میرٹھ کے ایک کیرم بورڈ کارخانہ میں پانچ کاریگر ۴۰ بورڈوں کی کھیپ تیار کرنے کے لیے لگاتار پانچ دنوں سے روزانہ آٹھ گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ اس ورکشاپ کا ہر کاریگر جانتا ہے کہ اسٹرائکر اور گوٹیوں (کوائن) کو کیرم بورڈ کے فریم کے درمیان تیزی سے چکر لگوانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں زیادہ سے زیادہ چار کھلاڑی کھیل سکتے ہیں، لیکن یہاں ہر بورڈ پر پانچ کاریگر کام کر رہے ہیں۔ وہ کیرم کے کھیل کو ممکن بنانے میں مدد کرتے ہیں، لیکن خود کبھی نہیں کھیلے۔
’’میں ۱۹۸۱ سے کیرم بورڈ بنا رہا ہوں، لیکن میں نے کبھی کوئی بورڈ نہیں خریدا اور نہ ہی کیرم کھیلا۔ فرصت کہاں ہے؟‘‘ ۶۲ سالہ مدن پال کہتے ہیں۔ جب ہم بات چیت کر رہے ہیں، تو وہ اور ان کے ساتھی کاریگر بڑی احتیاط سے ۲۴۰۰ ڈنڈوں کو ایک ترتیب سے رکھتے ہیں یا ببول کی لکڑی کے ٹکڑوں کو کاٹتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ٹکڑے کی لمبائی ۳۲ یا ۳۶ انچ ہوتی ہے اور کاریگر انہیں کارخانے کی بیرونی دیوار کے کنارے بچھاتے ہیں۔
’’میں صبح ۸ بج کر ۴۵ منٹ پر یہاں پہنچ جاتا ہوں اور نو بجے تک کام شروع ہو جاتا ہے۔ میرے گھر پہنچتے پہنچتے شام کے سات ساڑھے سات بج جاتے ہیں،‘‘ مدن پال کہتے ہیں۔ اتر پردیش کے میرٹھ شہر کی سورج کنڈ اسپورٹس کالونی میں واقع ’یہ‘ کیرم بورڈ کا ایک چھوٹا سا کارخانہ یا فیکٹری ہے۔
مدن میرٹھ ضلع کے پوٹھا گاؤں کے اپنے گھر سے ہفتے کے چھ دن اپنے کارخانے تک پہنچنے کے لیے سائیکل پر سوار ہوکر نکلتے ہیں اور ۱۶ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں۔
ایک چھوٹا ہاتھی (منی ٹیمپو ٹرک) پر سوار دو ٹرانسپورٹروں نے میرٹھ شہر کے تاراپوری اور اسلام آباد علاقوں میں واقع آرا مشینوں سے لکڑی کے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو ابھی ابھی پہنچایا ہے۔
’’ان ٹکڑوں سے کیرم بورڈ کا بیرونی فریم تیار کیا جائے گا، لیکن اس سے پہلے انہیں چار سے چھ ماہ تک کھلے میں خشک کرنے کے لیے باہر رکھا جائے گا۔ ہوا اور دھوپ میں خشک ہونے کے بعد لکڑی کے ٹکڑے نمی سے پاک ہو جاتے ہیں، انہیں سیدھا رکھنے میں مدد ملتی ہے اور ان میں پھپھوند بھی نہیں لگتی ہے،‘‘ مدن بتاتے ہیں۔
بتیس سالہ کرن (وہ صرف اسی نام سے جانے جاتے ہیں) یہاں ۱۰ سالوں سے کام کر رہے ہیں۔ وہ ہر ڈنڈے کا معائنہ کرتے ہیں اور ٹوٹے پھوٹے اور خراب ڈنڈوں کو واپس کرنے کے لیے الگ رکھ دیتے ہیں۔ ’’خشک ہونے کے بعد ہر ایک ڈنڈے میں ایک خانہ کاٹنے یا اندوروںی سطح کو برابر کرنے اور اس کے سروں کو ترچھا کاٹنے کے لیے انہیں آرا مشین والے کو پاس واپس بھیج دیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
"پلائی بورڈ، جس پر کیرم کھیلا جاتا ہے، کو دوسری سطح پر کٹے ہوئے خانے میں بیٹھایا جاتا ہے، جو اس فریم سے دو سینٹی میٹر نیچے ہوتی ہے جس پر کھلاڑی اپنی کلائیوں اور ہتھیلیوں کو رکھتے ہیں۔ یہ فریم ایک باونڈری بناتی ہے جو گوٹیوں کو بورڈ سے گرے بغیر ایک طرف سے دوسری طرف جانے دیتی ہے،‘‘ کرن بتاتے ہیں۔ ’’بورڈ بنانا آسان ہے، لیکن اس کی سطح کو گوٹیوں کے پھسلنے کے قابل بنانا آسان نہیں ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
اس کارخانہ کے ۶۷ سالہ مالک سنیل شرما کہتے ہیں، ’’کیرم کی سطح کا معیاری سائز ۲۹ ضرب ۲۹ انچ ہوتا ہے، اور فریم کے ساتھ بورڈ کی جسامت تقریباً ۳۲ ضرب ۳۲ انچ ہوتی ہے۔ یہ بورڈ باضابطہ مقابلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن ہم آرڈر کی بنیاد پر بھی بورڈ بناتے ہیں، جن کی جسامت ۲۰ ضرب ۲۰ انچ (عموماً بچوں کے لیے) سے لے کر ۴۸ ضرب ۴۸ انچ تک ہوتی ہے۔ کیرم بورڈ بنانے کے لیے چار اہم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ببول کی لکڑی کا فریم؛ کھیلنے کی سطح کے لیے پلائی بورڈ؛ پلائی بورڈ کو پشت پر سہارا دینے کے لیے ساگوان یا یوکلپٹس کی لکڑی [چاکڑی] اور گوٹیوں کے لیے کروشیا کی جالیدار جیبیں۔ ان میں سے ہر ایک چیز مقامی طور پر حاصل کی جاتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے کچھ سپلائرز، اپنی چیزیں دوسری ریاستوں سے بھی حاصل کرتے ہیں۔
’’میں نے ۱۹۸۷ میں کیرم بنانے والے دو ماہرین، گنگا ویر اور سردار جتیندر سنگھ سے اس ہنر کی باریکیاں سیکھی تھیں۔ اس سے پہلے ہم بیڈمنٹن کے ریکیٹ اور کرکٹ کے بلے بناتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
شرما ورکشاپ کے داخلی دروازے پر واقع اپنے ایک کمرے کے دفتر سے نکل کر اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں کاریگر ڈنڈوں کو ترتیب کے ساتھ رکھ رہے ہیں۔ "ہم ۳۰ سے۴۰ یونٹس کی لاٹ میں کیرم بورڈ بناتے ہیں، جنہیں تیار ہونے میں تقریباً ۴ سے ۵ دن لگتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس دہلی کے ایک تاجر سے ۲۴۰ برآمدی معیار کے بورڈوں کا آرڈر ہے۔ ہم ابھی تک ان میں سے ۱۶۰ بورڈوں کو مکمل کرکے پیک کر چکے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سال ۲۰۲۲ کے بعد سے ہندوستانی کیرم بورڈ دنیا کے ۷۵ ممالک اور خطوں میں برآمد کیے جا چکے ہیں۔ مرکزی وزارت تجارت اور صنعت کے برآمدات - درآمدات ڈیٹا بینک کے مطابق، اپریل ۲۰۲۲ سے جنوری ۲۰۲۴ کے درمیان برآمدات کی مالیت ۳۹ کروڑ روپے کے قریب تھی۔ سب سے زیادہ منافع بالترتیب امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یمن، نیپال، بیلجیم، نیدرلینڈز اور قطر سے حاصل ہوا۔
برآمدات کی یہ آمدنی بیرونی ممالک میں خریدے گئے دس لاکھ بورڈوں سے حاصل ہوئی۔ ان ممالک میں بحر ہند کے جزائر کوموروس اور مایوٹ، بحر الکاہل میں فجی جزائر، اور کیریبین میں جمیکا اور سینٹ ونسنٹ بھی شامل ہیں۔
سب سے زیادہ کیرم بورڈ متحدہ عرب امارات کے ذریعہ درآمد کیے گئے، اس کے بعد بالترتیب نیپال، ملیشیا، سعودی عرب اور یمن کے ذریعہ درآمد ہوئے۔
گھریلو فروخت کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اگر دستیاب ہوتے، تو تعداد یقیناً بہت بڑی ہوتی۔
’’کووڈ-۱۹ کے دوران ہمارے پاس گھریلو آرڈرز بہت زیادہ تھے، کیونکہ ہر شخص گھر میں بند تھا۔ ہر شخص کو اپنی بوریت مٹانی تھی،‘‘ سنیل شرما کہتے ہیں۔ ’’ایک اور صورت حال جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے، خلیجی ممالک کی طرف سے رمضان کے مہینہ سے عین پہلے مانگ میں اضافہ ہے،‘‘ وہ اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’میں نے خود بہت زیادہ کیرم کھیلا ہے۔ یہ کھیل زیادہ تر تفریحی کھیل کے طور پر مقبول ہے،‘‘ شرما کہتے ہیں۔ ’’لیکن اس کے باقاعدہ گھریلو اور بین الاقوامی ٹورنامنٹ بھی منعقد ہوتے ہیں، جو دوسرے کھیلوں کے میچوں کی طرح براہ راست ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
’ہم ۳۰ سے۴۰ یونٹس کی کھیپ میں کیرم بورڈ بناتے ہیں جنہیں تیار ہونے میں تقریباً ۴ سے ۵ دن لگتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس دہلی کے ایک تاجر سے ۲۴۰ برآمدی معیار کے بورڈوں کا آرڈر ہے۔ ہم آج تک ان میں سے ۱۶۰ بورڈ تیار کرکے پیک کر چکے ہیں،‘ سنیل شرما کہتے ہیں
ہندوستان میں کیرم سے متعلق باضابطہ سرگرمیاں کا کنٹرول یا اس کی نگرانی آل انڈیا کیرم فیڈریسشن (اے آئی سی ایف) کے ذریعہ اس سے وابستہ ریاستی اور ضلعی انجمنوں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ سال ۱۹۵۶ میں قائم کردہ اور چنئی میں واقع اے آئی سی ایف بین الاقوامی کیرم فیڈریشن اور ایشین کیرم کنفیڈریشن سے ملحق ہے۔ اے آئی سی ایف تمام بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے لیے ہندوستانی عملہ کو تیار اور تعینات کرتا ہے۔
اگرچہ کیرم کی عالمی درجہ بندی دیگر کھیلوں کی طرح منظم اور واضح نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہندوستان کیرم کھیلنے والے چوٹی کے ممالک میں شامل ہے۔ ہندوستان کی رشمی کماری کو خواتین کے کیرم میں عالمی چیمپیئن کے طور پر وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور چنئی سے تعلق رکھنے والے ۶۸ سالہ اے ماریا اِرودیام مردوں کے دو بار کے عالمی کیرم چیمپئن اور نو بار کے قومی چیمپئن ہیں۔ ارودیام واحد ہندوستانی کھلاڑی ہیں، جنہیں کیرم کے لیے ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایک ربع صدی قبل ۱۹۹۶ کا واقعہ ہے۔ ہر سال دیا جانے والا ارجن ایوارڈ ہندوستان میں کھیل کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز ہے۔
*****
کارخانہ کے فرش پر اکڑوں بیٹھے کرن کے پاس چار ڈنڈے پڑے ہیں، جن میں سے ہر ایک کو باری باری سے پاؤں کے نیچے دباکر ترچھے سروں کو جوڑ کر وہ ایک مربع نما فریم بناتے ہیں۔ وہ چاروں کونوں کو جوڑنے کے لیے آٹھ بلدار (کروگیٹیڈ) لوہے کے جوڑوں کو ہتھوڑے کے ضرب سے ٹھوکتے ہیں۔ ان جوڑوں کو مقامی طور پر کنگھی کہا جاتا ہے۔ ’’کیل سے بہتر جوائن کرتی ہے کنگھی،‘‘ کرن کہتے ہیں۔
فریم کے تیار ہو جانے کے بعد ۵۰ سالہ امرجیت سنگھ ریتی کا استعمال کرتے ہوئے اس کے کناروں کو گولائی عطا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرا دودھ کا کاروبار تھا، جو غیرمنافع بخش ہو گیا تھا، اس لیے میں نے تین سال پہلے یہاں کیرم بورڈ بنانا شروع کر دیا۔‘‘
آرا مشین میں خانہ کاٹنے کے دوران فریم کی سطح پر لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ابھار باقی رہ گئے ہیں۔ امرجیت لوہے کی ایک پٹی کا استعمال کرتے ہوئے فریم کی تمام سطحوں پر مرمت لگاتے ہیں۔ چاک مٹی (چاک پاؤڈر) اور موویکول نامی لکڑی چپکانے والے خاکستری پیسٹ نما مرکب کو مرمت کہا جاتا ہے۔
’’یہ لکڑی کی ناہموار سطح اور اس میں موجود خلاء کو پُر کرتا ہے، اور لکڑی کے ابھرے ہوئے کھردرے حصوں کو بھی چپٹا کرتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہوئے مزید اضافہ کرتے ہیں، ’’اس پیسٹ کو بارودے کی مرمت کہتے ہیں۔‘‘ پیسٹ کے خشک ہونے کے بعد، صرف اس خانہ کو، جس پر کھیلنے کے لیے چکنی سطح والے پلائی بورڈ کو بیٹھایا جائے گا، سیاہ مرمت کی ایک تہہ سے بھرا جاتا ہے۔
اس کے بعد بورڈ کے بارڈر کے اندر خانوں پر تیزی سے خشک ہونے والے آب روک (واٹر پروف) سیاہ ڈوکو پینٹ کا ایک کوٹ چڑھایا جاتا ہے اور خشک ہونے کے بعد ریگ مال (سینڈ پیپر) سے ہموار کیا جاتا ہے۔ ’’فریم کا یہ حصہ پلائی بورڈ لگانے سے ڈھک جاتا ہے، اس لیے اسے پہلے ہی تیار کرنا پڑتا ہے،‘‘ امرجیت کہتے ہیں۔
’’ہم یہاں پانچ کاریگر ہیں اور ہم سبھی ان تمام کاموں کے ماہر ہیں،‘‘ ۵۵ سالہ دھرم پال کہتے ہیں۔ وہ پچھلے ۳۵ سالوں سے اس کارخانہ میں کام کر رہے ہیں۔
’’جب بھی ہمیں کوئی آرڈر ملتا ہے، تو ہم سب سے پہلے پلائی بورڈ کی سطح کو تیار کرتے ہیں،‘‘ دھرم کہتے ہیں۔ اس دوران وہ، مدن اور کرن تیار شدہ بورڈوں کو باہر نکالتے ہیں جنہیں فریموں پر لگایا جائے گا۔ ’’ہم پلائی بورڈ کی درازوں کو بھرنے کے لیے پوری سطح پر سیلر لگاتے ہیں جو اسے واٹر پروف بھی بناتا ہے۔ اس کے بعد ہم اسے ریگ مال سے ہموار کرتے ہیں،‘‘ وہ تفصیل سے بتاتے ہیں۔
’’پلائی بورڈ بہت کھردرے ہوتے ہیں اور کیرم بورڈ کی سب سے بڑی خوبی اس کی سطح کی پھسلن ہوتی ہے۔ کیرم کی گوٹیوں کو بورڈ پر تیزی سے پھسلنا ہوتا ہے،‘‘ شرما اپنی شہادت کی انگلی اور سر کے اشارے سے گوٹیوں کی حرکت کی نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہم مینگو فیس یا مکئی ٹری فیس پلائی بورڈ استعمال کرتے ہیں جسے مقامی تاجر کولکاتا سے خرید کر لاتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
’’جب ہم نے ۱۹۸۷ میں یہ کام کرنا شروع کیا تھا، تب بورڈ کی سطح پر ہاتھ سے نشانات پینٹ کیے جاتے تھے۔ کام پیچیدہ اور وقت طلب تھا۔ اس وقت، ایک آرٹسٹ بھی کاریگروں کی ٹیم کا ایک اہم رکن ہوا کرتا تھا،‘‘ سنیل یاد کرتے ہیں۔ کارخانہ کی اونچی دیواروں پر لٹکی مربع شکل کی اسکرینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’لیکن آج ہم بورڈ کی سطحوں کو یکے بعد دیگرے تیزی سے اسکرین پرنٹ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں جس طرح زیادہ تر کھیلوں کے سازوسامان کی صنعت سے آرٹسٹ غائب ہو گئے یہاں بھی ویسا ہی ہوا ہے۔
اسکرین پرنٹنگ اسٹینسلنگ کی ایک تکنیک ہے جو پینٹ کو غیرضروری خانوں سے گزرنے سے روکتی ہے، جبکہ مطلوبہ خانوں سے گزرنے دیتی ہے۔ ’’ہم ہر بورڈ کی سطح پر دو مختلف اسکرینیں استعمال کرتے ہیں۔ پہلا سرخ نشانوں کے لیے، اور دوسرا سیاہ کے لیے،‘‘ دھرم پال کہتے ہیں۔ ۲۴۰ کیرم بورڈوں کے موجودہ آرڈر کے تمام پلائی بورڈوں پر نشانات پہلے ہی بنائے جا چکے ہیں۔
اب دوپہر کے ایک بجے چکے ہیں اور کاریگر دوپہر کے کھانے کے لیے وقفہ لیتے ہیں۔ ’’یہ ایک گھنٹے کا وقفہ ہے، لیکن وہ دوپہر ڈیڑھ بجے کام پر واپس آجاتے ہیں، تاکہ وہ شام کو آدھا گھنٹہ پہلے یعنی ساڑھے پانچ بجے تک کام کر کے رخصت ہو سکیں،‘‘ کارخانہ مالک سنیل شرما کہتے ہیں۔
کاریگر اپنا دو پہر کا کھانا لے کر آتے ہیں اور کارخانہ کے احاطے کے پچلے والے حصہ میں لکڑی کے سوکھتے ٹکڑوں کے درمیان، ایک بدبودار کھلے اور بہتے نالے کے کنارے جلدی جلدی کھا لیتے ہیں۔ ۵۰ سالہ راجندر کمار اور امرجیت نے کارخانہ کے فرش پر کچھ جگہ خالی کی اور ایک پتلا کمبل بچھا دیا جس پر وہ ۱۲ سے ۱۵ منٹ تک لیٹ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ سو جائیں اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آگیا۔
امرجیت کہتے ہیں، ’’بس پیٹھ سیدھی کرنی تھی۔ اسٹیل کی کیتلی میں قریب کی دکان سے لائی ہوئی دودھ کی چائے وہ اسٹیل کے اپنے اپنے مگوں میں بھر کرجلدی جلدی پی لیتے ہیں۔ اور پھر کام پر واپس آجاتے ہیں۔
پلائی بورڈ کے تیار ہو جانے کے بعد اگلا مرحلہ ہر بورڈ پر چاکڑی چسپاں کرنا ہوتا ہے۔ ’’چاکڑی پلائی بورڈ کی پشت کو مضبوط بناتی ہے،‘‘ راجندر تفصیل سے بتاتے ہیں۔ وہ یہاں ۲۰ برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ ’’یہ ساگوان یا یوکلپٹس کی لکڑی کی پتلی پٹیوں کو عمودی اور افقی طور پر ملانے کے بعد کیل ٹھوک کر اور چسپاں کر کے بنائی جاتی ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ کام شروع کرنے سے پہلے میں دیوار کی پتائی کا کام کرتا تھا۔‘‘
سنیل شرما کہتے ہیں، ’’ہم اپنی چکڑیاں قیصر گنج کے مہتاب سنیما کے علاقے کے مسلم کاریگروں سے خریدتے ہیں۔ میرٹھ میں کچھ لکڑی کے کام کرنے والے ہیں جو صرف چاکڑی کے ماہر ہیں۔‘‘
راجندر، مدن کے سامنے اسی جگہ بیٹھے ہیں جہاں وہ تھوڑی دیر پہلے لیٹے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے سامنے ۴۰ چاکڑیوں کا ڈھیر ہے جس پر وہ یکے بعد دیگرے موٹے پینٹ برش سے فیویکل لگاتے ہیں۔ کرن، جو کہ سب سے کم عمر کاریگر ہونے کی وجہ سے زیادہ چست ہیں، ان پر ایک ایک کر کے چاکڑیوں اٹھانے اور ان پر پلائی بورڈ چسپاں کرنے کی ذمہ داری ہے۔
’’ہم عام طور پردن کے اختتام پر چاکڑیوں کو چپکانے کا کام کرتے ہیں۔ میں پلائی بورڈوں کو تہ در تہ رکھ رہا ہوں اور پھر ایک بھاری چیز سب سے اوپر رکھ کر انہیں رات بھر چھوڑ دیں گے، تاکہ یہ ٹھیک طرح سے چپک جائیں،‘‘ کرن بتاتے ہیں۔
ابھی شام کے سوا پانچ بجے ہیں۔ کاریگروں کو اپنا کام ختم کرنے کی جلدی ہے۔ ’’کل صبح ہم فریموں پر پلائی بورڈ لگائیں گے،‘‘ کرن کہتے ہیں۔ ’’میرے والد بھی ایک دوسرے کارخانہ میں کھیلوں کا سامان بنانے والے کاریگر تھے۔ وہ کرکٹ کے بلے اور اسٹمپ بناتے تھے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
*****
اگلے دن ٹھیک صبح ۹ بجے کام شروع ہو جاتا ہے۔ چائے پینے کے بعد راجندر، مدن، کرن اور دھرم کارخانہ کے اندر اپنی اپنی میزیں سنبھال لیتے ہیں اور ایک دوسرے سے منسلک تین کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ امرجیت باہر گلی میں فریم کے کناروں کو گھسنے کا کام کر رہے ہیں۔
کرن اور دھرم ایک ساتھ مل کر پلائی بورڈ اور چاکڑی کو جوڑ کر گھسے جا چکے پینٹ شدہ فریموں پر ایک ایک کر کے رکھنا شروع کرتے ہیں۔ ان دونوں پر بورڈ کے اپنے اپنے حصے میں چاکڑی پر پہلے سے طے شدہ نشانات پر کیل ٹھوکنے کی ذمہ داری ہے۔
دھرم کا کہنا ہے کہ ’’ایک بورڈ کو فریم پر لگانے کے لیے تقریباً چار درجن چھوٹے کیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ حیرانی کی بات یہ ہے کہ صرف دو کاریگر ۴۸ کیلوں کو تقریباً ۱۴۰ سیکنڈ میں ٹھوک دیتے ہیں، اور تیار بورڈ کو مدن کے کام کی جگہ کے قریب ستون سے لگا کر رکھ دیتے ہیں۔
آج مدن کی ذمہ داری کیرم بورڈ کے چار کناروں پر گوٹیوں کی جیبیں کاٹنے کی ہے۔ جیب کٹر کا قطر چار سینٹی میٹر مقرر کیا گیا ہے۔ کٹر کو جیومیٹری باکس کے کمپاس کی تکنیک پر کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
’’میں اپنی فیملی کا واحد شخص ہوں جو کھیلوں کے ساز و سامان بنانے کا کاریگر ہے۔ میرے تین بیٹے ہیں۔ ایک دکان چلاتا ہے، ایک درزی ہے، اور ایک ڈرائیور ہے،‘‘ مدن بتاتے ہیں۔ وہ بورڈ پر جھک کر کٹر کے بلیڈ کو دبا کر اس کے ہینڈل کو گھماتے ہوئے چار جیبیں کاٹتے ہیں۔ اس کام میں انہیں صرف ۵۵ سیکنڈ لگتے ہیں۔ اس میں وہ چند منٹ شامل نہیں ہیں جو چھ سے آٹھ کلو وزنی بورڈ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے، اوپر نیچے کرنے اور ترتیب دینے میں صرف ہوتے ہیں۔
جیبیں کاٹنے کے بعد وہ ہر ایک بورڈ کو راجندر کی میز کے پاس رکھتے ہیں، جو انہیں ایک ایک کرکے اٹھاتے ہیں اور دوسری بار لوہے کی پٹی کی مدد سے فریم پر مرمت پیسٹ کی ایک تہہ لگاتے ہیں۔ مرمت کو پھیلانے کے لیے وہ بورڈ کی طرف دیکھتے ہیں، اور میری توجہ کھیل کی سطح کی طرف مبذول کراتے ہیں، ’’دیکھ رہے ہیں، بورڈ میری انگلیوں کو آئینے کی طرح منعکس کر رہا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’اس مرحلہ میں بورڈ ظاہری طور پر تیار ہے، لیکن اس کے تیار ہونے اور قابل استعمال ہونے سے قبل ابھی بہت سا کام باقی ہیں،‘‘ کارخانہ کے مالک شرما کہتے ہیں۔ ’’آج کے لیے ہمارا ہدف تمام ۴۰ فریموں پر مرمت کی ایک تہہ لگانا ہے۔ ہم کل صبح فریموں کی تکمیل کے عمل کو شروع کریں گے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
اگلی صبح پانچ میں سے چار کاریگر اپنی میزیں اور کام لے کر باہر گلی میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ مدن اندر ہی رہتے ہیں۔ ’’چونکہ ہر کاریگر سبھی کام کرتا ہے، اس لیے یہاں عدد کے لحاظ سے اجرت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کاریگروں کو انفرادی مہارت کی بنیاد پر مختلف یومیہ اجرت ادا کی جاتی ہے،‘‘ شرما کہتے ہیں۔
پاری یہ معلوم کرنے میں ناکام رہا کہ مختلف اجرت کتنی ہے۔ کھیلوں کے ساز و سامان کی صنعت یہ اعداد و شمار ظاہر نہیں کرتی ہے۔ لیکن گمان غالب ہے کہ نازک کام انجام دینے والے انتہائی ہنر مند کاریگر، جن کی ایک غلطی پروڈکٹ کو تباہ کر سکتی ہے، مہینہ میں ۱۳۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں کما رہے ہیں۔ اس صنعت میں زیادہ تر ہنرمند مزدوروں کی کمائی یوپی کی کم از کم اجرت ۱۲۶۶۱ روپے ماہانہ سے کم ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شعبہ میں کچھ کاریگر طے شدہ غیرہنرمند مزدوری سے بھی کم کماتے ہوں۔
دھرم اور کرن گلی کے آخری سرے پر ہیں۔ ’’ہم فریموں پر بارودے کی مرمت کے تیسری تہ چڑھا رہے ہیں اور پھر اسے ریگ مال سے ہموار کریں گے،‘‘ دھرم مزید کہتے ہیں، "میں شمار نہیں کر سکتا کہ میرے ہاتھوں کے نیچے سے کتنے بورڈ گزرے ہیں۔ لیکن کھیلنے کا کبھی شوق ہی نہیں ہوا۔ صرف ایک یا دو بار کئی سال پہلے میں نے چند گوٹیوں کو نشانہ لگایا تھا، جب باؤجی [سنیل شرما] نے لنچ کے وقت بورڈ لگائے تھے۔‘‘
راجندر جو پہلی میز پر ہیں، دھرم اور کرن کے ذریعے ہموار کیے گئے فریموں پر استر (بیس کوٹنگ) لگا رہے ہیں۔ ’’یہ مرمت، سیاہ رنگ اور سِریس کا مرکب ہے۔ سِریس کی وجہ سے یہ کوٹ فریم سے چپک جائے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ سریس ایک قدرتی گوند ہے جو ذبیحہ خانوں اور چمڑا کارخانوں (ٹینریز) سے حاصل کیے جانے والے مویشیوں کے ناقابل خوراک حصوں کی پروسیسنگ سے حاصل کی جاتی ہے۔
استر لگانے کے بعد امرجیت نے ریگ مال کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر فریموں کو ہموار کیا۔ امرجیت کہتے ہیں، ’’ہم دوبارہ فریموں پر سیاہ ڈوکو پینٹ لگائیں گے اور اس کے خشک ہونے کے بعد، انہیں سندرس سے روغن کیا جائے گا۔‘‘ سندرس درخت کی چھال سے حاصل کی جانے والی ایک گوند ہے جو وارنش میں کام آتی ہے۔
جب کیرم بورڈ دھوپ میں خشک ہو رہے ہوتے ہیں، تو مدن کارخانہ کے اندر پلائی بورڈ کی چاکڑی کی طرف کروشیا سے بنی ہوئی گوٹیوں کی جیبوں کو جوڑنے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ چار کٹے ہوئے دائروں میں سے ہر دائرے کے چار کونوں میں چار گولڈن بلیٹن بورڈ پنوں کا نصف حصہ ٹھوکتے ہیں۔ کروشیا کی جیبوں کو کھینچتے ہوئے وہ ٹانکوں کے درمیان بنی سوراخوں کو پنوں پر درست کرتے ہیں اور پھر انہیں مکمل طور پر ٹھوک دیتے ہیں۔
شرما کہتے ہیں، ’’کروشیا کی جیبیں ملیانہ پھاٹک اور تیج گڑھی کے علاقوں میں خواتین اپنے گھروں میں بُنتی ہیں۔ ’’۱۲ درجن یعنی ۱۴۴ جیبوں کی قیمت ایک سو روپے ہوتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ یعنی خواتین کو ہر جیب کے عوض ایک روپیہ چالیس پیسے ملتے ہیں۔
کیرم بورڈ اب مکمل طور پر تیار ہیں۔ دھرم سوتی کپڑے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے بورڈوں کو صاف کرتے ہوئے آخری مرحلہ کی جانچ کرتے ہیں۔ امرجیت ہر بورڈ کو پلاسٹک کے ایک بڑے بیگ میں پیک کرتے ہیں۔ سنیل شرما کہتے ہیں، ’’ہم پلاسٹک کے تھیلے میں کیرم کی گوٹیاں اور کیرم پاؤڈر کا ایک ڈبہ بھی رکھتے ہیں۔ ’’گوٹیاں ہم بڑودہ سے حاصل کرتے ہیں، اور پاؤڈر مقامی طور پر دستیاب ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد کھیلنے کے لیے تیار بورڈ گتے کے ڈبوں میں پیک کیے جاتے ہیں اور تلے اوپر رکھے جاتے ہیں۔ کل صبح، جب کاریگر کام کے لیے واپس آئیں گے، تو وہ موجودہ آرڈر کے لیے ۴۰ بورڈوں کی آخری کھیپ تیار کرنا شروع کریں گے اور پانچ دن تک یہی معمول اپنائیں گے۔ اس کے بعد بورڈوں کو دہلی پارسل کیا جائے گا اور پھر بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ یہ مزدور تیز رفتاری سے فروغ پاتے ہوئے کھیل اور ایک ایسی تفریح کو فروغ دے رہے ہیں جسے انہوں نے نہ تو کبھی کھیلا ہے اور نہ ہی اس کا لطف اٹھایا ہے۔
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم