’’ بیجو [نئے سال کا تہوار] کے موقع پر نیند سے بیدار ہوکر ہم جلدی پھول توڑنے نکل جاتے ہیں۔ پھر ان پھولوں کو دریا میں بہا دیتے ہیں اور غوطہ لگاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم گاؤں کے ہر گھر کا دورہ کرتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں اور ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں،‘‘ جیہ بتاتی ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اس دن سے وابستہ ان کی یادیں ماند نہیں پڑی ہیں۔
’’ہم چاول کے مٹھی بھر دانے [خیرسگالی کے جذبے کے تحت] بطور تحفہ دیتے ہیں، اور بدلے میں ہرایک گھر سے ہمیں لانگی [چاول کی بیئر] پیش کی جاتی ہے۔ ہر گھر میں ہم صرف چند گھونٹ ہی پیتے ہیں، لیکن اتنے زیادہ گھروں کا دورہ کیا جاتا ہے کہ آخر تک کافی نشہ چڑھ جاتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ’’اس دن گاؤں کے نوجوان احتراماً اپنے بزرگوں کو دریا کے پانی سے نہلاتے ہیں۔‘‘ سالانہ تقریبات کی یادوں سے جیہ کا چہرہ چمک اٹھتا ہے۔
اب ایک بین الاقوامی سرحد کی دوسری جانب اور اس گھر سے سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلہ پر، جس چیز کا وجود اب بھی قائم ہے وہ ہے لانگی۔ یہ وہ دھاگہ ہے جس نے بہت سے چکما پناہ گزینوں کو ان کی برادری کی رسم و رواج سے جوڑ رکھا ہے۔ بنگلہ دیش کے رنگمتی میں پرورش پانے والی جیہ کہتی ہیں، ’’یہ ہماری ثقافت کا لازمی جزو ہے۔ اس خطہ کے دیگر قبائل بھی رسومات کی ادائیگی میں اور نذرانے کے طور پر لانگی کا استعمال کرتے ہیں۔
’’میں نے اپنے والدین کو دیکھ کر اسے [لانگی] بنانا سیکھا تھا۔ میری شادی کے بعد میرے شوہر سورین اور میں نے مل کر یہ کام شروع کیا تھا،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ یہ جوڑا تین دیگر اقسام کی بیئر – لانگی ، مود اور جوگورا – بنانا بھی جانتا ہے۔
جوگورا سازی بھی چاول سے ہی کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری چَیتر (بنگالی کیلنڈر میں سال کا آخری مہینہ) کے پہلے دن شروع ہوتی ہے۔ ’’ہم بیروئن چال [باریک قسم کا چاول] استعمال کرتے ہیں اور جوگورا سازی سے پہلے اس کا خمیر تیار کرنے کے لیے ہفتوں تک بانس میں رکھتے ہیں۔ اب ہم تواتر سے جوگورا سازی نہیں کرتے ہیں،‘‘ جیہ کہتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسے بنانے میں کم از کم ایک مہینہ کا وقت لگتا ہے اور چاول بھی بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ ’’پہلے ہم اس چاول کو جھوم [پہاڑی کاشت] میں اگاتے تھے، لیکن اب اتنی زمین نہیں ہے کہ اس پر کھیتی کی جائے۔‘‘
اس جوڑے کا گھر تریپورہ کے اُناکوٹی ضلع میں ہے۔ تریپورہ ملک کی دوسری سب سے چھوٹی ریاست ہے، جس کا تقریباً دو تہائی حصہ جنگل پر مشتمل ہے۔ یہاں زراعت سب سے اہم پیشہ ہے اور بہت سے لوگ اضافی آمدنی کے لیے غیرتجارتی لکڑی والی جنگلاتی پیداوار (این ٹی ایف پی) پر انحصار کرتے ہیں۔
’’میری عمر ابھی چند سال کی تھی جب مجھے گھر چھوڑنا پڑا تھا۔ پوری برادری بے گھر ہو گئی تھی،‘‘ جیہ یاد کرتی ہیں۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کے چٹگاؤں میں دریائے کرن پھولی پر ڈیم کے لیے ان کے گھروں کو ہٹا دیا گیا تھا۔ ’’ہمارے پاس کھانا نہیں تھا، پیسے نہیں تھے۔ ہم نے اروناچل پردیش میں ایک کیمپ میں پناہ لی…کچھ سالوں بعد ہم تریپورہ چلے آئے،‘‘ جیہ مزید کہتی ہیں۔ بعد میں انہوں تریپورہ کے ہی رہنے والے سورین سے شادی کر لی تھی۔
*****
لانگی ایک مقبول مشروب ہے اور ایک پھلتے پھولتے بازار کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ یہاں سینکڑوں قبائلی خواتین اس شراب کو بناتی اور فروخت کرتی ہیں۔ یہ ان آدیواسیوں کی تمام سماجی اور مذہبی تقریبات کا ایک لازمی حصہ ہے۔ تاہم ’ناجائز‘ کا لائحقہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ذریعے اس کے بنانے اور اس کی تجارت میں شامل افراد، جو سبھی خواتین ہوتی ہیں، کی ہراسانی اور تذلیل کا باعث بنتا ہے۔
جیہ کا کہنا ہے کہ شراب کی ایک کھیپ بنانے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ ’’یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مجھے روزمرہ کے گھریلو کام کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا،‘‘ اپنی دکان پر بیٹھی دوپہر کی تیز دھوپ سے خود کو محفوظ کرتی اور وقفے وقفے سے حقے کا کش لیتی ہوئی جیہ کہتی ہیں۔
جرنل آف اِیتھنک فوڈز کے ۲۰۱۶ کے ایک شمارہ میں کہا گیا ہے کہ لانگی بنانے میں استعمال ہونے والے اجزاء مختلف النوع ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ہر برادری کی حتمی پیداوار کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔ ’’ہر برادری کے پاس لانگی کا اپنا نسخہ ہے۔ جو ہم بناتے ہیں وہ ریانگ برادری کے ذریعہ بنائی گئی لانگی سے زیادہ تیز [الکحل کی زیادہ مقدار] ہوتی ہے،‘‘ سورین مزید کہتے ہیں۔ ریانگ تریپورہ کی دوسری سب سےبڑی قبائلی آبادی ہے۔
یہ جوڑا شراب سازی کے عمل کو دردرا پسے ہوئے چاول کے دانوں سے شروع کرتا ہے۔ ’’ہر کھیپ کے لیے، ہم ۸-۱۰ کلو سِدھو چال [چھوٹے دانے والا لیس دار چاول] کو دیگچی میں ابالتے ہیں۔ اسے بہت زیادہ نہیں پکانا چاہیے،‘‘ جیہ کہتی ہیں۔
وہ چاول کے پانچ کلو کے تھیلے سے دو لیٹر لانگی یا اس سے کچھ زیادہ مود تیار کر سکتے ہیں۔ تیار شدہ مشروب کو ۳۵۰ ملی لیٹر کی بوتلوں یا (۹۰ ملی لیٹر کے) گلاس میں فروخت کیا جاتا ہے۔ دس روپے فی گلاس کی قمیت کے ساتھ لانگی کی قیمت مود کی ۲۰ روپے فی گلاس سے آدھی ہوتی ہے۔
سورین وضاحت کرتے ہیں، ’’ہر چیز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ایک کوئنٹل [۱۰۰ کلو] چاول کی قیمت ۱۰ سال پہلے تقریباً ۱۶۰۰ روپے تھی۔ اب یہ بڑھ کر ۳۳۰۰ روپے ہو گئی ہے۔‘‘ صرف چاول ہی نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں دیگر تمام بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
جب جیہ اپنے قیمتی مشروب بنانے کے عمل کی تفصیلات بیان کرنا شروع کر تی ہیں تو ہم بیٹھ جاتے ہیں۔ پکے ہوئے چاول کو (خشک ہونے کے لیے چٹائی پر) پھیلا دیا جاتا ہے اور ٹھنڈا ہونے کے بعد اس میں مولی ڈال دی جاتی ہے اور اس کا خمیر اٹھنے کے لیے اسے موسم کے لحاظ سے دو سے تین دن تک کا وقت دیا جاتا ہے۔ ’’گرمی کے موسم میں ایک رات کافی ہوتی ہے، لیکن سردیوں میں اس میں کچھ ایک دن اور لگ سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
خمیر اٹھ جانے کے بعد، ’’پانی ڈالتے ہیں اور مرکب کو آخری دفعہ ابالتے ہیں۔ اس کے بعد پانی نکال کر اسے ٹھنڈا ہونے دیتے ہیں، آپ کی لنگی تیار ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ وہیں دوسری طرف مود کشید کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیے بخارات کا سلسلہ وار طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اس میں تین برتنوں کو تلے اوپر رکھا جاتا ہے۔ خمیر کرنے کے لیے کسی مصنوعی خمیر یا ییسٹ کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔
ان دونوں مشروبات کے لیے وہ کئی جڑی بوٹیاں شامل کرتے ہیں، جیسے پاتھر ڈاگر ( پرموٹریماپیرلاٹم )، جو ایک پھول دار پودا ہوتا ہے اور عموماً بلندی پر پایا جاتا ہے، اگچی کے پتے، جن جن نامی سبز پودے کے پھول، گندم کا آٹا، لہسن اور سبز مرچ۔ ’’ان تمام اشیاء کو ملا کر چھوٹی مولیاں بنائی جاتی ہیں، جو عموماً پہلے سے بنا کر محفوظ کر لی جاتی ہیں،‘‘ جیہ مزید کہتی ہیں۔
’’اس میں دوسرے بہت سارے الکحلی مشروبات کی طرح سوزشی تاثیر کے بجائے ایک الگ طرح کا کھٹاپن ہوتا ہے، جو گرمیوں میں بہت سکون بخش ہوتا ہے اور اس کی خوشبو بھلی معلوم ہوتی ہے،‘‘ ایک مطمئن گاہک کہتا ہے، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ پاری سے ملنے والے تمام گاہک تصاویر لینے یا آزادانہ گفتگو کے لیے تیار نہیں تھے، شاید انہیں قانون کا خوف تھا۔
*****
لانگی بنانے والوں کا کہنا ہے کہ اس مشروب کو بنانا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تریپورہ ایکسائز ایکٹ ۱۹۸۷کے تحت خمیر شدہ چاول سے حاصل ہونے والے مشروبات پر پابندی نافذ کر دی گئی ہے۔
’’یہاں کوئی شخص کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ نہ کوئی صنعت ہے اور نہ ہی روزگار کے مواقع...کوئی کرے تو کیا کرے؟ ذرا اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ لوگ یہاں کیسے زندہ ہیں۔‘‘
زیادہ مقدار میں شراب بنانا ناممکن ہے۔ جیہ کہتی ہیں کہ وہ ایک بار میں صرف ۸-۱۰ کلو چاول سے شراب سازی کرسکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس صرف پانچ برتن ہیں، اور پھر پانی تک رسائی محدود ہے اور گرمیوں میں حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’اسے بنانے کے لیے ایندھن کے طور پر ہم صرف لکڑیاں استعمال کرتے ہیں اور اس میں بہت زیادہ لکڑیاں لگتی ہیں- اس مد میں ہر ماہ ہم ۵۰۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ قیمتوں میں بھاری اضافہ کی وجہ سے گیس سیلنڈر ناقابل استعمال متبادل بن گئے ہیں۔
’’ہم نے تقریباً ۱۰ سال پہلے [لانگی] کی دکان کھولی تھی۔ ہمارے بچوں کی تعلیم دوسری صورت میں ممکن نہیں تھی،‘‘ جیہ کہتی ہیں۔ ’’ہمارا ایک ہوٹل بھی تھا، لیکن بہت سے گاہک وہاں کھانا کھاتے تھے اور اپنے واجبات ادا نہیں کرتے تھے، اس لیے ہمیں اسے بند کرنا پڑا۔‘‘
ایک اور شراب ساز لتا (تبدیل شدہ نام ) کہتی ہیں کہ آس پاس کے سبھی لوگ بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں اور ’’ہم پوجا [تہوار] اور نئے سال کے موقعوں پر لانگی کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ کشید کی گئی شراب کچھ رسومات میں دیوتاؤں کو نذرانے کے روپ میں پیش کی جاتی ہے۔‘‘ پچھلے کچھ سالوں کے دوران منافع میں آئی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے لتا نے شراب سازی بند کر دی ہے۔
کم آمدنی جیہ اور سورین کو بھی پریشان کرتی ہے، جنہیں اپنی عمر میں اضافے کے ساتھ صحت سے متعلق مسائل میں ہو رہے اضافہ کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’میری نظر کمزور ہے اور مجھے کبھی کبھار جوڑوں کے درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرے پاؤں اکثر سوج جاتے ہیں۔‘‘
ان بیماریوں اور صحت سے متعلق دیگر خدشات کو دور کرنے کے لیے وہ آسام کے ہسپتالوں کا دورہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ تریپورہ میں ریاستی صحت کی نگہداشت تک رسائی کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ام - جے اے وائی) اسکیم ان جیسے غریب کنبوں کو ۵ لاکھ روپے کا بیمہ دیتی ہے۔ وہ آسام کے سفر کو ترجیح اس لیے دیتے ہیں کیونکہ انہیں ریاستی صحت کی نگہداشت پر اعتماد نہیں ہے۔ جیہ بتاتی ہیں، ’’دونوں طرف کے سفر میں ۵۰۰۰ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔‘‘ طبی ٹیسٹ کے لیے بھی ان کی بچت کی رقم ہی خرچ ہوتی ہے۔
یہاں سے ہمارے نکلنے کا وقت ہو گیا ہے۔ جیہ باورچی خانہ کو صاف کرنا شروع کر دیتی ہیں، جب کہ سورین اگلی صبح لانگی کی اگلی کھیپ تیار کرنے کے لیے ایندھن کی لکڑیوں کا ڈھیر لگانے لگتے ہیں۔
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم