رضائی بُننے کے لیے کپڑا چھانٹتے ہوئے مرجینہ کہتی ہیں، ’’انتخاب کا دن اس علاقے میں تہوار کی طرح ہوتا ہے۔ جو لوگ کام کے لیے دوسری ریاستوں میں گئے ہیں، وہ ووٹ دینے گھر لوٹتے ہیں۔‘‘

وہ روپا کوچی گاؤں میں رہتی ہیں، جو دھوبری لوک سبھا حلقہ انتخاب میں ہے۔ وہاں ۷ مئی، ۲۰۲۴ کو ووٹنگ ہوئی تھی۔

مگر ۴۸ سال کی مرجینہ نے ووٹ نہیں دیا۔ ’’میں اس دن کو نظر انداز کرتی ہوں۔ یہاں تک کہ میں لوگوں سے بچنے کے لیے گھر کے اندر چھپ جاتی ہوں۔‘‘

مرجینہ کو ووٹر لسٹ میں ایک مشکوک ووٹر (ڈی-ووٹر) کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ وہ ووٹروں کے اس زمرہ کے ۹۹۹۴۲ لوگوں میں سے ہیں، جو مبینہ طور پر اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کے لیے بھروسہ مند ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر آسام کے بنگلہ بولنے والے ہندو اور مسلمان ہیں۔

آسام ڈی-ووٹر والی واحد ریاست ہے۔ بنگلہ دیش سے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے لوگوں کا یہاں آنا انتخاب میں ایک بڑا ایشو ہے۔ ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے ۱۹۹۷ میں ڈی-ووٹر سسٹم شروع کیا تھا۔ اسی سال مرجینہ نے پہلی بار ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے اپنا نام دیا تھا۔ مرجینہ کہتی ہیں، ’’تب اسکول ٹیچر ووٹر لسٹ میں لوگوں کے نام شامل کرنے کے لیے گھر جاتے تھے۔ میں نے بھی اپنا نام دیا تھا، مگر جب میں اگلے انتخاب میں ووٹ دینے گئی، تو مجھے ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ انہوں نے کہا میں ڈی-ووٹر ہوں۔‘‘

PHOTO • Mahibul Hoque

مرجینہ خاتون (بائیں) آسام کے روپا کوچی گاؤں میں بُنکروں کے ایک گروپ کا حصہ ہیں اور عام طور پر روایتی رضائی بُنتی ہیں، جنہیں ’کھیتا‘ کہتے ہیں۔ وہ خود کے ڈیزائن کیے گئے تکیہ کے کور کو پکڑے ہوئی ہیں

جب ہم مرجینہ کے گھر کی طرف بڑھتے ہیں، تو وہ بتاتی ہیں کہ ۱۹-۲۰۱۸ میں آسام میں کئی ڈی-ووٹروں کو فارینرز ٹربیونل میں غیر قانونی مہاجرین بتا کر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

تب مرجینہ نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ ان کی شناخت ڈی-ووٹر کے طور پر کیوں کی گئی۔ اپنے کچے گھر کے آنگن میں بیٹھی اپنی دستاویز کھنگالتی مرجینہ بتاتی ہیں، ’’میں نے تین وکیلوں کو کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن سے پہلے ۱۰ ہزار روپے دیے۔ انہوں نے سرکل دفتر [منڈیا میں] اور ٹربیونل [برپیٹا میں] میں دستاویزوں کی جانچ کی، مگر میرے نام کے خلاف کچھ نہیں ملا۔‘‘

مرجینہ ایک کاشتکار ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر حاشم علی نے دو بیگھہ (۶۶ء۰ ایکڑ) بغیر سینچائی والی زمین ۸۰۰۰ روپے فی ایکڑ پٹّہ پر لی ہے۔ اس پر وہ اپنے کھانے لائق دھان اور بینگن، مرچ، کھیرا جیسی سبزیاں اُگا لیتے ہیں۔

اپنے پین اور آدھار کارڈ کو کھنگالتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’کیا میں پریشانی برداشت نہیں کر رہی ہوں اور من مانے ڈھنگ سے مجھے میرے حق رائے دہی سے محروم نہیں کیا جا رہا ہے؟‘‘ ان کے آبائی خاندان کے تمام ممبران کے پاس قانونی ووٹر کارڈ ہیں۔ سال ۱۹۶۵ کی ووٹر لسٹ کی تصدیق شدہ کاپی میں مرجینہ کے والد نسیم الدین کو برپیٹا ضلع کے مریچا گاؤں کا رہائشی دکھایا گیا ہے۔ مرجینہ کہتی ہیں، ’’میرے والدین میں سے کسی کا بھی بنگلہ دیش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

لیکن ووٹ دینے کے اپنے جمہوری حق کا استعمال نہ کر پانے کی فکر سے ہی مرجینہ پریشان نہیں ہیں۔

مرجینہ دھیمی آواز میں کہتی ہیں، ’’مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے ڈٹینشن سنٹر میں ڈال دیں گے۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کے بغیر کیسے رہوں گی، جو تب بہت چھوٹے تھے۔ مجھے مرنے کے خیال آتے تھے۔‘‘

PHOTO • Mahibul Hoque
PHOTO • Kazi Sharowar Hussain

بائیں: مرجینہ اور ان کے شوہر ہاشم علی بٹائی دار کسان ہیں۔ مرجینہ کو ووٹر لسٹ میں ایک مشکوک ووٹر کے طور پر درج کیا گیا ہے، حالانکہ ان کے آبائی گھر کے دوسرے ممبران کے پاس قانونی ووٹر شناختی کارڈ ہیں۔ مگر اپنا قانونی ووٹر شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مرجینہ کو اپنی اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ستاتی ہے۔ دائیں: مرجینہ کو اپنے بُنکر گروپ کے ساتھ سکون ملتا ہے، جو چاؤل کھووا ندی کے کنارے واقع گاؤں میں اینووارا خاتون (دائیں سے پہلے) کے گھر میں جمع ہیں

بُنکر گروپ کا حصہ ہونے اور دوسری عورتوں کے ساتھ ملنے سے مرجینہ کو مدد ملی۔ انہیں پہلی بار اس گروپ کے بارے میں کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران پتہ چلا۔ بُنکر گروپ کا قیام برپیٹا کی تنظیم ’آمرا پاری‘ کے ذریعے عمل میں آیا تھا، جو راحت اشیاء تقسیم کرنے گاؤں آئی تھی۔ مرجینہ کہتی ہیں، ’’ بائی دیئو [میڈم] نے کچھ عورتوں سے کھیتا [رضائی] بُننا شروع کرنے کو کہا۔‘‘ عورتوں کو گھر سے باہر نکلے بغیر اس میں کمائی کی امید دکھائی دی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ کھیتا کیسے بُنتے ہیں، اس لیے میں آسانی سے اس میں شامل ہو پائی۔‘‘

ایک رضائی بُننے میں انہیں تقریباً تین سے پانچ دن لگتے ہیں اور وہ ہر ایک کی فروخت سے تقریباً ۵۰۰-۴۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔

پاری نے روپا کوچی میں اینووارا خاتون کے گھر مرجینہ اور تقریباً ۱۰ عورتوں سے بھی ملاقات کی، جہاں وہ روایتی رضائیاں بُننے جمع ہوئی تھیں، جنہیں مقامی لوگ کھیتا کہتے ہیں۔

گروپ کی دوسری عورتوں اور ان سے ملنے آئے حقوق انسانی کے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مرجینہ کے اندر کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں کھیتوں میں کام کرتی ہوں اور کھیتا بُنتی ہوں یا کچھ کڑھائی کا کام کرتی ہوں۔ دن میں سب کچھ بھول جاتی ہوں، لیکن ابھی بھی مجھے رات میں تناؤ محسوس ہوتا ہے۔‘‘

انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی بھی فکر ہے۔ مرجینہ اور ان کے شوہر ہاشم علی کے چار بچے ہیں، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ دو بڑی بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، مگر چھوٹے بھائی بہن ابھی بھی اسکول میں ہیں۔ اور وہ پہلے سے ہی نوکری نہ ملنے سے پریشان ہیں۔ مرجینہ کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی میرے بچے کہتے ہیں کہ بھلے ہی وہ پڑھ لکھ جائیں، مگر میری شہریت کی دستاویز کے بغیر انہیں [سرکاری] نوکری نہیں مل پائے گی۔‘‘

مرجینہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ووٹ دینا چاہتی ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اس سے میری شہریت ثابت ہو جائے گی اور میرے بچے جو چاہے نوکری کر پائیں گے۔‘‘

مترجم: قمر صدیقی

Mahibul Hoque

মাহিবুল হক একজন আসাম-নিবাসী মাল্টিমিডিয়া সাংবাদিক তথা গবেষক। তিনি ২০২৩ সালের পারি-এমএমএফ ফেলো।

Other stories by Mahibul Hoque
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

সর্বজয়া ভট্টাচার্য বরিষ্ঠ সহকারী সম্পাদক হিসেবে পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ায় কর্মরত আছেন। দীর্ঘদিন যাবত বাংলা অনুবাদক হিসেবে কাজের অভিজ্ঞতাও আছে তাঁর। কলকাতা নিবাসী সর্ববজয়া শহরের ইতিহাস এবং ভ্রমণ সাহিত্যে সবিশেষ আগ্রহী।

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique