شمالی کولکاتا کی کُمارٹُلی کی تنگ گلیوں میں، جہاں ہاتھ سے کھینچے جانے والے رکشہ کو بھی مشکل سے ہی چلایا جا سکتا ہے، آپ کو چاروں طرف صرف کُمہار نظر آئیں گے، جو شہر کے لیے مورتیاں بناتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں سے دیوی دُرگا اور دیگر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ہر سال کولکاتا پہنچتی ہیں۔

کارتک پال کی یہاں ایک ورکشاپ ہے، جو بانس اور پلاسٹک کی چادروں سے بنی ہوئی ہے اور اس کے اوپر لکھا ہوا ہے ’برجیشور اینڈ سنس‘ (جو اُن کے والد کے نام سے منسوب ہے)۔ وہ ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں کہ مورتیاں کیسے بنائی جاتی ہیں اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مورتیاں بناتے وقت، الگ الگ مرحلوں میں مختلف قسم کی مٹیوں کا آمیزہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے گنگا ماٹی (گنگا ندی کے کنارے سے نکالی گئی مٹی) اور پاٹ ماٹی (جوٹ کے ٹکڑوں اور گنگا کی مٹی کا آمیزہ)۔

Karthik Paul at his workshop in Kumartuli

کاریک پال، کُمارٹُلی میں اپنی ورکشاپ میں ہیں

ہماری بات چیت کے دوران پال، گیلی مٹی سے بھگوان کارتِک کا چہرہ درست کر رہے ہیں اور اسے اپنے ماہر ہاتھوں سے خوبصورت شکل دے رہے ہیں۔ وہ اس کے لیے ایک پینٹ برش اور چیاری کا استعمال کر رہے ہیں، جو کہ بانس کی لکڑی سے ہاتھ سے تیار کیا گیا مورتی بنانے کا اوزار ہے۔

پاس کی ہی ایک دوسری ورکشاپ میں، گوپال پال نے گوند تیار کیا ہے، تاکہ تولیہ جیسے میٹریل کو مٹی کے ڈھانچہ سے چپکایا جا سکے اور اسے جلد جیسی شکل عطا کی جا سکے۔ گوپال کا تعلق شمالی کولکاتا سے تقریباً ۱۲۰ کلومیٹر دور، ندیا ضلع کے کرشنا نگر سے ہے۔ یہاں کے زیادہ تر کاریگر، جو سارے کے سارے مرد ہیں، اسی ضلع کے رہنے والے ہیں؛ ان میں سے زیادہ تر لوگ ورکشاپ مالکوں کے ذریعہ فراہم کردہ اسی علاقہ میں کوارٹروں میں رہتے ہیں۔ ان کاریگروں کو دُرگا پوجا کا موسم شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی کرایہ پر رکھ لیا جاتا ہے۔ یہ روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں، لیکن موسمِ خزاں کے تہوار سے ٹھیک پہلے یہ کاریگر رات بھر کام کرنا شروع کر دیتے ہیں، جس کے لیے انھیں الگ سے پیسے دیے جاتے ہیں۔

کمارٹُلی میں ہجرت کرکے آنے والے اولین کاریگر کرشنا نگر کے ہی تھے، جو یہاں ۳۰۰ سال قبل آئے تھے۔ تب وہ اس وقت باغ بازار گھاٹ کے قریب نئی بن رہی کمارٹُلی میں چند مہینے رُکے تھے، تاکہ ندی کی مٹی آسانی سے حاصل کی جا سکے۔ اس وقت وہ دُرگا پوجا تہوار شروع ہونے سے ہفتوں پہلے زمینداروں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے، جہاں وہ ’ٹھاکر دالانوں‘ (زمیندار جن گھروں میں رہتے تھے، ان گھروں کے اندر مذہبی تہوار منانے کے لیے ایک مخصوص جگہ اسی نام سے موجود ہوتی تھی) کے لیے مورتیاں بناتے تھے۔

ویڈیو دیکھیں: کمارٹُلی کی گلیاں، کمہاروں کی مورتیاں

سال ۱۹۰۵ میں بنگال کی تقسیم کے دوران اور اس سے پہلے، بنگلہ دیش کے ماہر کاریگر ڈھاکہ، بکرم پور، فرید پور جیسے علاقوں سے کُمارٹُلی آیا کرتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب زمینداری نظام ختم ہونے لگا، تو یہاں ’سربو جونین‘ کے نام سے مشہور عوامی پوجا مقبول ہونے لگی۔ یہی وہ وقت تھا، جب ماں دُرگا کو ’ٹھاکر دالان‘ سے نکال کر سڑکوں پر بنے لمبے چوڑے پنڈال میں رکھا جانے لگا، جہاں دیویوں اور دیگر مورتیوں کے لیے الگ الگ اور اونچے پلیٹ فارم بنائے جاتے ہیں۔

دُرگا پوجا مغربی بنگال کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس کی شروعات مہالیہ سے ہوتی ہے، جو عام طور پر ستمبر کے اخیر میں یا اکتوبر کے شروع میں پڑتا ہے۔ اس دن، ہزاروں کی تعداد میں لوگ گنگا ندی کے کنارے اپنے آباء و اجداد (پُروَجوں) کے لیے دعا کرتے ہیں، اس رسم کو ’ترپن‘ کہا جاتا ہے۔ مورتی کی نقاب کشائی چوتھی، پنچمی یا ششٹھی کو ہوتی ہے۔ بڑی پوجا تین دن ہوتی ہے: مہا سپتمی، مہا اشٹمی اور مہا نومی کو۔ پوجا کے طریقے لمبے اور تفصیلی ہیں۔ ان تین دنوں کے بعد، دشمی کو (آخری دن)، کولکاتا کے بہت سارے لوگ اس دیوی کو جذباتیت سے بھرپور وداعی دیتے ہیں اور ان مورتیوں کو ہُگلی کے بابو گھاٹ اور دوسری جگہوں پر غرقاب کرتے ہیں۔

کمارٹُلی کی اپنی ورکشاپ میں، ایک مورتی کو حتمی شککل دیتے ہوئے کارتک ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کے کاریگر رنگ خود ہی تیار کرتے ہیں۔ وہ کھوری ماٹی (جو سمندر کے جھاگ سے تیار کی گئی ایک مخصوص گیلی مٹی ہے) کو کیمیاوی رنگ اور کھائی بیچی (املی کے بیج) سے تیار کی گئی گوند سے ملاتے ہیں۔ املی کے بیج کا پاؤڈر رنگوں کو مٹی کی مورتیوں پر لمبے وقت تک برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

مورتیاں جب پوری طرح تیار ہوجاتی ہیں، تو انھیں ایک جگہ جمع کر دیا جاتا ہے، جہاں سے وہ شہر کو چلی جاتی ہیں۔ کمارٹُلی کے نیم روشن اسٹوڈیو جلد ہی اپنے ان شاہکاروں کو گُڈ بائی کہہ دیں گے، جنہیں کولکاتا کے چمکتے دمکتے پنڈالوں میں لگا دیا جائے گا۔

The artisans prepare a clay called ‘path mati’ by mixing jute particles with ‘atel mati’ from the Ganga

کاریگر گوندھی ہوئی مٹی تیار کر رہے ہیں، جو جوٹ کے ٹکڑوں اور گنگا سے نکالی گئی ’ایٹیل ماٹی ‘ کا آمیزہ ہے اور جسے ’پاٹ ماٹی ‘ کہا جاتا ہے

The process of making an idol starts with the 'kathamo', a bamboo structure to support the idol.
Once the bamboo structure is ready, straw is methodically bound together to give shape to an idol; the raw materials for this come from the nearby Bagbazar market

بائیں: مورتی بنانے کا عمل ’کاٹھمو‘ سے شروع ہوتا ہے، جو مورتی کو سہارا دینے کے لیے بنائے جانے والے بانس کا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ دائیں: بانس کا ڈھانچہ تیار ہونے کے بعد، مونج کی گھاس کو باندھ کر مورتی کی شکل کا بنایا جاتا ہے؛ اس کے لیے خام مال پاس کے باغ بازار سے لایا جاتا ہے

An artisan applies sticky black clay on the straw structure to give the idol its final shape; the clay structure is then put out in the sun to dry for 3 to 4 days

ایک کاریگر گھاس سے بنائے گئے ڈھانچہ پر کالی مٹی لگا رہا ہے، تاکہ اسے حتمی شکل دی جا سکے؛ اس کے بعد مٹی سے بنے ڈھانچہ کو سوکھنے کے لیے دھوپ میں ۳ سے ۴ دنوں تک رکھ دیا جاتا ہے

مورتی کو خوبصورت بنانے کے لیے پینٹ برش اور بانس سے بنائے گئے اوزار کا استعمال ہوتا ہے

At another workshop nearby, Gopal Paul uses a fine towel-like material to give idols a skin-textured look

پاس کی ایک دوسری ورکشاپ میں، گوپال پال تولیہ جیسا میٹریل استعمال کرکے مورتیوں کو جلد جیسی شکل دے رہے ہیں

With the painting of Maa Durga’s eyes on the auspicious day of Mahalaya, the clay idols are finally brought to life

مہالیہ کے مقدس موقع پر جب ماں دُرگا کی آنکھوں کی پینٹنگ کی جاتی ہے، تو ان مورتیوں میں ایک طرح سے جان پڑ جاتی ہے

البم دیکھیں : کمارٹُلی کی گلیاں، کمہاروں کی مورتیاں

یہ ویڈیو اسٹوری سنچیتا مانجی کی ۲۰۱۵-۱۶ پاری فیلوشپ کے حصہ کے طور پر کی گئی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sinchita Parbat

সিঞ্চিতা পার্বত পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার একজন সিনিয়র ভিডিও এডিটর। এরই পাশাপাশি তিনি একজন ফ্রিল্যান্স ফটোগ্রাফার এবং ডকুমেন্টারি ফিল্মমেকার। পূর্বে প্রকাশিত তাঁর প্রতিবেদনগুলি ‘সিঞ্চিতা মাজি’ এই বাইলাইনের অধীনে পারিতে পড়া যেতে পারে।

Other stories by Sinchita Parbat
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique