کرشنا جی بھریت سنٹر میں کوئی بھی ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتا۔
جلگاؤں ریلوے اسٹیشن پر دوپہر یا رات کے کھانے سے کچھ گھنٹہ پہلے یا کسی ایکسپریس یا سپر فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن پر آنے سے پہلے، تقریباً ۳۰۰ کلو بینگن کی بھریت یا بھرتا روزانہ پکایا جاتا ہے، صارفین کو پیش کیا جاتاہے، پیک کیا جاتا ہے اور ڈیلیور کیا جاتا ہے۔ یہ ریستوراں جلگاؤں کے پرانے بی جے بازار کے علاقے کا سب سے مشہور ریستوراں ہے۔ یہاں صنعت کاروں سے لے کر مزدور اور پارلیمانی امیدواروں سے لے کر پرچار میں مصروف تھکے ہوئے پارٹی کارکن، سبھی آتے ہیں۔
ایک تپتی شام کو رات کے کھانے سے ٹھیک پہلے، کرشنا جی بھریت میں صفائی، سبزیوں کی کٹائی، چھلائی، بھنائی، پیش کرنے اور پیکنگ کا کام چل رہا ہے۔ لوگوں ریستوراں کے باہر اسٹیل کی تین ریلنگوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہیں۔ یہ قطار کسی پرانی سنگل اسکرین (ایک پردے والے) تھیٹر کے باہر ٹکٹ کے لیے کھڑوں لوگوں کی قطار جیسی دکھائی دیتی ہے۔
بنیادی طور پر یہاں ۱۴ خواتین ہی سارا کام سنبھالتی ہیں۔
یہ تمام عورتیں کرشنا جی بھریت کی ریڑھ ہیں۔ وہ ہر دن تین کوئنٹل بینگن کو پکا کر بیگن بھریت بناتی ہیں، جسے ملک کے دوسرے حصوں میں بینگن کا بھرتا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جلگاؤں ضلع انتظامیہ کے ذریعہ اس مصروف ریستوراں میں انتخابی بیداری مہم کا ویڈیو شوٹ ہونے کے بعد، ریستوراں میں کام کرنے والے لوگوں کی عام عوام کے درمیان پہچان بن گئی ہے۔
گزشتہ ۱۳ مئی کو جلگاؤں پارلیمانی حلقہ میں، خواتین کے ووٹنگ فیصد میں بہتری پیدا کرنے کے مقصد سے بنائے گئے ویڈیو میں، کرشنا جی بھریت کی خواتین کو شہریوں کے حقوق کے بارے میں بات کرتے، اور انہوں نے اس دن اپنے ووٹ کو استعمال کرنے کے عمل کے بارے میں کیا جانا – اس بارے میں بات کرتے دیکھا گیا۔
میرا بائی نارل کونڈے، جن کی فیملی ایک چھوٹا سا سیلون چلاتی ہے، کہتی ہیں، ’’میں نے ضلع کلکٹر سے یہ سیکھا کہ جس وقت ہم ووٹنگ مشین کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، ہماری انگلیوں پر سیاہی لگی ہوتی ہے، اس وقت ہم واقعی میں آزاد ہوتے ہیں۔‘‘ ریستوراں سے ملنے والی ان کی تنخواہ، ان کی آمدنی کا ایک ضروری حصہ ہے۔ ’’ہم اپنے شوہر، والدین، باس یا لیڈر کے کسی دباؤ کے بغیر، اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کے لیے آزاد ہیں۔‘‘
ہر سال اکتوبر سے فروری تک کرشنا جی بھریت میں کھانے کا آرڈر بڑھ جاتا ہے۔ اس وقت باورچی خانہ میں بینگن کا بھریت بنانے کی مقدار بڑھ کر ۵۰۰ کلو تک ہو جاتی ہے۔ اس وقت مقامی بازاروں میں، سردیوں میں ہونے والا سب سے اچھا بینگن بہت زیادہ مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔ عورتیں بتاتی ہیں کہ یہاں کی تازہ پسی ہوئی اور تلی ہوئی مرچ، دھنیا، بھونی ہوئی مونگ پھلی، لہسن اور ناریل کا آمیزہ لوگوں کو کافی پسند آتا ہے۔ دوسرا، راستہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں۔ یہاں صرف ۳۰۰ روپے میں ایک کلو بھریت اور کھانے کی دوسری چیزیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔
تقریباً ۱۰ ضرب ۱۵ فٹ کے باورچی خانہ میں چار اسٹوو والی ایک بھٹی جب جلتی ہے، تو دال فرائی، پنیر مٹر اور دیگر سبزی پر مشتمل چیزوں کے ساتھ کل ۳۴ پکوان بنتے ہیں۔ حالانکہ، ان سب میں سب سے زیادہ مشہور یہاں کا بھریت اور شیو بھاجی ہے۔ شیو بھاجی بیسن سے بنی اور تیل میں اچھی طرح تلی رہتی ہے۔
جیسے جیسے بات چیت خرچ برداشت کرنے کی استطاعت اور گزر بسر کی لاگت پر آتی ہے، تو عورتیں کھل کر بات کرتی ہیں۔ پشپا راؤ صاحب پاٹل (۴۶) بتاتی ہیں کہ وہ پردھان منتری اُجّولا یوجنا کے تحت سبسڈی والے رسوئی گیس سیلنڈر کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی دستاویزوں میں کوئی مسئلہ تھا۔
ساٹھ سال سے زیادہ کی عمر کی اوشا بائی راما سوتار کے پاس گھر نہیں ہے۔ ’’لوکانا مول بھوت سوویدھا ملایالا ہویت، ناہیں [لوگوں کو بنیادی سہولیات تو ملنی چاہئیں نا؟]‘‘ کچھ سال پہلے ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا اور تب سے وہ اپنے آبائی شہر میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’تمام شہریوں کے پاس رہنے کے لیے گھر تو ہونا ہی چاہیے۔‘‘
زیادہ تر عورتیں کرایے کے مکان میں رہتی ہیں۔ رضیہ پٹیل (۵۵) کہتی ہیں کہ ان کے گھر کا کرایہ مہینے کی آمدنی کا ایک تہائی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہر الیکشن میں ہمیں صرف مہنگائی کم کرنے کے وعدے ہی سننے کو ملتے ہیں، لیکن انتخاب ختم ہوتے ہی مہنگائی اور بڑھ جاتی ہے۔‘‘
عورتیں بتاتی ہیں کہ ان کے پاس مالی آزادی کے لیے اس کام کو کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان میں سے کئی تو یہاں پچھلے کئی برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ سوتار ۲۱ برسوں سے، سنگیتا نارائن شندے ۲۰ برسوں سے، مالو بائی دیوی داس مہالے ۱۷ برسوں سے اور اوشا بھیم راؤ دھنگر ۱۴ برسوں سے کام کر رہی ہیں۔
ان کے دن کی شروعات ۴۰ سے ۵۰ کلو بینگن تیار کرنے سے ہوتی ہے۔ اور پورے دن میں ایسی کئی کھیپ انہیں تیار کرنی ہوتی ہے۔ بینگن کو پہلے بھاپ میں پکانا ہوتا ہے، پھر بھوننا، چھلنا، اس کے اندر کے گودے کو احتیاط سے نکال کر اسے ہاتھ سے اچھی طرح مسلنا پڑتا ہے۔ کلو کے حساب سے ہری مرچ کو لہسن اور مونگ پھلی کے ساتھ ہاتھ سے کوٹا جاتا ہے۔ اس ٹھیچا (پسی ہوئی ہری مرچ اور مونگ پھلی کی سوکھی چٹنی) کو پیاز اور بینگن سے پہلے باریک کٹے ہوئے دھنیے کے ساتھ گرم تیل میں ڈالنا ہوتا ہے۔ ہر روز انہیں کئی درجن پیاز بھی کاٹنا پڑتا ہے۔
کرشنا جی بھریت صرف مقامی لوگوں کا پسندیدہ نہیں ہے۔ یہاں دور دراز کے قصبوں اور تحصیلوں کے لوگ بھی آتے ہیں۔ ریستوراں کے اندر پلاسٹک کی نو (۹) میزیں لگی ہوئی ہیں، جس پر کھانا کھانے والے لوگوں میں سے کئی لوگ تو یہاں سے ۳۰-۲۵ کلومیٹر دور پچورا اور بھوساول سے آئے ہیں۔
وہاں پر لوگوں کو کھلانے کے علاوہ، کرشنا جی بھریت روزانہ دور دراز کے لوگوں تک تقریباً ۱۰۰۰ پارسل بھی بھیجتا ہے۔ ٹرین کے ذریعہ ڈومبی ولی، تھانے، پونے اور ناسک سمیت ۴۵۰ کلومیٹر دور تک کی جگہوں پر ان کا پارسل ڈیلیور کیا جاتا ہے۔
سال ۲۰۰۳ میں اشوک موتی رام بھولے کے ذریعہ قائم کردہ کرشنا جی بھریت کا نام ایک مقامی مذہبی رہنما کے نام پر رکھا گیا، جنہوں نے ان کو بتایا تھا کہ سبزیوں پر مشتمل کھانا بیچنے والا ریستوراں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ یہاں کے منتظم دیوندر کشور بھولے کہتے ہیں کہ یہاں کا بھریت ایک روایتی گھریلو پکوان ہے، جسے لیوا پاٹل برادری کے ذریعے بڑے پیار سے پکایا جاتا ہے۔
شمالی مہاراشٹر کے خاندیش علاقے میں لیوا پاٹل برادری کا سماجی و سیاسی طور پر اہم مقام رہا ہے۔ یہ برادری اپنی بولیوں، پکوانوں اور ثقافتی جڑوں کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
بینگن کے شوربے کی خوشبو ریستوراں میں پھیلنے لگی ہے، اور عورتیں رات کے کھانے کے لیے پولی اور بھاکری بیلنا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ ہر دن تقریباً ۲۰۰۰ پولی (گیہوں سے بنی چپاتی) اور تقریباً ۱۵۰۰ بھاکری (باجرے کی روٹی؛ کرشنا جی بھریت میں عام طور پر باجرے سے تیار کی جانے والی روٹی) بناتی ہیں۔
جلد ہی رات کے کھانے کا وقت ہو جائے گا۔ بھرتوں کا پارسل تیار کرنے کے ساتھ، عورتوں کا دن کا کام ختم ہونے لگے گا اور انہیں آرام ملے گا۔
مترجم: قمر صدیقی