مارچ کی گرم دوپہر کا وقت ہے اور اوراپانی گاؤں کے بزرگ ایک چھوٹے سے سفید کلیسا (چرچ) کے اندر اکٹھا ہوئے ہیں۔ لیکن وہ کسی اخلاقی دباؤ کے سبب یہاں نہیں آئے ہیں۔
فرش پر گول دائرہ بنا کر بیٹھے اس گروپ کے لوگوں میں ایک بات مشترک ہے – وہ ہائی یا لو بلڈ پریشر (بی پی) کے عارضہ میں طویل عرصے سے مبتلا ہیں۔ اس لیے، وہ بلڈ پریشر کی جانچ کرانے کے لیے مہینہ میں ایک بار جمع ہوتے ہیں اور دواؤں کے لیے انتظار کرتے وقت الگ الگ مسائل پر گفتگو کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
روپی بائی کے نام سے مشہور روپی کہتی ہیں، ’’مجھے میٹنگوں میں آنا پسند ہے، کیوں کہ یہاں مجھے اپنے غموں کو بانٹنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘ تقریباً ۵۳ سالہ روپی گزشتہ پانچ سالوں سے یہاں آ رہی ہیں۔ وہ بیگا آدیواسی ہیں اور گزر بسر کے لیے کھیتی کرتی ہیں اور اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے جنگل سے ایندھن کی لکڑی اور مہوا جیسی جنگلاتی پیداوار پر منحصر ہیں۔ بیگا آدیواسیوں کو خصوصی طور پر کمزور قبائلی جماعت (پی وی ٹی جی) کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اوراپانی (جسے اُراپانی بھی لکھا جاتا ہے) گاؤں کے زیادہ تر لوگ بیگا برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
بلاس پور ضلع کے کوٹا بلاک کا یہ گاؤں چھتیس گڑھ کے اچنکمار-امرکنٹک بائیو اسفیئر ریزرو (اے اے بی آر) کے قریب واقع ہے۔ کیسے ہائی بلڈ پریشر نے ان کی زندگی کو متاثر کیا ہے، یہ بتاتے ہوئے پُھلسوری لکڑا کہتی ہیں، ’’میں بانس جمع کرنے کے لیے جنگل جاتی تھی، تاکہ جھاڑو بنا کر فروخت کر سکوں۔ لیکن اب میں زیادہ پیدل نہیں چل پاتی، اس لیے گھر پر ہی رہتی ہوں۔‘‘ ان کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور وہ اب گھر پر رہ کر اپنی بکریوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور گائے کا گوبر جمع کرتی ہیں۔ زیادہ تر بیگا آدیواسی اپنے معاش کے لیے جنگلوں پر منحصر ہیں۔
قومی خاندانی صحت سروے۔۵ (این ایف ایچ ایس۔۵)، ۲۰۲۱-۲۰۱۹ کے مطابق، چھتیس گڑھ کی ۱۴ فیصد دیہی آبادی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے، ’’کسی آدمی کو ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تب مانا جاتا ہے، جب اس آدمی کا سسٹولِک بلڈ پریشر لیول ۱۴۰ ایم ایم ایچ جی سے زیادہ یا اس کے برابر ہو یا ڈایوسٹولک بلڈ پریشر لیول ۹۰ ایم ایم ایچ جی سے زیادہ یا اس کے برابر ہو۔‘‘
قومی صحت مشن کے مطابق، غیر متعدی امراض میں اضافہ کو روکنے کے لیے ہائی بلڈ پریشر (بی پی) کے مسئلہ کا پتہ لگانا اہم ہوتاہے۔ بی پی کم کرنے کے لیے طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی معلومات گروپ کے ذریعہ دی جاتی ہے۔ ’’میں میٹنگ میں آتی ہوں تو الگ الگ چیزیں سیکھنے کے لیے ملتی ہیں، جیسے یوگا، جو میرے جسم کو مضبوط رکھتا ہے،‘‘ پھلسوری کہتی ہیں۔
وہ سینئر صحت کارکن سورج بیگا (۳۱) کے ذریعہ فراہم کی جانے والی معلومات کا ذکر کر رہی ہیں، جو ’جن سواستھیہ سہیوگ‘ (جے ایس ایس) سے جڑے ہوئے ہیں۔ جے ایس ایس طب کے شعبہ کا ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، جو تقریباً تین دہائیوں سے اس علاقے میں کام کر رہا ہے۔ سورج اس گروپ کے لوگوں کو زیادہ یا کم بی پی کے اثرات کے بارے میں سمجھاتے ہیں، اور بلڈ پریشر کو دماغ میں موجود بٹن سے جوڑتے ہیں: ’’اگر ہم نہیں چاہتے کہ بی پی ہمارے دماغ کے بٹن کو کمزور کر دے، تو ہمیں باقاعدگی سے دوائیں لینی ہوں گی، ورزش کرنی ہوگی۔‘‘
منوہر اوراؤں، جنہیں پیار سے منوہر کاکا کے نام سے جانا جاتا ہے، ۸۷ سال کے ہیں اور ۱۰ سال سے اس سپورٹ گروپ کی میٹنگوں میں آ رہے ہیں۔ ’’میرا بی پی اب کنٹرول میں ہے، لیکن مجھے اپنے غصہ پر قابو پانے میں کافی وقت لگا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں نے تناؤ نہیں لینا سیکھ لیا ہے!‘‘
جے ایس ایس نہ صرف ہائی بلڈ پریشر، بلکہ دیگر پرانی بیماریوں کے لیے بھی سپورٹ گروپس چلاتا ہے – اور ۵۰ گاؤوں میں ۸۴ ایسے گروپس چلائے جاتے ہیں، جن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ باروزگار نوجوان بھی ان میں آتے ہیں، لیکن بزرگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
جے ایس ایس کے ذریعہ تعینات پروگرام کوآرڈی نیٹر مینل مدانکر کہتی ہیں، ’’بزرگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، کیوں کہ وہ دنیا کی نظروں میں کسی کام کے نہیں رہ جاتے۔ اس سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثر پڑتا ہے، وہ اکیلے پڑ جاتے ہیں اور کئی معاملوں میں، زندگی کے آخری دنوں میں ان کی عزت کی دھجیاں اڑ چکی ہوتی ہیں۔‘‘
بنیادی طور پر اسی عمر کے لوگ صحت سے متعلق دیکھ بھال اور مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی، کھانے پینے سے متعلق صلاح بھی لینا چاہتے ہیں۔ روپا کہتی ہیں، ’’ہمیں ایسی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں جو اپنا خیال رکھنے میں مدد کرتی ہیں، جیسے کہ چاول کھانے کے مقابلے باجرا کھانا کس طرح بہتر ہے۔ باقی، مجھے اپنی دوائیں بھی یہیں ملتی ہیں۔‘‘
میٹنگ کے بعد شرکاء کو کودو کی بنی کھیر کھلائی جاتی ہے۔ جے ایس ایس ملازمین کو امید رہتی ہے کہ باجرے کا ذائقہ انہیں تبدیلی کے لیے تیار کرے گا، اور اگلے مہینہ انہیں واپس آنے کے لیے بھی آمادہ کرے گا۔ بلاس پور اور مُنگیلی ضلعوں میں جے ایس ایس جن دیہی برادریوں کا احاطہ کرتا ہے ان میں سے زیادہ تر دُبلے لوگوں میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس کے اسباب میں کھانے پینے کی عادتوں میں آئی تبدیلی تو ہے ہی، ساتھ ہی عوامی نظام تقسیم (پی ڈی ایس) کے ذریعہ دیے جانے والے راشن میں سفید چاول جیسے ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹ کو شامل کرنا بھی ہے۔
مینل کہتی ہیں، ’’زراعت اور غذا سے وابستہ روایات میں کافی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ یہاں کی برادریاں باجرے کی مختلف اقسام کو اُگاتی اور کھاتی تھیں، جو کہیں زیادہ مقوی اور صحت بخش ہوا کرتی ہیں۔ لیکن اب صرف پالش کیے گئے سفید چاول ہی ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور کھانے پینے میں استعمال ہو رہے ہیں۔‘‘ گروپ کے کئی شرکاء نے بتایا کہ وہ چاول اور گیہوں زیادہ کھانے لگے، اور باجرے کی کھپت تقریباً نہ کے برابر رہی۔
کھیتی کے رائج طریقوں میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے الگ الگ قسم کی دال اور تلہن کی کھیتی ہوتی تھی، جس سے کھانے میں ضروری مقدار میں پروٹین اور وٹامن مل جاتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سرسوں، مونگ پھلی، السی اور تل جیسے مقوی تیلوں والے متعدد بیج بھی ان کی غذا سے تقریباً غائب ہو چکے ہیں۔
تمام بات چیت اور بلڈ پریشر کی جانچ کے بعد، میٹنگ مزیدار رخ اختیار کر لیتی ہے – اسٹریچنگ اور یوگا کرتے ہوئے تمام لوگوں کی کراہیں اور بڑبڑاہٹ سنائی دیتی ہے، اور پھر قہقہہ بھی پھوٹ پڑتا ہے۔
’’جب ہم کسی مشین کو تیل پلاتے ہیں، تو وہ لمبے عرصے تک چلتی ہے۔ ایسے ہی ہمارے پٹھوں کو بھی تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ موٹرسائیکل کی طرح، ہمیں بھی اپنے انجن میں تیل ڈالتے رہنا چاہیے،‘‘ سورج کہتے ہیں، جسے سن کر گروپ کے لوگ اور بھی زور سے ہنسنے لگتے ہیں، جو میٹنگ کے اختتام پر اب اپنے گھروں کا رخ کرنے لگے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز