام دنوں کے مقابلے اچھے خاصے گاہک آتے ہیں۔ اچھی کمائی کے دنوں میں وہ ۵۰۰-۳۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔ کل ملا کر وہ ایک مہینہ میں ۷ سے ۱۰ ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔
’’گاؤں میں لوگ مشین پر نہیں، بلکہ نجومیوں پر یقین کرتے ہیں، اس لیے وہاں اس کام میں زیادہ کمائی نہیں ہے،‘‘ اُدے بتاتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے گؤں کے دوسرے بہاریوں کو مشین کی اس کرشمائی طاقت کے تئیں بھروسہ دلانے میں ناکام رہے۔ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ اس کام کے لیے ممبئی صحیح جگہ ہے، جب کہ بیچ پر تفریح کے لیے آنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے مستقبل بتانے والی یہ مشین تفریح کا ذریعہ ہے، اور اس کی معتبریت ان کے لیے مشکوک ہے۔
’’کچھ لوگ اس روبوٹ کا مزہ لیتے ہیں اور اس پر ہنستے ہیں، اور کچھ لوگ اسے دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ ابھی حال فی الحال میں جب اپنے ایک دوست کے کہنے پر ایک آدمی نے اس مشین کو آزمایا، تو پہلے تو اسے اس پر یقین نہیں ہوا، لیکن بعد میں وہ اس مشین سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پایا۔ اس نے مجھے بتایا کہ روبوٹ کو یہ بات معلوم تھی کہ مجھے پیٹ سے متعلق کچھ شکایتیں ہیں، اور زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی باتیں کہنے والے مجھے کئی دوسرے لوگ بھی ملے،‘‘ اُدے بتاتے ہیں۔ ’’یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ ان چیزوں پر کتنا یقین کرتے ہیں۔‘‘
’’اس مشین نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا،‘‘ مشین کے کام کاج پر فخر کے ساتھ اُدے کہتے ہیں۔
کیا یہ کبھی اچانک بند نہیں ہوئی؟
اُدے بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی ایسی حالت پیدا ہونے پر وہ اسے شہر میں موجود ایک میکینک کے پاس لے جاتے ہیں جو اس کی وائرنگ کو ٹھیک کر دیتا ہے۔
’’یہ جو کچھ بتاتا ہے، میں ان باتوں پر بھروسہ کرتا ہوں۔ یہ میری امید کو زندہ رکھتی ہے کہ مجھے اپنا کام کرتے رہنا چاہیے،‘‘ ادے کہتے ہیں۔ وہ اپنی خود کی زندگی کے بارے میں پیشین گوئی کرنے والی اس مشین کے کہے گئے الفاظ کو ظاہر کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔ ’’اس کے اندر کوئی جادو تو ہے اور آج بھی مجھے یہ مشین میرے بارے میں جو کچھ بھی کہتی ہے، میرے اوپر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ میں آپ کو بھروسہ کرنے کے لیے نہیں کہوں گا۔ آپ خود سنئے اور فیصلہ کیجئے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز