عاکف ایس کے ہر دن صبح کو ہیسٹنگز میں ایک پل کے نیچے بنی اپنی عارضی جھونپڑی (جو اُن کا گھر ہے) سے کولکاتا میں سیاحوں کے پسندیدہ مقام، وکٹوریہ میموریل کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ راستے میں وہ ’رانی‘ اور ’بجلی‘ کو بھی اپنے ساتھ لے لیتے ہیں۔
یہ ان کے دو سفید گھوڑوں کے نام ہیں، جو انہوں نے خود رکھے ہیں۔ یہی گھوڑے اس موسم میں ان کا ذریعہ معاش ہیں۔ ’’ آمی گاڑی چالائی [میں گھوڑا گاڑی یعنی تانگہ چلاتا ہوں]،‘‘ عاکف کہتے ہیں۔ وہ اپنے گھوڑوں کو ہیسٹنگز کے قریب ہی اصطبل میں رکھتے ہیں اور وہاں سے صبح ۱۰ بجے کے آس پاس اُن دونوں کو اپنے ساتھ لے کر وکٹوریہ پہنچتے ہیں۔ یہی وسط کولکاتا میں کھلے میدان کے ساتھ سنگ مرمر کی عمارت اور اس کے آس پاس کے علاقے کا مقامی نام ہے۔ ملکہ برطانیہ وکٹوریہ کی یاد میں بنائی گئی یہ عمارت عام لوگوں کے لیے ۱۹۲۱ میں کھول دی گئی تھی۔
عاکف کی بگھّی (تانگہ یا گھوڑا گاڑی)، جس کا کرایہ انہیں روزانہ ادا کرنا ہوتا ہے، وکٹوریہ میموریل سے ملحق اُس راستے پر کھڑی کی جاتی ہے جسے ’کوینس وے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قطار میں کھڑیں تقریباً دس بگھیوں میں سے اپنی بگھّی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’سنہری والی بگھی میری ہے۔‘‘ یہ الگ بات ہے کہ یہاں کھڑیں تمام بگھیاں تقریباً ملتے جلتے رنگوں کی ہیں اور اُن پر چڑیوں اور پھول پتیوں کی کم و بیش ایک جیسی ہی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ اپنے تانگے کی صفائی اور اس کی آرائش و زیبائش میں وہ روزانہ تقریباً دو گھنٹے صرف کرتے ہیں، تاکہ سیاحوں کو برطانوی حکومت کی شان و شوکت کا احساس کرایا جا سکے۔
اُدھر سڑک کے پار، وکٹوریہ میموریل کے پھاٹکوں پر لوگوں کی معمولی سی بھیڑ اکٹھا ہو چکی ہے۔ سال ۲۰۱۷ سے یہ کام کر رہے عاکف ہمیں بتاتے ہیں، ’’پرانے زمانے میں یہاں بادشاہ رہا کرتے تھے اور آس پاس جانے کے لیے وہ گھوڑے سے چلنے والی ایسی ہی بگھیوں کا استعمال کرتے تھے۔ اب یہاں گھومنے آئے لوگ بھی ان پر بیٹھ کر ویسا ہی محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک یہ وکٹوریہ [میموریل] یہاں رہے گا، تب تک یہ گھوڑا گاڑیاں بھی ایسے ہی رہیں گی۔‘‘ اور ان کی طرح دوسرے کوچوانوں کا کام بھی جاری رہے گا۔ فی الحال، یہاں اس علاقے میں ایسے تقریباً ۵۰ تانگے چلتے ہیں۔
سردی کا موسم آ چکا ہے، اور کولکاتا کے لوگ تفریح کے لیے باہر نکلے ہیں؛ عاکف بھی اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر شام کے وقت ان کی مصروفیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا سیزن نومبر سے فروری تک چلتا ہے۔ اس کے بعد گرمی بڑھ جاتی ہے اور گھر سے باہر کم ہی لوگ سواری کے لیے نکلتے ہیں۔
وکٹوریہ میموریل کے سامنے ہم جہاں بیٹھے ہیں، وہاں فٹ پاتھ پر ایک قطار سے چائے اور ناشتے کے بہت سے اسٹال ہیں، جہاں سیاح اور کوچوان ہلکا پھلکا چائے ناشتہ کرتے ہیں۔
رانی اور بجلی ہم سے تھوڑی دور کھڑے ہیں۔ ناشتہ میں ’گوم ایر بھوشی‘ (گیہوں کی بھوسی]، بچالی (چاول کی بھوسی)، دانہ [اناج] اور گھاس کھاتے ہوئے وہ بیچ بیچ میں اپنی گردن ہلاتے ہیں۔ جیسے ہی ان کے پیٹ بھر جائیں گے اور ان کا یہ جدید رتھ تیار ہو جائے گا، ویسے ہی دونوں اپنے کام میں لگ جائیں گے۔ کوچوانوں کی روزی روٹی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ گھوڑوں کی صفائی کی جائے اور ان کو دانہ پانی دیا جائے۔ ’’ایک گھوڑے کی دیکھ بھال میں روزانہ تقریباً ۵۰۰ روپے خرچ ہوتے ہیں،‘‘ عاکف بتاتے ہیں۔ اناج اور گھاس کے علاوہ انہیں بچالی بھی کھلائی جاتی ہے اور وہ اسے خضر پور کے پاس واٹ گنج میں ایک دکان سے خریدتے ہیں۔
ان کا اپنا کھانا دوپہر کے وقت آتا ہے، جو ان کی بڑی بہن بناتی ہیں اور پیک کرکے بھیجتی ہیں۔
صبح کے وقت جب ہم عاکف سے ملتے ہیں، تب تک بھیڑ شروع نہیں ہوئی ہے۔ بیچ بیچ میں سیاحوں کا ایک دو قافلہ اُن بگھیوں کی طرف بڑھتا نظر آ جاتا ہے، جسے دیکھ کر وہاں کھڑے کوچوان انہیں فوراً گھیر لیتے ہیں۔ ہر ایک کو یہی امید رہتی ہے کہ پہلی سواری انہیں ہی ملے گی۔
’’جب دن اچھا ہو، تو ایک دن میں مجھے تین سے چار سواریاں تک مل جاتی ہیں،‘‘ عاکف بتاتے ہیں۔ ایک چکّر تقریباً ۱۵-۱۰ منٹ کا ہوتا ہے، جو وکٹوریہ میموریل کے گیٹ (دروازے) سے شروع ہوتا ہے اور فورٹ ولیم کے جنوبی گیٹ سے مڑنے سے پہلے، ریس کورس کو پار کرتا ہوا لوٹتا ہے۔ ایک چکّر کی سیر کے عوض کوچوان ۵۰۰ روپے لیتے ہیں۔
’’ہر ۱۰۰ [روپے] میں سے میری کمائی صرف ۲۵ روپے ہی ہوتی ہے،‘‘ عاکف بتاتے ہیں۔ باقی پیسے مالک کے حصے میں چلے جاتے ہیں۔ جس دن کمائی اچھی ہوتی ہے، اُس دن کوچوان ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے تک کماتے ہیں۔
حالانکہ، ان بگھیوں کے ذریعہ دوسرے طریقوں سے بھی کمایا جا سکتا ہے۔ عاکف بتاتے ہیں، ’’بگھیوں کو شادیوں کے موقع پر بھی کرایے پر لیا جاتا ہے۔ دولہے کو بگھی پر بیٹھانے کا کرایہ اس بات پر منحصر ہے کہ بارات گھر کتنی دور ہے۔ شہر کے اندر کہیں جانے پر کرایہ ۵۰۰۰ سے ۶۰۰۰ روپے تک ہوتا ہے۔‘‘
عاکف کہتے ہیں، ’’ہمارا کام دولہے کو صرف شادی کے مقام تک پہنچانا ہے۔ اسے وہاں تک پہنچانے کے بعد ہم اپنے گھوڑے اور بگھی کو ساتھ لے کر لوٹ آتے ہیں۔‘‘ کبھی کبھی ان کو کولکاتا سے باہر بھی جانا پڑتا ہے، جیسے عاکف خود بھی اپنے تانگہ کے ساتھ ایک بار میدنی پور اور کھڑگ پور جا چکے ہیں۔ ’’میں نے ہائی وے پر بغیر رکے ۳-۲ گھنٹے تک گاڑی ہانکی،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’اور درمیان بھی تبھی رکا، جب مجھے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔‘‘ رات کے وقت وہ ہائی وے کے کنارے کہیں رک جاتے ہیں، گھوڑوں کی نکیل کھول دیتے ہیں، اور خود تانگے کے اندر ہی سو جاتے ہیں۔
’’بگھیوں کو فلموں کی شوٹنگ کے لیے بھی کرایے پر لیا جاتا ہے،‘‘ عاکف بتاتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وہ ایک بنگالی ٹی وی سیریل کی شوٹنگ کے لیے بولپور شہر گئے تھے۔ لیکن شادیاں اور شوٹنگ آمدنی کے مستقل ذرائع نہیں ہیں، اور یہاں کام کی تنگی ہو جانے کی صورت میں انہیں کمانے کے دوسرے راستے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔
عاکف ان دونوں گھوڑوں کے ساتھ اکتوبر ۲۰۲۳ سے کام کر رہے ہیں۔ ’’جب میں نے یہ کام کرنا شروع کیا، تب میں اپنی شادی شدہ بہن کے سسرال والوں کے ساتھ اضافی بچے ہوئے وقت میں یہ کام کرتا تھا،‘‘ ۲۲ سالہ عاکف بتاتے ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے عاکف نے کسی دوسرے آدمی کے ماتحت بھی کام کیا، لیکن اب وہ پھر سے اپنی بہن کی فیملی کا تانگہ چلانے لگے ہیں۔
عاکف سمیت یہاں کام کرنے والے زیادہ تر لوگوں کے لیے بگھی چلانا یا گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنا ایک ایسا کام نہیں ہے، جس پر معاش کے لیے مکمل طور پر منحصر رہا جا سکتا ہو۔
عاکف کہتے ہیں، ’’میں نے گھروں میں رنگ و روغن کرنے کا کام سیکھا ہے اور میں بڑا بازار کی کپڑے کی ایک دکان میں بھی کام کرتا ہوں، جو میرے ایک دوست کی ہے۔ میرے والد ایک رنگ مستری [گھر اور عمارتوں میں رنگائی کرنے والے دہاڑی مزدور] تھے۔ وہ میری پیدائش سے پہلے، سال ۱۹۹۸ میں کولکاتا آئے تھے۔‘‘ ان کے والد باراسات میں ایک سبزی فروش تھے، جہاں ان کی فیملی کولکاتا آنے سے پہلے رہتی تھی۔ ان کے والدین اچھی کمائی کی امید میں اس بڑے شہر میں آ گئے، جہاں عاکف کی پھوپھی شادی کے بعد سے رہنے لگی تھیں۔ ’’پھوپھی نے ہی میری پرورش و پرداخت کی، کیوں کہ ان کا اپنا کوئی بیٹا نہیں تھا،‘‘ عاکف بتاتے ہیں۔ ان کے والد علاء الدین شیخ اور ماں سعیدہ اب شمالی ۲۴ پرگنہ کے باراسات میں واقع اپنے آبائی گھر لوٹ چکے ہیں۔ وہاں علاء الدین کاسمیٹکس کے سامانوں کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔
وہیں عاکف اب اکیلے رہتے ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی ان کی بہن کے ساتھ رہتا ہے اور ضرورت پڑنے پر کبھی کبھی بگھی بھی چلاتا ہے، جس کے مالک بہن کے سسرال کے لوگ ہیں۔
کام کی تنگی واحد مسئلہ نہیں ہے، جس سے یہاں کے کوچوان گزر رہے ہیں۔ انہیں قانون کے رکھوالوں کو بھی پیسے دینے پڑتے ہیں: ’’مجھے ہر دن تقریباً ۵۰ روپے دینا پڑتا ہے،‘‘ عاکف بتاتے ہیں۔ جب ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے ’پیپل فار ایتھکل ٹریٹمنٹ آف اینیملز [پیٹا]‘ کے ذریعہ دائر کی گئی عرضی کے بارے میں سنا ہے، جس میں گھوڑے کے ذریعے کھینچی جانے والی گاڑی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تب وہ جواب میں یہ کہتے ہیں، ’’ہر مہینے کوئی نہ کوئی آتا ہے اور ہمیں گھوڑوں کا استعمال کرنے سے منع کرتا ہے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں، ’تم یہ سبھی تانگے خود کیوں نہیں خرید لیتے، اور ہمیں بدلے میں پیسے دے دینا؟‘ یہ گھوڑے ہماری روزی روٹی ہیں۔‘‘
پیٹا کی عرضی میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی بات بھی کہی گئی ہے، جو ان بگھیوں کی جگہ لیں گی۔ ’’آپ اسے پھر گھوڑا گاڑی کیسے کہیں گے، اگر انہیں گھوڑے ہی نہ کھینچتے ہوں؟‘‘ نوجوان کوچوان مسکراتے ہوئے پوچھتا ہے۔
’’بہت سے لوگ اپنے گھوڑوں کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں،‘‘ عاکف کا یہ ماننا ہے۔ ’’لیکن میں تو کرتا ہوں۔ آپ کو انہیں دیکھ کر ہی لگ جائے گا کہ ان کی دیکھ بھال اور دانہ پانی میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے!‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز