ہر سال، ملک بھر کے نوجوان ہمارے ساتھ انٹرن شپ کرنے کے لیے اپنی درخواست بھیجتے ہیں۔ اور اس سال بھی ہمارے پاس ملک کے الگ الگ کونے سے، مختلف مضامین کے طلباء نے بڑی تعداد میں ہمیں اپنی درخواستیں بھیجیں۔ یہ طلباء ملک بھر کی یونیورسٹیوں، جیسے ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی، سونی پت کی اشوکا یونیورسٹی، پونے کی فلیم یونیورسٹی، راجستھان سنٹرل یونیورسٹی اور کئی دیگر یونیورسٹیوں سے تھے۔
ہم نے انٹرن شپ میں گزشتہ کچھ سالوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں کی ہیں۔ حصہ لینے والے طلباء کی تعداد بڑھ گئی ہے، انہیں دیے جانے والے کاموں اور سوالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ، ہمارے مقصد میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہمارا مقصد ہمیشہ سے ہی نوجوانوں کو عدم مساوات، نا انصافی کے درمیان حاشیہ پر پڑی برادریوں سے جڑے مسائل کے بارے میں جاننے اور اپنے زمانے کے ضروری سوالوں کو درج کرنے کے لیے آمادہ کرنا رہا ہے۔
پاری کے ساتھ جڑے طلباء کو زمینی سطح پر کام کرنا ہوتا ہے۔ انہیں گاؤوں میں حاشیہ پر رہنے والی برادریوں پر تحقیق، انٹرویو، تحریر، تصدیق، فلم سازی کے ساتھ ساتھ تصویریں کھینچنی ہوتی ہیں اور کہانیاں بیان کرنی ہوتی ہیں۔ ہمارے پاس ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اروناچل پردیش، تمل ناڈو، اوڈیشہ، مہاراشٹر، کیرالہ، جموں و کشمیر سے طلباء نے اپنے کام بھیجے ہیں۔
وہ لائبریری رپورٹ، فلم اور ویڈیو، سوشل میڈیا پوسٹ پر بھی کام کرتے ہیں، اور ضرورت پڑنے پر ترجمہ کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
جنسی غیر برابری اور تفریق ایک ایسا موضوع تھا جس پر بہت سے طلباء کام کرنا چاہتے تھے اور ان سے جڑے مسائل کو اپنی رپورٹ کے ذریعے نمایاں کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے ایسا کیا بھی:
ہماری انٹرن ادھیتا مشرا نے اپنی اسٹوری، خواتین مزدوروں کو رفع حاجت تک کی چھٹی نہیں ، کے ذریعہ دکھایا کہ مغربی بنگال کے چائے کے باغات میں کام کرنے والی خواتین مزدوروں کو کس طرح جنسی تفریق کے سبب مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ادھیتا اُس وقت جادھو پور یونیورسٹی میں تقابلی ادب کی پڑھائی کر رہی تھیں۔ اس اسٹوری کو درج کرنے کے دوران انہیں باغات اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی شناخت پوشیدہ رکھنی پڑی، ورنہ ان کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
دیپ شکھا، عظیم پریم جی یونیورسٹی میں ایم اے ڈیولپمنٹ کی طالبہ ہیں۔ انٹرن شپ کے دوران بہار سے کام کرتے ہوئے، انہوں نے دیہی علاقوں میں آرکیسٹرا میں کام کرنے والی خواتین پر یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی اسٹوری ہمیں بھیجی: فحش گانوں پر ناچنے کی مجبوری ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آپ سے ملی رہنمائی اور فیڈ بیک سے نہ صرف میری اسٹوری کے معیار میں اضافہ ہوا، بلکہ رپورٹر کے طور پر میرا اعتماد بھی بڑھا۔ پاری کی ویب سائٹ پر اپنی اسٹوری کو شائع ہوتے دیکھنا کسی خواب کے سچ ہونے جیسا ہے…اس تجربہ نے مجھے ان اسٹوریز کو درج کرنے کے لیے آمادہ کیا ہے جو اپنے وقت کے سوالوں کو اٹھاتی ہیں۔‘‘
سال کے آخر میں، انٹرن کوہو بجاج نے مدھیہ پردیش کے دموہ سے بیڑی مزدور کا انٹرویو لیا اور ’ بیڑی مزدوروں کے لیے ہر دن مشکلوں سے بھرا ہوتا ہے ‘ جیسی رپورٹ لکھی۔ اشوکا یونیورسٹی میں پڑھنے والی کوہو کا کہنا ہے کہ ’’اصلی صحافت سے یہ میرا پہلا تعارف تھا…رپورٹ کو درج کرنے کے عمل میں، میں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہر اسٹوری کو درج کرنے میں لگنے والی محنت کو جان پائی ہوں۔‘‘ کوہو کی اسٹوری جسمانی طور پر مشکل اور استحصال والے پیشوں میں مزدوروں کے طور پر زیادہ تر عورتوں کے کام کرنے کی حقیقت کو بیان کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ان کے پاس معاش کے دیگر متبادل نہیں ہیں۔
اس سال ہماری سب سے کم عمر رپورٹر اور ۱۰ویں جماعت کی طالبہ ہنی منجو ناتھ نے مقامی ڈاکیہ پر ایک اسٹوری لکھی: دیورائے پٹنہ کا اکلوتا ڈاکیہ ۔ انہوں نے اسٹوری میں نوکری سے جڑی پرانی یادوں کے ساتھ ساتھ، ڈاک ملازمین کے کام میں آنے والی دشواریوں کو متوازن طریقے سے پیش کیا، جنہیں برسات کے موسم سے لے کر تپتی دھوپ میں متعینہ مدت کار سے زیادہ وقت تک کام کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ پنشن پانے کے حقدار نہیں ہیں۔
پاری کے ساتھ انٹرن شپ کرنے کے لیے [email protected] پر لکھیں۔
اگر آپ کو ہمارا کام پسند ہے، اور آپ پاری کی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم ہم سے [email protected] پر رابطہ کریں۔ ہمارے ساتھ کام کرنے کی خواہش رکھنے والے فری لانس اور آزاد قلم کاروں، نامہ نگاروں، فوٹوگرافروں، فلم سازوں، ترجمہ نگاروں، ایڈیٹروں، خاکہ نگاروں اور محققین کا خیر مقدم ہے۔
پاری ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے اور ہم ان لوگوں کی مالی مدد پر منحصر ہیں جو ہماری کثیر لسانی آن لائن ویب سائٹ اور آرکائیو کو پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ پاری کی مالی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم یہاں کلک کریں۔
مترجم: محمد قمر تبریز