’’اچھا ہوگا کہ ہم لوگ مانسون سے پہلے گرام سبھا کی عمارت کی مرمت کرا لیں۔‘‘ لوپونگپاٹ کے لوگوں سے بات چیت کے دوران سریتا اسُر نے یہ بات کہی۔
گاؤں کی میٹنگ بس شروع ہی ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ڈھول والے نے مرکزی سڑک پر ڈھول بجا کر اس کی منادی کی تھی۔ عورتیں اور مرد اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے اور گرام سبھا سچیوالیہ (سکریٹریٹ) میں آ کر جمع ہو گئے۔ یہ دو کمرے کی وہ عمارت ہے، جس کی مرمت کے لیے سریتا پیسے کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
جھارکھنڈ کے گُملا ضلع کے اس گاؤں کے لوگ فوراً اس پر متفق ہو جاتے ہیں اور سریتا کی تجویز پاس ہو جاتی ہے۔
سابق قومی ہاکی کھلاڑی سریتا نے بعد میں اس نامہ نگار کو بتایا، ’’اب ہم جانتے ہیں کہ ہمیں ہی اپنے مسائل حل کرنے ہیں اور ہماری گرام سبھا ہمارے گاؤں کی ترقی کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ اس نے ہم سبھی کو، اور خاص کو عورتوں کو با اختیار بنایا ہے۔‘‘
گملا ضلع میں لوپونگپاٹ گرام سبھا کی کارکردگی جھارکھنڈ میں بحث کا موضوع ہے۔ ضلع ہیڈکوارٹر سے گھنٹہ بھر سے کچھ زیادہ دور اور ریاست کی راجدھانی رانچی سے تقریباً ۱۶۵ کلومیٹر دور موجود اس گاؤں تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ یہ جنگل کے اندر ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے آپ کو پہاڑی پر چڑھنا پڑتا ہے اور پھر کچی سڑک سے جانا ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑی بسیں یہاں آسانی سے نہیں آتیں، مگر آٹو اور چھوٹی گاڑیاں نظر آ جاتی ہیں، حالانکہ وہ بھی اکثر یہاں نہیں آتیں۔
اس گاؤں میں اسُر برادری کے تقریباً سو کنبے رہتے ہیں، جنہیں پی وی ٹی جی یعنی خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ گملا کے علاوہ یہ برادری جھارکھنڈ کے لوہردگا، پلامو اور لاتیہار ضلعوں میں آباد ہے اور ریاست میں ان کی کل آبادی ۲۲۴۵۹ ہے ( ہندوستان میں درج فہرست قبائل کی شماریاتی پروفائل، ۲۰۱۳ )۔
تقریباً آدھا گاؤں ہی خواندہ ہے، پھر بھی گرام سبھا کے سبھی کاموں کی دستاویز بنتی ہیں۔ فعال نوجوان لیڈر اور سابق فٹبال کھلاڑی سنچت اسر کہتے ہیں، ’’ہر چیز کی دستاویزکاری کی جا رہی ہے۔ ایجنڈہ طے ہو رہا ہے اور ہم ایسے ایشوز کو اٹھا رہے ہیں جو لوگوں کی پریشانیوں سے جڑے ہیں۔‘‘ گرام سبھا میں صنفی برابری پر زور دینے کو نمایاں کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’گرام سبھا مردوں اور عورتوں دونوں کی ہے۔‘‘
سریتا بتاتی ہیں کہ پہلے گرام سبھا کی میٹنگوں میں صرف مرد ہی جاتے تھے۔ اس سابق قومی ہاکی کھلاڑی کے مطابق، ’’ہم عورتوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی تھی کہ وہاں کیا بات چیت ہوئی۔‘‘ میٹنگیں خاص طور پر گاؤں میں خاندانوں کے جھگڑے نمٹانے پر توجہ کرتی تھیں۔
خوشی سے بھر کر سریتا بتاتی ہیں، ’’مگر اب ویسا نہیں ہے۔ ہم گاؤں کی گرام سبھا میں جا رہے ہیں اور ہر مسئلہ پر بات چیت کر رہے ہیں اور فیصلوں میں ہماری رائے بھی معنی رکھتی ہے۔‘‘
دوسرے گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف انہیں گرام سبھا میں حصہ داری کی خوشی ہے، بلکہ اس کے ذریعے وہ بنیادی مسائل بھی حل کر پائے ہیں۔ بینیڈکٹ اسُر نے بتایا، ’’ہم نے اپنے پانی کا مسئلہ حل کر لیا ہے۔ پہلے ہماری عورتوں کو پانی لانے کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا۔ اب گاؤں کی گلیوں میں ہی پانی مل جاتا ہے۔ پہلے ہم راشن لینے کے لیے دوسرے گاؤں جاتے تھے، مگر اب یہ ہمارے قریب آ گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، ہم نے اپنے گاؤں کو کان کنی سے بھی بچایا ہے۔‘‘
گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے باہری لوگوں کو جنگل میں باکسائٹ کی کان کنی کے لیے سروے کرتے دیکھا، تو وہ ہوشیار ہو گئے۔ گاؤں کے کئی لوگوں نے اکٹھا ہو کر ان لوگوں کو وہاں سے بھگا دیا۔
لوپونگپاٹ کے لوگوں نے گرام سبھا کمیٹی کے ساتھ ساتھ سات اور کمیٹیاں بنائی ہیں – بنیادی ڈھانچہ کمیٹی، عوامی سرمایہ کمیٹی، زرعی کمیٹی، صحت کمیٹی، گرام رکشا کمیٹی، تعلیمی کمیٹی اور وجیلنس کمیٹی۔
گرام سبھا کے رکن کرسٹوفر نے بتایا، ’’ہر کمیٹی اس سے جڑے ہوئے مسائل اور مستفیدین کے انتخاب کے عمل پر بات کرتی ہے۔ پھر وہ اپنا فیصلہ بنیادی ڈھانچہ کمیٹی کو بھیجتے ہیں، جو اسے آگے گاؤں کی ترقیاتی کمیٹی کو بھیجتی ہے۔‘‘ عظیم پریم جی فاؤنڈیشن میں سنٹر فار ڈیولپمنٹ کے صدر، پروفیسر اشوک سرکار کے مطابق، ’’اگر ہم مقامی سطح پر جمہوری روایات کو مضبوط کریں، تو عوامی فلاح اور سماجی انصاف کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔‘‘
گرام سبھا کمیٹی کے دروازے سبھی گاؤں والوں کے لیے کھلے ہیں۔ وہ فیصلہ لیتے ہیں اور پھر اسے گاؤں کے پردھان اور وارڈ کے ممبران، چین پور کے بلاک آفس میں لے جاتے ہیں۔
گملا ضلع کے چین پور بلاک کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر (بی ڈی او) ڈاکٹر ششر کمار سنگھ کہتے ہیں، ’’گاؤں کے لیے جو بھی اسکیمیں ہیں، جیسے سماجی پنشن، غذائی تحفظ اور راشن کارڈ سے جڑی اسکیمیں، سبھی کو گرام سبھا منظور کرتی ہے اور ان پر کارروائی کی جاتی ہے۔‘‘
کووڈ۔۱۹ کے دوران کئی مہاجر گھر لوٹ آئے تھے اور تب اسی گرام سبھا نے ایک کوارنٹائن سنٹر (سچیوالیہ) بنایا تھا اور سول سوسائٹی کی مدد سے یہاں کھانا، پانی اور دواؤں کا انتظام کیا گیا تھا۔
جو طلباء کسی غلطی کی وجہ سے اسکول سے باہر کر دیے گئے ہیں، ان کے لیے گاؤں کی تعلیمی کمیٹی نے ایک انوکھا حل نکالا۔ کرسٹوفر اسُر نے بتایا، ’’ہم نے طلباء کو پڑھانے کے لیے گاؤں کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ سبھی خاندانوں نے اس نوجوان کو روزانہ فی بچہ ایک روپیہ کی ادائیگی کی۔‘‘
کرسٹوفر بتاتے ہیں، ’’پہلے، گرام سبھا کے نام پر بلاک افسر ایک رجسٹر لے کر ہمارے گاؤں آتے تھے اور اسکیموں، مستفیدین وغیرہ کے انتخاب کا انتظام کرتے تھے۔ پھر وہ رجسٹر کو ساتھ لے کر لوٹ جاتے تھے۔‘‘ اس سے کئی مستحق لوگ سماجی اسکیموں کا فائدہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے تھے۔
لوپونگپاٹ کی گرام سبھا نے اب اس روایت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز