سنگھ اُس ٹریول ایجنٹ کے بارے میں سوچ کر آج بھی کانپ اٹھتے ہیں، جو پنجاب میں ان کے ہی پنڈ (گاؤں) سے ہے۔

اُس ایجنٹ کے پیسے ادا کرنے کے لیے سنگھ (تبدیل شدہ نام) نے اپنی فیملی کی ایک ایکڑ زمین فروخت کر دی۔ بدلے میں ایجنٹ جتندر نے ’’ایک نمبر [قانونی]‘‘ طریقہ کار کا وعدہ کیا، جس کی مدد سے وہ سربیا کے راستے، بغیر کسی مشکل کے بحفاظت پرتگال پہنچنے والے تھے۔

بہت جلد سنگھ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ جتندر نے ان کے ساتھ دھوکہ دہی کی ہے اور انہیں بین الاقوامی سرحدوں کے پار غیر قانونی طریقے سے بھیجا تھا۔ صدمہ کے سبب سنگھ کے لیے گاؤں میں رہنے والے اپنے اہل خانہ کو سچ بتا پانا مشکل تھا کہ انہیں ٹھگ لیا گیا ہے۔

اپنے اس خطرناک سفر میں انہوں نے گھنے جنگل اور گندے ندی نالے پارے کیے، یوروپ کے مشکل پہاڑوں کی چڑھائی کی۔ انہوں نے اور ان کے مہاجر ساتھیوں نے برساتی گڑھوں کا پانی پی کر اپنی جان بچائی۔ ان کے پاس کھانے کے نام پر بس بریڈ کے کچھ ٹکڑے تھے جو انہیں بالکل پسند نہیں تھا۔

’’میرے فادر ساب ہارٹ پیشنٹ ہا۔ اِنّا ٹنشن او لے نی سکدے۔ نالے، گھر میں جا نہیں سکدا کیوں کے میں سارا کچھ داؤ تے لاکے آیا سی۔ [میرے والد دل کے مریض ہیں؛ وہ اتنا ٹنشن برداشت نہیں کر سکتے۔ میں گھر نہیں لوٹ سکتا، کیوں کہ یہاں آنے کے لیے میں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے]۔‘‘ ۲۵ سال کے سنگھ بتاتے ہیں۔ وہ پنجابی میں بولتے ہیں اور پرتگال میں دو کمرے کی ایک جگہ میں رہتے ہیں جہاں ان کے ساتھ پانچ دیگر لوگ بھی رہتے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں پرتگال جنوبی ایشیائی ممالک، مثلاً ہندوستان، نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان اور شری لنکا سے کام کی تلاش میں آئے لوگوں کے لیے سب سے پسندیدہ منزل کے طور پر ابھرا ہے۔

Singh sold his family’s one-acre of farm land to buy 'legal papers' that would ensure his safe passage to Portugal via Serbia
PHOTO • Karan Dhiman

سنگھ نے ’قانونی کاغذات‘ خریدنے کے لیے اپنی فیملی کا ایک ایکڑ کھیت بیچ دیا، تاکہ وہ سربیا کے راستے بحفاظت پرتگال پہنچ سکیں

سنگھ کبھی فوج میں بھرتی ہونا چاہتے تھے، لیکن کئی ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ کر لیا اور آسان مائیگریشن کی پالیسیوں کے سبب پرتگال کا انتخاب کیا۔ ان کے گاؤں کے دوسرے لوگوں کی کہانیوں نے انہیں آمادہ کیا تھا، جن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ یوروپ کے اس ملک میں جا کر آباد ہونے میں کامیاب رہے تھے۔ اور پھر ایک دن کسی نے انہیں جتندر کے بارے میں بتایا، جو اسی گاؤں کے رہائشی تھے۔ جتندر نے ان کی مدد کرنے کا بھروسہ دلایا۔

’’جتندر نے مجھے بتایا۔ ’میں ۱۲ لاکھ روپے [تقریباً ۱۳ ہزار یورو] لوں گا اور قانونی طور پر تمہیں پرتگال بھیج دوں گا۔‘ میں پوری رقم ادا کرنے کے لیے راضی ہو گیا اور اس سے اپیل کی کہ ہمیں قانونی طور پر یہ کام کرنا چاہیے،‘‘ سنگھ بتاتے ہیں۔

لیکن جب ادائیگی کرنے کا وقت آیا، تو ایجنٹ نے بینک کے ذریعہ نہیں، بلکہ ان سے ’’دوسرا راستہ‘‘ استعمال کرنے کو کہا۔ جب سنگھ نے اس کی مخالفت کی، تو جتندر نے ان پر دباؤ ڈالا کہ سنگھ وہی کریں جو ان سے کہا جاتا ہے۔ کسی بھی حالت میں ملک سے باہر جانے کے لیے بیچین سنگھ نے مجبور ہو کر ادائیگی کی پہلی قسط کے طور پر چار لاکھ روپے (۴۳۸۳ یورو) پنجاب میں جالندھر کے ایک پٹرول پمپ پر اس کے حوالے کر دیے، اور بعد میں ایک لاکھ روپے (۰۹۵ء۱ یورو) ایک دکان پر ادا کر دیے۔

سنگھ اکتوبر ۲۰۲۱ میں دہلی کے لیے روانہ ہوئے، جہاں سے انہیں بیلگریڈ اور اس کے بعد پرتگال کی پرواز کرنی تھی۔ یہ ان کا پہلا ہوائی سفر تھا، لیکن ایئرلائن نے انہیں بورڈنگ کے لیے منع کر دیا، کیوں کہ کووڈ۔۱۹ کی پابندیوں کے سبب ہندوستان سے سربیا جانے والی پرواز اُس وقت ردّ تھی۔ ان کے ایجنٹ نے یہ بات ان سے چھپائی تھی۔ انہیں دبئی کے ذریعہ دوبارہ ٹکٹ بُک کرانا پڑا، جہاں سے وہ بیلگریڈ کے لیے روانہ ہوئے۔

’’بیلگریڈ میں ہمیں لینے آنے والے ایجنٹ نے ہمارا پاسپورٹ یہ کہتے ہوئے اپنے پاس رکھ لیا کہ سربیا کی پولیس اچھی نہیں ہے، اور وہ ہندوستانیوں کو پسند نہیں کرتی ہے۔ ہم کافی ڈرے ہوئے تھے،‘‘ سنگھ کہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا پاسپورٹ ایجنٹ کو دے دیا۔

سنگھ مہاجرت کے لیے غیر قانونی طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے عموماً ’’دو نمبر‘‘ لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ سربیا کی راجدھانی بیلگریڈ سے یونان کے تھیوا تک ان کا سفر ایسا ہی تھا۔ ان کے ساتھ سفر کرنے والے ڈونکر (انسانی اسمگلر) نے سنگھ کو بھروسہ دلایا کہ وہ یونان کے راستے پرتگال پہنچ جائیں گے۔

تھیوا پہنچنے کے بعد ایجنٹ اپنی بات سے پھر گیا اور اس نے کہا کہ وہ انہیں وعدے کے مطابق پرتگال نہیں پہنچا پائے گا۔

’’جتندر نے مجھ سے کہا، ’میں نے تم سے سات لاکھ روپے لیے تھے۔ میرا کام پورا ہو گیا ہے۔ اب تمہیں یونان سے آگے لے جانے کی ذمہ داری میری نہیں ہے،‘‘ سنگھ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ درد سے ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔

Many young men and women are promised safe passage by agents who pass them on to donkers (human smugglers)
PHOTO • Pari Saikia

بہت سے نوجوان مرد اور عورتوں کو، جن سے بحفاظت دوسرے ملک بھیجنے کا وعدہ کیا جاتا ہے، بعد میں ڈونکر (انسانی اسمگلروں) کے حوالے کر دیا جاتا ہے

یونان پہنچنے کے دو مہینے بعد، مارچ ۲۰۲۲ میں سنگھ نے سربیائی دلال کے ذریعہ اپنا پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پیاز کے کھیت میں ان کے ساتھ کام کرنے والے مزدوروں نے انہیں یونان چھوڑ دینے کی صلاح دی، کیوں کہ وہاں ان کا کوئی مستقبل نہیں تھا اور پکڑے جانے کی صورت میں ان کو ملک سے نکال دیا جاتا۔

لہٰذا پنجاب کے اس نوجوان نے ایک بار پھر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کا جوکھم اٹھایا۔ ’’میں نے ذہنی طور پر یونان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے ایک آخری بار اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنا پڑے گا۔‘‘

انہوں نے یونان میں ایک نئے ایجنٹ کو ڈھونڈ نکالا، جس نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ۸۰۰ یورو لے کر انہیں سربیا پہنچا دے گا۔ یہ پیسے انہوں نے تین مہینے تک پیاز کے کھیتوں میں کام کر کے بچائے تھے۔

اس بار روانہ ہونے سے پہلے سنگھ نے اپنی سطح پر تھوڑی بہت پڑتال کر لی تھی اور انہوں نے یونان سے سربیا کا ایک ایسا راستہ منتخب کیا جہاں سے وہ ہنگری ہوتے ہوئے پہلے آسٹریا اور پھر پرتگال پہنچ سکیں۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک مشکل راستہ ہے، کیوں کہ یونان سے سربیا جانے کے ’’راستے میں پکڑے جانے کی صورت میں آپ کو صرف انڈرویئر میں ترکی بھیج دیا جاتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

*****

تقریباً چھ دن اور چھ رات لگاتار پیدل چلنے کے بعد جون ۲۰۲۲ میں سنگھ دوبارہ سربیا کی راجدھانی بیلگریڈ پہنچ گئے۔ وہاں انہیں پناہ گزینوں کی کچھ بستیاں مل گئیں۔ ان بستیوں میں ککنڈا کیمپ سربیا-رومانیہ کی سرحد کے قریب اور سوباٹیکا کیمپ سربیا-ہنگری کی سرحد کے پاس تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ کیمپ انسانی اسمگلنگ کے نقطہ نظر سے جنت تھے اور بچولیے یہاں غیر قانونی دراندازی میں مدد کر کے لوگوں سے موٹی رقم کما رہے تھے۔

’’ککنڈا کیمپ میں ہر دوسرا آدمی انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہے۔ وہ آپ سے کہیں گے، ’میں آپ کو فلاں جگہ پہنچا دوں گا، بس آپ کو اتنے پیسے ادا کرنے ہوں گے’،‘‘ سنگھ بتاتے ہیں۔ وہیں انہیں بھی ایک بچولیا مل گیا جو انہیں آسٹریا پہنچانے کے لیے تیار تھا۔

ککنڈا کیمپ میں ڈونکر نے، جو ایک ہندوستانی ہی تھا، نے مجھ سے ’’گارنٹی‘‘ جالندھر میں ہی ’’رکھنے‘‘ کے لیے کہا۔ اس بارے میں انکشاف کرتے ہوئے سنگھ نے بتایا کہ ’’گارنٹی‘‘ مہاجر شخص کے ذریعہ ڈونکر کو دی جانے والی وہ نقدی ہے جو بچولیے کے پاس رہتی ہے اور آدمی کے اپنے صحیح ٹھکانے تک پہنچنے کے بعد ہی ادا کی جاتی ہے۔

Singh was willing to share his story as he wants the youth of Punjab to know the dangers of illegal migration
PHOTO • Karan Dhiman

سنگھ دنیا کو یہ کہانی اس لیے بتانا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ پنجاب کے نوجوانوں کو غیر قانونی مہاجرت کے خطروں کے تئیں آگاہ کرنا چاہتے تھے

سنگھ نے اپنے ایک رشتہ دار کے توسط سے ۳ لاکھ روپے (۳۳۰۲ یورو) کی ’گارنٹی‘ کا انتظام کیا اور ڈونگر کے بتائے راستے کے مطابق ہنگری کی سرحد کی طرف چل پڑے۔ وہاں افغانستان کے کچھ دوسرے ڈونکر انہیں لینے آئے۔ آدھی رات کے وقت انہوں نے ۱۲ فٹ اونچی دو کانٹے دار باڑیں پار کیں۔ ان کے ساتھ آئے ڈونکر میں سے ایک نے ان کے ساتھ باڑیں پار کیں اور جنگل کے راستے چار گھنٹے کا سفر مکمل کیا، لیکن اس کے بعد دونوں پولیس کے ذریعے پکڑ لیے گئے۔

’’انہوں نے [ہنگری کی پولیس] نے ہمیں گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا اور ہم سے ہماری قومیت پوچھنے لگے۔ انہوں نے ڈونکر کی جم کر پٹائی کی اور اس کے بعد ہمیں دوبارہ سربیا بھیج دیا گیا،‘‘ سنگھ بتاتے ہیں۔

اس بار ڈونکر نے سنگھ کو سوباٹیکا کیمپ بھیج دیا، جہاں ایک نیا ڈونکر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اگلے دن تقریباً دوپہر کے ۲ بجے وہ دوبارہ ہنگری کی سرحد پر لوٹ آئے، جہاں ۲۲ دیگر لوگ پہلے سے سرحد پار کرنے کا انتظار کر رہے تھے، لیکن آخرکار کل سات لوگ ہی اس میں کامیاب ہوئے سنگھ ان میں سے ایک تھے۔

اس کے بعد، وہ ڈونکر کے ساتھ گھنے جنگل میں تین گھنٹے لگاتار چلتے رہے۔ ’’صبح تقریباً ۵ بجے ہم ایک خشک گڑھے کے پاس پہنچے۔ ڈونکر نے ہمیں ایک طرح سے حکم دیا کہ ہم گڑھے میں لیٹ جائیں اور خود کو سوکھے جنگلی پتوں سے ڈھانپ لیں۔‘‘ چند گھنٹوں کے بعد ہی وہ دوبارہ چل پڑے۔ آخرکار انہیں لینے ایک وین آئی، جس نے انہیں آسٹریا کی سرحد کے پار اُتار دیا۔ ان سے کہا گیا، ’’ہوا کی چکیوں کی طرف بڑھتے جاؤ، تم آسٹریا پہنچ جاؤگے۔‘‘

وہ ٹھیک ٹھیک نہیں جانتے تھے کہ وہ کہاں ہیں۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کھانا اور پینے کے لیے پانی بھی نہیں تھا۔ سنگھ اور دیگر مہاجر رات بھر چلتے رہے۔ اگلی صبح ان کی نظر ایک آسٹریائی فوجی چوکی پر پڑی۔ جیسے ہی سنگھ نے آسٹریائی فوجی کو دیکھا، وہ ان کی طرف سرنڈر [خود سپردگی] کرنے کے لیے دوڑ پڑے، کیوں کہ ’’یہ ملک پناہ گزینوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ڈونکر بھی یہی بتاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’انہوں نے ہمارا کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ کرایا اور ہمیں ایک آسٹریائی پناہ گزیں کیمپ میں لے گئے۔ وہاں انہوں نے ہمارا بیان اور فنگر پرنٹ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارا رفیوجی کارڈ بنا دیا جو چھ مہینے تک کے لیے تھا،‘‘ سنگھ مزید بتاتے ہیں۔

چھ مہینے تک پنجاب سے گئے اس مہاجر نے اخبار بیچنے کا کام کیا اور اپنی آمدنی سے ۱۰۰۰ یورو بچانے میں کامیاب رہے۔ جیسے ہی ان کے چھ مہینے ختم ہوئے، کیمپ آفیسر نے انہیں چلے جانے کے لیے کہا۔

Once in Portugal, Singh makes sure to call his mother in Punjab and reply to her messages and forwards
PHOTO • Karan Dhiman

سنگھ پرتگال پہنچنے کے بعد سے اپنی ماں کو فون کرنا اور ان کے سبھی میسجز کا جواب دینے سے نہیں چوکتے

’’اس کے بعد، میں نے اسپین میں وینیشیا کی ایک سیدھی فلائٹ بُک کی، کیوں کہ یوروپی یونین کے ممالک میں فلائٹوں کی جانچ نہیں کے برابر ہوتی ہے۔ وہاں سے میں ٹرین سے بارسیلونا پہنچا، جہاں میں نے اپنے ایک دوست کے پاس رات گزاری۔ میرے دوست نے میرے لیے پرتگال جانے کی بس کا ٹکٹ بُک کرا دیا، کیوں کہ میرے پاس نہ تو کوئی کاغذات تھے اور نہ ہی میرا پاسپورٹ تھا۔‘‘

*****

آخرکار، ۱۵ فروری ۲۰۲۳ کو سنگھ بس سے اپنے خوابوں کے ملک – پرتگال پہنچ گئے۔ لیکن اس چھوٹے سے سفر کو طے کرنے میں انہیں ۵۰۰ سے بھی زیادہ دن لگے۔

پرتگال میں ہندوستانی ہائی کمیشن اس سچائی کو مانتا ہے کہ بہت سے مہاجرین کے پاس ’’قانونی رہائشی دستاویز نہیں ہیں۔ اس کے آفیشل اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔‘‘ ہائی کمیشن کے ذرائع اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں آسان مائگریشن ضابطوں کا فائدہ اٹھا کر پرتگال آنے والے ہندوستانیوں (خاص کر ہریانہ اور پنجاب سے) کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔

’’یہاں ڈاکیومنٹ بن جاتے ہیں، آدمی پکّا ہو جاتا ہے، پھر اپنی فیملی بلا سکتا ہے،‘‘ سنگھ کہتے ہیں۔

فارین اینڈ بارڈرز سروسز (ایس ای ایف) کے ایک اعدادوشمار کے مطابق، سال ۲۰۲۲ میں تقریباً ۳۵ ہزار ہندوستانیوں کو پرتگال کے مستقل رہائشی کے طور پر منظوری دی گئی۔ اس سال تقریباً ۲۲۹ ہندوستانیوں نے وہاں پناہ مانگی۔

سنگھ جیسے افسردہ نوجوان ہندوستان اس لیے چھوڑنا چاہتے ہیں کہ اپنے ملک میں انہیں کوئی مستقبل نہیں دکھائی دیتا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ محنت (ڈبلیو او) کے ذریعہ شائع ہندوستان روزگار رپورٹ ۲۰۲۴ کے مطابق، ’’ایک مناسب اعلی اضافہ کے باوجود اس تناسب میں روزگار کے مواقع میں مثبت توسیع نہیں ہوئی ہے۔‘‘

کھانا پانی کے بغیر رات بھر چلتے رہے۔ اگلی صبح ان کی نظر آسٹریائی فوج کی ایک چوکی پر پڑی… اور وہ ان کی طرف سرنڈر کرنے کے لیے دوڑے، کیوں کہ ’اس ملک میں پناہ گزینوں کا خیرمقدم کیا جاتا ہے‘

غیر قانونی مائگریشن کے موضوع پر گفتگو کرتے سنگھ

پرتگال ایک ایسا یوروپی ملک ہے جہاں شہریت کی مدت سب سے کم ہے۔ قانونی طریقے سے پانچ سال رہ کر یہاں ملک کی شہریت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر بھاسوتی سرکار کے مطابق، ہندوستان کے دیہی لوگ، جو خاص طور پر زرعی اور تعمیراتی شعبوں میں کام کرتے ہیں، وہاں جانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ان کے مطابق ان مہاجرین میں زیادہ تر پنجاب کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ پروفیسر سرکار جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے یوروپی اسٹڈی سنٹر میں جین مانیٹ چیئر ہیں۔ ’’اچھی طرح سے آباد گوا اور گجراتی برادری کے لوگوں کے علاوہ، تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں بہت سے پنجابی بطور کم ہنرمند مزدور کے کام کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

پرتگال میں رہائشی پرمٹ، جسے ٹیمپوریری ریزیڈنس کارڈ (ٹی آر سی) بھی کہتے ہیں، کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ آپ کو کسی ویزا کے بغیر ہی یوروپی یونین کے ۱۰۰ ممالک میں آنے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ بہرحال، اب حالات بدل رہے ہیں۔ پچھلے سال ۳ جون، ۲۰۲۳ کو پرتگال کے سنٹر رائٹ ڈیموکریٹک الائنس (اے ڈی) کے لوئس مونٹے نیگرو نے کسی دستاویز کے بغیر آئے مہاجرین کے لیے مائگریشن سے متعلق ضابطوں کو سخت کرنے کا فیصلہ لیا۔

اس نئے قانون کے مطابق، پرتگال میں رہائش اختیار کرنے کے خواہش مند کسی بھی غیر ملکی شہری کو یہاں آنے سے پہلے کام کے پرمٹ کے لیے درخواست دینی ہوگی۔ ہندوستانی، خاص طور پر پنجاب اور ہریانہ کے سے آئے مہاجرین پر اس کا برا اثر پڑنے کا امکان ہے۔

دیگر یوروپی ممالک بھی مائگریشن پر اپنی پالیسیوں کو سخت بنا رہے ہیں۔ لیکن پروفیسر سرکار کہتی ہیں کہ اس طرح کے قوانین سے اونچے خواب دیکھنے والے مہاجرین کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ ’’ضروری ہے کہ ایسے نوجوانوں کے لیے ان کے ہی ممالک میں نئے مواقع پیدا کیے جائیں اور انہیں اپنے ہی ملک میں تحفظ اور سہولیات فراہم کی جائیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

پرتگال کے اے آئی ایم اے (ایجنسی فار انٹیگریشن، مائگریشن اینڈ اسائیلم) میں تقریباً ۴۱۰۰۰۰ معاملے زیر التوا ہیں۔ مائگریشن سے متعلق کاغذات اور ویزا کو اگلے ایک سال – جون، ۲۰۲۵ تک نمٹارہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ ایسا مہاجر برادری کی طویل مدتی گزارش کے بعد کیا گیا ہے۔

سال ۲۰۲۱ میں ہندوستان اور پرتگال نے ’ہندوستانی مزدوروں کو قانونی طریقوں سے بھیجنے اور بلانے کے سلسلے میں‘ ایک باقاعدہ رضامندی پر دستخط کیے۔ حکومت ہند نے اٹلی، جرمنی، آسٹریا، فرانس، فن لینڈ جیسے کئی یوروپی ممالک کے ساتھ مہاجرت اور آمد و رفت سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے ہیں، لیکن جس سطح پر یہ لوگ فیصلے لے رہے ہیں وہاں معلوماتی اطلاعات کی بیحد کمی ہے۔

ان صحافیوں نے اس سلسلے میں ہندوستانی اور پرتگالی حکومتوں سے تبصرہ کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن متعدد کوششوں کے بعد بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

Young people like Singh are desperate to migrate because they are unable to find jobs in India
PHOTO • Pari Saikia

سنگھ جیسے نوجوان اس لیے اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، کیوں کہ ان کے لیے ہندوستان میں کوئی نوکری دستیاب نہیں ہے

*****

جب سنگھ اپنے ’خوابوں‘ کے ملک میں آنے میں کامیاب ہوئے، تو جس پہلی بات پر انہوں نے غور کیا وہ یہ تھی کہ پرتگال میں بھی کام کے مواقع کی کمی ہے، جس کی وجہ سے تارکین وطن کو ریزیڈنس پرمٹ (رہنے کی اجازت) ملنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ جب وہ یوروپ کے اس ملک میں نقل مکانی کی بات سوچ رہے تھے، تو انہیں اس کا اندازہ بھی نہیں تھا۔

انہوں نے پاری سے کہا، ’’جب میں نے پرتگال میں قدم رکھا، تو میں کافی خوش تھا۔ بعد میں، میں نے محسوس کیا کہ یہاں کام کے مواقع کی کمی ہے اور چونکہ وہاں پہلے سے بہت سارے ایشائی نژاد لوگ تھے، اس لیے کوئی بھی کام ملنا بہت آسان نہیں تھا۔ یہاں مواقع نہیں کے برابر ہیں۔‘‘

سنگھ مقامی مائگریشن مخالف جذبات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ’’مقامی لوگ پناہ گزینوں کو پسند نہیں کرتے ہیں، جب کہ ہم تعمیراتی مقامات اور کھیتوں میں کڑی محنت کرتے ہیں۔‘‘ حکومت کے الفاظ میں، ’’ہندوستانی سب سے مشکل کاموں میں لگے ہوتے ہیں، جن کاموں کو مقامی لوگ نہیں کرنا چاہتے اور جو جوکھم بھرے اور غیر انسانی ہوتے ہیں۔‘‘ اپنی مشکوک قانونی حالت کے سبب وہ متعینہ قانونی تنخواہ سے بھی کم پر کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

ایسے ہی کاموں کی تلاش کرتے ہوئے سنگھ دوسری باتوں پر بھی غور کرتے رہتے ہیں۔ ایک اسٹیل فیکٹری کی تمام شاخوں میں بورڈ پر جو ہدایات لکھی ہوتی ہیں، وہ پرتگالی کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں بھی ہوتی ہیں۔ ’’یہاں تک کہ کانٹریکٹ لیٹر بھی پنجابی ترجمہ کے ساتھ آتے ہیں۔ اس کے باوجود، جب ہم ان کے براہ راست رابطہ میں آتے ہیں، تو ان کا جواب ہوتا ہے، ’یہاں کوئی جگہ خالی نہیں ہے‘،‘‘ سنگھ بتاتے ہیں۔

Despite the anti-immigrant sentiment in Portugal, Singh says he is fortunate to have found a kind and helpful landlord here
PHOTO • Karan Dhiman

پرتگال میں پناہ گزیں مخالف جذبات کے باوجود سنگھ بتاتے ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کا مکان مالک رحم دل اور مددگار ہے

ایسے مہاجر کے طور پر جس کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے، تعمیراتی مقام پر ایک عدد نوکری حاصل کرنے میں انہیں چھ مہینے لگ گئے۔

’’کمپنیاں اپنے ملازمین کو اپوائنٹمنٹ لیٹر دینے سے پہلے ہی ان سے شروع میں ہی استعفیٰ پر دستخط کروا لیتی ہیں۔ حالانکہ، ملازمین کو ماہانہ ۹۲۰ یورو کی کم از کم تنخواہ دی جاتی ہے، لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان سے کب نوکری چھوڑ دینے کے لیے کہہ دیا جائے گا،‘‘ سنگھ کہتے ہیں۔ انہوں نے خود بھی اپنی کمپنی کو دستخط کیا ہوا استعفی نامہ دے رکھا ہے۔ انہوں نے ایک ریزیڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دی ہوئی ہے، اور انہیں امید ہے کہ انہیں جلد ہی قانونی شہریت مل جائے گی۔

’’بس ہُن تا آہی سپنا آ کہ، گھر بن جائے، سسٹر دا ویاہ ہو جائے، تے پھیر اپنے ڈاکیومنٹس بنا کر فیملی نوں وی بُلا لییے [اب میرا یہی خواب ہے کہ پنجاب میں ایک گھر بنا لوں، اپنی بہن کی شادی کر لوں، یہاں کا شہری بن جاؤں، تاکہ اپنی فیملی کو یہاں لا سکوں]،‘‘ سنگھ نے نومبر ۲۰۲۳ کے دوران ہوئی بات چیت میں بتایا۔

سنگھ نے ۲۰۲۴ میں اپنے گھر پیسے بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ ان کی اپنے والدین سے بات چت ہوتی رہتی ہے، جو فی الحال اپنا مکان بنوانے میں مصروف ہیں۔ پرتگال میں کام کرتے ہوئے انہوں نے جو پیسے کمائے ہیں، وہ اس مکان کے بنانے میں کام آ رہے ہیں۔

پرتگال سے رپورٹنگ میں کرن دھیمان نے تعاون کیا ہے۔

ماڈرن سلیوری گرانٹ اَن ولڈ پروگرام کے ماتحت ’جرنلزم فنڈ‘ کی مدد سے، یہ تفتیشی رپورٹنگ ہندوستان اور پرتگال کے درمیان انجام دی گئی۔

مترجم: قمر صدیقی

Pari Saikia

পরি সইকিয়া একজন স্বাধীন সাংবাদিক, দক্ষিণ-পূর্ব এশিয়া ও ইউরোপে মানব পাচার নিয়ে কাজ করছেন। তিনি ২০২৩, ২০২২ ও ২০২১ সালের জার্নালিজমফান্ড ইউরোপ ফেলো।

Other stories by Pari Saikia
Sona Singh

সোনা সিং একজন স্বতন্ত্র ভারতীয় সাংবাদিক ও গবেষক। তিনি ২০২২ ও ২০২১ সালে জার্নালিজম ফান্ড ইউরোপের ফেলো ছিলেন।

Other stories by Sona Singh
Ana Curic

আনা কিউরিক একজন সার্বিয়া-নিবাসী স্বতন্ত্র তদন্তকারী ও তথ্য সাংবাদিক। বর্তমানে তিনি জার্নালিজম ফান্ড ইউরোপের একজন ফেলো।

Other stories by Ana Curic
Photographs : Karan Dhiman

হিমাচল প্রদেশের করণ ধীমান একজন ভিডিও সাংবাদিক ও সামাজিক বিষয়ের দস্তাবেজিকরণের সঙ্গে যুক্ত। তাঁর আগ্রহের বিষয় সামাজিক সমস্যা, পরিবেশ ও কৌমসমাজ।

Other stories by Karan Dhiman
Editor : Priti David

প্রীতি ডেভিড পারি-র কার্যনির্বাহী সম্পাদক। তিনি জঙ্গল, আদিবাসী জীবন, এবং জীবিকাসন্ধান বিষয়ে লেখেন। প্রীতি পারি-র শিক্ষা বিভাগের পুরোভাগে আছেন, এবং নানা স্কুল-কলেজের সঙ্গে যৌথ উদ্যোগে শ্রেণিকক্ষ ও পাঠক্রমে গ্রামীণ জীবন ও সমস্যা তুলে আনার কাজ করেন।

Other stories by Priti David
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

সর্বজয়া ভট্টাচার্য বরিষ্ঠ সহকারী সম্পাদক হিসেবে পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ায় কর্মরত আছেন। দীর্ঘদিন যাবত বাংলা অনুবাদক হিসেবে কাজের অভিজ্ঞতাও আছে তাঁর। কলকাতা নিবাসী সর্ববজয়া শহরের ইতিহাস এবং ভ্রমণ সাহিত্যে সবিশেষ আগ্রহী।

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique