مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں یہ اپریل مہینہ کا گرم دن ہے۔ یہاں کے بھیڑ بھاڑ والے اور مصروف ترین چاندنی چوک علاقے میں بلڈوزروں کی گڑگڑاہٹ سے لوگوں کی صبح خراب ہو گئی ہے۔ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں سے گھبرائے ہوئے باہر نکل آئے ہیں۔
وسیم احمد (۳۵) کی آنکھوں کے سامنے بلڈوزر کے بھاری اسٹیل بلیڈ نے کچھ ہی منٹوں میں ان کی دکان اور اس کے اندر رکھے قیمتی سامان کو کچل کر برباد کر دیا اور وہ خوفزدہ ہو کر سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے جو بھی پیسہ جمع کیا تھا اسے اپنی پنساری (کیرانے) کی دکان میں لگا دیا تھا۔‘‘
ریاستی حکومت کے حکم پر ان بلڈوزروں نے ۱۱ اپریل،۲۰۲۲ کو صرف ان کی چھوٹی سی دکان کو ہی نہیں، بلکہ کھرگون کے اس مسلم اکثریتی علاقے میں ۵۰ دیگر دکانوں اور گھروں کو بھی زمین دوز کر دیا۔ ذاتی ملکیت کو نقصان پہنچانے کے پیچھے ریاستی حکومت کا انصاف کے نام پر بدلہ لینے کا جذبہ کارفرما تھا، جو اس کے ذریعے رام نومی کے دوران پتھر بازی کرنے والے ’’فسادیوں‘‘ کو سزا دینا چاہتی تھی۔
لیکن وسیم کو پتھر باز ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے معذور ہیں اور کسی کی مدد کے بغیر چائے بھی نہیں پی سکتے، پتھر اٹھانا اور پھینک کر مارنا تو بہت دور کی بات ہے۔
وسیم کہتے ہیں، ’’میرا اُس دن کے واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔‘‘
سال ۲۰۰۵ میں ایک حادثہ میں دونوں ہاتھ کھونے سے پہلے وہ ایک پینٹر ہوا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک دن، کام کے دوران مجھے کرنٹ لگ گیا اور ڈاکٹر کو میرے دونوں ہاتھ کاٹنے پڑے۔ اتنے مشکل حالات میں بھی میں نے [اس دکان کی مدد سے] خود کو پھر سے کھڑا کیا۔‘‘ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ انہوں نے مایوس ہونے اور خود کو کم تر سمجھنے میں وقت برباد نہیں کیا۔
وسیم کی دکان میں گاہکوں کو جو بھی سامان – کیرانے کا سامان، اسٹیشنری وغیرہ – چاہیے ہوتا تھا، وہ انہیں بتا دیتے تھے اور وہ خود ہی دکان سے سامان لے لیتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’وہ میری جیب میں یا دکان کی دراز میں پیسے ڈال دیتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ گزشتہ ۱۵ سالوں سے یہی دکان میرے معاش کا ذریعہ تھی۔‘‘
محمد رفیق (۷۳) کو اُس روز ۲۵ لاکھ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کھرگون کے چاندنی چوک علاقے میں ان کی چار دکانیں تھیں، جن میں سے تین کو زمین دوز کر دیا گیا۔ رفیق بتاتے ہیں، ’’میں ان کے پیروں میں گرا، ان کے سامنے گڑگڑایا، لیکن انہوں نے [میونسپل حکام] نے ہمیں کاغذ بھی نہیں دکھایا۔ میری دکان قانونی طور پر صحیح تھی۔ مگر اس سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘
ریاستی حکومت کی نظر میں فساد کے دوران ہوئے نقصان کی تلافی کے لیے اسٹیشنری، چپس، سگریٹ، کینڈی، کولڈ ڈرنک وغیرہ بیچنے والی دیگر دکانوں کے علاوہ، وسیم اور رفیق کی دکانوں کو توڑنا ایک انصاف پر مبنی کارروائی تھی۔ بعد میں ضلع انتظامیہ نے کہا کہ گرائے گئے عمارتی ڈھانچے ’’غیر قانونی‘‘ تھے۔ لیکن مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے نامہ نگاروں سے کہا تھا، ’’جن گھروں سے پتھر آئے ہیں ان گھروں کو ہی پتھروں کا ڈھیر بنائیں گے۔‘‘
بلڈوزروں سے پہلے، فساد کے دوران مختیار خان جیسے لوگوں نے اپنے گھروں کو کھو دیا۔ ان کا گھر سنجے نگر کے ہندو اکثریتی علاقے میں تھا۔ وہ میونسپل کارپوریشن میں ایک صفائی کرمچاری ہیں۔ جس دن تشدد بھڑکا تھا اُس دن وہ کام پر گئے ہوئے تھے۔ وہ اُس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’مجھے ایک دوست کا فون آیا اور اس نے کہا کہ میں جلدی سے واپس آؤں اور فیملی کو کسی محفوظ جگہ لے جاؤں۔‘‘
دوست کی صلاح ان کی فیملی کے لیے اپنی جان بچانے کا باعث بنی، کیوں کہ مختیار خان کا گھر سنجے نگر کے ہندو اکثریتی علاقے میں تھا۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ وقت پر وہاں پہنچ گئے اور اپنی فیملی کو ایک مسلم اکثریتی علاقے میں اپنی بہن کے گھر لے گئے۔
جب وہ لوٹے تو ان کے گھر کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سب کچھ راکھ ہو چکا تھا۔‘‘
مختیار اس علاقے میں گزشتہ ۴۴ سال سے رہ رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہماری [والدین کی] ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ میں نے ۱۵ سال تک پیسے بچائے اور ۲۰۱۶ میں اپنے لیے ایک گھر بنوایا۔ میں اپنی پوری زندگی یہیں رہا اور سبھی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات تھے۔‘‘
گھر تباہ ہو جانے کے بعد مختیار اب کھرگون میں کرایے کے ایک مکان میں رہتے ہیں، اور ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے کرایہ دیتے ہیں، جو ان کی تنخواہ کا ایک تہائی حصہ ہے۔ انہیں نئے برتن، نئے کپڑے اور یہاں تک کہ نئے فرنیچر خریدنے پڑے کیوں کہ ان کے گھر کے ساتھ ساتھ ان کا سارا سامان بھی جل کر راکھ ہو گیا تھا۔
’’انہوں نے میری زندگی تباہ کرنے سے پہلے سوچا تک نہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ خاص طور پر پچھلے ۵-۴ سالوں میں کافی بڑھ گیا ہے۔ حالات اتنے برے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ان دنوں، ہر کوئی ہمیشہ ہی تکرار کے لیے تیار رہتا ہے۔‘‘
مختیار کو ۷۶ء۱ لاکھ روپے کا معاوضہ ملنا باقی ہے، حالانکہ یہ ان کے نقصان کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ لیکن اس اسٹوری کے لکھے جانے تک انہیں معاوضہ کی رقم نہیں ملی تھی۔ انہیں پیسے جلدی ملنے کی امید بھی نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’مجھے معاوضہ اور انصاف دونوں چاہیے، کیوں کہ میرے گھر کو توڑا گیا ہے۔ دو دن بعد، انتظامیہ نے بھی وہی کیا جو فسادیوں نے کیا تھا۔‘‘
پچھلے ۳-۲ سالوں میں بی جے پی حکومت والی کئی ریاستوں میں ’’بلڈوزر سے انصاف‘‘ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے علاوہ اتر پردیش، دہلی، ہریانہ اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں کسی واقعہ کے ملزم افراد کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر سے زمین دوز کرنے کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ ملزم واقعی میں قصوروار ہو یا نہ ہو، اس بات کی انتظامیہ نے پرواہ نہیں کی ہے۔ لیکن زیادہ تر معاملوں میں مسلمانوں کی جائیداد کو برباد کیا گیا ہے۔
پیپلز یونین آف سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) سے اس نامہ نگار کو ملی ایک رپورٹ کے مطابق، کھرگون میں حکومت کے ذریعے صرف مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس رپورٹ میں ریاست کے ذریعے توڑے گئے عمارتی ڈھانچوں کی جانچ کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، ’’بھلے ہی دونوں برادریاں تشدد سے متاثر ہوئی ہیں، لیکن انتظامیہ کے ذریعے تباہ کی گئی تمام جائیدادیں مسلمانوں کی تھیں۔ کسی کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا، اپنا سامان لینے کی مہلت بھی نہیں دی گئی۔ ضلع انتظامیہ کی قیادت میں اہلکاروں نے گھروں اور دکانوں پر سیدھے بلڈوزر چلوا دیا اور سب کچھ تباہ کر دیا۔‘‘
*****
یہ سب کچھ ایک افواہ کے ساتھ شروع ہوا، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔ پچھلے سال ۱۰ اپریل، ۲۰۲۲ کو رام نومی کے دن یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ پولیس نے کھرگون کے تالاب چوک کے پاس ایک ہندو جلوس کو روک دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس خبر کو پھیلایا گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں ایک مشتعل بھیڑ جمع ہو گئی، جو اس جگہ کی طرف آگے بڑھتے ہوئے کارروائی کی حمایت میں اشتعال انگیز نعرے بازی کر رہی تھی۔
اُس وقت، مسلمان قریب کی ایک مسجد میں نماز پڑھ کر واپس لوٹ رہے تھے اور راستے میں مشتعل بھیڑ کے ساتھ ان کا ٹکراؤ ہو گیا۔ پتھر بازی کے ساتھ یہ ٹکراؤ پر تشدد ہو گیا اور جلد ہی شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی تشدد پھوٹ پڑا، جہاں شدت پسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنا رہی تھیں۔
معاملے کو مزید بدتر بناتے ہوئے سی این این نیوز ۱۸ کے اینکر امن چوپڑہ نے اسی وقت کھرگون کے تشدد پر ایک بحث شروع کروا دی، جس کا عنوان تھا: ’’ہندو رام نومی منائے، ’رفیق‘ پتھر برسائے۔‘‘
یہ واضح نہیں تھا کہ چوپڑہ اس پروگرام کی آڑ میں محمد رفیق کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے یا پھر ایک عام مسلم نام کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس پروگرام کا رفیق اور ان کے گھر والوں پر بہت برا اثر پڑا۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس کے بعد میں کئی دنوں تک سو نہیں سکا۔ اس عمر میں، میں اتنا تناؤ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
رفیق کی دکانوں کو مسمار ہوئے ڈیڑھ سال گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی بھی ان کے پاس چوپڑہ کے پروگرام کا ایک پرنٹ آؤٹ پڑا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر انہیں ہر بار اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی پہلی بار ہوئی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ چوپڑہ کے اُس پروگرام کے بعد ہندوؤں نے کچھ وقت کے لیے ان سے کولڈ ڈرنک اور ڈیری پروڈکٹ (دودھ، دہی وغیرہ) خریدنا بند کر دیا تھا۔ ہندو شدت پسند تنظیموں نے پہلے ہی لوگوں سے مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔ اس پروگرام نے حالات کو مزید بدتر بنا دیا۔ رفیق مجھ سے کہتے ہیں، ’’بیٹا، تم بھی تو صحافی ہو۔ کیا ایک صحافی کو ایسا کرنا چاہیے؟‘‘
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بس مجھے اپنے پیشہ کو لے کر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ جلد ہی وہ مسکراتے ہوئے مجھ سے کہتے ہیں، ’’میں تمہیں نشانے پر نہیں لینا چاہتا تھا۔ تم ایک اچھے آدمی معلوم پڑتے ہو۔‘‘ وہ مجھے اپنی دکان سے ایک کولڈ ڈرنک لا کر دیتے ہیں۔ ’’میرے پاس ابھی بھی دکان بچی ہوئی ہے اور میرے بیٹے مالی اعتبار سے مضبوط ہیں۔ لیکن سب کے پاس یہ سہولت نہیں ہے۔ کئی لوگ تو روز کماتے ہیں، اور روز کھاتے ہیں۔‘‘
وسیم کے پاس اپنی دکان کو پھر سے بنوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ دکان توڑے جانے کے ڈیڑھ سال بعد وہ خالی ہاتھ ہیں، کیوں کہ ان کی کمائی کا ذریعہ ان سے چھن چکا ہے۔ کھرگون میونسپل کارپوریشن نے کہا تھا کہ وہ ان کی مدد کریں گے۔ ’’مجھے بولا تھا مدد کریں گے، لیکن بس نام کے لیے تھا وہ۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’دونوں ہاتھ سے معذور آدمی کیا کر سکتا ہے؟‘‘
حکومت کے ذریعے کیرانے کی دکان گرائے جانے کے بعد وسیم اپنے بڑے بھائی کی مدد پر منحصر ہیں، جن کی کھرگون میں ایک چھوٹی سی دکان ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اپنے دونوں بچوں کا ایک سرکاری اسکول میں داخلہ کرایا ہے۔ تیسرا بچہ ۲ سال کا ہے۔ وہ بھی ایک سرکاری اسکول میں پڑھے گا۔ میرے بچوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مجھے اپنی قسمت سے سمجھوتہ کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز