نبو کمار مائتی کے کارخانہ میں چاروں طرف بطخوں کے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں صاف، گندے، کٹے چھنٹے، الگ الگ سائزوں والے اور سفید رنگ کے الگ الگ شیڈ کے پر شامل ہیں۔ کھلی کھڑکیوں سے اندر آ رہی ہوا سے یہ پر اڑنے لگتے ہیں، ہوا میں چکّر کھاتے ہیں اور پھر زمین پر گر جاتے ہیں۔
اُلوبیریا میں ہم نبو کمار کے تین منزلہ گھر کے گراؤنڈ فلور پر کھڑے ہیں۔ ورکشاپ کے اندر کی ہوا قینچی سے کاٹنے اور لوہا کترنے کی آواز سے بھری ہے۔ یہیں ہندوستان کے بیڈمنٹن شٹل کاک بنتے ہیں۔ بھیجنے کے لیے تیار بیرل سے ایک کو اٹھا کر وہ بتاتے ہیں، ’’سفید بطخ کے پر، سنتھیٹک یا لکڑی کے نیم دائرہ کار کارک بیس، سوتی دھاگے اور گوند میں ملی نائیلون سے یہ شٹل بنتی ہیں۔‘‘
اگست ۲۰۲۳ کے آخر میں پیر کے روز دھوپ اور حبس بھری صبح کے ۸ بجے ہیں۔ ہمیں ابھی تک نہیں معلوم، لیکن پانچ ہفتے بعد ہندوستانی کھلاڑی جنوبی کوریا کو ۱۸-۲۱؛ ۱۶-۲۱ سے شکست دے کر ملک کا پہلا ایشیائی گولڈ حاصل کریں گے۔
یہاں اُلوبیریا میں کاریگروں کی چپلیں اور سائیکلیں پروڈکشن یونٹ کے دروازے پر پہلے ہی قطار میں لگی ہیں۔ استری کی گئی پوری آستین والی مرون شرٹ اور فارمل پینٹ پہنے نبو کمار بھی کام پر آ چکے ہیں۔
پروں کو مناسب شکل دینے والے کے بطور سفر شروع کرنے والے ۶۱ سال کے نبو کمار بتاتے ہیں، ’’جب میں ۱۲ سال کا تھا، تب میں نے اپنے گاؤں بنی بن میں ایک کارخانہ میں بطخ کے پروں سے بیڈمنٹن گیندیں بنانی شروع کی تھیں۔‘‘ لوہے کی قینچی سے وہ تین انچ لمبے پروں کو کاٹ کر مناسب شکل دیتے تھے۔ کاریگر شٹل کاک کو ’گیند‘ کہتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’(بنگال میں) پہلی فیکٹری جے بوس اینڈ کمپنی تھی، جو ۱۹۲۰ کی دہائی میں پیر پور گاؤں میں کھلی تھی۔ آہستہ آہستہ جے بوس کے کاریگروں نے ارد گرد کے گاؤوں میں اپنی اکائیاں کھول لیں۔ میں نے ایسی ہی ایک اکائی میں یہ ہنر سیکھا تھا۔‘‘
سال ۱۹۸۶ میں نبو کمار نے اُلوبیریا کے بنی بن گاؤں کے ہاٹ تالا میں اپنی اکائی شروع کی اور ۱۹۹۷ میں جادُر بیریا کے پڑوس میں یہ ورکشاپ بنا کر یہاں آ گئے۔ یہاں وہ مینوفیکچرنگ کا کام دیکھتے ہیں، کچے مال کی سپلائی کا انتظام کرتے ہیں اور فروخت میں مدد کرتے ہیں۔ وہ پروں کو چھانٹنے کا کام بھی کرتے ہیں۔
شٹل کاک اُن بڑی چیزوں میں شامل ہے جو مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق بنی بن جگدیش پور، برندابن پور، شمالی پیر پور اور الوبیریا میونسپلٹی اور ہوڑہ ضلع کے آؤٹ گروتھ علاقوں میں بنتی ہیں۔
نبو کمار کہتے ہیں، ’’۲۰۰۰ کی دہائی کی شروعات میں الوبیریا میں تقریباً ۱۰۰ اکائیاں ہوا کرتی تھیں، مگر آج ۵۰ سے بھی کم رہ گئی ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۱۰ میرے کارخانے کی طرح ہیں، جن میں ۱۲-۱۰ کاریگر کام کرتے ہیں۔‘‘
*****
نبو کمار کے کارخانہ کے سامنے ایک سیمنٹڈ آنگن ہے۔ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہے، ایک کھلا مٹی کی اینٹ والا چولہا ہے اور زمین پر دو برتن رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس جگہ کو پروں کی دھلائی کے لیے بنایا گیا ہے، جو شٹل بنانے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔‘‘
یہاں کام کرنے والے کاریگر رنجیت منڈل ۱۰ ہزار بطخ کے پروں کا ایک بیچ تیار کر رہے ہیں۔ رنجیت (۳۲) کہتے ہیں، ’’پروں کی سپلائی کرنے والے شمالی بنگال میں کوچ بہار، مرشد آباد اور مالدہ اور وسط بنگال میں بیربھوم میں رہتے ہیں۔ کچھ مقامی تاجر بھی ہیں، مگر ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔‘‘ وہ اس کارخانہ میں ۱۵ سال سے کام کر رہے ہیں اور پروڈکشن سپروائزر ہیں۔
پر ۱۰۰۰ کے بنڈلوں میں بیچے جاتے ہیں اور ان کی قیمتیں معیار کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ دھونے کے لیے ایک برتن میں گرم پانی میں بھگوئے گئے مٹھی بھر پروں کو نکالتے ہوئے رنجیت کہتے ہیں، ’’سب سے اچھے پروں کی قیمت آج تقریباً ۱۲۰۰ روپے ہے، یعنی ایک روپیہ ۲۰ پیسے فی پر۔‘‘
وہ درمیانی سائز کی دیگچی میں پانی کے ساتھ سرف ایکسل ڈیٹرجنٹ پاؤڈر ملاتے ہیں اور اسے لکڑی سے جلنے والے کھلے چولہے پر گرم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’شٹل کے پر بے داغ سفید ہونے چاہیے۔ انہیں گرم صابن والے پانی میں دھونے سے ہر طرح کی گندگی صاف ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’انہیں بہت زیادہ وقت تک نہیں رکھ سکتے، کیوں کہ پھر وہ سڑنے لگیں گے۔‘‘
پروں کو رگڑ کر وہ صابن کا پانی بہانے کے لیے ایک جھکی ہوئی بانس کی ٹوکری میں ہر بیچ کو قرینے سے سجاتے جاتے ہیں، تاکہ وہ انہیں ایک بار پھر سے دھو کر آخری بار آنگن میں دوسرے برتن میں بھگو سکیں۔ دس ہزار پروں کی ٹوکری دھوپ میں سُکھانے کے لیے چھت پر لے جاتے ہوئے رنجیت کہتے ہیں، ’’انہیں دھونے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’زیادہ تر پر بطخوں سے ملتے ہیں، جنہیں گوشت کے لیے بطخ فارموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گاؤں میں رہنے والے کئی لوگ اپنی پالی گئی بطخوں کے قدرتی طور پر گرے ہوئے پرانے پروں کو بھی اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں تاجروں کو بیچ دیتے ہیں۔‘‘
چھت پر رنجیت ایک سیاہ مستطیل ترپال کی شیٹ بچھاتے ہیں اور اسے اڑنے سے روکنے کے لیے اس کے کناروں پر اینٹیں رکھ دیتے ہیں۔ پروں کو چادر پر برابری سے پھیلاتے ہوئے وہ اندازہ لگاتے ہیں، ’’آج دھوپ کافی تیز ہے۔ ایک گھنٹہ میں پر سوکھ جائیں گے۔ اس کے بعد وہ بیڈمنٹن کی گیند بنانے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔‘‘
سوکھ جانے کے بعد پروں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا جاتا ہے۔ رنجیت کہتے ہیں، ’’ہم انہیں بطخ کے بائیں یا دائیں بازو اور پروں کے اس حصے کی بنیاد پر جہاں سے وہ بنیادی طور پر آئے تھے، انہیں گریڈ ایک سے چھ تک چھانٹتے ہیں۔ ہر بازو سے صرف پانچ چھ پر ہی ہماری ضرورت کے لائق نکلتے ہیں۔‘‘
نبو کمار کے مطابق، ’’ایک شٹل ۱۶ پروں سے بنتی ہے، جن میں سے سبھی ایک ہی بازو سے ہونے چاہیے اور شافٹ کی طاقت، اس کے دونوں جانب پروں کی موٹائی اور گولائی برابر ہونی چاہیے، ورنہ یہ ہوا میں ڈگمگا جائے گی۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’ایک عام آدمی کو سبھی پر ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ہم صرف چھو کر ہی فرق بتا سکتے ہیں۔‘‘
یہاں بنی شٹل کاک زیادہ تر کولکاتا کے مقامی بیڈمنٹن کلبوں اور مغربی بنگال، میزورم، ناگالینڈ اور پڈوچیری کے تھوک فروشوں کو بیچی جاتی ہے۔ نبو کمار کہتے ہیں، ’’اونچی سطح کے میچوں کے لیے ہنس کے پر استعمال کرنے والی جاپانی کمپنی ’یونیکس‘ نے پورے بازار پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہم اس سطح پر جا کر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہماری شٹل کاک نچلی سطح پر اور نوآموزوں کے مشق کے لیے استعمال میں آتی ہے۔‘‘
ہندوستان چین، ہانگ کانگ، جاپان، سنگاپور، تائیوان اور برطانیہ سے بھی شٹل کاک درآمد کرتا ہے۔ حکومت ہند کے ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے کاروباری انٹیلی جنس اور شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق، اپریل ۲۰۱۹ سے مارچ ۲۰۲۱ کے درمیان ۱۲۲ کروڑ قیمت کی شٹل کاک درآمد کی گئی تھی۔ نبو کمار کہتے ہیں، ’’سردیوں کے مہینوں میں مانگ بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ کھیل زیادہ تر گھر کے اندر کھیلا جاتا ہے۔‘‘ ان کی اکائی میں پیداوار سال بھر ہوتی ہے، مگر ستمبر سے اس کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔
*****
دو کمروں میں چٹائی بچھائے فرش پر پالتھی مار کر بیٹھے کاریگر جھک کر کام میں مصروف ہیں اور شٹل کاک بنانے کے عمل سے جڑے الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ ان کی ماہر انگلیاں اور گہری نظریں صرف تبھی بھٹکتی ہیں، جب پاس سے گزرتی ہوا پروں کو بکھیر دیتی ہے جو شٹل میں بدلے جانے کے مختلف مراحل کے لیے رکھے گئے ہیں۔
ہر صبح نبو کمار کی بیوی ۵۱ سالہ کرشنا مائتی پوجا کے دوران سیڑھیوں سے نیچے کارخانہ میں آتی ہیں۔ خاموشی سے پرارتھنا کرتے کرتے وہ دونوں کمروں میں گھوم کر الگ الگ جگہ جلتی ہوئی اگربتی گھماتی ہیں، جس سے صبح کی ہوا پھولوں کی خوشبو سے بھر جاتی ہے۔
کمرے میں کام شروع ہوتا ہے ۶۳ سالہ شنکر بیرا کی طرف سے، جو ایک سال سے اس اکائی میں کام کر رہے ہیں۔ وہ ایک بار میں ایک پر اٹھاتے ہیں اور اسے تین انچ دور لگی لوہے کی قینچی کے درمیان رکھ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’تقریباً چھ سے دس انچ کے پروں کو ایک سائز کی لمبائی میں کاٹا جاتا ہے۔‘‘
’’پروں کے شافٹ کے بیچ کا حصہ سب سے مضبوط ہوتا ہے اور اسے تراشا جاتا ہے، اور ایسے ۱۶ حصوں سے مل کر ایک شٹل بنتی ہے۔‘‘ شنکر بتاتے ہیں کہ وہ انہیں کاٹ کر چھوٹی پلاسٹک کی ٹوکریوں میں جمع کرتے ہیں، جنہیں بعد میں دوسرے مرحلہ کے لیے چار کاریگروں کو سونپ دیا جاتا ہے۔
پرہلاد پال (۳۵)، مونٹو پارتھو (۴۲)، بھبانی ادھیکاری (۵۰) اور لیکھن ماجھی (۶۰) تین انچ کے پروں کو برابر تراشنے کے لیے دوسرا مرحلہ شروع کرتے ہیں۔ وہ پروں کو لکڑی کی ٹرے میں رکھتے ہیں، جو ان کی گود میں رکھی ہوئی ہے۔
’’شافٹ کا نچلا حصہ پوری طرح صاف کر دیا گیا ہے اور اوپری حصہ شافٹ کے ایک طرف گھماؤدار کنارے کے ساتھ اور دوسری طرف سیدھے کاٹا گیا ہے۔‘‘ پرہلاد ہاتھ میں پکڑی ہوئی لوہے کی قینچی سے ایک پر کے ڈیزائن میں تقریباً چھ سیکنڈ کا وقت لیتے ہیں۔ پر کاٹنے اور اسے مناسب شکل دینے والے کاریگر ہر ۱۰۰۰ پروں پر ۱۵۵ روپے کماتے ہیں، جو پونے تین روپے فی شٹل کاک کے حساب سے ہوتا ہے۔
نبو کمار کہتے ہیں، ’’پروں میں وزن نہیں ہوتا، مگر ان کے شافٹ سخت اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ہر ۱۵-۱۰ دنوں میں ہمیں قینچی تیز کرنے کے لیے مقامی لوہاروں کے پاس بھیجنا پڑتا ہے۔‘‘
اس درمیان، ۴۷ سالہ سنجیب بودک مینوفیکچرنگ کے پورے پروسیس میں استعمال ہونے والی ایک واحد ہاتھ کی مشین کے ساتھ بنے بنائے نصف دائرہ کار کارک بیس کی ڈرلنگ کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھوں کو مستحکم اور نظروں پر بھروسہ رکھتے ہوئے وہ ہر بیس (بنیاد) میں ۱۶ یکساں دوری والے سوراخ کرتے ہیں۔ وہ ہر ڈرل کیے کارک پر تین روپے ۲۰ پیسے کماتے ہیں۔
سنجیب کہتے ہیں، ’’کارک بیس دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ہمیں سنتھیٹک والے میرٹھ اور جالندھر سے ملتے ہیں اور قدرتی والے چین سے۔‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں، ’’قدرتی کارک کا استعمال بہتر کوالٹی والے پروں میں کیا جاتا ہے۔‘‘ معیار میں فرق ان کی قیمتوں سے واضح ہو جاتا ہے۔ سنجیب کے مطابق، ’’سنتھیٹک کارک کی لاگت تقریباً ایک روپیہ آتی ہے، جب کہ قدرتی کارک کی قیمت تقریباً پانچ روپے ہوتی ہے۔‘‘
ایک بار کارک میں سوراخ کرنے کے بعد تیار کیے گئے پروں کے ساتھ انہیں سینئر گرافٹنگ ماہر تاپس پنڈت (۵۲) اور شیام سندر گھوروئی (۶۰) کو سونپ دیا جاتا ہے۔ وہ ان پروں کو کارک کے سوراخ میں ڈالنے کا سب سے اہم کام کرتے ہیں۔
ہر ایک پر کو اس کے قلم سے پکڑ کر وہ اس کے نچلے حصے میں قدرتی گوند لگاتے ہیں اور پھر انہیں یکے بعد دیگرے سوراخ میں ڈالتے ہیں۔ نبو کمار بتاتے ہیں، ’’پروں پر کام کرنے والا ہر کام سائنسی طریقے سے ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی مرحلے میں کچھ بھی غلط ہوا، تو شٹل کے اڑنے، گھومنے کے علاوہ اس کی سمت تبدل ہو جائے گی۔‘‘
’’پروں کو ایک خاص زاویہ پر ایک کے اوپر ایک رکھنا ہوگا اور برابر کرنا ہوگا۔ اسے کرنے کے لیے شونّا [ٹوئیزر] کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ تقریباً ۳۰ سال میں حاصل کی گئی اپنی اس مہارت کو دکھاتے ہوئے تاپس نے یہ بتایا۔ ان کی اور شیام سندر کی تنخواہ ان کے ذریعے بھرے جانے والے شٹل بیرل کی تعداد پر منحصر ہوتی ہے۔ ایک بیرل میں ۱۰ شٹل ہوتے ہیں؛ وہ ۱۵ روپے فی بیرل کماتے ہیں۔
پروں کو کارک پر لگانے کے بعد اب ایک شٹل اپنی ابتدائی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پھر شٹل کو دھاگے کی بائنڈنگ کی پہلی پرت کے لیے ۴۲ سالہ تاروکھ کویال کو سونپ دیا جاتا ہے۔ تاروکھ بتاتے ہیں، ’’یہ دھاگے مقامی سطح پر خریدے جاتے ہیں۔ کپاس کے ساتھ ملی نائیلون کے سبب وہ کافی مضبوط ہوتے ہیں۔‘‘ تاروکھ ایک ہاتھ میں دس انچ لمبا دھاگہ جس کے سرے بندھے ہوئے ہیں، اور دوسرے ہاتھ میں کارک اور پر لیے ہوئے ہیں۔
انہیں ۱۶ پروں کو ساتھ باندھنے میں صرف ۳۵ سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاروکھ بتاتے ہیں، ’’دھاگے کو ہر ایک پر کے شافٹ کو ایک گانٹھ سے پکڑنے کے لیے بنایا جاتا ہے، جس کے بعد شافٹ کے درمیان انہیں مضبوطی سے دو بار موڑا جاتا ہے۔‘‘
ان کی کلائیاں اتنی تیزی سے گھومتی ہیں کہ نظریں اُن پر ٹک نہیں پاتیں۔ یہ ۱۶ گانٹھیں اور ۳۲ موڑ صرف تبھی دکھائی دیتے ہیں، جب تاروکھ آخری گانٹھ باندھ رہے ہوتے ہیں اور قینچی سے اضافی دھاگہ کاٹتے ہیں۔ ہر ۱۰ باندھی جانے والی شٹل کے لیے وہ ۱۱ روپے کماتے ہیں۔
پروباش شاشمل (۵۰ٌ) پروں کے ایک لائن میں ہونے اور دھاگے کی جگہ کی جانچ کرنے کے لیے ہر شٹل کاک کو آخری بار چیک کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر انہیں ٹھیک کرکے وہ شٹل کے ساتھ بیرل در بیرل بھرتے جاتے ہیں اور انہیں پھر سے سنجیب کے پاس بھیج دیتے ہیں، جو شٹل کی مضبوطی بڑھانے کے لیے صاف شافٹ اور دھاگوں پر سنتھیٹک رال اور ہارڈنر کا آمیزہ لگاتے ہیں۔
ایک بار سوکھنے پر شٹل برانڈنگ کے لیے تیار ہو جاتی ہیں، جو آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ سنجیب کہتے ہیں، ’’ہم کارک کے کنارے پر برانڈ کے نام کے ساتھ ڈھائی انچ لمبی نیلی پٹّی چپکاتے ہیں اور شافٹ کی بنیاد پر ایک گول اسٹکر لگاتے ہیں۔ پھر ہر ایک شٹل کاک کو سائز کے مطابق وزن کیا جاتا ہے اور بیرل میں رکھا جاتا ہے۔‘‘
*****
نبو کمار نے اگست ۲۰۲۳ میں پاری سے بات چیت میں کہا تھا، ’’ہمیں سائنا نہوال اور پی وی سندھو سے تین اولمپک میڈل ملے ہیں۔ بیڈمنٹن کافی مقبول ہو رہا ہے، مگر الوبیریا میں بھلے ہی نوجوان لوگ پروں کے ساتھ پرواز کرنا سیکھ لیں، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ان کا مستقبل بھی کھلاڑیوں کی طرح ہی محفوظ رہے گا۔‘‘
الوبیریا میونسپلٹی کو مغربی بنگال حکومت کی بہت چھوٹی، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے ڈائریکٹوریٹ نے شٹل کاک مینوفیکچرنگ کلسٹر کے طور پر درجہ بند کیا ہے۔ مگر نبو کمار کہتے ہیں، ’’علاقے کو کلسٹر کے طور پر رکھنے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا ہے۔ یہ صرف دکھاوے کے لیے ہے۔ ہم سب کچھ اپنے دَم پر ہی کر رہے ہیں۔‘‘
جنوری ۲۰۲۰ میں پر-شٹل کی صنعت کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ بین الاقوامی گورننگ باڈی، بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن نے کھیل کے استحکام، ’’اقتصادی اور ماحولیاتی فائدے‘‘ اور ’’طویل مدتی پائیداری‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کھیل کی تمام سطحوں پر سنتھیٹک پروں والی شٹل کے استعمال کو منظوری دے دی تھی۔ اس کے بعد یہ شق ۱ء۲ میں بیڈمنٹن کے قوانین کا آفیشل حصہ بن گیا، جس میں کہا گیا کہ ’’شٹل قدرتی اور/یا سنتھیٹک اشیاء سے بنی ہوگی۔‘‘
نبو کمار پوچھتے ہیں، ’’کیا پلاسٹک یا نائیلون کے پروں سے بنی شٹل کاک کسی مقابلہ میں آ سکتی ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ کھیل کا کیا ہوگا، لیکن اگر یہ فیصلہ عالمی سطح پر لیا گیا، تو کیا لگتا ہے کہ ہم کب تک گزارہ کر پائیں گے؟ ہمارے پاس سنتھیٹک شٹل بنانے کی تکنیک یا ہنر نہیں ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’آج زیادہ تر کاریگر ادھیڑ عمر کے یا ۳۰ یا اس سے زیادہ سال کے تجربہ والے بزرگ شہری ہیں۔ اگلی نسل اب اسے معاش کا ذریعہ نہیں مانتی۔‘‘ بیحد کم تنخواہ اور پروں کے اس خاص ہنر کو حاصل کرنے کے لیے لگنے والے ضروری لمبے گھنٹے نئے لوگوں کو ایک رکاوٹ کی طرح لگتے ہیں۔
نبو کمار کہتے ہیں، ’’اگر حکومت معیاری پروں کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے قدم نہیں اٹھاتی، پروں کی اونچی قیمتوں پر روک نہیں لگاتی اور نئی تکنیک والی مشینیں مہیا نہیں کراتی، تو اس صنعت کو پوری طرح غائب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘
رپورٹر اس اسٹوری میں بیش بہا مدد فراہم کرنے کے لیے ادرش مائتی کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت کی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز