دہلی ہماری ہے!
دیش پر وہی راج کرے گا،
جو کسان مزدور کی بات کرے گا!
ملک کی راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں جمعرات، ۱۴ مارچ ۲۰۲۴ کو منعقد کسان مزدور مہا پنچایت میں شامل ہونے کے لیے جمع ہوئے ہزاروں کسان یہ نعرہ لگا رہے تھے۔
پنجاب کے سنگرور ضلع کی خواتین کسانوں کے ایک گروپ نے رام لیلا میدان میں پاری سے بات چیت میں کہا، ’’ہم تین سال پہلے [۲۱-۲۰۲۰] بھی سال بھر سے زیادہ وقت تک چلے احتجاجی مظاہرے کے دوران ٹیکری بارڈر پر موجود تھے۔ اگر ہمیں پھر سے آندولن کرنا پڑا، تو ہم دوبارہ آئیں گے۔‘‘
رام لیلا میدان کے پاس کی سڑکوں پر بسوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں، جن میں بیٹھ کر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کچھ علاقوں کے کسان یہاں آئے تھے۔ صبح کے ۹ بج رہے تھے، اور اس تاریخی میدان کی طرف جانے والی سڑکوں کے فٹ پاتھ پر بسوں کے پیچھے، مردوں اور خواتین کے چھوٹے گروپ اینٹ جوڑ کر بنائے گئے چولہے میں لکڑی کی آگ پر پکائی روٹیاں کھا رہے تھے۔
توانائی سے بھرپور اس صبح کے لیے یہ جگہ ہی ان کے لیے گاؤں بن گئی تھی، اور تمام مرد و خواتین کسان جھنڈوں کے ساتھ رام لیلا میدان میں داخل ہو رہے تھے۔ ’کسان مزدور ایکتا زندہ آباد‘ کے نعروں سے آسمان گونج رہا تھا! صبح ۱۰:۳۰ بجے تک زمین پر سبز رنگ کے پالیتھین کی بُنی ہوئی شیٹ پر سینکڑوں کسان اور زرعی مزدور منظم طریقے سے بیٹھے ہوئے تھے اور کسان مزدور مہا پنچایت شروع ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔
رام لیلا میدان کے دروازے صبح جا کر کھولے گئے تھے، کیوں کہ انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ میدان میں پانی بھرا ہوا ہے۔ کسان لیڈروں کا الزام تھا کہ مہا پنچایت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر میدان میں پانی بھرنے کی کوشش کی گئی۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی دہلی پولیس کا کہنا تھا کہ جلسے میں شامل لوگوں کی تعداد ۵۰۰۰ تک ہی محدود رکھی جائے۔ حالانکہ، رام لیلا میدان میں اس سے تقریباً دس گنا زیادہ تعداد میں کسان موجود تھے۔ موقع پر میڈیا کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔
اجلاس کی شروعات بھٹنڈا ضلع کے بلّے گاؤں کے کسان شبھ کرن سنگھ کی یاد میں تھوڑی دیر کی خاموشی کے ساتھ ہوئی، جن کی ۲۱ فروری کو پٹیالہ کے ڈھابی گجراں میں سر پر چوٹ لگنے سے موت ہو گئی تھی، جب پولیس احتجاج کر رہے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے اور ربر کی گولیاں برسا رہی تھی۔
مہا پنچایت میں سب سے پہلے ڈاکٹر سُنیلم نے سنیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کا ’سنکلپ پتر‘ پڑھا۔ اسٹیج پر ایس کے ایم اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ۲۵ سے زیادہ لیڈر موجود تھے؛ ان میں شامل تین خواتین لیڈروں میں میدھا پاٹکر بھی تھیں۔ سبھی نے ایم ایس پی کے لیے قانونی گارنٹی کی ضرورت کے ساتھ، تمام دیگر مطالبات پر ۵ سے ۱۰ منٹ تک اپنی بات رکھی۔
کسان مرکزی حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں – فروری ۲۰۲۴ میں پنجاب اور ہریانہ کے شمبھو اور کھنوری بارڈر پر مظاہرہ کر رہے کسانوں پر آنسو گیس کے گولے برسائے جانے اور لاٹھی چارج کو لے کر کافی غصے میں ہیں۔ پڑھیں: ’ایسا لگتا ہے کہ مجھے شمبھو بارڈر پر قید کر لیا گیا ہے‘
کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے حکومت کے ذریعے سڑکوں پر رکاوٹ پیدا کرنے اور لگائی گئی تمام پابندیوں کا جواب دیتے ہوئے ایک مقرر نے زوردار اپیل کی: ’’دہلی ہماری ہے۔ ملک پر وہی راج کرے گا، جو کسان مزدور کی بات کرے گا!‘‘
پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ کے کسان اور مزدور یونین کے لیڈروں نے ’کارپوریٹ کمپنیوں کے مفاد میں کام کرنے والی فرقہ وارانہ، تانا شاہ سرکار‘ کو سبق سکھانے کی اپیل کی۔
راکیش ٹکیت نے اپنی تقریر میں کہا، ’’۲۲ جنوری، ۲۰۲۱ کے بعد حکومت نے کسان تنظیموں سے کوئی بات نہیں کی۔ جب بات چیت ہی نہیں ہوئی، تو مسائل کا حل کیسے نکلے گا؟‘‘ ٹکیت، بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے قومی ترجمان ہیں اور سنیُکت کسان مورچہ کے لیڈر ہیں۔
آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ویجو کرشنن کا کہنا تھا، ’’سال ۲۱-۲۰۲۰ میں کسان آندولن کے آخری دنوں میں نریندر مودی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سی۲ + ۵۰ فیصد پر ایم ایس پی [کم از کم امدادی قیمت] کی قانونی گارنٹی دے گی۔ اُس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے گارنٹی دی تھی کہ قرض معافی کی جائے گی، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔‘‘ پڑھیں: کسان تحریک کی پاری کی مکمل کوریج ۔
اسٹیج سے اپنی بات رکھتے وقت، کرشنن نے سال بھر سے زیادہ چلے کسان آندولن کے دوران مارے گئے ۷۳۶ کسانوں کا ذکر کیا، جن کے کنبوں کو معاوضہ دینے کا حکومت کا وعدہ اب تک ادھورا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف درج تمام معاملوں کو واپس لینے کا وعدہ بھی اب تک پورا نہیں کیا گیا۔ مہا پنچایت کے دوران پاری سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’وعدے کے مطابق، بجلی کے قانون میں کی گئی ترمیم کو بھی واپس لیا جانا تھا، لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔‘‘
کرشنن نے حکومت میں وزیر اجے مشرا ٹونی کے سنیُکت کسان مورچہ کی زبردست مخالفت کے باوجود عہدہ پر بنے رہنے کا ایشو بھی اٹھایا، جن کے بیٹے آشیش مشرا نے اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں مبینہ طور پر پانچ کسانوں اور ایک صحافی کو گاڑی سے روند دیا تھا۔
ٹکیت نے کہا کہ ’’آئندہ لوک سبھا انتخابات میں چاہے کوئی بھی پارٹی منتخب ہو کر آئے، لیکن ملک کے الگ الگ علاقوں میں جاری تحریکیں چلتی رہیں گی، جب تک کہ کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کا حل نہیں ہو جاتا۔‘‘
اپنے مختصر بیان کے آخر میں، راکیش ٹکیت نے وہاں موجود ہر انسان سے ہاتھ اٹھا کر مہا پنچایت کی تجویزوں کو پاس کرنے کی اپیل کی۔ دوپہر ۱:۳۰ بجے وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود کسانوں و مزدوروں کی حمایت میں جھنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ لہرائے۔ تاریخی رام لیلا میدان میں تیز دھوپ کے درمیان جہاں تک آنکھیں دیکھ سکتی تھیں وہاں تک بس لال، پیلے، ہرے، سفید اور نیلے رنگ کی پگڑیاں، رومال، دوپٹے، اور ٹوپیاں نظر آ رہی تھیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز