اگر آپ ۱۴-۶ سال کی عمر کے بچے ہیں، تو آپ کو اپنے علاقے کے اسکولوں میں ’’مفت اور لازمی تعلیم‘‘ حاصل کرنے کا حق ہے۔ حکومت ہند نے سال ۲۰۰۹ میں اسے یقینی بنانے والا قانون، بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق (آر ٹی ای) بنایا تھا۔
مگر اوڈیشہ کے جاجپور ضلع میں نو سال کی چندریکا بیہرا تقریباً دو سال سے اسکول نہیں جا پائی ہے، کیوں کہ سب سے قریب کا اسکول بھی کافی دور پڑتا ہے – جو اس کے گھر سے تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر دور ہے۔
دیہی ہندوستان میں تعلیم و تدریس کا نظام پوری طرح سے درست نہیں ہے اور قانون اور پالیسیاں اکثر صرف کاغذوں تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔ حالانکہ، کچھ معاملوں میں ٹیچر کا انوکھا طریقہ اور کام کرنے کا جذبہ سسٹم کے چیلنجز پر قابو پا لیتے ہیں، اور جس سے اکثر اصل تبدیلی آتی ہے۔
مثال کے طور پر کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے مہاجر بچوں کے ساتھ سفر کرنے والے ٹیچر کو ہی لے لیجئے، جو خانہ بدوش گوجر کے بچوں کو پڑھانے کے لیے لدر وادی کی ایک بستی میں چار مہینے قیام کرتے ہیں۔ ٹیچر بھی اپنے محدود وسائل کا سب سے اچھا استعمال کرنے کے لیے نئے طریقے آزما رہے ہیں۔ مثلاً، کوئمبٹور کے وِدیا ونم اسکول کے اساتذہ نے اپنے طلباء کو جینیاتی طور پر بدلی گئی فصلوں پر بحث کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ ان میں سے کئی پہلی نسل کے انگریزی بولنے والے بچے ہیں اور انگریزی میں بحث کر رہے ہیں، نامیاتی چاول کی اہمیت وغیرہ پر کچھ بات کر رہے ہیں۔
کلاسوں میں قدم رکھیں اور پاری لائبریری میں جا کر آموزش کے نتائج کے وسیع نظریہ اور ہندوستان میں تعلیم کی صورتحال کی بہتر تصویر حاصل کر لیں۔ ہم دیہی تعلیم سے متعلق رسائی، اس کے معیار اور اس کی خامیوں پر رپورٹ کرتے ہیں۔ لائبریری میں ہر دستاویز کے ساتھ ایک چھوٹی سی تلخیص منسلک رہتی ہے، جس سے بنیادی نتائج کا پتہ چلتا ہے۔
تعلیم کی سالانہ صورتحال (دیہی) کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۲۲ میں ملک بھر کے پرائیویٹ اور سرکاری دونوں اسکولوں میں بچوں کی بنیادی پڑھنے کی صلاحیت ۲۰۱۲ سے پہلے کی سطح تک گر گئی تھی۔ مہاراشٹر کے نندربار ضلع کے تورن مل علاقے میں ۸ سال کی شرمیلا نے مارچ ۲۰۲۰ میں اسکول بند ہونے کے بعد سلائی مشین چلانا سیکھا۔ مراٹھی حروف کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہتی ہے، ’’ مجھے وہ سبھی یاد نہیں ہیں ۔‘‘
کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے سبب ریاستوں میں تعلیمی بحران بڑھا ہے۔ ویسے بھی جو لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، وہ آن لائن تعلیم کے آنے کے ساتھ اس کے دائرے سے باہر ہو گئے۔ شہری علاقوں میں صرف ۲۴ فیصد اور دیہی علاقوں میں آٹھ فیصد بچوں کے پاس ہی ’مناسب آن لائن رسائی‘ تھی، یہ اگست ۲۰۲۱ میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا تھا۔
اسکولوں میں پہلی کلاس سے ۸ویں کلاس تک کے طلباء کو دیے جانے والے دوپہر کے کھانے (مڈ ڈے میل) میں تقریباً ۸۰ء۱۱ کروڑ بچے شامل ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تقریباً ۵۰ فیصد طلباء نے اپنے اسکولوں میں مفت مڈ ڈے میل پانے کی اطلاع دی۔ ان میں سے ۱ء۹۹ فیصد کے نام سرکاری اداروں میں درج تھے۔ چھتیس گڑھ کے مٹیا گاؤں کے سرکاری پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس پونم جادھو کہتی ہیں، ’’کچھ ہی والدین اپنے بچوں کے لیے دوپہر کے کھانے کا خرچ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے، اسکولوں میں ایسی فلاحی اسکیموں کو مسلسل مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
بہار کے سمستی پور ضلع کی ۱۹ سالہ شیوانی کمار کہتی ہیں، ’’میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے کافی پڑھائی کر لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں پڑھتی رہی، تو کون مجھ سے شادی کرے گا؟ ‘‘ تعلیم میں صنف کی بڑی اہمیت ہے۔ وسائل کی تقسیم کے پیمانے پر لڑکیاں اکثر نچلے پائیدان پر ہوتی ہیں۔ این ایس ایس ۷۵ویں دور (جولائی ۲۰۱۷ سے جون ۲۰۱۸) کی رپورٹ کہتی ہے کہ دیہی ہندوستان میں ۳ سے ۳۵ سال کی تقریباً ۱۹ فیصد لڑکیوں کا نام کبھی اسکولوں میں درج نہیں کرایا گیا۔
سال ۲۰۲۰ میں ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنا نام درج کرانے والے ۱۳ء۴ کروڑ بچوں میں سے صرف ۸ء۵ فیصد درج فہرست ذات سے تھے۔ اس سے ہندوستان میں سماجی گروہوں کے درمیان تعلیم کی غیر برابری پر مبنی رسائی کا پتہ چلتا ہے۔ آکسفیم انڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’دیہی علاقوں میں پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں اضافہ نے حاشیہ پر موجود ہندوستان کی برادریوں کے لیے نئے مواقع کھولنے کی بجائے سماجی، اقتصادی اور شماریاتی حالت کو جوں کا توں بنائے رکھا ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی طرف رجحان کے باوجود کئی لوگ اپنی تعلیم کے لیے سرکاری مدد پر منحصر رہتے ہیں۔ وجہ صاف ہے۔ جہاں ابتدائی تعلیم کی اوسط سالانہ لاگت سرکاری اسکولوں میں ۱۲۵۳ روپے تھی، وہیں ایک پرائیویٹ غیر مالی امداد یافتہ اسکول میں یہی لاگت ۱۴۴۸۵ روپے تھی۔ بنگلورو میں آنگن واڑی ٹیچر ۴۰ سالہ راجیشوری نے کہا، ’’پرائیویٹ اسکولوں کے ٹیچر سوچتے ہیں کہ ہم صرف کھانا پکانے اور صاف صفائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق میرے پاس پڑھانے کا ’تجربہ‘ نہیں ہے۔‘‘
پینے کے پانی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات کی کمی راجیشوری جیسے اسکولی اساتذہ کے کام کو تھکا دینے والا اور مشکل بناتی ہے۔ مثال کے طور پر، عثمان آباد کے سنجا گاؤں میں واقع ضلع پریشد پرائمری اسکول کو لے لیجئے۔ مارچ ۲۰۱۷ سے مہاراشٹر کے اس اسکول میں بجلی نہیں ہے۔ اسکول پرنسپل شیلا کلکرنی نے بتایا، ’’سرکار سے آنے والا فنڈ کافی نہیں ہوتا…ہمیں اسکول کے رکھ رکھاؤ اور طلباء کے لیے کتاب کاپیاں خریدنے کے لیے سال میں صرف ۱۰ ہزار روپے ملتے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سال ۲۰۱۹ تک ہندوستان میں تقریباً دو کروڑ ۳۰ لاکھ بچوں کے پاس اپنے اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں تھا اور ۶ کروڑ ۲۰ لاکھ بچوں کے پاس اسکول میں صاف صفائی کی سہولیات نہیں تھیں۔
کئی قسم کی کمیوں کا سامنا کر رہی دیہی تعلیم کے حالات مسلسل بگڑتے جا رہے ہیں، جب کہ ہندوستان میں کالجوں کی تعداد بڑھتی رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا کل ہند سروے کے مطابق، سال ۲۰-۲۰۱۹ میں کالج ۴۲۳۴۳ سے بڑھ کر ۲۱-۲۰۲۰ میں ۴۳۷۹۶ ہو گئے ہیں۔ اس دوران ملک میں پوری طرح سے لڑکیوں کے لیے چلائے جا رہے کالج ۴۳۷۵ تھے۔
ملک بھر کے گاؤوں اور چھوٹے شہروں میں لڑکیوں نے اعلیٰ تعلیم کا موقع حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ مہاراشٹر میں بلڈھانہ ضلع کے ایک گاؤں کی جمنا سولنکے اپنی خانہ بدوش برادری ناتھ جوگی کی ۱۰ویں کلاس پاس کرنے والی پہلی لڑکی بنی۔ جمنا زور دے کر کہتی ہے، ’’لوگ کہتے ہیں کہ مجھے بس کنڈکٹر یا آنگن واڑی کارکن بن جانا چاہیے، کیوں کہ اس میں مجھے جلدی نوکری مل جائے گی، مگر میں وہی بنوں گی جو میں بننا چاہتی ہوں ۔‘‘
کور ڈیزائن: سودیشا شرما
مترجم: محمد قمر تبریز